سید محمد کفیل بخاری
جمعیت علماء اسلام اور متحدہ اپوزیشن کا آزادی مارچ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں کراچی سے شروع ہو چکا ہے۔ اعلان کے مطابق 27؍ اکتوبر کو کشمیریوں کے یومِ سیاہ کے موقع پر کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ، بلوچستان کے قافلے پنجاب سے ہوتے ہوئے 31؍ اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے، جبکہ خیبر پختون خوا کے قافلے اسی روز اسلام آباد پہنچیں گے۔ ایک سال کی مسلسل سیاسی محنت کے بعد بالآخر مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن کی 9جماعتوں کو اپنے مجوزہ آزادی مارچ میں شرکت پر آمادہ کر ہی لیا۔ آزادی مارچ کے پس منظر اور پیش منظر پر تجزیہ نگار و تبصرہ نگار حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ لکھ اور بول رہے ہیں، لیکن ایک بات تو واضح ہو گئی کہ مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کو متحد کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود مولانا کے آزادی مارچ کی حمایت اور شرکت پر مجبور ہو گئے۔دینی قوتیں تو پہلے ہی مولانا کی حامی ہیں، طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک کی سیکولر قوتیں بھی مولانا کی حمایت کر رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے روزِ اوّل سے یہ مؤقف اختیار کیا کہ 25؍ جولائی 2018ء کے انتخابات دھاندلی زدہ ہیں، جس کے نتیجے میں عمران خان کو زبردستی قوم پر مسلط کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت جعلی، ہوائی اور خلائی ہے، جسے ہم تسلیم نہیں کرتے۔ انھوں نے پہلے دن ہی اسمبلیوں سے استعفوں کی بات کی، لیکن پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں نے اتفاق نہ کیا۔ آج نواز شریف صاحب بھی فرما رہے ہیں کہ مولانا کی بات درست تھی اور ہمارا اختلاف غلط تھا۔
اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے آزادی مارچ کے مطالبات حکومت کو پیش کر دیے ہیں :
1۔ عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہوں 2۔ حکومت تحلیل کی جائے
3۔ نئے انتخابات کرائے جائیں۔ اس لیے کہ سابقہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے
4۔ آئین کی اسلامی دفعات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے
یہ مکافاتِ عمل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنے دھرنے میں نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ عمران خان کی تقریروں اور پی ٹی آئی کے انتخابی منشور کی وجہ سے قوم نے ان سے بہتری کی امیدیں وابستہ کر لی تھیں، لیکن عمرانی حکومت کے ایک سال نے نہ صرف قومی امیدوں پر پانی پھیرا بلکہ ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر کے اقتصادی و معاشی اعتبار سے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کی بجائے پہلی نوکریاں ختم اور آئندہ سرکاری نوکریوں کی امید نہ رکھنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔
قوم کو عمران خان سے کوئی ذاتی عناد ہرگز نہیں۔ اصولی بات ہے کہ جو کہا، وعدہ کیا اس کو پورا کریں۔ عمران خان آج یہ فرماتے ہیں کہ مجھے اچھی ٹیم نہیں ملی۔ انھیں یہ بات پہلے سوچنی چاہیے تھی بلکہ انھیں سب کچھ معلوم تھا۔ انھوں نے جانتے بوجھتے دھوکا کھایا اور دھوکا دیا۔ اُن کی ساری ٹیم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے کچرے کا ڈھیر ہے۔ اپنا ویژن نہ اپنی ٹیم۔ نتیجہ یہی نکلنا تھا، جس کا بھگتان موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ آزادی مارچ کا پہلا غیر حتمی نتیجہ نواز شریف کی ضمانت ہے۔ بظاہر یہ سہولت انھیں شدید علالت کے نتیجے میں میسر آئی ہے۔ زرداری صاحب بھی شدید علیل ہیں، شاید کسی روز انھیں بھی یہ سہولت فراہم کر دی جائے۔ ویسے طبیعت عمران خان کی بھی ٹھیک نہیں، اﷲ خیر کرے۔ نواز شریف صاحب اور آصف علی زرداری صاحب اپنا کیا دھرا ہی بھگت رہے ہیں۔ انھوں نے بھی اپنے اپنے ادوار میں قوم کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔ ظلم ہوا، بے انصافی ہوئی، ما ورائے آئین اقدامات ہوئے اور ما ورائے قانون قتل ہوئے۔ خصوصاً شہباز شریف صاحب کے دور میں بہت ظلم ہوا۔ قوم کا معاشی استحصال ہوا، بے روزگاری، مہنگائی اور فحاشی کو فروغ ملا۔ آج مریم نواز کے آنسو اور بلاول بھٹو کی چیخیں سن کر ہمیں کوئی خوشی نہیں ہوئی، لیکن اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے نیب اور سی ٹی ڈی جیسے سفاک اور انتقامی ادارے بناتے وقت انھوں نے یہ نہ سوچا کہ کل ہماری جگہ کوئی اور ہوں گے اور یہی ادارے ہوں گے۔موجودہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ سیاست، معیشت اور انصاف سب زوال پذیر ہیں۔ اخلاق کا حال یہ ہے کہ وزیر اعظم اور اُن کے وزراء کی زبانیں انتہائی غیر مہذب ہیں۔ تحریک انصاف تو عوام کو انصاف دینے کا نعرہ لے کر اٹھی لیکن سانحۂ ساہی وال کے مجرموں کو جس طرح شک کا فائدہ دے کر بری کیا گیا، قتلِ انصاف کی بدترین مثال ہے۔ آواز دو انصاف کو! انصاف کہاں ہے؟
حکومت کی تازہ ترین کارکردگی یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما، سابق سنیٹر حافظ حمداﷲ کی پاکستانی شہریت منسوخ کر کے اُن کا شناختی کارڈ ضبط کر لیا ہے۔ نادرا نے شہریت ختم کی اور پیمرا نے میڈیا کوریج پر پابندی عائد کر دی۔ حافظ حمد اﷲ کو افغان شہری قرار دینے والوں نے اتنا نہ سوچا کہ اُن کے والد قاری ولی محمد قیامِ پاکستان سے قبل ہی یہاں آباد تھے۔ وہ 1970ء کی دہائی میں سکول ٹیچر کے منصب سے ریٹائر ہوئے۔ حافظ حمد اﷲ 2002ء سے 2016ء تک بلوچستان کے صوبائی وزیر صحت رہے اور اُن کے بیٹے شبیر احمد پاکستان ملٹری اکیڈمی میں زیر تربیت فوجی افسر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان کے بیٹے پاکستان میں نہیں۔
اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور مقتدر قوتیں سب کچھ کر سکتی ہیں۔ رضا باقر پاکستانی شہری نہیں تھے لیکن گورنر سٹیٹ بینک کے عہدے کے لیے جہاز میں بیٹھتے وقت پاکستانی پاسپورٹ اُن کو تھما دیا۔ آج حافظ حمد اﷲ سے پاکستانی شہریت واپس لے لی گئی۔ یہ پہلی حکومت ہے جو غیر ملکیوں کو پاکستانی اور پاکستانیوں کو غیر ملکی قرار دیتی ہے۔
آزادی مارچ رواں دواں ہے۔ اسلام آباد پہنچ کر یہ سیلابِ بلا کیا رخ اختیار کرتا ہے اور ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، آئندہ دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ لیکن حکمرانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اُن کا واسطہ مولانا فضل الرحمن کی صورت میں ایک سخت جان، کہنہ مشق، تشدد،انتہائی زیرک اور چالیس سالہ تجربہ کار سیاست دان پڑا ہے۔ گرفتاریاں، دھمکیاں اور روکاوٹیں اپوزیشن کا اثاثہ ہوتی ہیں، حکمران ایسے اقدامات سے گریز کریں ورنہ……
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا یا شام گیا