حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ
سید محمد کفیل بخاری 22مارچ کو عالمِ اسلام کی عظیم علمی شخصیت حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم پر اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا جب وہ مسجد بیت المکرم میں نمازِ جمعہ کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ اس حملے میں مولانا کے دو محافظ شہید ہو گئے جبکہ ڈرائیور حبیب شدید زخمی ہو گیا۔ اﷲ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے مولانا محمد تقی عثمانی محفوظ رہے۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کی عظیم علمی و روحانی شخصیت ہیں۔ وہ شریعت کورٹ کے جج اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے۔ اس وقت بھی عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کے علماء نے اپنے اپنے اداروں میں انھیں رکنیت اور اہم مناصب دے
ذکر ودعا کے باطنی پہلو(سیرتِ نبوی کی روشنی میں)
مولانا مفتی محمد عبد اﷲ شارق ایک خالی الذہن آدمی کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ایک بہت بڑا عنصر جو نظر آتا ہے، وہ ذکر اﷲ، یادِ الہی اور خدا مستی کا عنصر ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دن اور رات، آپ کی نشست وبرخواست، آپ کی آمد ورفت، آپ کی دعوت، آپ کی تعلیم وتربیت، آپ کا جہاد، لوگوں سے میل ملاپ، سونا اور جاگنا، کھانا اور پینا، حوائجِ ضروریہ کی ادائیگی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جلوت اور خلوت، آپ کا چلنا اور رکنا، دیکھنا اور سننا…… غرضیکہ کوئی بھی عمل ذکر اﷲ اور یادِ الہی کے عنصر سے خالی نہ تھا۔ ذکر اﷲ اور یادِ الہی کا مفہوم صرف یہ نہیں کہ آدمی ہر
جانشین مصطفی ﷺ اور اہل بیت مصطفی ﷺ
محمد یوسف شیخوپوری تاریخ اسلام کے مسلّمات میں سے ہے کہ جب بھی قبولیتِ اسلام میں تقدّم، اوصافِ حمیدہ اور مکارمِ اخلاق میں شرف افضلیت اور کمالاتِ نبوّت میں کامل عکس و مشابہت کا سوال کیا جائے تو فوراً خلیفہ بلا فصل، امام الصحابہ، تاجدار صدق و وفا، یارِ غار و مزار سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا نام زبانوں پہ جاری ہو جاتا ہے، جو بالاتفاق افضل البشر بعد الانبیاء ہیں۔ محبوب دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جو حق رفاقت آپ نے ادا کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے، جو ہمیشہ عُشّاقِ رسالت کے لیے روشنیوں کا مینارہ اور تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’’دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے‘‘۔ اپنے پاک
مسلمانوں کی تباہی کے اسباب
شیخ الحدیث، حضرت مولانا محمد زکریا رحمۃ اﷲ علیہ قسط : 3 حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ عفو وہ ہے جو اہل و عیال سے بچ جائے۔ یہاں ایک چیز اور بھی غور کرتے چلو کہ غریب کی مدد اور غربت کے ازالہ کا تصورجس کو آج کل بہت ہی اہمیت دی جا رہی ہے، کیا اسلامی تعلیم سے بہتر کہیں مل سکتا ہے؟۔ ایک شخص کو مجبور کرنا کہ اپنی آمدن پر ظالمانہ ٹیکس ادا کرے، اور دوسرا شخص وہ جو اپنی ضرورت سے زیادہ کچھ نہ رکھے اور برضا و رغبت سب کچھ غریبوں میں خرچ کر دے۔ دونوں نظریوں میں کتنا فرق ہے کہ پہلا ظلم محض ہے۔ دوسرا خیر محض۔ پہلے میں حوصولوں کو پست کرنا ہے،
خوش اخلاقی
شاہ بلیغ الدین رحمہ اﷲ پوچھا گیا آدمیوں میں اچھا کون ؟ ہے اور اﷲ کے پاس اچھا کون ؟ جواب ملا کہ…… جن کے اخلاق اچھے ہوں۔ سوال ہوا کہ …… اچھے اخلاق سے کیا مطلب ہے جواب ملا کہ…… ایک مرتبہ ایک صاحب اﷲ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا کہ…… میرے لیے کوئی نصیحت! ارشاد ہوا کہ…… غصہ نہ کر۔ انھوں نے بار بار پوچھا کہ کوئی اور نصیحت! ارشاد ہوا کہ غصہ نہ کر۔ بخاری اور مسلم میں ہے کہ جو اپنے غصے پر قابو رکھے، وہ بڑی قوت والا، بڑا پہلوان ہے۔ غصہ سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتا ہے۔ غصہ ایک آگ ہے، جب یہ بھڑکتا ہے تو اچھی چیزوں کو جلا دیتا ہے…… صبر کو،
تحریکِ نسواں کا تاریخی پس منظر مریم جمیلہ
متر جم:خا لد امین (اسسٹنٹ پر وفیسر،شعبہ اردو جامعہ کراچی) (حال ہی میں ۸؍مارچ۲۰۱۹ء خواتین کے دن کے موقع پر فریئر ہال کراچی میں’’خواتین مارچ‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس میں اس دن کی مناسبت سے حقوق نسواں کی سرگرم تنظیموں نے شرکت کی، اور عورتوں پر ہونے والے مظالم کی دردناک تصویر پیش کرکے دنیا سے یہ مطالبہ کیا کہ ہمیں عزت نہیں، ہمیں انسان تسلیم کیا جائے۔ اس جملے کے ساتھ ساتھ کئی ایسے جملے بھی موجود تھے جنہیں پڑھ کر اس تحریک کے پس پردہ مقاصد کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’میرا جسم میری مرضی‘‘، ’’یہ چاردیواری، یہ چادر گلی سڑی لاش کو مبارک‘‘، ’’کھانا گرم نہیں کرنا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ بہ ظاہر یہ نعرے اپنے اندازِ فکر میں جس تاریخی پس منظر
ہماری ’’بعض‘‘ این جی اوز اور تبدیلی مذہب کا مسئلہ
ابوبکر قدوسی آپ نے الف نون ڈرامہ سیریل تو دیکھی ہوگی، اس میں ننھا جب پیٹ پر ہاتھ مار کے اسے پاپی پیٹ قرار دیتا ہے تو اس اک جملے میں ہماری تمام این جی اوز کی کہانی آ جاتی ہے جو معاشرے میں ''الن'' کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مجھے ان معصوم دوستوں پر بہت ترس آتا ہے جو ان این جی اوز کو واقعی اقلیتوں ہمدرد، مظلوموں کا ساتھی اور عورت کے حقوق کی علمبردار سمجھتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر سندھ میں تبدیلی مذہب کا ایشو گرم ہے۔ اس میں ہماری ان این جی اوز کا کردار خاصا مکروہ ہے، ہمیشہ کی طرح یہ تنظیمیں اپنے پاپی پیٹ کی خاطر ہندوؤں کی قیمت وصول کر رہی ہیں۔ پہلی بات تو
نعت رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم
یوسف طاہرؔ قریشی حضورؐ نے جہاں کا ایک ایک غم مٹا دیا قدم قدم پہ ہو رہا تھا جو ستم مٹا دیا رسولِ پاکؐ نے وہ یاد کس طرح کرا دیا سبق جو اتّحاد کا بشر نے تھا بھلا دیا ہٹے ہوئے تھے لوگ جس صراط مستقیم سے نبیؐ نے خوش سلیقگی سے سب کو وہ دکھا دیا غلط حروف کی طرح مٹائے کفر زار سب قدم قدم پہ وحدتوں کا گلستاں کھلا دیا پریم پیار کا پیام لائے پاک مصطفیؐ بشر بشر کو کُوبکُو نگر نگر سنا دیا میرے رسولِ پاکؐ کی جدھر جدھر نظر اٹھی ادھر ادھر کرم کا دیپ جابجا جلا دیا نشاط و انبساط کی بساط ایک بچھ گئی دکھوں کی لہر کو خوشی کی ریت پر سلا دیا غرور ،
حضرت عطاء المؤمن بخاری کے سانحہ وفات کے ایک برس بعد
پروفیسر خالد شبیر احمد کیا افتخارِ عشق تھا وہ شوکتِ جنوں وہ داستانِ سطوتِ کردار کا فسوں ہم سے بچھڑ کے گھو گیا وہ دُرِّ تاب دار ملکِ عدم کا ہو گیا وہ اپنا افتخار حرفوں میں اس کے چاندنی سوز و گداز کی ہر بات ہی انوکھی تھی اس پاکباز کی جذب و جنون و عشق کی بہار پرُوقار اس دور میں اسلام کی اک تیغِ تابدار اس کے خیال و فکر میں قوسِ قزح کے رنگ
مردہ بدست زندہ
فرحت اﷲ بیگ زمانے نے خلوص دلوں سے مٹا لیا ہے۔ سچی محبت کی جگہ ظاہر داری نے لے لی ہے۔ نہ اب جینے میں کوئی سچے دل سے کسی کا ساتھ دیتا ہے اور نہ مرنے کے بعد قبر تک دلی درد کے ساتھ جاتا ہے، غرض دنیا داری ہی دنیا داری رہ گئی ہے۔ پہلے کوئی ہمسایہ مرتا تھا تو ایسا رنج ہوتا تھا کہ گویا اپنا عزیز مر گیا ہے، اب کوئی اپنا بھی مر جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر مر گیا۔ جنازے کے ساتھ جانا اب رسماً رہ گیا ہے، صرف اس لیے چلے جاتے ہیں کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ واہ، جیتے جی تو دوستی و محبت کا یہ دم بھرا جاتا تھا، مرنے کے بعد
میرا افسانہ
مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ قسط:۷ فاقہ کشی: اب میں ملزم سے مجرم بن گیا تھا۔ لباس جیل سے بندہ کو بندر بنانے کی کسر باقی تھی۔ شام کے قریب بھگت سنگھ کو چہل قدمی کے لیے کھولا گیا، اس کے ہاتھوں میں آبلے اور آنکھیں نم ناک تھیں۔ عام طور پر اکثر اضلاع میں نمبر دار نادار ہوتا ہے، مگر آپ کھاتے پیتے گھر کے خاصی جائیداد کے تن تنہا وارث تھے اور بیوہ ماں کے ایک ہی بیٹے تھے۔تحریک ترک موالات سے قبل آپ کی شان ملاحظہ طلب تھی، بوٹ سوٹ، کالر ، نکٹائی سے کام تھا۔ افسر جس کے ہمرکاب ہوتے ماتحت معلوم ہوتا۔ معافی موت تھی اور مشقت دشوار ، بے چارہ و حیران تھا۔ میں نے انھیں
رودادِ احرار طبّی امدادی کیمپ ملتان سنہ ۱۹۶۸ء
محمود احمد ایم اے (قسط: ۱) یہ روداد مجلس احرار اسلام پاکستان کے موجودہ مرکزی نائب امیر پروفیسر خالد شبیر احمد صاحب کی تحریر کردہ ہے جسے انہوں نے اس وقت ’’محمود احمد ایم اے‘‘ کے قلمی نام سے تحریر کیا۔ ‘‘ (ادارہ) آغازکیمپ : ۱۸؍ محرم الحرام ۱۳۸۸ھ مطابق ۱۸؍ اپریل ۱۹۶۸ء جمعرات اختتام کیمپ: ۲۹؍ صفر المظفر ۱۳۸۸ھ مطابق ۲۸؍ مئی ۱۹۶۸ء منگل جسم و روح کے خالق اور الہام و توفیقِ خیر کے مالک کا فضل و کرم شاملِ حال نہ ہو تو عمل اور نیت تو درکنار، اس کا خیال و تصور بھی دل و َکے قریب نہیں پھٹک سکتا۔ پروردگارِ عالم کا احسانِ عظیم ہے کہ انھوں نے مجلس احرارِ اسلام کو اس کے روز بنیاد سے لے کر ہمیشہ
تبصرہ کتب
نام: مسنون لباس مصنف: مولانا حافظ سید لیاقت علی شاہ نقشبندی ناشر: مکتبہ غفوریہ، نزد جامعہ اسلامیہ درویشیہ، بی بلاک، سندھی مسلم سوسائٹی کراچی۔ ضخامت:۴۶۴ صفحات قیمت: درج نہیں اسلام کا ایک امتیاز یہ ہے کہ یہ ایک مکمل دین ہے۔ اس میں دنیا کی جامعیت بھی ہے اور زمانے اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے مکمل رہنمائی بھی۔ جس طرح یہ ایک نظامِ عبادت ہے، اسی طرح ایک نظامِ زندگی اور دستور العمل بھی ہے۔ اس نظام زندگی میں سیاست و معیشت سے لے کر تہذیب و تمدن اور معاشرت تک سارے ہی معاملات کے لیے ہدایات اور تعلیمات دی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ لباس کے آداب اور احکام بھی شریعت اسلامیہ کے بیان کردہ ہیں اور لباس کے معاملہ میں بھی شرعی
اخبارالاحرار
14ویں سالانہ شہداءِ ختمِ نبوت کانفرنس، دارِ بنی ہاشم ملتان رپورٹ: ملک محمد قاسم ماہِ مارچ ہمیں 1953ء کے اُن عظیم دس ہزار شہدائے کرام کی یاد دلاتا ہے، جنھوں نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت پر پیش کیا، ان شہداء کا خون ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ بات اگر حضور کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت پر ہو تو جان کا سودا سستا ہے۔ ان شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے مختلف شہروں میں مختلف مجالس کا انعقاد کیا گیا۔ الحمد ﷲ! بفضلِ خدا، اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مجلس احرار اسلام پاکستان کی جانب سے بھی دارِ بنی ہاشم ملتان میں 14ویں سالانہ شہدائے ختمِ
مسافرانِ آخرت
گڑھا موڑ مجلس احرار اسلام کے کارکن ربنواز سیال کی بھاوج یکم فروری کو انتقال کرگئیں۔ مجلس احرار اسلام ملتان کے سرپرست و سابق امیر صوفی نذیر احمد مرحوم 6 ؍ مارچ کو انتقال فرماگئے۔ نماز جنازہ 7 مارچ کو جامعہ قاسم العلوم گلگشت ملتان میں ادا کی گئی جس میں قائد احرار اسید عطاء المہیمن بخاری، سید محمد کفیل بخاری ،سید عطا ء اﷲ ثالث بخاری، سید عطاء المنان بخاری، مولانا محمد اکمل سمیت مدرسہ معمورہ کے مدرسین، علماء طلباء، کارکنان احرار اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ مرکز احرار جامع مسجد احرار، نیو ماڈل ٹاؤن گجرات کے پڑوسی اور احرار کارکن بھائی محمد افضل 9؍ مارچ کو انتقال کرگئے۔ حسن معاویہ ولد علی