تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

آزادی مارچ …… اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

سید محمد کفیل بخاری جمعیت علماء اسلام اور متحدہ اپوزیشن کا آزادی مارچ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں کراچی سے شروع ہو چکا ہے۔ اعلان کے مطابق 27؍ اکتوبر کو کشمیریوں کے یومِ سیاہ کے موقع پر کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ، بلوچستان کے قافلے پنجاب سے ہوتے ہوئے 31؍ اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے، جبکہ خیبر پختون خوا کے قافلے اسی روز اسلام آباد پہنچیں گے۔ ایک سال کی مسلسل سیاسی محنت کے بعد بالآخر مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن کی 9جماعتوں کو اپنے مجوزہ آزادی مارچ میں شرکت پر آمادہ کر ہی لیا۔ آزادی مارچ کے پس منظر اور پیش منظر پر تجزیہ نگار و تبصرہ نگار حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ لکھ اور بول

سالانہ ختم نبوت کانفرنس اور حالات حاضرہ

عبد اللطیف خالد چیمہ 11،12 ربیع الاول 1441ھ کو چناب نگر (ربوہ) کی دوروزہ سالانہ ’’احرار ختم نبوت کانفرنس‘‘ میں اب ہفتہ عشرہ باقی ہے اور انتظامات بھی آخری مراحل میں داخل ہورہے ہیں جو کہ حافظ محمد ضیاء اﷲ ہاشمی (ناظم اجتماع) کی سربراہی میں انجام دیے جارہے ہیں۔ احرار کی ماتحت شاخوں کے لیے ہدایت نامہ (سرکلر) شامل اشاعت ہے۔ تمام ذمہ داران اس سرکلر کو توجہ سے پڑھ کر ہر ممکن طور پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں اور اس سالانہ کانفرنس کی دعوتی وتشہیری مہم کو تیز تر کردیں۔ یہ کانفرنس ایک ایسے ماحول میں منعقد ہورہی ہے جب وطن عزیز کے جغرافیائی و نظریاتی دشمن ’’تاک‘‘ میں بیٹھے ہیں۔ کشمیر لہولہان ہے اور منکرین ختم نبوت ہمارے دشمنوں کے

خشیت الٰہی کی حقیقت (درس قرآن)

مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمo ِاَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجْنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُھَا وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌم بِیْضٌ وَّ حُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُھَا وَ غَرَابِیْبُ سُوْدٌo وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ کَذٰلِکَ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌo (سورۃ الفاطر ۲۷،۲۸) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اسی ایک پانی سے قسم قسم کے پھل نکالے، جن کی رنگتیں مختلف ہیں اور ہر ایک کا مز ا اور خوشبو دوسرے سے جدا ہے۔ بہ اعتبار کمیت اور بہ اعتبار کیفیت کے اور باعتبار صورت کے اور بہ اعتبار لذت کے، ہر پھل دوسرے پھل سے مختلف ہے، حالانکہ مادہ

نور العیون فی سیرت الامین المامون صلی اﷲ علیہ وسلم

علامہ ابن سیّد الناس رحمہ اﷲ تعالیٰ / ترجمہ: ڈاکٹر ضیاء الحق قمرؔ نزول قرآن کریم کے ساتھ ہی نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کی مبارک زندگی کے حالات محفوظ ہونا شروع ہوگئے تھے اور (ورفعنالک ذکرک) سے تا ابد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذکر خیر کی قدر ومنزلت کی بھی خبر دے دی گئی ۔پھر اصحاب رسول نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے افعال واقوال جمع کرنے شروع کردیئے ۔آنے والے دور میں کتب مغازی کی صورت میں حیات طیبہ کا ذکرخیر چلا۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت پر مستقل کتب تصنیف کی گئیں جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے والی تھیں ۔ اس کے بعد مختصرات سیرت کا

ام المؤمنین سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا

مفتی عبدالغنی نظامی (چنیوٹ) ہجرت کے چھٹے سال کے بالکل آخر اور ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا بھر کے بڑے بڑے بادشاہوں کے نام خطوط ارسال فرمائے ۔ جس میں اس بادشاہ اور اس کی قوم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی،اس میں کہا گیا کہ اسلام لے آؤ سلامتی میں رہو گے اور دہرے اجر کے مستحق قرار دیے جاؤگے ورنہ دوسری صورت میں تمہاری قوم کے اسلام قبول نہ کرنے کا گناہ تمہارے اوپر بھی ہو گا۔اس کے بعد سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 64 اس میں درج فرمائی گئی اور خط کے آخر میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مہر مبارک لگائی گئی جواوپر نیچے تین سطروں پر مشتمل

ہماری دعوت

ابن امیر شریعت، مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ وہ شخص جواپنے آپ کومسلمان کہتاہے اسے کسی صورت میں یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ مسلمان کہلاتے ہوئے صرف دنیاکی زندگی کے لیے وقف ہوکے رہ جائے۔ صرف دنیاکی زندگی کے لئے جدوجہد تو کافروں اور مشرکوں کا مطمح نظر ہے۔ کیوں کہ موت کے بعد کی حیات طیبہ پر ان کا عقیدہ ویقین نہیں ہے اور مسلمان کہلانے والوں کا تو یقین ہی یہ ہے کہ اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِن ’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے۔‘‘(الحدیث) اَلدُّنْیَامِزْرَعَۃُ الْاَخِرَۃ ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘ (الحدیث) مؤمن کے لیے دنیا کی زندگی قید کی طرح ہے جو سعی وجہد اور محنت ومشقت سے عبارت ہے اور آخرت کی زندگی ‘اصل زندگی ،دائمی آزادی

مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کا قادیانیت سے تعلق واِنقطاع

ڈاکٹر عمر فاروق احرار مولانااکبرشاہ نجیب آبادی ہمارے شاندارماضی کے ناموراہل قلم تھے۔سیرت وسوانح،تاریخ ومعاشرت اور زبان وادب کے موضوعات پر ہمیشہ اُن کاقلم رواں رہا۔ایک دورمیں وہ قادیانیت کے فریب کا بھی شکارہوئے،مگر وہ اس معاملہ میں اکیلے نہ تھے،بلکہ قادیانیت کو اِسلام سمجھ کر اُس کے جال میں پھنسے والوں میں دیگرکئی ممتازشخصیات بھی شامل تھیں۔ جن میں بدقسمتی سے مولانا ابوالکلام آزادکے بڑے بھائی ابوالنصر غلام یٰسین آہ دہلوی (م1906ء) اور مولانا محمد علی جوہر کے برادر بزرگ ذوالفقار علی گوہر (م1956ء) بھی شامل تھے۔ جواں مرگ غلام یسین آہ شاعربھی تھے۔ اُن کا کلام ’’دیوان آہ‘‘ کے نام سے ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری نے مرتب کیا جو خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ سے شائع ہوا۔ غلام یٰسین آہ نے اپنے بیٹے

ختم نبوت ہماری آن ہماری پہچان

قاری محمدضیاء اﷲ ہاشمی اﷲ تعالیٰ کا ہم پر بے حد احسان ہے کہ اس ذات رحیم وکریم نے ہمیں مسلمان بنایا اور حضورخاتم النبین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا۔ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم وہ ذات ہیں جن کے لیے میرے اﷲ نے اس کائنات کو بنایا۔ اگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دنیا میں نہ آنا ہوتا تو یہ کائنات بھی نہ بنتی، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات سب نبیوں سے افضل واعلی ہے، اور حضورصلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب قرآن کریم تمام کتابوں سے اعلی ہے، حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کا کردار، اخلاق، معاملات، تجارت، غرض ہر چیز اعلی وبالا تھی، اسی لیے اﷲ نے حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی

اﷲ اﷲ (نعت رسول مقبول علیہ الصلاۃ والسلام)

ابو المجاہد زاہدؔ اُسی ذات اقدس کی مدح و ثنا کا شرف مجھ کو بخشا گیا، اﷲ اﷲ! کتاب مبین و منوّر میں خود بھی ثنا خواں ہے جس کا خدا، اﷲ اﷲ! یہ احسان جود و سخا، اﷲ اﷲ! ، یہ ایثار و فقر و غنا، اﷲ اﷲ! محمد نے سب کچھ دیا اس جہاں کو ، جہاں سے نہ کچھ بھی نہ لیا، اﷲ اﷲ! اندھیرے میں ڈوبی ہوئی بستیوں میں ، اسی نے چراغاں کیا، اﷲ اﷲ! کہ رہتا تھا اکثر دیا جس کے گھر کا ، سر شام ہی سے بجھا، اﷲ اﷲ ! بنا عرش بھی فرشِ پائے محمد، عروجِ حبیبِ خدا، اﷲ اﷲ! وہ سلطان ’’اسریٰ‘‘ وہ سرتاج ’’اقصیٰ‘‘ وہ مہمان رب العلا، اﷲ اﷲ! امام رُسل ہیں ،

اشکِ عشقِ نبی

محمد فیاض عادلؔ فاروقی (لندن) جو اَشک محمدا کی محبت کی عطا ہے مت روکنا بہنے سے کہ وہ آبِ شفا ہے جو جسم محمدا کی اطاعت میں فدا ہے اُس جسم پہ کب آگ جہنم کی روا ہے جو جان محمدا کی عقیدت میں فنا ہے ہے جان اُسی جاں میں، اُسی جاں کو بقا ہے مومن کو جہاں بھر سے ہیں محبوب یہی تین اصحابِ محمدا ہیں، محمدا ہیں، خدا ہے بے مثل پیمبرؐ سے کرے جو بھی محبت اس کے لئے محشر میں بھی بے مثل صلہ ہے دنیا میں بھی کیفیّتِ فردوس ہے اُس آن جس آن کہ دل حُبِّ محمدا سے بھرا ہے مولا ہمیں اک بار دکھا پھر سے مدینہ سَو بار بھی مانگیں تو یہی ایک دعا ہے

حضرت سیدنا ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ (جُندب بن جُنادہؓ)

راجا رشید محمود پسندیدہ رہا اسلام جُندب بن جُنادہؓ کا صحابہؓ میں بڑا ہے نام جُندُب بن جُنادہؓ کا غفاریؓ لائے غفارُ الذنوب اﷲ پر ایماں ہوا مشہور ’’ابوذر‘‘ نام جُندُب بن جُنادہؓ کا تقرب کا انھیں حاصل تھا درجہ بزمِ سرورﷺ میں یہ تھا سب سے بڑا انعام جُندُب بن جُنادا قناعت اور توکل تھی ابوذرؓ کی خصوصیت بتاتا ہے یہ ہر اقدام جُندُب بن جُنادہؓ کا مسلّم تھا تقدّس دینِ سرکارِ دو عالم ﷺ میں نتیجہ لایا استفہام جُندُب بن جُنادہؓ کا شغف ان کا تھا قرآن و احادیث پیمبر ﷺ سے یہی تو تھا مذاقِ عام جُندُب بن جُنادہؓ کا وہ ناجائز سمجھتے مال و دولت جمع کرنے کو بہت اس میں تھا استحکام جُندُب بن جُنادہؓ ا خلاف حکم رب یا

اقبال سے ہم کلامی

آغا شورش کاشمیری مرحوم کل اذان صبح سے پہلے فضائے قدس میں میں نے دیکھا کچھ شناسا صورتیں ہیں ہم نشیں تھے حکیمِ شرق سے شیخ مجدد ہم کلام گوش بر آواز سب دانشورانِ علم ودیں بوا لکلام آزاد سے غالب تھے مصروف سخن میر ومومن دورِ حاضر کی غزل پہ نکتہ چیں اس سے کچھ ہٹ کر گلابی شاخچوں کی چھاؤں میں تھے ولی اﷲ کے فرزند نکتہ آفریں ایستادہ سرو کے سائے میں تھے مولائے روم جن کے فرمودات میں مضمر ہیں آیات مبیں سوچ میں ڈوبے ہوے تھے حالی درویش خُو باندھ کر بیٹھے تھے حلقہ شبلی عہد آفریں میں نے بڑھ کر مرشد اقبال سے یہ عرض کی آپ کو ہم تیرہ بختوں کی خبر ہے یا نہیں دل شکستہ ہو

ذوالکفل بخاری کی یاد میں !

حبیب الرحمن بٹالوی پندرہ نومبر، دو ہزار …… نو کا ماہ و سال تھا پھولوں بھری اک ڈال تھا چشم و لب کی نازکی میں جسم و جاں کی تازگی میں آبِ شاخِ آرزو وہ پیکرِ جذبِ دروں ذوقِ طلب و اوجِ گل شاخچوں پہ موجِ گل وہ راہیٔ ملکِ عدم خوش طالع و روشن قدم چلتا رہا وہ دم بدم اتنا کہ پیچھے رہ گئے یہ کیقباد و دارا جم رفعتوں کی چاہ میں ’’عزیزیہ‘‘ کی راہ میں وہ مہر و ماہِ آسماں وہ باسیٔ خلدِ جناں 'بالائے ریگ زارِ شب لہو کی دھار زیر لب لے کے اپنے دو ش پر سوئے بریں وہ چل دیا اَجل نے مہر و ناز کو چاہتوں کا پھل دیا ’’جنت المعلیٰ‘‘ کے گورکن کا کہنا ہے

عزت مآ ب معا لی الشیخ عبد اللطیف آل شیخ وزیر مذہبی امور المملکۃ العربیہ السعودیہ حفظہ اﷲ تعالیٰ ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ!

’’لندن کے قادیانی لارڈ طارق احمد کے دورہ سعوری عرب پر مجلس احرار اسلام پاکستان کے امیر سید عطاء المہیمن بخاری اور ناظم اعلیٰ عبد اللطیف خالد چیمہ کی جانب سے سعودی وزیر مذہبی امور الشیخ عبد اللطیف آل شیخ کو بھیجا گیا خط۔ ‘‘(ادارہ) التاریخ: 19؍ صفر المظفر ۱۴۴۱ھ، 19؍ اکتوبر 2019ء حوالہ: 1.19.2019 بسم اﷲ الرحمن الرحیم عزت مآ ب معا لی الشیخ عبد اللطیف آل شیخ وزیر مذہبی امور المملکۃ العربیہ السعودیہ حفظہ اﷲ تعالیٰ ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ! گزار ش ہے کہ اخباری رپوٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ 18؍ ستمبر 2019ء کو برطانیہ سے قا دیانی جماعت کے رہنما لارڈ طارق احمد نے ایک وفد کے ہمراہ آنجناب سے ملاقات کی اور مذ ہبی آزادی کے عنوان سے

سچ کے آگے جھوٹ کی موت ……(گاہے گاہے باز خواں)

مولانا منظور احمد آفاقی مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اﷲ تعالیٰ کی خدمتِ اقدس میں مرزا قادیانی نے ایک ’’فیصلہ کن خط‘‘ بھیجا تاکہ (بزعم خویش) حق اور باطل میں امتیاز ہو جائے، چنانچہ یہ امتیاز ایسا ہوا کہ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو گیا، مرزا صاحب کا خط ملاحظہ فرمائیے۔ بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب۔ السلام علی من اتبع الہدیٰ۔ مدت سے آپ کے پرچہ ’’اہلحدیث‘‘ میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں مردود و کذاب ، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری، کذاب اور دجال ہے اور اس شخص کے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ سراسر افترا ہے۔

مرزا صاحب کی گل افشانیاں (قسط: اوّل)

شیخ راحیل احمد مرحوم مرزا غلام اے قادیانی، بانی جماعت (احمدیہ) کی زندگی، تحریروں اور اقوال، غرضیکہ ہر پہلو سے تضادات سے بھرپور تھی۔ اس طرح کی اور اتنی متناقض زندگی شاید ہی کسی کی ہو۔ بانی جماعت نے، ایک جگہ جو بات کہی یا لکھی، دوسری جگہ اس کی تردید یا اس کے متناقض بات لکھ دی یا کہہ دی۔ اور اس سلسلے میں نہ تو عام آدمی اور نہ ہی کوئی اُمت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ اور نہ ہی انبیاءِ کرام کو ان ’’سلطان الظلم‘‘ کے قلم کے ظلم سے پناہ ملی۔ ایک طرف امت مسلمہ کے عقائد سے مکمل اتفاق ظاہر کرتے ہیں اور دوسری طرف انہی عقائد کی جڑوں پر حملہ کرتے ہوئے قرآن و سنت کی تشریح کے نام پر

بیانِ صادق

( من جانب مجلس احرار اسلام بہ جواب جماعت اسلامی ، بہ سلسلہ تحریکِ ختمِ نبوت ۱۹۵۳ء ) (قسط اول) ماسٹر تاج الدین انصاری رحمۃ اﷲ علیہ (تاریخی تفصیلات کے مطابق جماعت نے اپنے پختہ اور قابلِ رشک دینی مزاج اور غیرت مندانہ سیاسی مؤقف کے زیرِ اثر آغازِ زندگی سے لے کر تقسیمِ ملک تک حصولِ آزادی کے لیے مختلف اوقات میں کوئی درجن بھر تحریکات چلائیں جو مجموعی طور پر کامیاب اور مفید و مؤثر ثابت ہوئیں اور ملک و ملت کے لیے ایک روشن مستقبل کی ضامن بن گئیں۔ بعد از تقسیم اس کے عظیم و قابلِ فخر اور انتہائی دور رس اثرات کے حامل کارناموں میں ’’تحریکِ مقدسِ تحفظِ ختمِ نبوت‘‘ کو بلند اور اہم ترین مقام حاصل ہے۔ جیسے فوج

میرا افسانہ قسط: ۱۴

مفکر احرار، چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ نہرو رپورٹ: ہندوستان ہر چند غلام تھا، لیکن چند آزاد منش لوگ سنٹرل اسمبلی میں جا پہنچے تھے۔ ان کی قوت بیان اور فکر آزاد کے مقابلہ میں انگریز افسر چوکڑی بھول گئے۔ عمل کی قوتوں سے محروم ہو کر قوم یوں بھی باتونی ہو جاتی ہے۔ خوش بیان انگریز اسمبلی کے ہندوستانی ممبروں کے مقابلہ میں عجمی معلوم ہوتا تھا۔ انگریز عمال دلائل میں شکست اٹھا اٹھا کر بہت زچ تھے۔ ہندوستان کی قوت فکر و دلائل کی دھاک چار دانگ عالم میں بیٹھ گئی۔ پریزیڈنٹ پٹیل نے ہمیشہ اپنی کمزرور اور غلام قوم کے مقاصد کو پیش رکھا، اسمبلی میں ان کے نت نئے فیصلے انگریز کے لیے سوہانِ روح تھے۔ سرکاری حلقوں میں ان

تبصرہ کتب

نام :مکاتیب نافع جلد اول ( حضرت مولانا محمد نافع قدس سرہ کے علمی مکتوبات) تحقیق وتعلیق:ڈاکٹر حافظ عثمان احمد ضخامت:۴۴۰صفحات قیمت: ۸۰۰روپے ناشر:رحماء بینہم ویلفیئر ٹرسٹ ملنے کا پتہ: دار الکتاب، 6/A یوسف مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور۔ مبصر: صبیح ہمدانی حضرت مولانا محمد نافع قدس سرہ زمانہ قریب میں اﷲ تعالی کی عظیم و جلی نشانیوں میں سے ایک بزرگ عالم دین تھے۔ اﷲ تعالی نے یوں تو انھیں بہت سے محاسن و مکارم سے نوازا تھا لیکن ان کی ما بہ الامتیاز خصوصیت حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان سے محبت و عقیدت اور اس محبت و عقیدت کے اعتقادی فرض کو تاریخی رطب و یابس سے پاک کر کے محکم و مستحکم علمی بنیادوں پر ثابت کر دکھانا ہے۔ ان کی

مسافرانِ آخرت

مسافرانِ آخرت حضرت مولانا بشیر احمد حسینی رحمۃ اﷲ علیہ: ممتاز عالمِ دین، محقق و مناظر، حضرت مولانا بشیر احمد حسینی 16؍ اکتوبر 2019ء کو شور کوٹ میں انتقال کر گئے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ حضرت مولانا بشیر احمد حسینی رحمۃ اﷲ علیہ نے عیسائیت پر بے پناہ مطالعہ کیا اور تحقیق میں منفرد مقام پایا۔ انھوں نے عیسائی پادریوں سے کئی مناظرے کیے، دلائل کی بنیاد پر انھی شکست دی اور اسلام کی حقانیت کا لوہا منوایا۔ کئی عیسائیوں نے اُن کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ مولانا حسینی رحمۃ اﷲ علیہ تنظیم اہل سنت، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور مجلس احرارِ اسلام کے زیر انتظام منعقد ہونے والے تربیتی و تعلیمی کورسسز میں تشریف لاتے۔ اندازِ تدریس انتہائی دل نشیں

نقیب

گزشتہ شمارے

2019 November

آزادی مارچ …… اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

سالانہ ختم نبوت کانفرنس اور حالات حاضرہ

خشیت الٰہی کی حقیقت (درس قرآن)

نور العیون فی سیرت الامین المامون صلی اﷲ علیہ وسلم

ام المؤمنین سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا

ہماری دعوت

مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کا قادیانیت سے تعلق واِنقطاع

ختم نبوت ہماری آن ہماری پہچان

اﷲ اﷲ (نعت رسول مقبول علیہ الصلاۃ والسلام)

اشکِ عشقِ نبی

حضرت سیدنا ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ (جُندب بن جُنادہؓ)

اقبال سے ہم کلامی

ذوالکفل بخاری کی یاد میں !

عزت مآ ب معا لی الشیخ عبد اللطیف آل شیخ وزیر مذہبی امور المملکۃ العربیہ السعودیہ حفظہ اﷲ تعالیٰ ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ!

سچ کے آگے جھوٹ کی موت ……(گاہے گاہے باز خواں)

مرزا صاحب کی گل افشانیاں (قسط: اوّل)

بیانِ صادق

میرا افسانہ قسط: ۱۴

تبصرہ کتب

مسافرانِ آخرت