پروفیسر خالد شبیر احمد
جو کچھ سیاست کے نام پر اس وقت ملک کے اندر ہو رہا ہے، اس پر ہر باشعور غم کی گہرائیوں میں غرق ہے۔ شرم و حیا منہ چھپائے سر پیٹ رہی ہے، تو بے غیرتی ہر طرف ملک کے اندر دندناتی پھرتی ہے۔ بام و در خونچکاں ہیں تو بشر بشر غم زدہ۔ داستانِ درد کہنے کے لیے الفاظ نہیں ملتے، ہر طرف ایک ایسی آگ لگی ہے کہ جس کو بیاں کرنے کے لیے حرف حرف بے ثبات تو لفظ لفظ بے اثر ہو کے رہ گیا ہے۔ بار بار یہ شعر زباں پہ آ جاتا ہے
کیا کیا نہ میرِ شہر ہوا تیرے شہر میں
بستے گھروں کے ساتھ دھڑکتے دلوں کے ساتھ
انصاف کے نام پر ناانصافیوں کا راج پورے عروج پر ہے۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ سیاست اور جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ وہ کچھ ہو رہا ہے کہ دشمن بھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کرتے۔ سیاست دانوں کے مدقوق چہرے دیکھ کر آئینے بھی گنگ ہو کے رہ گئے ہیں۔ ملک کا فرد فرد مبہوت ہو کے رہ گیا ہے کہ ملک کے اندر سیاست کا ہر منظر ہی دلخراش اور اندوہناک ہے۔ سیاست کے نام پر جھوٹ کی وہ آندھی چڑھی ہے کہ جس کی ظلمت کے سامنے سچ کے سورج کی چمک و دمک ماند ہو کے رہ گئی ہے کہ
ہر سمت جھوٹ کا ہے پرچم کھلا ہوا
ہر سمت سرنگوں ہے انصاف کا علم
دلوں سے آہ نکلتی ہے اور بے ساختہ یہ شعر دکھ اور درد کی عکاسی کرتا ہے
شہرِ ظلمت میں غم کے ماروں کی
کیا کبھی بھی سحر نہیں ہو؟
اس ملک کی ستر سالہ سیاسی تاریخ اتنی تاریک، گھناؤنی اور وحشی ہے کہ جس کے سامنے پنجاب کے اندر سکھا شاہی کا وحشیانہ دور بھی سرخمیدہ نظر آتا ہے۔
لا اِلٰہ کی گونج میں یہ ملک معرضِ وجود میں آیا تو سقوطِ ڈھاکہ تک کا دلخراش سفر، اسی سیاسی و فوجی قیادت میں طے ہوا تھا اور اب سقوطِ ڈھاکہ سے لے کر ان سیاست دانوں تک، جن کے ہاتھ میں انصاف کا پرچم ہے جو کچھ ہو رہا ہے، اس نے تو تہذیب و شرافت، امانت و دیانت، عقل و شعور اور فکر و نظر کی ساری خوبیوں کو اپنے قدموں تلے روند کے رکھ دیا ہے۔ مدینہ جیسی ریاست کے نام پر دین کے بنیادی اصول و ضوابط کے خلاف کھلی بغاوت، ایک ایسی جسارت ہے جس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے ٹی وی چینل پر پروگرام نشر ہو رہے ہیں، جبکہ اسرائیل کی قومی اسمبلی کی پیشانی پہ یہ فقرہ لکھا ہے ہے کہ ’’اے اسرائیل! تیری ریاست کی حدود دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک ہے‘‘۔
اس حکومت نے ایسا ماحول مہیا کیا ہے کہ اب مرزائیوں کی بند زبانیں کھل کر عقیدۂ ختمِ نبوت کا مذاق اڑاتی نظر آتی ہیں۔ لندن کے اندر اس ملک کے قیادت کرنے والوں کے پورے خاندان اس تحریک میں شامل ہے کہ قادیانی کا فر نہیں ہیں، بلکہ وہ ’’احمدی مسلمان‘‘ ہیں۔
ان عقل سے بے بہرہ لوگوں کو کیا معلوم کہ یہ ملک کتنی قربانیوں کے بعد معرضِ وجود میں آیا تھا۔ آزادی کی یہ جنگ کتنی ہولناک، خوں فشاں، درد ناک اور وحشی ماحول میں لڑی گئی تھی۔ ہمارے اسلاف نے قید و بند کے مصائب جھیل کر ایک ایسی فرنگی حکومت کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا کہ جس کی ریاست میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جبکہ ان سیاست دانوں کے اجداد کا اس جنگِ حریت میں کسی قسم کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ وہ تو انگریزوں کے بوٹ چاٹنے والے اور اُن کے کتے نہلانے پر فخر کرتے تھے۔ ان ٹوڈی خصلت لوگوں نے انگریز کی خوشامد اور چاپلوسی کر کے، انگریزوں سے جاگیریں حاصل کیں اور شومئی قسمت، ان لوگوں کی اولادیں پاکستانی سیاست پر چھائی ہوئی ہیں۔ جن کی قیادت میں پاکستانی عوام مہنگائی، بے روز گاری کی چکی میں پستے ہوئے بلبلا اٹھی ہے۔ ان کی آہ و زاری، حکمرانوں کے محلات سے ٹکرا ٹکرا کر بے حال ہو رہی ہے ، مگر یہ لوگ اپنی سیاسی جنگ میں اس قدر سرمست ہیں کہ ان کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ایک طرف لال حویلی کا بے سُرا قوال ہے تو دوسری طرف لاہور کا رانا سانگا۔ ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں، ان کی زبان و بیان کے سامنے شہدوں اور لفنگوں کی زبانیں بھی انگشت بدنداں ہو کے رہ گئی ہیں۔
ادھر نیب کا ادارہ عدل و انصاف کے نام پر وہ گھل کھلا رہا ہے کہ کہنا پڑتا ہے کہ اگر عدل و انصاف یہی ہے تو پھر ظلم و ستم کس بلا کا نام ہے۔ راولپنڈی کے قمر الاسلام کا کیس بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے، جسے اس وقت نیب نے گرفتار کیا جب وہ موجودہ الیکشن میں بطور امیدوار کاغذات امیدواری، الیکشن کمیشن میں داخل کروانے والا تھا اور اب اُسے آٹھ ماہ بعد باعزت بری کر دیا گیا ہے
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
ادھر پنجاب میں مٹی کے مادھو کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا، جس کی گفتگو اور حرکات و سکنات کسی سرکس کے مزاحیہ کردار سے ملتی جلتی ہیں۔ اور اس پر طرہ یہ کہ تحریک انصاف کے علم بردار کو پنجاب کے ایسے وزیر اعلیٰ پر فخر و ناز ہے۔ اس لیے کہ مٹی کے مادھو کی ایسی سفارش ہے، جسے تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نظر انداز کرنے کی جرأت سے قاصر ہے۔
سانحہ ساہیوال پر کیا کہا جائے۔ معصوم بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر غلام ہندوستان میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ کے سانحہ کی یاد تازہ ہو گئی، جہاں جنرل ڈائر نے گولیاں چلوا کر سینکڑوں انسانوں کو شہید کر دیا تھا۔
یہ کون میرے شہر کا راہ بر ہے بن گیا ہر آرزو میری کسی مدفن سی ہو گئی
خالدؔ حالات شہر پہ جلتا ہوں رات دن حالت میرے وجود کی ایندھن سی ہو گئی