نواز شریف کو سزا، زرداری منتظر، مکافات عمل
سید محمد کفیل بخاری نیب کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید، اڑھائی کروڑ ڈالر، پندرہ لاکھ پاؤنڈ (تقریباً پونے چار ارب روپے) جرمانہ، العزیزیہ اور ہل میٹل جائیدادیں ضبط کرنے کی سزا سنادی۔ نواز شریف کو عدالت سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل راولپنڈی اور بعد ازاں کیمپ جیل لاہورپہنچا دیا گیا۔ جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا۔ دلچسپ اور معنی خیز امر یہ ہے کہ فلیگ شپ ریفرنس میں سپریم کورٹ نے انہیں نا اہل کر کے وزارت عظمی سے فارغ کیا تھا اور ریفرنس تحقیقات کے لیے نیب کو بھیج دیا تھا، نیب نے اس کیس میں انہیں بری کردیا۔ نواز شریف کے سیاسی مخالفین اس سزا کو جو بھی رنگ دیں لیکن ہمارے
انتہا پسندی برداشت نہیں کریں گے !
عبداللطیف خالد چیمہ صدر مملکت عارف علوی،وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہاہے کہ ’’ملک میں کسی بھی طرز پر انتہا پسندی اور تشدد کو برداشت نہیں کریں گے ۔‘‘(روزنامہ ’’جنگ‘‘لاہور ،17 ۔ دسمبر2018 ء) ہم تینوں شخصیات اور مقتدر حلقوں کے اِس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں دینی حلقوں کا تعاون اظہر من اشمس ہے ،اب سوال پیدا ہوتا ہے اِنتہا پسندی کا مرتکب کون یا کون سے حلقے ہورہے ہیں ،ابھی تک اس بات کا معروف معنوں میں تعین نہیں کیا گیا۔جہاں تک انتہا پسندی ،شدت پسندی اور دہشت گردی کا تعلق ہے تو اسلامی تعلیمات نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت نہیں دیتی بلکہ اِس کی مکمل نفی کرتی ہیں ،اسلام
ائمہ و خطباء کے لیے سرکاری خطبہ کی پابندی
مولانا زاہد الراشدی گزشتہ ہفتہ کے دوران مختلف دینی جماعتوں کے راہنماؤں سے ملاقات اور ملکی صورتحال پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ اتوار کے روز قاری محمد عثمان رمضان اور حافظ شاہد الرحمان میر کے ہمراہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات ہوئی اور دیگر امور کے علاوہ حضرت مولانا سمیع الحقؒ کی شہادت کے بعد کی صورتحال پر باہمی مشاورت ہوئی، نیز جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) اور دفاع پاکستان کونسل کی سرگرمیوں اور عزائم سے آگاہی حاصل کی۔ میری اس گزارش سے انہوں نے اتفاق کیا کہ تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالتؐ کے محاذ پر تحریکی ماحول میں مسلکی حوالہ سے جو تفریق پیدا کر دی گئی ہے
ضروری اعلان
ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ ملتان، تیس برس سے (2018-1988) الحمد ﷲ باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے اور اپنے قارئین کو عقائداہل سنت والجماعت، سیرت و تاریخ، حالات حاضرہ، تاریخ احرار پر علمی مضامین بالخصوص محاسبۂ قادیانیت، دہریت و لادینیت کے حوالے سے فکر انگیز تحاریر پیش کر رہا ہے۔ گزشتہ کئی برس سے مہنگائی کے باوجود ادارہ نے رسالے کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا اور خود پر اس بوجھ کو برداشت کررہا ہے لیکن اب کاغذ، طباعت اور ڈاک کے اخراجات میں روز افزوں اضافے سے ادارہ کو نقصان ہورہا ہے جسکا ادارہ متحمل نہیں لہٰذا جنوری 2019ء سے ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ کی قیمت فی شمارہ 30روپے اور زر سالانہ 300روپے ہوگا۔ امید ہے احباب وقارئین پہلے کی طرح تعاون جاری رکھیں گے۔
’’اکھنڈ بھارت‘‘کا کھیل؟
شاہنواز فاروقی پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں کو نہ بھارت سے دوستی کرنی آئی، نہ بھارت سے دشمنی کرنی آئی۔ اصول ہے: دوستی وہ نبھاتا ہے جو اپنی انا کو دوستی پر قربان کرسکے۔ اور دشمنی وہ کرسکتا ہے جو اپنی انفرادی اور اجتماعی انا پر اصرار کرے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بھارت کے سامنے قربانی پیش کرتا ہے تو اپنے نظریے کی، اپنی تہذیب کی، اپنی تاریخ کی۔ رہا اپنی انا پر اصرار کا معاملہ، تو امریکہ اور بھارت کے سامنے ہمارے حکمران طبقے کی کوئی انا ہی نہیں ہوتی… نہ انفرادی انا، نہ اجتماعی انا۔ امریکہ اور بھارت کے سامنے آتے ہی ہمارے حکمرانوں کی انا کا الف غائب ہوجاتا ہے اور وہ کہنے لگتے ہیں:
عمران خان اور مدینے جیسی ریاست؟
پروفیسر خالد شبیر احمد مسندِ حکمرانی پہ براجمان ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی عمران خان یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ وہ پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنا دیں گے۔ یہ تو پاکستان بنانے والوں نے بھی کہا تھا کہ ہم ایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں، جس میں خلفائے راشدین کے دور کے نظارے پیشِ نظر رہیں گے۔ لیکن افسوس صد افسوس ایسا نہ ہوا سکا اور یہ سب جھوٹ ثابت ہوا۔ عمران خان کے تو منہ پہ یہ بات سجتی ہی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ یا پھر پنجابی کی ایک کہاوت ہے ’’پلّے نئیں دھیلہ تے کر دی اے میلہ میلہ‘‘۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان یہاں
عالمی بے حسی کا شکار برما کے روہنگیا مہاجرین
سید شہاب الدین شاہ قارئینِ گرامی! آج کے گلوبل ویلج کے اظہاری اور ابلاغی دور میں جہاں چھوٹی سی خبر چند لمحوں میں پوری دنیا کے مین اسٹریم میڈیا کی بریکنگ نیوز بن سکتی ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ خبروں کا شوروغل میڈیا مالکان کے مفاد میں ہو تو چٹخارے دار نیوز بنتی ہے ورنہ فلسطین،شام ،کشمیر برما اور دیگر ایسے ممالک جہاں تاریخ انسانی کی بد ترین ستم گریاں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں،چونکہ اس میں عالمی سرمایہ داری کا کچھ مفاد نہیں اور میڈیا ٹائیکونز کو اس میں مسالہ دار کشش نہیں دکھتی لہٰذا میڈیا اسے کسی خاطر میں نہیں لاتا۔آج میں ایک ایسی بستی کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جہاں بظاہر انسان بستے ہیں لیکن دہائیوں سے چھائی
ایک اچھا استاد
حبیب الرحمن بٹالویؔ آج کے نظام تعلیم کا تعلق مغربی تہذیب سے ہے جو انسان کو انسان نہیں بناتی صرف اس کا طرز زندگی بدلتی ہے۔ اچھے سے اچھا جاب، اچھے سے اچھا گریڈ، اچھے سے اچھی کالونی میں رہائش جو طرز زندگی میں تبدیلی لاسکے، زندگی کو پرتعیش بناسکے۔ مگر یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بچے کی پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسے کا حصول، جو معاشرہ نہیں کرنا چاہتا وہ پیسے کے زور پر کرایا جاسکے۔ یہی نظریہ ہمارے نظام تعلیم کی دین ہے اور یہی بات ہمارے طالب علم کو اپنی زندگی کے مقصد سے دور لے جارہی ہے کہ آپ اپنے بچے کو اس نظام تعلیم کی روشنی میں تیار کریں۔ ہر طرح
حضرت اُمِّ ایمن…… رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اَنّا
آخری قسط مولانا ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی مرض و وفاتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم: حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ، ایک عظیم ترین سانحہ تھا اور آپ کے صحابۂ کرام نے اس کو اپنے اپنے نقطۂ نظر سے دیکھا تھا، اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیماری کا ردِ عمل اہلِ بیت اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم پر الگ الگ ہوا تھا، لیکن صدمہ، تکلیف اور پریشانی یکساں طور سے سب کو ہوئی تھی، دوسرے اہل بیت کی طرح حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا بھی صدمہ سے دوچار ہوئی تھیں اور شاید ان کا صدمہ اندوہناک تر تھا کہ انھوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہلے دن سے آخر تک اپنے بچے کی مانند
دامادِ علی اور خاندانِ علی رضی اﷲ عنہ
مولانا محمد یوسف شیخوپوری گلشنِ اسلام کے بانی و باغبان نے جس سدا بہار پودے کو خالقِ کائنات سے خود مانگ کر لیا تھا، جس نے اس گلشن میں محیّرالعقول توسیع کر کے اس کو نمونہ بہشت بنایا، آمن و آشتی میں رشکِ جنت بنایا، اسلامی سلطنت کو قوت و اہتمام میں ایک ناقابلِ تسخیر قلعہ بنایا، دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں، ایران و روم کی مادی قوتوں اور یہودیت و نصرانیت، مجوسیت و سبائیت، بت پرستوں اور ستارہ پرستوں کی فکری و عملی طاقتوں پر ایسی کاری ضربیں لگائیں کہ وہ مدتوں سر نہ اٹھا سکیں۔ جو اسلام کی مکمل تاریخ بھی ہے اور تاریخ ساز بھی، چنانچہ اس ہستی کو خسر نبی اور دامادِ علیؒ کہتے ہیں، انھیں فاتح عرب و عجم سیدنا
اسلامی تاریخ کا عظیم سپوت جواد ساباطی رحمہ اﷲ
شاہ عالم گورکھپوری اب سے تقریباً دو سو سال قبل ہندوستان میں انگریزوں اور عیسائی پادریوں نے عیسائی حکمرانوں کے تعاون سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر خفیہ سازشوں کا ایک جال بچھایا اور اپنی خفیہ تدبیروں میں کامیابی کے زعم میں انھیں یقین ہوگیا تھا اب مسلمانوں کو نصرانی بنانے میں کوئی دقت نہیں پیش آسکتی ۔ ایسے وقت میں خدائے عزیز و حکیم نے اسلام اورمسلمانوں کی دستگیری کے لیے جن خوش بخت شخصیات ؒ کو کھڑا کیا تھا؛ان میں سے ایک کا نام جواد ساباطی ؒہے جن کی عیسائیوں کے خطرناک منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے تالیف کی گئی شاندار کتاب کا نام ’’ البراہین الساباطیہ ‘‘ ہے ۔ جواد ساباطیؒ کی ولادت،بمقام ماریہ ۱۷۷۴ء میں ہوئی ۔
میرا افسانہ
قسط ۴ چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ ایک دن شام کے وقت میں تھانہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک سکھ اب شراب میں مست تھانہ میں آیا اور محرر سے جھگڑنے لگا۔ میں نے تھانہ سے باہر نکال دینے کے لیے کہا، چنانچہ وہ نکال دیا گیا۔ دوسرے روز ڈاکہ کی واردات کی اطلاع آئی، مجھے بتایا گیا کہ گزشتہ شام کے شرابی سکھ کا گاؤں ہے، جہاں واردات ڈکیتی ہوئی۔ میں نے فوراً سارا معاملہ سمجھ لیا کہ یہ شراب پی کر کیوں تھانہ میں آیا تھا، اس کا مقصد یہ تھا کہ شب واردات، اس کی تھانہ میں موجودگی ثابت ہو۔ میں نے کانسٹیبلوں سے کہا کہ اس کی تلاشی کرو، یہ شخص ضرور شاملِ واردات ہے اور ڈکیتی کا انتظام
جماعت احمدیہ…… تحریفات اور جعل سازیاں
قسط: ۲ تحریر: عکرمہ نجمی/ ترجمہ: صبیح ہمدانی اوپر مرزا صاحب کی جو تکفیری عبارت منقول ہوئی اور جس طرح جماعت احمدیہ نے اس کو تحریف اور جعل سازی کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی اس کے ایک مزید ثبوت کے طور پر ’’تذکرہ‘‘ کے انگریزی ایڈیشن سے بھی شواہد دستیاب ہوئے۔ یعنی عربی تذکرہ کی صفحہ ۶۶۲ کی عبارت ’’لقد کشف اﷲ علیَّ أن کلَّ من بلغتہ دعوتی ولم یصدِّقنی فلیس بمسلم، وہو مؤاخذ عند اﷲ تعالی‘‘ یعنی اﷲ نے مجھ پر کھول دیا ہے کہ جس شخص تک میری دعوت پہنچی اور اس نے میری تصدیق نہیں کی وہ مسلمان نہیں ہے اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں مأخوذ ہے۔ ’’تذکرہ ‘‘ کے انگریزی ایڈیشن کو اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھا
’’اکھنڈ بھارت‘‘اور قادیانی
آغا شورش کاشمیری کی دو تحریروں سے اقتباس اب قادیانی امت کی استعماری تیکنیک (Strategy)یہ ہے کہ وہ استعمار کے حسبِ منشا پاکستان کی ضرب تقسیم میں حصہ لے کر سکھوں کے ساتھ پنجاب کو علیحدہ قادیانی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ اس غرض سے عالمی استعمار اس کی پشت پناہی کررہا ہے، اور وہ اس کے لیے مختلف ملکوں میں جاسوسی کے فرائض انجام دے رہی ہے۔ اس کی جاسوسی کا جال وسیع ہوگیا ہے۔ اس غرض سے اس نے اسرائیل کے گردو پیش حجاز و اردن میں فضائیہ وغیرہ کی تربیت کے لیے نہ صرف قادیانی پائلٹ بھجوائے ہیں بلکہ ان ملکوں میں استعماری کاروبار جاری رکھنے کے لیے ہر سال ڈاکٹروں، انجینئروں اور نرسوں کی ایک بڑی کھیپ بھیجی جا رہی ہے۔ پاکستان
قادیانیوں کا مرکز انسداد تجاوزات مہم سے محفوظ
مرزا عبد القدوس پورے ملک میں کسی جگہ سپریم کورٹ کے حکم پر اور کہیں انتظامیہ نے عوامی مفاد میں اپنے طور پر تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کر رکھے ہیں۔ لیکن قادیانیوں کا مرکز چناب نگر (پرانا نام ربوہ) انسداد تجاوزات مہم سے محفوظ ہے ۔ وہاں کی مقامی جماعتوں کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود قادیانیوں کی غیرقانونی عمارتوں کیخلاف کارروائی کیلئے چنیوٹ کی ضلعی انتظامیہ یا صوبائی انتظامیہ تیار نہیں ہے ۔ چند ہفتے قبل اس سلسلے میں مجلس احرار اسلام پاکستان کی مقامی شاخ نے چناب نگر میں آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی، جس کا مقصد گزشتہ دہائیوں میں قادیانیوں کی جانب سے تعمیر کی گئی غیر قانونی عمارات پر مشترکہ موقف اپنا کر سرکاری حکام کو اس طرف توجہ