اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ (قسط:۴)
حافظ عبیداﷲ
کیا قرآن کریم میں ’’نزولِ عیسیٰ علیہ السلام ‘‘ کا ذکر نہیں؟
منکرینِ حدیث کی طرف سے عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے یہ بات اکثر پیش کی جاتی ہے کہ حدیث کے قبول کرنے کا معیار یہ ہے کہ اس میں بیان کردہ مضمون قرآن کریم میں بیان ہوا ہو، یعنی ان کے خیال میں حدیث الگ سے مستقل حجت نہیں ہے بلکہ اس کو قرآن پر پیش کیا جانا ضروری ہے لہذا ہر وہ حدیث جس میں بیان کردہ مضمون یا بات قرآن کریم میں بیان نہیں ہوئی تو وہ قابل قبول نہیں ہے۔
اگرچہ اس قانون کا غلط اور باطل ہونا ایک بدیہی امر ہے کیونکہ قرآن کریم میں اکثر احکام مجمل بیان ہوئے ہیں اور ان کی تفصیل جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے، مثال کے طور پر قرآن کریم میں ’’اقامۃ الصلوٰۃ‘‘ یعنی نماز قائم کرنے کا حکم تو ہے لیکن رکعات نماز کا کہیں ذکر نہیں، یہ تفصیل ہمیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث میں ہی ملتی ہے، لہٰذا اگر کوئی کہے کہ میں تو اپنی مرضی سے نماز پڑھوں گا، میری مرضی کہ میں کس نماز کی کتنی رکعتیں پڑھوں یا یوں کہے کہ نماز تو صرف دعا کا نام ہے یا رکوع سجدے والی نماز کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں ، میں ان احادیث کو نہیں مانتا جن کے اندر نماز کا طریقہ اور رکعات کی تعداد مذکور ہے کیونکہ اگر یہ اتنی اہم چیز ہوتی تو قرآن ضرور تفصیل کے ساتھ اس کا ذکر کرتا تو اس کا استدلال باطل ہے (یہ استدلال بہت سے منکرین حدیث نے کیا بھی ہے)، اسی طرح اور بھی بہت سے چیزیں ہیں جن کی تفصیل ہمیں صرف احادیث سے حاصل ہوتی ہے، نیز ائمہ حدیث نے بھی ایسا کوئی اصول نہیں بیان کیا، لیکن اسی من گھڑت اصول کو بنیاد بناتے ہوئے جناب تمنا عمادی صاحب نے یہ لکھا ہے کہ اگر نزولِ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھنا ضروری ہوتا تو قرآن کریم میں اس کا ضرور ذکر ہوتا ، ملاحظہ فرمائیں:
’’جو لوگ قرآن مجید کو کامل ومکمل سمجھتے ہیں اور مافرطنا فی الکتاب من شيء پر ایمان رکھتے ہیں ان کو ان تنقیدات کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔ ان کے لئے تو ان ساری حدیثوں کے غلط ہونے کی صرف یہی ایک زبردست دلیل کافی ہے کہ نزولِ عیسیٰ بن مریم کا کوئی ذکر قرآن مبین میں نہیں ہے اس لئے نزولِ مسیح کا عقیدہ ہی باطل ہے اور یہ ساری حدیثیں یقیناً جھوٹی ہیں‘‘۔ (انتظارِ مہدی ومسیح ، صفحہ 309)
تمنا عمادی صاحب کی یہ دلیل بظاہر بڑی دلکش معلوم ہوتی ہے بلاشبہ قرآن کریم میں انسانوں کی ہدایت کے لئے تمام مطلوبہ معلومات موجود ہیں اور یہ بنیادی اصول شرعیہ پر مشتمل ہے، مگر قرآن کریم میں یہ آیت بھی ہے:
﴿واَنزَلنَا اِلَیکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنّاسِ مَا نُزِّل اِلَیہِم ولَعَلَّہُم یَتفَکَّرُون (النحل: 44﴾ ’’اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لئے اتارا ہے کہ آپ لوگوں کے لیے اس چیز کی وضاحت کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں‘‘ اس طرح قرآن نے خود ہی بیان فرمادیا کہ اس کی وضاحت کا واحد ذریعہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، لہٰذا اگر ﴿ما فرطنا فی الکتاب من شیء﴾ کا یہ مطلب لیاجائے کہ قرآن میں تمام اصول وفروع کی تفصیل موجود ہے اور دین کے ہر حکم کی جملہ تفصیلات اور جزئیات قرآن کریم میں بیان ہوچکی ہیں تو اس مفہوم کا غلط ہونا باطل ہے ، ورنہ مثلاً(جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا) قرآن کریم میں تو کھائی جانے والی جو چیزیں حرام دی گئی ہیں ان کے اندر صرف مُردار، بہنے والا خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اﷲ کے نام پر ذبح کیا جانے والے جانور جیسی چند چیزوں کا ذکر ہے ، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ گیدڑ، کُتے،لومڑ، چیل، گدھ، اُلو وغیرہ سب حلال ہیں؟ اور دلیل یہ دی جائے کہ ان کے حرام ہونے کا ذکر قرآن میں نہیں اور وہ احادیث قابل قبول نہیں جن کے اندر کسی ایسی چیز کے حرام ہونے کا ذکر ہو جس کی حرمت کا ذکر قرآن میں نہیں۔ تو یقیناً یہ موقف درست نہیں ، دین اسلام کی جزئیات کی تفصیل کے لیے حدیثِ نبوی اور عملی تعبیر کے لیے اسوہء حسنہ کی ضرورت باقی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گی، اسی لئے تکمیلِ دین کے لیے احادیث کا ہونا ضروری ہے۔
اورحقیقت یہ ہے کہ امت کے بہت سے مفسرین کے نزدیک جن کے اندر جلیل القدر صحابہ کرام ؓ بھی شامل ہیں قرآن کریم میں ’’نزولِ عیسی علیہ السلام‘‘ کا ذکر موجود ہے ، چند حوالے پیش خدمت ہیں :
فرمان الٰہی ہے :
﴿واِن مِن اَہلِ الکِتابِ اِلَّا لَیُؤمِنَنَّ بِہ قَبلَ مَوتِہ وَیَومَ القِیَامَۃِ یَکُونُ عَلَیہِم شَہِیداً (سورۃ النساء : 159 )﴾ ’’اور اہل کتاب میں سے سب کے سب اس (مسیح علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور ایمان لائیں گے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہی دیں گے ‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے یہ روایت مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’قال خُروجُ عیسیٰ ابن مریم صلوات اﷲ علیہ‘‘ یعنی اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خروج کا بیان ہے (کہ جب آپ نازل ہوں گے تو اس وقت کے تمام اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے ، آپ کی بات مانیں گے اور آپ کی تصدیق کریں گے) ۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے یہ روایت ’’المستدرک للحاکم‘‘ میں اس سند کے ساتھ موجود ہے : (ابوعبداﷲ محمد بن یعقوب الحافظ حدثنا علی بن الحسین بن ابی عیسیٰ حدثنا عبداﷲ بن الولید حدثنا سفیان عن ابی حصین عن سعید بن جبیرعن ا بن عباس رضی اﷲ عنہما)اور امام حاکم رحمتہ اﷲ علیہ نے اس روایت کے بارے میں فرمایا ہے ’’ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین‘‘ کہ یہ حدیث امام بخاری وسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے ۔ نیز امام ذہبی رحمتہ اﷲ علیہ نے بھی ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں اس حدیث کو امام بخاری وامام مسلم کی شرط کے مطابق لکھاہے ۔
(المستدرک للحاکم: حدیث نمبر 3207، ج2 ص338، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
نیز صحیح بخاری کی کتاب ’’احادیث الانبیاء‘‘ میں موجود ’’باب نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ کی پہلی حدیث (جس پر تمنا عمادی صاحب نے اپنے مفروضوں کی مدد سے سب سے پہلے تنقید لکھی ہے ، اور جس کا تفصیل کے ساتھ رد آگے آئے گا) اس میں صاف طور پر بیان ہے کہ صحابیِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے سورۃ النساء کی اسی آیت سے ’’نزولِ عیسیٰ علیہ السلام‘‘ پر استدلال فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری، باب نزول عیسیٰ بن مریم: حدیث نمبر 3448)
حافظ ابن کثیر رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی تفسیر میں حضرت حسن بصری رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت ابو مالک رحمتہ اﷲ علیہ سے بھی یہی تفسیر نقل کی ہے اور لکھا ہے کہ قتادہ رحمتہ اﷲ علیہ، عبدالرحمن رحمہ اﷲ بن زید رضی اﷲ عنہ بن اسلم اور دوسرے لوگوں کا بھی یہی قول ہے۔ اگرچہ اس آیت کی تفسیر میں دو دوسرے اقوال بھی منقول ہیں لیکن پہلی تفسیر دو جلیل القدر صحابہ رضی اﷲ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ منقول ہے اس لئے وزنی ہے، اسی لئے حافظ ابن کثیر رحمتہ اﷲ علیہ نے امام ان جریر طبری رحمتہ اﷲ علیہ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد کہ ان تمام اقوال میں سے پہلا قول زیادہ صحیح ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد اہل کتاب کا کوئی فرد ایسا نہ رہے گا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے آپ پر ایمان نہ لے آئے ، پھر لکھا ہے : ’’لا شک أن ہذا الذی قالہ ابن جریر رحمہ اﷲ ہو الصحیح لأنہ المقصود من سیاق الآي……‘‘ بلا شک ابن جریر کی یہی بات صحیح ہے کیونکہ ان آیات کے سیاق سے یہی مقصود ہے۔
(تفسیر ابن کثیر، ج 2 ص 454، دار طیبہ ، السعودیۃ)
واضح رہے کہ آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کے نزول کے بعد ایمان لانے کا بیان ہورہا ہے کہ اُس وقت جتنے بھی اہل کتاب زندہ موجود رہیں گے وہ آپ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے جیسا کہ امام ابن جریر طبری رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی تفسیر میں حضرت ابو مالکؒ سے وضاحت کے ساتھ نقل بھی فرما دیاہے ۔
اسی طرح اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَاِنَّہ لَعِلمٌ للسَّاعَۃِ فَلَا تمتَرُنَّ بِہَا (سورۃ الزخرف: ۶۱)﴾
’’اور البتہ وہ قیامت کی ایک نشانی ہے، پس اس نشانی میں شک نہ کرو‘‘۔
امام ابن ابی شیبہ رحمتہ اﷲ علیہ(متوفی 235ھ) حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کرتے ہیں :
’’حدّثَنا مُعاوِیۃَ ، قال حدَّثَنا عَمّار بنُ رُزَیقٍ ، عن منصورِ ، عن مُجاہِدٍ عن ابن عباسٍ ، واِنّہ لَعِلمٌ للسَّاعۃِ ، قال : خُروجُ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام‘‘۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ : اس نشانی سے مراد ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خروج ۔
(المصنف لابن ابی شیبۃ ، حدیث نمبر 32472 ، ج10 ص433، الفاروق الحدیثہ، القاہرۃ)
امام حاکم رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 405ھ) نے بھی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے یہی تفسیر نقل کی ہے اور اس روایت کو ’’صحیح الاسناد‘‘ لکھا ہے اور امام ذہبی رحمتہ اﷲ علیہ نے تلخیص المستدرک میں ان سے اتفاق کیا ہے اور اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے ۔ (المستدرک للحاکم، حدیث نمبر 3675، ج2 ص486، دار الکتب العلمیۃ ۔ بیروت)
حافظ ابن کثیر رحمتہ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ، ابو العالیہ رحمتہ اﷲ علیہ ، ابومالک رحمتہ اﷲ علیہ ، عکرمہ رحمتہ اﷲ علیہ ، حسن، قتادہ رحمتہ اﷲ علیہ ، ضحّاک رحمتہ اﷲ علیہ اور دوسرے لوگوں سے یہی مروی ہے کہ ’’اِنَّہ‘‘ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ہی لوٹتی ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خروج قیامت کی نشانی اور علامت ہے، نیزلکھتے ہیں کہ اس آیت کی ایک دوسری قرأت بھی ہے جس میں ’’لَعِلمٌ‘‘ کے بحائے ’’لَعَلَمٌ‘‘ ہے جس سے اس تفسیر کی تائید ہوتی ہے ۔ آگے لکھتے ہیں کہ ’’وقد تواترت الأحادیث عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ أخبَرَ بنُزُولِ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام قبل یوم القیامۃ ……‘‘ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے منقول متواتر احادیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قیامت سے قبل نازل ہونے کی خبر دی ہے۔
(ملخصاً: تفسیر ابن کثیر، ج7 ص 236، دار طیبہ ، السعودیۃ)
اس کے علاوہ اور آیات بھی ہیں جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے اور قیامت سے پہلے نازل ہونے کا اشارہ ملتا ہے ، ہم طوالت کے خوف سے صرف انہی دو آیات پر اکتفا کرتے ہیں ، لہذا یہ کہنا کہ قرآن کریم میں ’’نزولِ عیسیٰ علیہ السلام‘‘ کا کوئی اشارہ نہیں صرف ایک غلط فہمی ہے، صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم وتابعین عظام رحمتہ اﷲ علیہ کی تفاسیر واقوال آپ نے ملاحظہ فرمالیے ، نیز اگر بالفرض قرآن میں اس کا بیان نہ بھی ہوتا تو چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے منقول صحیح احادیث سے تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ہے اس لئے نزول عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرنا اس شخص کے لئے ممکن نہیں جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی بات کو دل وجان سے قبول کرتا ہے۔
جرح وتعدیل کے بارے میں چند بنیادی باتیں
کچھ لوگ حدیث کی صحیح ترین کتب میں منقول کسی ایسی حدیث کو جس کے صحیح ہونے پر علماء حدیث کا اتفاق ہوتا ہے جھوٹی ثابت کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں مذکور راویوں کے بارے میں جرح وتعدیل کی کتابوں میں ڈھونڈتے ہیں کہ کسی راوی کے بارے میں کوئی ایسی بات مل جائے جسے لے کر اس راوی پر اعتراض بنایا جاسکتا ہواور پھر اپنی طرف سے اس پر حاشہ آرائی کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ چونکہ یہ راوی ناقابل اعتبار ہے لہٰذا یہ حدیث ’’موضوع اور مکذوب‘‘ ہے ،اور اسی راوی کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے وہ اقوال ذکر نہیں کیے جاتے جن سے اس کا ثقہ اور قابل اعتبار ہونا ثابت ہوتاہے، یہی طریقہ واردات جناب تمنا عمادی صاحب کا بھی ہے ، ان کو اور کوئی بات نہ ملے تو کبھی راوی کے عجمی (غیر عربی) ہونے کو بنیاد بنا کر اس پر صفحے سیاہ کردیتے ہیں کہ ’’منافقین عجم‘‘ نے یہ جھوٹی حدیث بنائی ہے، اور اگر پھر بھی کام نہ چلے تو بڑے دھڑلے سے کسی تابعی بلکہ صحابی کے بارے میں یہ لکھنے سے بھی نہیں کتراتے کہ یہ تو ایک فرضی شخصیت ہے جو کہ جھوٹی حدیث کو سچی بنانے کے لئے ’’گھڑی‘‘ گئی ہے (جس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے) ایک ایسی شخصیت کو جس کی جلالت اور اتقان پر تمام محدثین اور جلیل القدر ائمہ کا اتفاق ہو اسے مشکوک اور ناقابل اعتبار ثابت کرنا عمادی صاحب کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے (جس کی ایک مثال جلیل القدر تابعی امام ابن شہاب زہری رحمتہ اﷲ علیہ کے ساتھ عمادی صاحب کا ’’عناد‘‘ ہے جن کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے تقریب التہذیب میں صاف طور پر لکھا ہے : الفقیہ الحافظ متفق علی جلالتہ واتقانہ وثبتہ کہ ان کی جلالت شان اور اتقان پر سب کا اتفاق ہے)۔
ایک بڑا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ اصول حدیث میں مشہور قاعدہ ہے کہ الجرحُ مُقَدَّمٌ علی التعدِیلِ ’’جرح تعدیل پر مقدم ہے‘‘ تو پھر جس راوی پر جرح موجود ہوتو اس کی روایت کیسے قابل قبول ہوسکتی ہے اگرچہ دوسرے ائمہ نے اس کی تعدیل ہی کیوں نہ کی ہو؟۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے لیکن یہ قاعدہ مطلقاً نہیں ہے بلکہ جرح اس وقت تعدیل پر مقدم ہوگی جب وہ مفسَّر ہو، چنانچہ امام نووی صحیح مسلم کے بعض راویوں پر ضعف کا حکم لگانے والوں کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’لِاَنَّ ذٰلِکَ فِیمَا اِذَا کَانَ الجَرحُ ثَابِتاً مُفَسِّرُ السَّبَبِ وَاِلَّا فَلَا یُقبَلُ الجَرحُ اِذَا لَم یَکُن کَذَا‘‘ ۔ (یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جرح تعدیل پر مقدم ہے) کیونکہ یہ تو اس وقت ہے جب جرح ثابت اور مفسر ہو، ورنہ تو جرح قبول ہی نہیں ہوگی۔ جب تک وہ ثابت اور مفسر نہ ہو۔ (شرح مسلم للنووی، ج1 ص 25،طبع مصر )
تاج الدین سبکی رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 771ھ) لکھتے ہیں :
’’محدثین کے قاعدے جرح ، تعدیل پر مقدم ہے کو مطلق سمجھ لینے سے مکمل طور پر احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ درست بات یہ ہے کہ جس شخص کی امام وعدالت ثابت ہو، اس کی مدح کرنے والے زیادہ اور جرح کرنے والے نادر ہوں اور وہاں یہ قرینہ بھی موجود ہو کہ مذہبی تعصب وغیرہ اس جرح کا سبب ہے تو پھر اس صورت میں جرح کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا…… اگر ہم اس قاعدے کا مطلق طور پر اطلاق کردیں تو پھر کوئی بھی امام نہیں بچتا کیونکہ کوئی بھی امام نہیں جس کے متعلق طعن کرنے والوں نے طعن نہ کیا ہو‘‘۔ (ملخصاً: طبقات الشافعیۃ الکبریٰ، ج2 ص9 ، دار احیاء الکتب العربیۃ)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ کسی راوی کے متعلق صرف کلام اور جرح کی وجہ سے فی الفور فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ اس راوی کی وجہ سے یہ روایت ضعیف یا موضوع ہے اور یہ قانون بھی مطلق طور پر نافذ العمل نہیں کہ جرح تعدیل پر مقدم ہے ۔ نیز کبھی کسی حدیث کی سند ضعیف ہوتی ہے لیکن راوی پر جھوٹ یا وضع (احادیث گھڑنے) کی تہمت نہیں ہوتی بلکہ ضعف کا کوئی خفیف سبب ہوتا ہے تو اس صورت میں کثرتِ اسانید میں سے بعض دوسری اسناد حدیث کو تقویت پہنچاتی ہیں جس کی وجہ سے حدیث صحیح لغیرہ یا حسن لغیرہ ہوکر قابل عمل بن جاتی ہے ۔
ابوابراہیم محمد بن اسماعیل امیر صنعانی رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی1182ھ)لکھتے ہیں:
’’وَہذہ القَاعِدَۃُ لَو اُخِذَت کُلِّیۃً لَم یَبقَ لَنا عَدلٌ اِلّا الرُّسُل فاِنّہ مَا سَلِمَ فاضِلٌ مِن طَاعِنٍ، مِن ذٰلِکَ لَا مِن الخُلَفاءِ الرَّاشِدِینض وَلَا اَحَدٌ من اَئِمَّۃِ الدِّینِ‘‘ اگر اس قاعدے کو مطلق طور پر لے لیا جائے تو پھر صرف رسول ہی باقی رہ جاتے ہیں جن پر کوئی جرح نہ ہو کیونکہ کوئی فاضل شخص طعن کرنے والے کے نشتر سے نہیں بچ سکا۔ یہاں تک کہ خلفائے راشدین میں سے کوئی بچا نہ ائمہ دین میں سے۔
(اِرشاد النقاد الیٰ تیسیر الاجتہاد، ص 15 ضمن مجموعۃ الرسائل المنیریۃ ج 1)
مولانا عبدالحی لکھنوی ؒ (متوفی 1304ھ) لکھتے ہیں:
’’قَد زَلَّ قَدَمُ کَثِیرٍ مِّنَ العُلَمَاءِ عَصرِنَا بِمَا تُحَقِّقَ عِندَ المُحَدِّثِینَ اَنَّ الجَرحَ مُقَدَّمٌ عَلَی التَّعدِیلِ لِغَفلَتِہم عَنِ التَّقَیّیدِ والتَّفصِیلِ تَوَہُّماً مِّنہُم اَنَّ الجَرحَ مُطلقاً اَیُّ جَرحٍ کَانَ مِن اَیِّ جَارِحٍ کَانَ ، فِی شأنِ اَیِّ راوٍ کَانَ مُقَدّمٌ عَلَی التَّعدِیلِ مُطلَقاً اَیِّ تَعدِیلٍ کَانَ ، مِن اَيِّ مُعَدِّلٍ کَانَ ، فِی شَأنِ اَيِّ رَاوٍ کَانَ ، ولَیسَ الأمرُ کَمَا ظَنُّوا ، بَلِ المَسأَلۃُ ۔ أي تَقَدُّمُ الجَرحِ عَلَی التَّعدِیلِ۔ مُقَیَّدَۃٌ بِاَن یَّکُونَ الجَرحُ مُفَسَّراً ، فَاِنَّ الجَرحَ المُبہَمَ غَیرُ مَقبُولٍ مُطلَقاً عَلی المَذہَبَ الصَّحِیحِ، فَلَا یُمکِن اَن یُّعَارِضَ التَّعدِیلَ واِن کَانَ مُبہماً‘‘۔
ہمارے بہت سے علماء اس بارے میں لغزش کا شکار ہوگئے کہ’’ جرح تعدیل پر مقدم ہے‘‘۔ انہوں نے ایسا اس لیے کہا کہ وہ معاملے میں لگائی گئی چند قیود اور تقیید و تفصیل سے غافل رہے اور انہیں وہم ہوا کہ جرح کیسی بھی ہو، جرح کرنے والا کوئی بھی ہو اورجرح کسی بھی راوی کے بارے میں ہو وہ ہر صورت میں مطلق طور ہر تعدیل سے مقدم ہے چاہے تعدیل کرنے والا کوئی بھی ہو۔ حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے ، بلکہ (درست بات یہ ہے کہ) صرف وہ جرح جو مفسّر ہو تعدیل پر مقدم ہے لہٰذا صحیح مذہب کے مطابق مبہم جرح ، تعدیل کے مقابلے میں ہرگز قابل قبول نہیں، چاہے تعدیل مبہم ہی کیوں نہ ہو۔
(الرفع والتکمیل فی الجرحِ والتعدیل، ص 117،دار البشائر ، بیروت)
(جاری ہے)
ء ء ء