محمد عبد الواجد لطیف
تنظیم اہل سنت کے مرکزی راہنما، مناظر و مربی و استاذ المناظرین حضرت مولانا محمد رمضان نعمانی رحمہ اﷲ رئیس التدریس جامعہ عثمانیہ احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور، 8اپریل بروز جمعرات بوقت دن2 بجے اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کر گئے۔اناﷲ واناالیہ راجعون
علامہ نعمانی رحمہ اﷲ 1954ء میں جلال پور پیروالہ کے علاقے خان بیلہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے قرآن کریم کی تعلیم خان بیلہ کے ایک دینی مدرسے میں حاصل کی۔ پھر درس نظامی کے لیے خان بیلہ اور اوچ شریف کے درمیان طاہر والی میں فاضل اجل حضرت مولانا حبیب اﷲ گمانوی قدس سرہ کے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ کچھ عرصہ جامع خیرالمدارس ملتان میں بھی تعلیم حاصل کی۔ اور دورہ حدیث طاہر والی کے مدرسہ میں حضرت مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اﷲ سے پڑھا۔اور اسی نسبت کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ نعمانی لکھا کرتے تھے۔
دورہ حدیث سے فراغت کے بعد دورہ تفسیر قرآن رئیس المحدثین مولانا عبداﷲ درخواستی سے جامعہ مخزن العلوم خانپور اور جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی میں شیخ القرآن مولانا غلام اﷲ خان سے پڑھا۔دورہ تفسیر سے فراغت کے بعد آپ نے رد فرق باطلہ پر مولانا دوست محمد قریشی، اور مولانا علامہ عبدالستار تونسوی نوراﷲ مرقدہ سے فن مناظرہ پڑھا۔1975 میں جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی، سعودیہ عرب تشریف لے گئے۔ وہاں سے 1977ء میں تخصص فی الحدیث والفقہ کیا۔ اور پاکستان واپس آکر ہمیشہ کے لیے اپنے استاد علامہ عبدالستار تونسوی نوراﷲ مرقدہ کے ساتھ تنظیم اہل سنت سے وابستہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی توحید وسنت کے پرچار، اور رد شرک وبدعت کے مبارک مشغلے میں صرف کردی اور ملک کے طول و عرض میں کئی معرکہ آرا مناظرے کیے۔ ان کوفن مناظرہ میں کمال دسترس حاصل تھی۔ علامہ نعمانی ایک بہترین خطیب، مناظر، مدرس کے ساتھ ساتھ مضبوط صاحب قلم بھی تھے۔ انہوں نے رد شرک وبدعت پر لاجواب کتاب ’’مذہب اہل سنت والجماعت‘‘ لکھی۔ جو علماء، مناظرین، اور دینی مدارس کے طلبہ کے لیے قیمتی موادو سرمایہ ہے۔ وہ ملک کے کئی دینی جامعات میں شعبان و رمضان میں دورہ ادیان باطلہ پڑھاتے تھے۔ ملک کے طول وعرض میں کئی ہزار علماء ان کے حلقۂ تلامیذ و مستفیدان میں شامل ہیں۔
علامہ نعمانی 67 برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ ان کی نماز جنازہ احمد پور شرقیہ کے محمود پارک میں جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا منیر احمد منور مدظلہ نے پڑھائی۔ جس میں سیاسی وسماجی شخصیات، وکلاء، مذہبی و دینی اکابر و اصاغر سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیوہ، ایک بیٹا، اور ہزاروں شاگرد علماء سوگوار چھوڑے۔ علامہ نعمانی کی وفات ہمارے بلادو دیار کے اہل سنت والجماعت کے لیے بڑا نقصان ہے۔ ان کا خلاء مدتوں پورا نہ ہوگا۔ وہ اپنی شخصیت میں یکتا تھے۔ وہ ایک بہادر، جری انسان تھے۔ اﷲ پاک ان کی لغزشوں کو معاف کرے۔ اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء کرے آمین ثم آمین۔