مولانا محمد یوسف شیخوپوری
دین اسلام کا ایک ایک حکم عین فطرتی قانون ہے اسلامی تعلیمات انسانی فطرت کی عین مطابق ہیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان اپنی فطرت سے ایک آزاد مخلوق ہے خالق دو جہاں نے اسے آزاد پیدا کیا ہے اور اسکا منشا یہی ہے کہ یہ آزاد رہے۔ ’’تمام مخلوقات میں اسے امتیاز بخشا ہے اورسب سے مکرم ومحترم بنایا ہے‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل۷۰) اسی کو ساری کائنات کا مخدوم بنایا ہے چمکتا ہوا سورج دمکتا ہوچاند جگمگاتے ستارے شجر وحجر بحر و بر لیل و نہار الغرض سَخّرَ لَکُمْ مَاَفِی السَّمٰواتِ وَمافِی الاَرْضِ جَمِیعْاً(الجاثیہ ۱۳) فرماکر بتا دیا کہ یہ سب کچھ انسان کے لیے مسخر کردیا ہے تا کہ انسان سب کی غلامی سے آزاد ہو کر خدائے وحدہ لا شریک کی بندگی میں لگ جائے۔ میرے رب کا قانون ہے جب بھی اس انسان کی آزادی میں کوئی چیز رکاوٹ بن جاتی ہے اور انسان انسان کا شکاری بن جاتاہے اور اپنے ہم جنس انسان کواپنا غلام سمجھنے لگتا ہے توخد ا کی غیرت جوش میں آتی ہے وہ انکی نجات کے لیے اپنے محبوب بندے کو بھیجتا ہے جب فرعون نے بنی اسرائیل کواپنا غلام بنانا اور ظلم وستم کے پنجے گاڑنے شروع کیے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تا کہ بنی اسرائیل کے گلے سے غلامی کا طوق اتارا جاسکے چنانچہ یہ جلیل القدار کلیم اﷲ کے لقب سے مشرف ہونے والے صاحب شریعت پیغمبر جب فرعون سے منصب نبوت سنبھالنے کے بعد پہلی ملاقات کرتے ہیں تواس ناپاک ونجس جھوٹے مدعی الوہیت سے کفر وشرک سے توبہ کا مطالبہ نہیں بلکہ فرماتے ہیں ’’اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْ اِسرائیل (طٰہٰ) بن اسرائیل جنکے پاؤں میں محکومی وغلامی کی زنجیریں تونے ڈال رکھیں ہیں انہیں آزاد کردے بلکہ دوسری جگہ فرمایا ’’اَنْ اَدّوْ الِیّ عباد اللّٰہ‘‘ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ صرف اﷲ کے بندے ہیں ا س کے غلام ہیں یہ تیرے غلام نہیں بن سکتے یہ اندازبتا رہا ہے کہ اسلام میں آزادی کی کس قدراہمیت ہے۔
خود رحمت دوعالم محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ایسے حالات تھے کہ باز نطینی اورساسانی سلطنتو ں نے عوام کو برُی طرح جکڑ رکھا تھا ان سے بھاری بھاری ٹیکس رشوتیں اور اندرانے وصول کیے جاتے انسانیت کے گلے میں غلامی کے ایسے طوق تھے جس کے بوجھ میں وہ دبی جارہی تھی اس کی آہ وکراہ سے فلک میں شگاف پڑرہے تھے انسان تشدد، محکومی کی خوفناک فضاء میں سانس لے رہا تھا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا کو انسانو ں کی غلامی سے نکل کر خدائے وحدہ لاشریک کی غلامی اختیار کرنے کی دعوت دی ظلم وستم کا جوا اتار پھینکا اور طوق وسلاسل کوتوڑ دیا اور دین اسلام سے متعارف کروایا جوایک آزاد دین ہے جسکے خمیر میں آزادی پسندی داخل ہے اس نے صدیوں سے جاری غلامی پر قد غن لگائے۔ قرآن پاک کی بیسوں آیات میں غلامو ں پر خرچ کرنے انہیں آزاد کرنے کی تاکید فرمائی گئی ’’واٰتَی الْمَالَ عَلیٰ حُبِْہٖ…… وَفِی الْرِقاَب (البقرہ) وَمَا مَلَکتْ اَیْمَانُکُمْ ۔فَکُّ رَ قَبۃ حتی کہ بہت سے جرائم مثلا قتل، قسم اور ظہار وغیرہ کا کفارہ ہی تحریر رقبہ غلام کی آزادی قرار دیا گیا اسلام نے لوگوں میں آزادی کی جو روح پھونکی حدیث وسیرت میں سینکڑوں واقعات ہیں آزاد تو آزاد، غلامو ں کوبھی آزادی رائے کا پورا اختیار دے رکھا تھا پھرمرد نہیں عورتیں بھی پوری ہمت سے اپنی آزادنہ رائے میں گفتگو کرتی وگرنہ حضرت بریرہ رضی اﷲ عنہ کا واقعہ کافی ہے۔
مراد نبوت سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کایادگار دور شاہد عدل ہے آپ نے مکاتبت کو ضروری قرار دیا۔ غلاموں کی محض عیادت نہ کرنے پر کئی عُمّا ل کومعزول وموقوف کردیتے حتی کہ فاتح مصر حضرت عمرو بن عاصؓ کے ایک لڑکے نے ایک موقع پر ایک مصری کوناحق مارا شکایت وصول ہونے پر آپ نے باپ بیٹا دونو ں کو اپنے پاس بلا کر مصری نو جوان کے ہاتھ دُرہ تھما کر کہا اس سے بدلہ لے لو اس نے مارا اور کاری زخم آئے آپ ؐ نے حضرت عمروبن عاصؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا ’’مَتَی اِسْتَعْبَدتُمُ النَّاس وَقَدْ وَلَدَتْھُم اُمَّہا تُھُمْ اَحْرَارًا‘‘ یعنی تم نے کب سے لوگوں کوغلام بنارکھا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا ہے؟ (سیرۃ عمربن خطابؓ لابن الجوزی) مولانا ابوالکلام آزاد فرمایا کرتے تھے ’’انسانوں کو انسانی غلامی سے نجات دلانا تواسلام کاخد ائی مشن ہے‘‘۔
چنانچہ تاریخ عالم شاہد ہے اہل اسلام ہر دور میں اپنی اس فطری اوراسلامی تعلیم سے آراستہ سوچ کے تحت وقت کے ہر فرعون کے مقابلہ میں علم حریت لے کر میدان عمل میں اترتے رہے 1600ء میں جب سامراج فرنگی انگریزتجارت کے دھوکے سے ہندوستان میں داخل ہوااور رفتہ رفتہ سازشوں کاجال بچھا کرہندوستان پر قابض ہوگیا تورجال اﷲ حریت وآزادی کا علم لیکر میدان عمل میں پوری سرفروشی کے ساتھ اترے۔ حضرت شاہ ولی اﷲ، حضرت شاہ عبدالعزیز، حضرت سیداسماعیل ،سید احمد شہید رحمھم اﷲ کی قربانیاں توکہیں سراج الدولہ، سلطان ٹیپو کی شہادت کاخون ہے تھانہ بھون و شاملی کا میدان گواہ ہے تحریک ریشمی رومال کے جانباز سپاہی حضرت شیخ الہند کی جدوجہد امام انقلاب مولانا عبیداﷲ سندھی کی کاوشیں حضرت مدنی، امیرشریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری، مولانا ابو الکلام نام لیتے جائیں توایک لمبی فہرست بن جائے جنہوں نے خون کے آخری قطرے تک انسان کی غلامی قبو ل کرنے سے نہ صرف انکارکیا بلکہ سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرسینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا اور آزادی کی شمع کواپنے لہو کے تیل سے روشن کیا آج ایک دفعہ پھر تکبر وغرور اور نخوت میں ڈوبا ہوا بدتر وظالم درندہ ہندو گائے کی شرمگاہ چاٹنے والا کشمیری مظلوموں پر تاریخ کا سب سے بدترین ظلم وستم ڈھا رہا ہے اور اپنی محکومی اور غلامی کی زنجیروں میں قید کرنا چاہتا ہے۔ لیکن آفرین ہے اُن بے بس اور نڈر کشمیریوں کی کہ وہ آزادی کے حصول کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اے اہل اسلام اے عالم اسلام اب وقت ہے ایک ہونے کا مظلوموں کے دُکھ بانٹنے کا، فرعون وقت ہندو کی غلامی سے آزادی دلوانے کا، جب مظلوم کشمیریوں پر دست اندازی ہی نہیں بلکہ عزتوں وعصمتوں کو تاگ تاگ کیا جارہاہے شعائر اسلام کی پا مالی کی جارہی ہے، بدترین ظلم کورواج دیا جارہا ہے، معصوم بچوں کے گلے اور زبانیں کاٹی جار ہی ہیں، ایک ایک عضو کو الگ الگ کاٹ دیا جارہا ہے، مکانو ں اور زندہ انسانو ں کو نذرآتش کیاجا رہا ہے، خور دونو ش سے محروم کردیا گیا ہے، آؤ تمہیں قرآنی آیات للکار رہی ہیں احادیث نبویہ جھنجھوڑ رہی ہیں اسلاف کی مثالیں غیرت دلارہی ہیں آؤ دیکھو مثل جنت وادی آگ کے انگاروں میں تبدیل ہو کر تمہیں فریاد دے رہی ہے کہ قلم وکتاب چھوڑ کر گدی سے منہ موڑ کر کفن بر دوش ہو کر ہماری حفاظت کرو اپنے اختلافات مٹا کر متحد ہو کر دنیا کی سب سے زیادہ انتہا پسند قوم سے ہمیں نجات دلوائیے۔ (۱)ہم مظلوم ہیں اس حیثیت سے بھی (۲) ہم پاکستان کا حصہ ہیں اس حیثیت سے بھی (۳) ہم تمہارے پڑوسی ہیں اس حیثیت سے بھی اور اس سب سے بڑھ کر (۴)ہم تمہارے مسلمان بھائی ہیں اس حیثیت سے بھی کئی طرح سے کئی اعتبارات سے ہم تمہیں پکار پکار کربلا رہے ہیں۔ آہ! ہماری آنکھیں تمہاری آمد کی منتظر ہیں کیا اب کوئی مسلمانوں میں محمدبن قاسم پیدا نہیں ہوگا؟ کیا اب کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں بنے گا؟ کیا اب کوئی سلطان ٹیپو نہیں اٹھے گا؟ اُٹھو اُٹھو میدان حشر کی شرمند گی سے بچو وگر نہ کوئی بعید نہیں یہ حالات تم پر بھی آسکتے ہیں گائے کا پیشاب پینے والوں کو خدائے وحدہ لا شریک کی عظمت وقوت اور نصرت پر بھروسہ کر کے میدان میں اُتر کر بتلا دو مسلمانوں کی رگوں میں ابھی حیات ہے، ابھی غیرت ہے، ابھی ہمت ہے، ابھی جانثاری وہمدردی باقی ہے جب تک ہم زندہ ہیں تب تک خدا کے علا وہ کس کی غلامی قبول نہیں کرسکتے!