مسئلہ کشمیر، صورتِ حال گھمبیر
سید کفیل بخاری وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’دنیا ساتھ دے نہ دے، ہم کشمیر کے ساتھ ہیں۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، فوج تیار ہے، ہر حد تک جائیں گے۔ مودی کی غلطی سے کشمیریوں کو آزادی حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ سوا ارب مسلمان اقوامِ متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انڈیا نے آخری حربہ استعمال کر لیا، اب جو کریں گے ہم کریں گے۔ کچھ اسلامی ممالک کی تجارتی مجبوریاں ہیں، جو آج ساتھ نہیں، کل وہ بھی ساتھ ہوں گے۔ قوم جمعہ کو دوپہر 12بجے آدھے گھنٹے کے لیے باہر نکلے اور کشمیریوں پر بھارتی ظلم و تشدد کے خلاف یک زبان ہو کر آواز بلند کرے‘‘۔ (26؍ اگست 2019ء کو قوم سے خطاب
لندن میں ثقافتی سرگرمیوں کے نام پر قادیانی ’’شر‘‘ گرمیاں
عبد اللطیف خالد چیمہ برطانوی سامراج نے مرزا غلام قادیانی کو دین اسلام میں نقب زنی کے لیے کھڑا کیا تھا اور جھوٹی نبوت کے لیے جھوٹ کا سہارا ان کا پیشہ ہے۔ مرزا عطاء الحق ( المعروف اے حق) جو برطانیہ اور خصوصاً لندن میں ’’ فراڈیے‘‘ کے نام سے مشہور ہے وہ یہاں کے کلچر کے عین مطابق مختلف ایوارڈ شوز کے نام پر دھوکہ دہی میں اپنی شہرت آپ رکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں اس نے پاکستانی فنکاروں کا لندن میں ایک شو رکھا جو بوجوہ کئی اعتبار سے بد نامی کا باعث بنا اور اس کے قصے زبان زد خاص وعام ہیں۔ حد یہ ہے کہ اچیومنٹ ایوارڈ کے نام پر یہ شخص لندن کی مسلم کاروباری شخصیات سے خطیر رقمیں بٹورتا
قادیانیوں کی نئی حکمت عملی اورہماراکردار
ڈاکٹر عمرفاروق احرار سوال یہ ہے کہ یورپی یونین ہو یا امریکہ،انسانی حقوق کی تنظیمیں ہوں، یا مذہبی آزادی کی علمبردار اَین جی اوز، اِن سب کی آواز صرف قادیانیت ہی کے حق میں کیوں بلند ہوتی ہے، حالانکہ پاکستان میں ایک درجن کے لگ بھگ دیگر اقلتیں بھی بستی ہیں، جن کے حقوق اور مسائل کو اُجاگر کرنے میں اِن بیرونی قوتوں کو اِس طرح کیوں دل چسپی نہیں ہے، جس طرح وہ قادیانیوں پر مبینہ مظالم اور زیادتی کا نوٹس لیتی ہیں؟ قادیانیت کے موضوع اور تحفظ ختم نبوت سے دل چسپی رکھنے والے احباب پر یہ حقیقت واضح ہے کہ برطانوی استعمارنے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے قادیانیت کوجنم دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قادیانیت اور استعماریت میں آج بھی چولی
7ستمبر یوم ختم نبوت (یوم قرار داد اقلیت )
عبداللطیف خالدچیمہ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے منصب رسالت و ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کی اساس اورمسلمانوں میں ’’وحدت اُمت‘‘ کی علامت ہے ،جھوٹے نبیوں کی ایک پوری تاریخ ہے اور انکار ختم نبوت پر مبنی فتنوں نے ظہور اسلام کے وقت ہی سراٹھانا شروع کردیا تھا ،ہندوستان میں انگریز سامراج نے مسلمانوں سے جذبۂ جہاد ختم کرنے اور باہمی انتشار و افتراق پیدا کرنے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کیا ،علماء اُمت کے علاوہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مرحوم جیسی شخصیات نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے مورچے کو سنبھالا، مجلس احرارا سلام نے شعبۂ تبلیغ تحفظ ختم نبوت قائم کرکے پورے ہندوستان میں اِس فتنے کی تباہ کاریوں سے اُمت کو محفوظ رکھا ،پاکستان بننے
کرفیو میں اذان
حبیب الرحمن بٹالوی وادی کشمیر خوں رنگ خوں ریز ہے…… ماؤں کے کئی لال ……وطن پر اپنی جان قربان کر چکے ہیں…… کئی جیلوں میں پڑے ہیں …… کوئی پرُسانِ حال نہیں …… آزادی کے ان متوالوں نے ……ایثار وقربانی کی انمٹ یادیں اپنے خو ن سے رقم کی ہیں ……بھارتی درندے ……آراہیں ایس کے غنڈے ……روز انہ سرچ کے نام پر …… نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں…… جوانوں کوشہید کرتے …… دکانوں کو آگ لگاتے ہیں ……مائیں بہنیں بین کرتی رہ جاتی ہیں…… گولیاں سسکیاں، ہچکیاں اُن کا مقدر بن چکی ہیں۔ وادی میں پندرہ دن سے کرفیو نافذ ہے…… کئی جاں بلب بیمار…… دوا کو ترس رہے ہیں بچے بھوکے سے نڈھال ہیں…… بڑے بوڑھے نحیف حال ہیں ……کھانے کی کوئی
سلامتی کونسل اجلاس کا جشن کب تک؟
وسعت اﷲ خان (بی بی سی اردو) پاکستان کی تشفی کے اعتبار سے مسئلہ کشمیر دو صورتوں میں ہی حل ہو سکتا ہے۔ یا تو کشمیری مزاحمت انڈیا کو سیاسی و اقتصادی طور پر اتنی مہنگی پڑ جائے کہ وہ کسی بھی آبرو بچاؤ فارمولے کے سہارے کشمیر کی جان چھوڑ دے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سفارتی و اقتصادی دباؤ انڈیا کے لیے اتنا ناقابلِ برداشت ہو جائے کہ وہ بدنامی اور دنیا سے کٹ جانے کے امکان کی تاب نہ لا سکے اور کشمیر کے کسی سہ طرفہ حل پر آمادہ ہو جائے۔پاکستان کا خیال ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں آج بھی اس مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ کشمیر کے بارے میں سلامتی
امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ
محمد عرفان الحق (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ) آپؓ کا اسم گرامی ـ’’عمر‘‘، لقب ’’فاروق‘‘ اور کنیت ’’ابو حفص‘‘ ہے۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کا نسب مبارک نویں پشت پر سیدنا محمدﷺ سے جاملتا ہے۔ آپؓ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی اور آپؓ ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔چونکہ نبی کریمﷺ سیدنا عمررضی اﷲ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے لیے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اس لیے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے اسلام لانے پر نبیﷺ بہت خوش ہوئے اور اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر آپ کو گلے لگایا اور آپؓ کے سینہ مبارک پر دست نبوت پھیر کر دعا دی کہ: اﷲ ان کے سینہ سے کینہ و عداوت کو نکال کر
شہیدِ غیرت، حضرت حسین بن علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما
مولانا عبد العلی فاروقی (لکھنؤ) حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی مظلومیت اتنی آشکار، اتنی واضح اور اتنی تسلیم شدہ ہے کہ ان کے سلسلہ میں اس وضاحت کی چنداں حاجت نہیں ہے کہ تاریخ کی مظلوم شخصیتوں میں ان کا بھی ایک اہم مقام ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی مظلوم شخصیت کے بارے میں استفسار کیا جائے تو مسلمانوں کی واضح اکثریت کی زبانوں پر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ ہی کا نام آجائے گا۔ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ قرنِ اوّل سے آج تک کے شہداءِ اسلام میں جتنا کچھ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ اور ان کی شہادت کے بارے میں لکھا اور کہا گیا، کسی دوسرے اسلامی شہید کے بارے
میرا افسانہ
قسط: ۱۲ چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ ہماری کمزوریاں: میرے مزاج کا عجب عالم ہے کہ حسن پرست کی طرح بے باک، پرتپاک اور عوام میں محبوب اور شرمسار ہوں، تاہم دوست اور دشمن کو نگاہ میں چھانتا ہوں اور ان کے عیب و ثواب کو جانتا ہوں۔ میری نکتہ چینی موجب دل شکنی نہ ہو تو بتاؤں کہ طلب صادق تھی۔ جیل کو کھیل سمجھ کر اندر آنا آسان ہے، بہادروں کی طرح خود داری سے بسر اوقات کرنا مشکل ہے۔ اگر باہر حکام کے سامنے گردن فرازی کا ثبوت دے کر جیل میں سرفگندہ ہونا ہو تو اس شوق قید و بند سے گھر کا آرام ملک کے لیے زیادہ مفید ہے۔ ان خیالات پراگندہ کو منضبط کرنے سے میری مراد یہ
شکور چشمے والا، عادتِ مرزا اور عالمی استعمار
منصور اصغرر اجہ تقسیم ہند سے قبل بھی ریاست حیدر آباد دکن میں ماہ ِ ربیع الاول خوب دھوم دھام سے منانے کی روایت موجود تھی جو کہ خاتم الانبیا ﷺ کی ولادت با سعادت کا مہینہ ہے۔ اس موقع پر سیرت پاک کے جلسوں میں علما و مشائخ علم و عقیدت کے موتی لُٹاتے۔ نعت گو شعرا بارگاہِ رسالت میں منظوم گلہائے عقیدت پیش کرتے۔ اس سلسلے میں ہر سال ایک بڑا جلسہ مفتی نور ضیا الدین نواب ضیا یار جنگ بہادر کی زیر صدارت بادشاہی عاشور خانہ میں انعقاد پذیر ہوتا جس میں علما ومشائخ اور عشاق کی کثیر تعداد شریک ہوتی۔ 20 ربیع الاول 1352ہجری کو بادشاہی عاشور خانہ میں منعقد ہونے والے اس جلسہ سیرت النبیؐ میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد
احرار کا چراغ مصطفویؐ…… قادیاں کا شرار بولہبی
قسط:۳ شورش کاشمیری رحمۃ اﷲ علیہ جب تک قائد اعظم زندہ رہے، چودھری ظفر اﷲ خاں چوکنا رہے۔ خاں لیاقت علی خاں کی شہادت تک اس نے زیادہ پاؤں نہ پھیلائے لیکن خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم ہو گئے۔ تو اس نے تمام حدود پھاند ڈالے اور بلا جھجک قادیانیت کے پھیلاؤ میں منہمک ہو گیا۔ میرزا بشیر الدین محمود نے اپنے خطبات میں زور دینا شروع کیا کہ ان کے پیرو تمام محکموں میں بھرتی ہوں اور اس طرح فوج، پولیس، ایڈمنسٹریشن، ریلوے، فنانس، اکاؤنٹس، کسٹمز اور انجینئرنگ پر چھاجائیں۔ (ملاحظہ ہو: الفضل ۱۱؍ جنوری ۱۹۵۲ء) اسی سال مرزا بشیر الدین نے خطبہ دیا کہ : ’’۱۹۵۲ء گزرنے نہ پائے کہ دشمنوں پر احمدیت کا رعب غالب آ جائے اور وہ مجبور ہو کر
اخبارالاحرار
لاہور(5اگست)مجلس احراراسلام کے بانی ،بطل حریت ،مجاہد ختم نبوت امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی دینی وملی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گزشتہ روز ایوان احرار نیومسلم ٹاؤن لاہور میں ایک سیمینار ہوا جس سے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے خطاب کیا ۔پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہدالراشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قادیانیت دنیاکابدترین فتنہ ہے اس فتنہ کوبے نقاب کرنااور انگریز سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کا عظیم کارنامہ تھایہ ہماری سعادت ہے کہ ہم ختم نبوت کے مشن کے ساتھ منسلک ہیں ،ختم نبوت کی دعوت کو دنیاکے کونے کونے تک پہنچایاجائے گااور فتنہ قادیانیت کا تعاقب پوری قوت کے ساتھ کرتے رہیں گے ہم اپنے اسلاف
مسافران آخرت
مسافران آخرت ٭ حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ: شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے اکلوتے فرزند و جانشین، حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی 10ذی الحجہ1440ھ ، مطابق 12؍ اگست 2019ء کو انڈیا میں انتقال کر گئے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ حضرت مولانا محمد طلحہ اپنے عظیم والد ماجد کی دینی و علمی روحانی نسبتوں کے امین تھے۔ دعوت و تبلیغ اور تربیت و اصلاح کے میدان اکابر اسلاف رحمہم اﷲ کے منہج پر استقامت کے ساتھ عمل پیرا رہے۔ ہزاروں انسانوں کی زندگیوں کو دین و شریعت کے قالب میں ڈھالا اور سیکڑوں غیر مسلموں کو اسلام کے نورانی دائے میں لا کر عذابِ جہنم سے بچایا۔ تمام عمر درس و تدریس سے وابستہ رہے