تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں

سید محمد کفیل بخاری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان اور حالیہ دورۂ امریکہ میں مختلف مواقع پر اُن کی گفتگو کے بہت چرچے ہیں۔ انہوں نے اسلام فوبیا، توہین رسالت اور مسئلہ کشمیر پر بہترین تقریر کی جوپاکستا نی عوام کے دینی وقومی جذبات کی ترجمانی تھی۔ انہوں نے کہا کہ: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے دلوں میں رہتے ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اہانت پرہمارے دلوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ مغربی ممالک نہیں جانتے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہمارے دلوں میں کیا مقام ہے اسلام ایک ہی ہے جو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیش کیا، باقی سب دو نمبرہے۔ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا غلط ہے۔ اس

42 ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر (12-11 ربیع الاوّل 1441ھ)

عبداللطیف خالد چیمہ 7؍ ستمبر 1974ء کوپارلیمنٹ کے فلور پر لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اور 1975ء میں ربوہ میں قائد احرار سید عطاء المحسن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ اور ان کے دیگر رفقائے کرام کا ربوہ میں آنا جانا شروع ہوا، ڈگری کالج کے قریب ایک قطہ ٔ زمین بڑی تگ و دو کے بعدخریدا گیا، جہاں27؍ فروری 1976ء کو پہلی نماز جمعتہ المبارک کا اعلان کیا گیا۔ ملک بھر میں اس کا پرجوش خیر مقدم کیا گیا، تحریک طلباء اسلام کے ناظم اعلیٰ بھائی محمد عباس نجمی مرحوم کو ایک روز قبل فیصل آباد سے گرفتار کرلیا گیا ،ربوہ میں پہلے جمعتہ المبارک کا اعلان ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا، لوگ دیوانوں کی

یومِ فتح قادیان

عبداللطیف خالد چیمہ بر ٹش ایمپا ئر نے مسلمانوں سے جذبۂ جہاد ختم کرنے اور فرقہ واریت کوپروان چڑھا نے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں فتنۂ اِرتداد ِ مرزائیہ کو کھڑا کیا ،مرزا غلام احمد قادیانی نے مسیلمۂ کذاب کی جانشینی کا حق ادا کیا اور قادیانی جماعت نے اپنے آقاؤں کی تابعداری میں تنسیخ جہاد کے لئے پورا زور لگا دیا ،بہت سے مؤثر سرکاری اداروں میں قادیانیوں نے رسوخ حاصل کرلیا اور بعض سرکاری محکموں میں قادیانی سفارش سے بھر تی ہونے لگے، قادیان میں مرزائیوں نے اپنی اکثریت کے زعم میں انسانیت پر جو ظلم روا ء رکھا ،اس قصبہ کی غیر مرزائی آبادی کو جس طرح پریشان کیا ،قادیان میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد

جوگرجتے ہیں وہ برستے نہیں

حامد میر ناکامی یا غلطی کو تسلیم کرنے والے لوگ بہادر کہلاتے ہیں۔ ناکامی پر بہانے تراشنے اور ناکامی کو چھپانے کیلئے جھوٹ بولنے والے لوگ صرف بزدل نہیں بلکہ ناقابل اعتبار بھی ہوتے ہیں۔پاکستانی قوم سے بھی ایک بہت بڑی ناکامی کو چھپایا جا رہا ہے۔ جو بھی اس ناکامی کی وجہ جاننے کیلئے سوال اٹھائے گا اسے غدار، کرپٹ اور نجانے کیا کیا کہا جائے گا لیکن سوال تو اٹھے گا اور اس مرتبہ غدار اور کرپٹ اہل صحافت کو میڈیا ٹربیونلز سے ڈرانے والوں کو جواب بھی دینا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ گیارہ ستمبر کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنیوا میں یہ دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان نے پچاس سے

برطانوی اور امریکی استعمار کے مزاج کا فرق

حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب تاریخ اور سیاست کے طالب علم کے طور پر ایک بات عرصہ سے محسوس کر رہا ہوں اور کبھی کبھار نجی محافل میں اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے مگر اب اس احساس میں قارئین کو شریک کرنے کو جی چاہ رہا ہے، وہ یہ کہ ہر استعمار کا الگ مزاج ہوتا ہے اور اس کے اظہار کا اپنا انداز ہوتا ہے، ہم نے برطانوی استعمار کے تحت دو صدیاں گزاری ہیں، ایک صدی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ماتحتی میں اور کم و بیش اتنا ہی عرصہ تاج برطانیہ کی غلامی میں گزار کر ۱۹۴۷ء سے آزاد قوم کی تختی اپنے سینے پر لٹکائے ہوئے ہیں۔ مقامی آبادی کے مختلف طبقوں اور گروہوں سے کام لینا ہر استعمار کی ناگزیر

دینی مدارس کیا ایک بار پھر

محمد عرفان ندیم دینی مدارس کے باب میں، کیا ایک بار پھر کوئی چال چلی جا رہی ہے، میرا اضطراب یہی ہے کہ یہ چال بہت جلد امر واقعہ کا روپ دھار لے گی۔اس خطہ برصغیر میں دینی مدارس کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے، 1857 کی جنگ آزادی سے تاامروز،ملی و قومی مسائل میں دینی مدارس اور خانقاہوں نے ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی انہی مدارس و خانقاہوں کے فیض یافتگان کی مساعی کا نتیجہ تھی۔ اس جنگ کے تنائج و ثمرات پر کلام ہو سکتا ہے مگر اس کے منصوبہ سازوں اور شرکاء کی نیت و اخلاص پر کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ یہ دارالعلوم دیوبند کا ہی فیضان تھا کہ بیسویں

اخوت

شاہ بلیغ الد ین رحمتہ اﷲ علیہ احمد بن حرب اس تیزی سے اپنے گھر سے نکلے کہ لوگوں نے انہیں روک کر پوچھا حضرت ! آپ خیریت سے ہیں؟اُنھوں نے کہا ہاں ! لوگوں نے پوچھا گھرمیں سب خیریت سے ہیں؟ اُنھوں نے جواب دیااﷲ کا فضل ہے ایک نے کہا آپ اس تیزی سے کہاں چلے ؟ وہ بولے ابھی ابھی سناہے کہ فلاں صاحب کے پاس چوری ہوئی ہے۔ دو بول تسلی کے اُن سے کہنے جارہاہوں ! کسی نے کہا حضرت ! اس میں عجلت کی کیا بات ہے ؟فرمایا پڑوسی توبھائی ہوتا ہے اورنیکی میں ہمیشہ عجلت کرنی چائیے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک موقع پرحضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ام لمومنین سیدہ کائنات حضرت عائشہ ؓ

’’آزادی اِنسانی متاع ہے

مولانا محمد یوسف شیخوپوری دین اسلام کا ایک ایک حکم عین فطرتی قانون ہے اسلامی تعلیمات انسانی فطرت کی عین مطابق ہیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان اپنی فطرت سے ایک آزاد مخلوق ہے خالق دو جہاں نے اسے آزاد پیدا کیا ہے اور اسکا منشا یہی ہے کہ یہ آزاد رہے۔ ’’تمام مخلوقات میں اسے امتیاز بخشا ہے اورسب سے مکرم ومحترم بنایا ہے‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل۷۰) اسی کو ساری کائنات کا مخدوم بنایا ہے چمکتا ہوا سورج دمکتا ہوچاند جگمگاتے ستارے شجر وحجر بحر و بر لیل و نہار الغرض سَخّرَ لَکُمْ مَاَفِی السَّمٰواتِ وَمافِی الاَرْضِ جَمِیعْاً(الجاثیہ ۱۳) فرماکر بتا دیا کہ یہ سب کچھ انسان کے لیے مسخر کردیا ہے تا کہ انسان سب کی غلامی سے آزاد ہو کر خدائے

قرآن کریم اور صاحب ختم نبوت صلی اﷲ علیہ وسلم

حافظ محمدسفیان( ناگڑیاں) قرآن کریم اﷲ کی نازل کردہ کتاب ہے اس کتاب میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں، یہ حق اور سچ کتاب ہے۔ قرآن کریم کو اﷲ تعالیٰ نے نازل فرما کر ہم پر احسان فرمایا کہ ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا۔ قرآن زندگی گزارنے کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ہمیں ماں باپ بہن بھائی بیٹا بیٹی کا فرق قرآن نے بتلایا ہے، ہمسایوں رشتہ داروں…… حتی کہ جانوروں تک کے حقوق قرآن نے بتائے ہیں۔ آج ہمیں پھر قرآن کو مضبوطی سے پکڑنے کی ضرورت ہے ہمیں لارڈ میکالے کے نصاب کو چھوڑ کر اپنی اولادوں کو قرآن کی تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا۔ قرآن کو نازل کرنے والا کائنات کا رب ہے، قرآن کو آسمان سے

نعت

امجد اسلام امجدؔ اُداسی کے سفر میں جب ہوا رُک رُک کے چلتی ہے سواد ہجر میں ہر آرزو چپ چاپ جلتی ہے کسی نادیدہ غم کا کہر میں لپٹا ہوا سایا زمیں تا آسماں پھیلا ہوا محسوس ہوتا ہے گزرتا وقت بھی ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا ہے تو ایسے میں تری خوشبو محمدؐ مصطفی ، صلِّ علیٰ کے نام کی خوشبو دلِ وحشت زدہ کے ہاتھ پر یوں ہاتھ رکھتی ہے تھکن کا کوہِ غم ہٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے سفر کا راستہ کٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے

منقبت امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ

ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری صدیق خلافت دا جاں بار اٹھایا ہے علی سجدہ شکر کیتا اُمت اُتے سایا ہے سب آلِ نبی آئی با حشم و خدم آئی وچ آکے سقیفہ دے خود تاج پوایا ہے صدیق خلافت کوں کہیں توں نئیں کھسیا محبوبِ خدا نے خود صدیق بِلھایا ہے منبر تے مصلیٰ کوں صدیق سجایا ہے خلافت تے امامت کوں صدیق نبھایا ہے منکر جو نبوت دا ہے یمامہ یا یمن وچ اوہ کہیں کوں نئیں چھوڑا ہر موذی مکایا ہے ہر باغی گروہ کوں، تیں! اے خلیفہ رسول اﷲ بھن بھن کے سِدھا کیتا، لاہ چھوڑے ٹھہایا ہے رب جانڑیں یبوساں نے کیوں شور مچایا ہے ایہہ مردہ فدک والا کیوں مونڈھیاں چایا ہے ایہہ باغِ فدک جے

صحابہ رضی اﷲ عنہم کی بزرگی

سید محمد عبدالرب صوفی مرحوم صحابہ ہیں رسولِ پاک کی صحبت کی تاثیریں یُعَلِّمُہُمْ کی تشریحیں ، یُزَکِّیْہِمْ کی تفسیریں کلام اﷲ کے مثل اعتبار ان کا مسلّم ہے وہ عادل ہیں تو ناطق ہیں کلامِ حق کی تحریریں کِرَام ان کو کہا اﷲ نے، بَرَرہکہا اُن کو ملائک کو بھی ان ان القاب کی شامل ہیں تفسیریں نبی کو بھا گئی خود اپنی جس کھیتی کی شادابی اسی قرآن میں محفوظ ہیں سب اس کی تعبیریں نبی نورِ خدا ہیں گو نہیں اس نور کا ٹکڑا صحابہ ہیں نبی کے نور کی پُرنور تنویریں جلال ان کا جمالِ پاک حق بن کر اٹھا محمد کی غلامی سے بدل جاتی ہیں تقدیریں خود ان کی آنکھ ٹیڑھی ہے جسے ٹیڑھی نظر آئیں رسولِ پاک کے

کشمیر

پروفیسر اکرام تائب اس زمیں پر جو جنت کی تصویر ہے برملا وہ یہ خطّۂ کشمیر ہے اس پہ حق اپنا کافر جتاتے ہیں کیوں ہم مسلماں ہیں اپنی یہ جاگیر ہے ماؤنٹ بیٹن، کلف اور نہرو کا یہ سب کو معلوم ہے، سازشی تیر ہے بہہ رہا ہے زمیں پر جو ان کا لہو ظلمت شب میں حق کی یہ تنویر ہے جبر سے حل نہ ہوں گے مسائل کبھی لوح قلب و نظر پر یہ تحریر ہے ہو کے آزاد اِک دن رہے گا وطن مٹ کے رہنا ہی باطل کی تقدیر ہے بھیک مانگیں کہاں جا کے انصاف کی محتسب قاتلوں سے بغل گیر ہے! سن لیا سب نے جب دل کی آواز کو فیصلہ کیوں سنانے میں تاخیر ہے کچھ تو

کشمیرجل رہا ہے

حبیب الرحمن بٹالوی ہوس کی اس جنگ پہ لعنت خدا کی ہے موُدی کے انگ انگ پہ لعنت خدا کی ہے کشمیر بے نظیر کو مقتل بنادیا ’’ہولی‘‘ کے اس رنگ پہ لعنت خدا کی ہے ہندوؤں کے ساتھ ہے اور مسلموں سے بیر دانش فرنگ پہ لعنت خدا کی ہے کشمیریو ں کے خون سے دھرتی جو لال ہے کرفیو کا دور ہے جینا محال ہے بیمار ہیں، لاچار ہیں، گھروں میں بند ہیں ’’یو این او کے دیوتا!‘‘ یہ غرض مند ہیں مائیں، بہنیں، بیٹیاں، روتے یتیم بال ہے کوئی ابن قاسم؟ جو پوچھے اُن کا حال کشمیریوں کے پاؤں سے کانٹا نکال دے ربّ ذوالجلال! مصیبت کو ٹال دے

پٹنہ میں مُسلمانوں کا قتل عام……(سید مخدوم شاہ بنوری کی یاد داشتیں)

ایم طفیل ’’سید مخدوم شاہ بنوری مرحوم کا تعلق کوہاٹ سے تھا وہ مجلس احرار اسلام کے رہنما تھے۔ قیام پاکستان سے قبل اُن کا خاندان مجلس احرار اسلام سے وابستہ ہوا۔ سید مخدوم شاہ نبوری مرحوم ایک طویل عرصہ مجلس احرار اسلام کے مرکزی دفتر بیرون دہلی دروازہ لاہور میں مقیم رہے اور مجلس کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ کوہاٹ میں انتقال ہوا اور اپنے آبائی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور خدمات قبول فرمائے۔ ذیل میں ان کی یادداشتیں قارئین کی نذر کی جارہی ہیں جو روزنامہ ’’کوہاستان‘‘لاہور میں شائع ہوئیں۔ ’’کوہستان‘‘ کا خصوصی ایڈیشن عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما مولانا اﷲ وسایا مدظلہٗ کی عنایت ہے۔ مولانا اکثر ایسی عنایات

کلکِ شمابیاضِ من…… مولاناعطاء اﷲ شاہ بخاری کے آٹو گراف

محمد ایوب اولیا تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتا ب آخر مبدأ فیاض نے بہت کم لوگوں کو فن تقریر جیسی خوبی سے نوازا ہے۔ یہ ہے بھی بہت بلند مرتبہ اور رفیع الشان مقام۔ اگر ہم تاریخ میں چرچل، سعد زاغلول پاشا اور دوسرے مشاہیر کانام سنتے ہیں تو ان میں سے بیشتر فن تقریر سے آشنا تھے۔ وہ بات کرنا جانتے تھے قیافہ شناسی کی صفت سے متصف تھے۔چنانچہ اسی گفتگو یاتقریر کی ہی بدولت کا میابی ان کے قدم چومتی تھی۔ وہ عوام کی نبض پہچانتے تھے اور عوام ہی کے جذبات کی ترجمانی کرتے تھے او ربالآخر اپنی بے پناہ لسانی طاقت کہ وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ حق تو

پیکر علم وعمل …… امامِ تاریخ و سیرت مولاناسید ابومعاویہ ابوذر بخاریؒ

انیس الرحمن (متعلم جامعہ خیر المدارس ملتان) نوع انسانی کے پہلے فرد حضرت سیدنا آدم علیہ الصلوٰۃوالسلام سے لیکر آج تک انسانوں کی بے شمار تعداد نے اس زمین کو اپنا مسکن بنایا لیکن موت جیسے قانون کے لاگو ہونے پر وہ اس دارالفنا سے دارالبقا کی طرف منتقل ہوگئے۔ تاہم کچھ نفوس قدسیہ ایسی گزریں ہیں کہ برس ہا برس گزرنے کے باوجود ان کا ذکر خیرباقی ہے۔ بعض شخصیات تو ایسی ہوتی ہیں جن کا ذکر خیر محبوں کے دلوں میں ایسا رچ بس جاتا ہے جو نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ حلقہ اہل علم وفضل میں کسی شخصیت کے یاد رہ جانے کی ایک ممتاز وجہ جامعیت ہوتی ہے۔ یعنی علم وتقوٰی، توا ضع وسادگی، زہد وپر ہیز گاری، اعتدال پسند

کیا حفظِ قرآن بدعت ہے؟

مفتی منیب الرحمن مسلم دنیاپرایک اُفتاد تو عالم سامراجی قوتوں کی جانب سے مسلط ہے اور دوسرا عذاب دین اسلام، شعائر اسلام اور متفق علیہ معاملات میں رخنہ اندازی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ گذشتہ دنوں جناب جاوید غامدی کی زیر سر پرستی شائع ہونے والے ماہنامہ اشراق(جون 2019ء ) میں موصوف کے قابل اعتمادرفیق عرفان شہزاد صاحب کا ایک مضمون بعنوان:’’قرآن کے حفظ کی رسم پرنظرثانی کی ضرورت‘‘ پڑھنے اور متبادل بیانیہ جاننے کاموقع ملا۔ مضمون نگار نے حفظ قرآن کریم کی سعادت وفضیلت کو، جس پراُمت کا اجماع رہا ہے۔ اس سعادت کوغیر اہم قرار دیتے ہوئے لکھا: ’’مسلم سماج میں…… عام تاثر یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذریعہ اور باعث اجر وسعادت ہے۔ یہ تصور چنددر چند

میرا افسانہ

مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ قسط: ۱۳ ہماری کمزوریاں : میرے اس غریب خانے میں بکثرت موش خانے تھے۔ اس مختصر گھر میں ہمیشہ چوہے قلابازیاں کھاتے۔ کبھی ایسی بے تکلفی برتتے کہ چھاتی پر چڑھ آتے۔ کچھ ایسے نڈر کہ کمبل اٹھا کر گود میں اچھلتے۔ آخر جانتے تھے کہ قیدی ہے کیا کرلے گا۔ ان کی شوخی ایسی بڑھی کہ بوٹیاں نوچنے کی نویت آئی۔ ایک رات میں ہاتھ سرہانے دئیے لیٹا ہی تھا کہ انگلی کاٹ کھائی۔ سانپ سنپو لیے کے شبہ میں دھڑدھڑا کر اٹھا۔ ہاتھ میں جوتا لیا اور بستر کمبل الٹاسیدھا کیا۔ دل میں بڑا تردو کہ بس بری بلا ہے۔ مگر فکرو ترود کے اس پہاڑ کو کھودا تو چوہیا نکلی۔ ہرصبح اٹھ کران کی

احرار کاچراغ مصطفویؐ……قادیاں کاشرار بو لہبی

آغا شورش کاشمیری رحمۃ اﷲ علیہ آخری قسط شاہ جی اپنے ساتھیوں سمیت پہلے کراچی سنٹرل جیل میں رکھے گئے۔ پھر سکھر جیل میں بھجوا دیا گیا۔جہاں ان سے آخری بیماری چمٹ گئی۔ منیر انکوئری کمیٹی نے کام شروع کیاتو شاہ جی ۲۵ جولائی ۱۹۵۳ء کو لاہور سنٹرل جیل میں منتقل کردئیے گئے۔ میاں محمود علی قصوری نے لاہور ہائیکورٹ میں شاہ جی کی نظر بندی کے خلاف رٹ وائر کردی۔ جسٹس ایس اے رحمن نے قانونی غلطی کافائدہ دے کر۸ جنوری ۱۹۵۴ء کو شاہ جی اور ا ن کے ساتھیو ں کو رہا کردیا۔ شاہ جی نے رہا ہوتے ہی پہلی تقریر میں جسٹس منیر کو آڑے ہاتھوں لیا آپ نے ایک جلسہ عام میں اعلان کیا کہ ’’میں آج بھی اور حشر کے

قرار داد تکفیرِ قادیانیت

عربی مقالہ: شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ / ترجمہ: مولانا محمد یوسف حسین گجراتی (پہلی قسط ) (اسلامی ممالک کے اکثر خطوں کے مقتد رعلماء ومفتیان کے غیر مسلم اقلیت ہونے پر اتفاق وبا لخصوص رابطۃ العا لم الا اسلامی سے 1973ء و پاکستان سے 1974ء میں قادنیوں کے غیر مسلم اقلیت کی قرار داد و قانون پاس ہونے کے باوجود جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کی عدالت عظمیٰ میں اس فرقہ نے مسلمانوں کے خلاف کیس دائر کیا، جس کے بعد وہاں کے مسلمانوں کی طرف سے حضرت شیخ الا سلام مفتی محمد تقی عثمانی کی طرف رجوع کیاگیا، حضرت زید مجد ہم نے ایک مفصل فتویٰ صادر فرما کر اس کا مجوزہ مسودہ مجمع الفقہ الاسلامی کو بھیجا، جس کے

مسافران آخرت

مسافران آخرت مولانا حافظ محمد زاہد صاحب و اہلیہ رحمہما اﷲ: خانقاہِ سراجیہ نقشبندیہ مجددیہ کے بانی شیخ المشائخ، حضرت مولانا احمد خان قدس سرہٗ کے پوتے حضرت مولانا حافظ محمد زاہد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ 9؍محرم الحرام 1441ھ / 9؍ ستمبر 2019ء کویت میں انتقال کر گئے۔ انتقال کی خبر سنتے ہی اُن کی اہلیہ محترمہ بھی انتقال کر گئیں۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ حضرت حافظ صاحب رحمہ اﷲ ، محترم حامد سراج کے چچا تھے اور مرحومہ خالہ تھیں۔ بیک وقت دو اموات سے خاندان اور خانقاہِ سراجیہ کے متوسلین شدید صدمے سے دوچار ہوئے۔ حضرت مولانا خلیل احمد دامت برکاتہم، حضرت مولانا عزیز احمد مدظلہٗ، بھائی حامد سراج صاحب اور حضرت حافظ محمد زاہد صاحب رحمہ اﷲ کے اکلوتے فرزند

نقیب

گزشتہ شمارے

2019 October

علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں

42 ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر (12-11 ربیع الاوّل 1441ھ)

یومِ فتح قادیان

جوگرجتے ہیں وہ برستے نہیں

برطانوی اور امریکی استعمار کے مزاج کا فرق

دینی مدارس کیا ایک بار پھر

اخوت

’’آزادی اِنسانی متاع ہے

قرآن کریم اور صاحب ختم نبوت صلی اﷲ علیہ وسلم

نعت

منقبت امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ

صحابہ رضی اﷲ عنہم کی بزرگی

کشمیر

کشمیرجل رہا ہے

پٹنہ میں مُسلمانوں کا قتل عام……(سید مخدوم شاہ بنوری کی یاد داشتیں)

کلکِ شمابیاضِ من…… مولاناعطاء اﷲ شاہ بخاری کے آٹو گراف

پیکر علم وعمل …… امامِ تاریخ و سیرت مولاناسید ابومعاویہ ابوذر بخاریؒ

کیا حفظِ قرآن بدعت ہے؟

میرا افسانہ

احرار کاچراغ مصطفویؐ……قادیاں کاشرار بو لہبی

قرار داد تکفیرِ قادیانیت

مسافران آخرت