نیرنگیٔ سیاستِ دو راں
سید محمد کفیل بخاری پی ٹی آئی حکومت قائم ہوئے ابھی دو ماہ ہوئے ہیں لیکن جس تبدیلی کا نعرہ لگا کر اور عوام کو سبز باغ کا چکمہ دے کر موجودہ سیاسی اشرافیہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو ئی ہے بہت ہی تھو ڑے وقت میں اس کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے تاریخی دھرنے اور پھر جولائی 2018ء کے انتخابات میں یہ بات مسلسل دہرائی کہ: ’’ہم اقتدار میں آکر لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لیں گے، ملک کی معیشت کو مضبوط و مستحکم کریں گے اور آئی ایم ایف سے قرضے نہیں لیں گے، سابق حکمرانوں نے ملک کو قرضوں میں جکڑ کر عالمی سرمایہ داروں کے ہاں گروی رکھ دیا ہے، ہمارے
41ویں دوروزہ سالانہ ختم نبوت کانفرنس 12-11 ربیع الاوّل چناب نگر
عبداللطیف خالد چیمہ اکابر احرار ہندوستان میں 21 ۔ اکتوبر 1934 ء کو قادیانی مرکز ’’قادیان ‘‘ضلع گورداسپور میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے ،پاکستان بن جانے کے بعد حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ اور تحریک ختم نبوت کے رہنما ؤں نے ربوہ میں داخلے کا سوچا ،لیکن اﷲ تعالیٰ کو اس طرح منظور تھا کہ 1975 ء میں ابن امیر شریعت حضرت سید عطاء المحسن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ ربوہ میں ڈگری کالج کے قریب قطعہ زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جہاں جامع مسجد احرار کا سنگ بنیاد 27 ۔ فروری 1976 ء کو رکھا گیا اور نمازِ جمعہ ادا کی گئی۔ وہ منظر واقعی دیدنی تھا اور اُس کی یاد یں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں ، اس
سیّدہ اُمِّ ایمن رضی اﷲ عنہا…… رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اَنّا (قسط:۱)
مولانا ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ہمارے حضور جناب محمد بن عبداﷲ ہاشمی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تاحیات خدمت کی سعادت حاصل کرنے والوں میں حضرت اُمِّ ایمن رضی اﷲ عنہا کا نامِ نامی بھی شامل ہے۔ مصادرِ سیرت و تذکرہ میں ان کے بارے میں کافی مواد ملتا ہے۔ ابھی تک ان کی عظیم شخصیت، خاندانِ رسالت سے ان کے گہرے تعلق اور خدمتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے باب میں کوئی مستقل مقالہ نظر سے نہیں گزرا۔ اس میں سراسر کوتاہیٔ نظر خاکسار راقم کی ہے، البتہ کتب سیرت میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بچپن کے حوالے سے ان کا جو تذکرہ ضمنی طور سے آ جاتا ہے، وہ ان کی شخصیتِ عالی اور خدماتِ جلیلہ کا ذرا
یومِ فتحِ قادیان 21؍اکتوبر 1934ء
ڈاکٹرعمرفاروق احرار برطانوی اِستعمارکے متحدہ ہندوستان میں قادیانیت کی تخلیق کے بنیادی مقاصدمیں انگریزسرکارکے لیے وفاداری کے جذبات پیداکرنا،جذبۂ جہادکی رُوح کا خاتمہ اورمسلمانوں میں مذہب کے نام پر نئے اِرتدادی فتنے کی ترویج تھی۔اس لیے مرزاغلام احمد قادیانی نے انگریزوں کے ایماء پر مرحلہ وارمجدد،مہدی اورنبی ہونے کے دعوے کرکے اُمت مسلمہ میں انتشارواِفتراق کا بیج بویا اورجہادکے خلاف تحریروں کا آغازکیا۔مرزاقادیانی مشرقی پنجاب(انڈیا) کے ضلع گورداس پورکے قصبہ قادیان کا رہنے والاتھا۔اِس لیے قادیانیوں کے نزدیک قادیان کو مقدس مقام کادرجہ حاصل تھا۔مرزاقادیانی کے بعداُس کے بیٹے مرزابشیرالدین کے قادیانی جماعت کی سربراہی سنبھالتے ہی قادیان میں اُس کی آمرانہ حکومت قائم ہوگئی اور غیرقادیانیوں خصوصاً مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی گئی۔ مسلمانوں کو سماجی بائیکاٹ اورظلم و تشددکے حربوں سے اس قدرزِچ
احرار اور تحریکِ کپور تھلا (۱۹۳۳ء ) (آخری قسط)
ماسٹر تاج الدین انصاری رحمۃ اﷲ علیہ اب میں سمجھا کہ جرنیلی سڑک ’’ڈِھلواں‘‘ سے جانب جنوب واقع ہے اور میں شمال کی جانب چلا آیا ہوں، جس پنجرے سے نکل کر آیا تھا اسی کی طرف واپس آنا پڑا۔ جوں جوں آبادی قریب آ رہی تھی، گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا تھا، اس حد تک کہ مجھے اپنے دل کی دھڑکن تک سنائی دیتی تھی۔ آبادی کے باہر ایک چھوٹا سا تکیہ تھا جس کے گرد کانٹوں کی باڑ تھی، میں تکیہ کے نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ دھونی سلگ رہی ہے، آگ جل رہی ہے اور چند بے فکرے رات کے سناٹے کو حقے کی گُڑ گُڑ سے توڑ رہے ہیں بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں میں اس باڑ کے
میرا افسانہ قسط: ۲
مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ مولوی جتی چور: ہر شہر کے بے فکرے اور بے کار لوگوں نے کسی نہ کسی غریب کو تفریح کا سامان بنایا ہوتا ہے۔ امرتسر میں مولوی گاما عرف جتی چور لوگوں کا تختہ مشق تھا۔ بچے بوڑھے سب کی دل لگی کا سامان یہی شخص تھا۔ رؤسا اور امراء کی محفلوں میں زینت تھا، وہ اس کو جوتے لگاتے، یہ ان کو گالیاں دیتا۔ جب یہ تنگ آ کر سخت مشتعل ہو جاتا تو لوگ فوراً ہاتھ باندھ کر کہتے کہ مولوی صاحب معاف کر دو۔ یہ سن کر واقعی اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا اور پھر بغیر حرف شکایت زبان پر لائے وہاں سے چلا جاتا۔ چند قدم پر جاتا تو اور بے فکر
سراپائے نبوّت
مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ خطیبِ اعظم، بلبلِ بستانِ رسول، حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ ۱۹۳۹ء میں لدھا رام کیس سے بری ہو کر گھر تشریف لائے تو حضرت مولانا سید ابوذر بخاری مدظلہٗ نے یہ نعت اپنے قابلِ فخر اور یگانۂ روزگار والد کو سنائی اور بے حد داد پائی۔ حضرت مولانا ابوذر بخاری کی شاعری کی ابتدا اسی پاکیزہ نعت سے ہوئی، اﷲ تعالیٰ، عشقِ رسول میں ڈوبی ہوئی اس نعت کو شرفِ قبولیت بخشے اور شاہ صاحب خدام الدین کے صفحات کو اپنے رشحات قلم سے نوازتے رہیں۔ (مطبوعہ: ہفت روزہ ’’خدام الدین‘‘ لاہور، ۳۰؍ جولائی ۱۹۶۵ء) چہ وصفِ محمدؐ کند مغزِ خامے
کلُّ من علیہا فانٍ
حکیم حافظ ارشاد احمد رحمہ اﷲ یہ مضمون امامِ اہلِ سنَّت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری قدس سرہ کی وفات (۲۳ ؍اکتوبر ۱۹۹۵ء) کے موقع پر جناب حکیم حافظ ارشاد احمد مرحوم و مغفور نے تحریر کیا۔ مضمون کے مصنف بھی انتقال کر چکے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ صاحب تحریر اور موضوعِ تحریر دونوں بزرگوں کی مغفرتِ کاملہ فرمائے۔ بطورِ یاد گار مضمون شاملِ اشاعت ہے۔(ادارہ) حضرت سید ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ عرصہ چالیس سال سے اس بندۂ عاجز کی شناسائی تھی۔ آپ کے متعدد واقعات اور کئی واجب التقلید عظیم الشان کارنامے جو دل و دماغ میں چھپے ہوئے تھے آج ایک واضح نقشہ کی مانند آنکھوں کے سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔ حضرت ممدوح رحمۃ اﷲ علیہ ہمارے قائد و
دشتِ وفا کا راہی
حبیب الرحمن بٹالوی شہیدذوالکفل بخاری 15؍ نومبر 2009ء کو مکہ مکرمہ میں ایک کار کے حادثے میں جان ہار گئے۔ اُن کی جدائی کا غم نوکِ سوزن کی طرح ہمیشہ میٹھا میٹھا درد دیتا رہے گا۔ اُسی درد کا حاصل، چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں نذرِ قارئین ہے۔ وہ شہسوارِ علم تھا اور صاحبِ کردار تھا دوستوں کے درمیان اک یارِ طرح دار تھا گنجینۂ اسرار تھا اور دولتِ بیدار تھا! اخّاذ فطرت شاعر تھا اور صاحبِ معیار تھا پیار، امن، آشتی گھُٹّی میں پڑی تھی افکار، ہمہ گیری اس کی جیبی گھڑی تھی اسلم انصاری، خالد مسعود، عبدالرب نیاز مشفق خواجہ، ہاشمی، اور ایاز تھا دائرۂ احباب کا ایک وہ محور اپنا ہو پرایا، بد و نیک، وہ محور ماہِ خوش نصیب تھا وہ
استاد جی
حبیب الرحمن بٹالوی ہاشمی گھرانے کا وہ چمکتا ہوا ہالہ وہ گوہر یکتا تھا ، موتی لُولُوئے لالہ حصارِ پُر بہار میں وہ خوبرو ’’مُنّا‘‘ اک ’’صادقہ بی بی‘‘ نے جسے گود میں پالا اک شہرِ بے مثال کا راہی عجیب تھا خود دار تھا، عظیم تھا وہ خوش نصیب تھا ہم سب اسے ’’اُستاد جی‘‘ کہتے تھے برملا عُشّاق کا محبوب تھا، دلبر حبیب تھا مختصر سی زندگی میں کیا کام کر گیا نور، رنگ، روشنی وہ عام کر گیا دامنِ حیات کو پھولوں سے بھر کے وہ ذوالکفل شاہ، وہ پارسا وہ نام ور گیا
ایک احمدی کو کیا کرنا چاہیے؟ خطبہ الہامیہ بطور مثال
تحریر: عکرمہ نجمی، ترجمہ: صبیح ہمدانی یہ گفتگو بطورِ خاص احمدیوں کے لیے ہے، خواہ وہ پیدائشی احمدی ہوں یا نو مبائع۔یہ بات سب کے لیے واضح ہے کہ حق سچ کی بات طاقت ور ہوتی ہے ،وہی پیروی کے لائق ہوتی ہے اور باطل کے دھوکوں کے سامنے اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ طاقت ور مومن اﷲ کے ہاں کمزور مومن سے بہتر ہے، ایسے ہی اپنے آپ کو مومنین کی اکلوتی جماعت اور فرقہ ناجیہ قرار دینے والوں سے بھی یہی تقاضا ہے کہ وہ غور و فکر اور تحقیقِ حق سے نہ کترائیں اور اپنے معتقدات پر نظر ثانی کرنے کی جرأت پیدا کریں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس جماعت میں پیدا ہوئے ہیں، بلکہ
لمـز یونیورسٹی میں قادیانیت نے پنجے گاڑنے شروع کردیے
عظمت علی رحمانی لمز یونیورسٹی میں قادیانیت نے پنجے گاڑنے شروع کردیئے۔ واضح رہے کہ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر تیمور الرحمان نے طلبا و طالبات کے ایک گروپ ’’رنگ‘‘ نامی این جی او کے زیر انتظام، ربوہ میں قادیانی مرکز کا دورہ کرایا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قادیانیت کے پرچار پر آئینی پابندی کے باعث اب قادیانیت کی جانب راغب کرنے کیلئے این جی اوز کو استعمال کرکے اعلی تعلیمی اداروں کے طلبہ تک رسائی حاصل کی جارہی ہے۔ علمائے کرام نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے واقعات پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنس (لمز) کے ڈپارٹمنٹ ہیومنٹیز اینڈ سوشل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر تیمور الرحمان کی جانب سے یونیورسٹی میں طلبا و طالبات کا ایک گروپ
مسافران آخرت
سید غلام مصطفی شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ (تحریر: سید محمد کفیل بخاری) آپ علاقہ دین پور (عبدالحکیم، ضلع خانیوال) کی معروف دینی اورسماجی شخصیت تھے۔ ۱۹۴۴ء میں میرے دادا حضرت سید محمد شفیع شاہ رحمۃ اﷲ علیہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ سید غلام مصطفی شاہ صاحب رحمۃ اﷲ میرے چچا اور سسر تھے۔ قائدِ احرار حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہٗ کے برادرِ نسبتی اور سید عطاء المنان بخاری کے ماموں تھے۔یکم اکتوبر کو طبیعت کچھ ناساز ہوئی، تین دن اپنے دوست اور معالج ڈاکٹر عبدالستار صاحب کے زیر علاج رہے، طبیعت زیادہ بگڑنے پر ۴؍ اکتوبر جمعرات کو ملتان کے ایک مقامی ہسپتال میں داخل ہوئے اور ۲۷؍ محرم ۱۴۴۰ھ/۸؍ اکتوبر۲۰۱۸ء بروز پیر شام ۵ بجے انتقال کر گئے۔ انا
اہم اعلان
ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ ملتان، تیس برس سے (2018-1988) الحمد ﷲ باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے اور اپنے قارئین کو عقائداہل سنت والجماعت، سیرت و تاریخ، حالات حاضرہ، تاریخ احرار پر علمی مضامین بالخصوص محاسبۂ قادیانیت، دہریت و لادینیت کے حوالے سے فکر انگریز تحاریر پیش کر رہا ہے۔ گزشتہ کئی برس سے مہنگائی کے باوجود ادارہ نے رسالے کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا اور خود پر اس بوجھ کو برداشت کررہا ہے لیکن اب کاغذ، طباعت اور ڈاک کے اخراجات میں روز افز وں اضافے سے ادارہ کو نقصان ہورہا ہے جسکا ادارہ متحمل نہیں لہٰذا جنوری 2019ء سے ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ کی قیمت فی شمارہ 30روپے اور زر سالانہ 300روپے ہوگا۔ امید ہے احباب وقارئین پہلے کی طرح تعاون جاری رکھیں
تحریک مدح صحابہ -- نوابزادہ لیاقت علی خان کی تائیدی تقریر
خطاب: شہید ِ ملّت نواب زادہ لیاقت علی خان مرحوم ’’مجلس احرارِ اسلام ہند کی برپا کردہ تاریخی ’’تحریکِ مدحِ صحابہ‘‘ ۱۹۳۶ء کی حمایت میں سابق وزیر اعظم پاکستان اور مسلم لیگ کے رہنما،شہیدِ ملّت، نواب زادہ لیاقت علی خان کی یوپی اسمبلی میں تقریر کی جو اخبار النجم، لکھنؤ، ۱۳؍ نومبر ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی۔ ادارہ ریکارڈ محفوظ کرنے کے لیے اس یادگار اور تاریخی تقریر کوجناب عرفان الحق ایڈووکیٹ کے شکریے کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔ سٹی مجسٹریٹ کا اعلان: یکم جون ۱۹۳۶ء کو لکھنؤ کے شیعہ سٹی مجسٹریٹ ابو طالب نقوی نے حسبِ دفعہ ۱۴۴ ، ایک اعلان شائع کیا کہ ۳؍ جون کے جلوس محمدی میں مدحِ صحابہ نہ پڑھی جائے، اس سلسلہ میں ان کے