انتخاب اے انتخاب
سید محمد کفیل بخاری عام انتخابات کے انعقاد کاوقت قریب ترہورہاہے ،ملک کی بڑی چھوٹی سیاسی جماعتیں انتخابی اکھاڑے میں اترچکی ہیں،سیاسی سرگرمیاں عروج پراورانتخابی مہم زوروں پرہے ۔دنیامیں حکومتوں کی تشکیل وقیام کے جونظام رائج ہیں ان میں پارلیمنٹ کوسب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔لیکن پارلیمنٹ کی تشکیل کیسے ہو؟اس کے لیے دوطریقے زیادہ معروف ہیں۔برطانوی پارلیمانی اورامریکی صدارتی نظام ۔پاک وہند چونکہ برطانوی غلام رہے اس لیے یہاں پارلیمانی نظام ہی رائج ہے ۔افسوس ناک امریہ ہے کہ امریکہ وبرطانیہ اوردیگر مغربی ممالک نے اپنے معروضی حالات اورتہذیب وثقافت کوپیش نظررکھتے ہوئے ملک وقوم کی بہتری کے لیے اپنے حکومتی ،انتظامی وسیاسی نظام میں بہت سی تبدیلیاں کیں اور مسلسل کررہے ہیں لیکن ہماری صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے کہ: ’’جہاں
ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا اعلان
عبداللطیف خالد چیمہ پیغمبرامن ،مُحسن ِ انسانیت جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین وتکذیب وہی لوگ کررہے ہیں ،جو دنیا میں بدامنی اور دہشت گرد ی کا راج پورے شباب پر دیکھنا چاہتے ہیں ،کچھ عرصے سے اسلام وپاکستان دشمن گروہ اِس عمل ِبد کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں ،ماضی قریب میں اِس کا اِرتکاب سب سے پہلے قادیانیوں نے کیا ، 30 ۔ستمبر 2005 ء کو ڈینش اخبار نے جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوالے سے بارہ کارٹون شائع کیے جس کے پیچھے قادیانی لابی کاعمل دخل کارفرما تھا ،(روزنامہ ’’جنگ ‘‘لندن )۔ بعدازاں ستمبر2012 ء امریکہ میں توہین آمیز فلم ریلیز ہوئی تو قادیانی امریکہ کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اور اب (ڈچ
دینی خدمات کا معاوضہ
مولانا زاہد الراشدی گزشتہ دنوں ایک دوست نے واٹس ایپ پر جمعیت علما ہند صوبہ دہلی کے صدر اور مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری دہلی کے مہتمم مولانا محمد مسلم قاسمی کے اس فتوی کا ایک صفحہ بھجوایا ہے جو ائمہ مساجد اور مدارس و مکاتب کے اساتذہ کی تنخواہوں کے بارے میں ہے اور اس پر کچھ دیگر حضرات کے دستخط بھی ہیں۔ اس کا ایک حصہ ملاحظہ فرما لیجئے: کل قیامت کے دن یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ مسجد میں ماربل، اے سی، بہترین قالین اور عمدہ جھاڑ فانوس وغیرہ لگائے تھے یا نہیں؟ لیکن اگر اتنی کم تنخواہ دی جس سے روزمرہ کی عام ضروریات زندگی بھی پوری نہ ہو سکیں تو یہ ان کی حق تلفی ہے جس کا حساب
میں مغرب اور میری پناہ
سراج منیر پچھلے چند ہفتوں میں میں نے پابندی سے جو مغرب کے طرز فکر کے بارے میں پے بہ پے اپنے شکوک کا اظہار کیا تو بعض بزرگوں کو تشویش سی پیدا ہوئی ۔ کچھ لوگوں نے تو یہ جانتے ہوئے کہ جو بھی میری ٹوٹی پھوٹی تربیت ہوئی ہے وہ روایتی ڈھانچے میں نہیں بلکہ مغربی تعلیمی ڈھانچے میں ہوئی ہے یہ گمان کیا کہ میں مغرب کو یکسر مسترد کررہا ہوں ، درآں حالے کہ میری شدید خواہش کے باوجود میرے لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایک پورے معاشرتی عمل نے ایک نظام تعلیم و تربیت نے میری ذہنی ساخت ایسی کردی ہے کہ جس آدمی کو انگریزی نہ آتی ہو اسے میں جاہل جانتا ہوں اور جب تک اپنی بات کی
بت پرستی چھوڑیے، بت شکن بنیے
صابر علی ’’پیٹرک جے ڈینن (Patrick J. Deneen) کی کتاب’’لبرل ازم کیوں ناکام ہوا؟‘‘ 2018ء میں Yale یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب 248 صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنف نے امریکی معاشرت اور سیاست کا مذہبی تناظر سے جائزہ لیتے ہوئے علمائے عیسائیت کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کی ہیں۔ امید ہے ہمارے سیاسی علماء کرام اور جمہوری مذہبی جماعتوں کے کارکنان بھی ان پر غور فرمائیں گے۔‘‘ ڈینن بتاتے ہیں کہ لبرل ازم کا سیاسی فلسفہ وسیع سمندر ہے جس میں ہم اس کی موجودگی سے بے خبر رہتے ہوئے تیرتے آئے اور ہمیں اس کا ادراک نہ ہو سکا۔ لبرل ازم کی علامتیں یا اقدار اظہارِ رائے اور مذہب کی آزادی، انفرادی آزادی، قانون کی مساویت؛ زندگی، آزادی اور خوش حالی
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نصیحتیں
حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ۔ مترجم: مولانا محمد احسان الحق حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! (ﷺ) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے کیا تھے؟ آپ نے فرمایا اُن صحیفوں میں صرف مثالیں اور نصیحتیں تھیں، (مثلاً اُن میں یہ مضمون بھی تھا) اے مسلط ہونے والے بادشاہ! جسے آزمائش میں ڈالا جا چکا ہے اور جو دھوکا میں پڑا ہوا ہے، میں نے تجھے اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ تو جمع کر کے دنیا کے ڈھیر لگا لے۔ میں نے تو تجھے اس لیے بھیجا تھا کہ کسی مظلوم کی بد دعا کو میرے پاس آنے نہ دے کیونکہ جب کسی مظلوم کی بد دعا میرے پاس پہنچ جاتی ہے تو پھر میں اسے رد
غزوۂ اُحد
حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اﷲ علیہ (تحقیق : ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی،ترجمہ:مولانا محمد سعید الرحمن علویؒ) سیرت و مغازیِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی تفصیلات کو محفوظ کرنے اور انھیں ضبطِ تحریر میں لانے کا سلسلہ پہلی صدی ھجری یعنی عہدِ صحابہ کرامؓ ہی میں شروع گیا تھا۔ اس سلسلے کی موجود کتب میں حضرت عُروہؒ بن زبیرؓ کی کتاب ’’مغازی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ کو اوّلیت کا شرف حاصل ہے۔ حضرت عُروہؒ بن زبیرؓ اپنے عہد کے بہت بڑے عالم، محدث اور فقیہ تھے۔ انھوں نے مدینہ منورہ میں بہت سے جلیل القدر صحابہؓ اور تابعینؒ سے علم کی تحصیل کی۔ امام ابن کثیر کے بقول، وہ فقیہ، عالم، حافظِ حدیث اور مغازیِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ثقہ
بشارات و فضائل کی دو قسمیں اور حدیث مغفور
ابو طلحہ عثمان ایم اے مغفرت کا مادہ ’’غ، ف، ر‘‘ ہے۔ جس کا معنی ہے بخشش، بچاؤ اور عدم جواب طلبی ہے۔ اسی لفظ سے اﷲ کے کئی صفاتی نام غفور، غفّار، غافر الذنب بنے ہیں، مِغْفر ڈھال کو کہتے ہیں جو جنگ میں استعمال کی جاتی تھی تاکہ تلوار کے وار سے محفوظ رہا جا سکے۔ ارشادِ نبوی ہے: ’’ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ……‘‘ اسی طرح کئی دوسری احادیث ِ رسول جن میں اعمال کی فضیلت کا ذکر ہے مثلاً ’’جو کوئی اچھی طرح وضو کرے پھر کھڑے ہو کر کلمہ شہادت پڑھ لے اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں‘‘۔ ’’حج کی نیت سے وقوف عرفہ کرنے والے کے لیے بشارت ہے
تربیت
شاہ بلیغ الدینؒ فرمایا…… آج سبق نہیں پڑھایا جائے گا۔ کیوں؟ کوئی وجہ طالب علموں کی سمجھ میں نہ آئی۔ لیکن استاد کا حکم تھا، مجال نہ تھی کہ کچھ کہتے۔ استاذ تھے مولانا شاہ عبدالقادر۔ مولانا شاہ ولی اﷲ کے صاحبزادے! قرآن مجید کا پہلا ترجمہ ہندوستان میں شاہ ولی اﷲ صاحب نے کیا۔ یہ ترجمہ فارسی میں تھا، فارسی میں ترجمہ شیخ سعدی نے بھی کیا تھا اور وہ فارسی میں کلام اﷲ کا پہلا ترجمہ نہیں تھا۔ شاہ عبدالقادر اور ان کے بھائی شاہ رفیع الدین نے اردو میں پہلے پہل کلام اﷲ کا ترجمہ کیا۔ دونوں کے ترجمے الگ الگ ہیں۔ ایک کا لفظی ترجمہ ہے، ایک کا رواں۔ جب شاہ عبدالقادر نے فرمایا کہ آج سبق نہیں ہو گا تو
منھاجِ نبوّت اور مرزا قادیانی قسط: ۷
مولانا مشتاق احمد چنیوٹی رحمۃ اﷲ علیہ معیار نمبر ۱۹: انبیاءِ کرام متضاد باتیں نہیں کرتے: حضرات انبیاء علیہم السلام کی یہ نشانی ہے کہ وہ متضاد گفتگو نہیں کرتے یعنی ایسا نہیں کہ وہ ایک وقت میں کچھ ہیں اور دوسرے وقت میں کچھ……اسی طرح ان کی وحی بھی تضادات سے پاک ہوتی ہے۔ اﷲ جل شانہٗ نے قرآن مجید کے منزل من اﷲ ہونے کی ایک یہ دلیل بیان کی ہے: وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافاً کَثْیْراً۔(النساء: ۸۲) ترجمہ: ’’اگر یہ قرآن اﷲ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے‘‘۔ بعض افراد کو قرآن و حدیث میں جو تضاد نظر آتا ہے وہ حقیقی تضاد نہیں بلکہ لا علمی کی وجہ
غزل
پروفیسر خالد شبیر احمد رمزِ جنون و عشق سے جو فیضیاب ہے دشتِ جنوں میرا وہی ہمرکاب ہے جو شہپرِ شعور ہے جو شوکتِ جنوں وہ آسمانِ شوق کا بھی آفتاب ہے دامن پہ جس کے دھبہ نہ داغ ہے کوئی وہ دورِ شر میں آج بھی عزت مآب ہے جو لا الٰہ کی رمز سے ہے آشنا ہوا نظروں میں اُس
زاد المعاد کے اردو ترجمہ از رئیس احمد کا سرسری جائزہ (قسط:۹)
علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ ۱۰۔ علاّمہ ابن قیم رحمہ اﷲ کتاب میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ پانچ مواقع پر عورت کو مرد سے نصف حیثیت حاصل ہے، جن میں سے ایک عقیقہ ہے۔ اس جگہ جعفری صاحب نے فٹ نوٹ کی شکل میں حضرت مصنف کے خلاف اختلافی نوٹ دیا ہے، اس کے چند جملے قارئین کی ضیافت کے لیے نقل کیے جاتے ہیں: ’’اگر کسی معاملہ میں مرد کو عورت پر تفوق حاصل ہے تو کسی معاملہ میں عورت، مرد پر تفوق رکھتی ہے، مثلاً پاک دامن عورت پر بدچلنی کا اتہام لگانے کی سزا اسی کوڑے ہے، لیکن پاکدامن مرد پر بدچلنی کی تہمت پر یہ سزا نہیں ہے‘‘۔ (ج: ۱، ص: ۱۲۹) مدارس عربیہ میں ایک جملہ بولا
تبصرہ کتب
مبصر: حافظ اخلاق احمد نام کتاب: وہ پروانے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے تالیف: مولانا جمیل الرحمن عباسی ناشر: ادارہ صدائے اہلِ سنت، کراچی۔صفحات: ۲۸۸ قیمت: درج نہیں صحابہ نام ہے ان نفوسِ قدسیہ کا جنھوں نے محبوب و مصدوق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے روئے مبارک کو دیکھا اور اس کی تجلیاتِ ایمانی کو اپنے ایمان اور عمل میں پوری طرح سمو لیا۔ اﷲ رب العزت نے اُن کے ہدایت یافتہ ہونے کا خود اعلان فرمایا، اُن کے ایمان کو آخری کتاب قرآنِ مجیدمیں مثالی قرار دیااور کتنی ہی آیات ہیں جو اُن کی شان میں نازل ہوئیں۔مثلاً:’ ’رضی اللّٰہ عنہم و رضوا عنہ ‘‘ ۔ اﷲ اُن سے راضی ہو چکا اور وہ اﷲ سے راضی ہو چکے، ’’وَ کُلًّا وَّ
مسافرانِ آخرت
٭حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی کی اہلیہ محترمہ، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی بہو اور حضرت مولانا مفتی افتخار الحسن کاندھلوی کی بڑی صاحبزدی انتقال فرما گئیں۔ ٭مجلس احرار اسلام کراچی کے نائب امیر مولانا عبدالغفور مظفر گڑھی کے استاد محترم مولانا قاضی محمد ابراہیم جامعہ دار العلوم،بستی چڑھے والی مناواں، کوٹ ادو مظفر گڑھ،۲۶ اور ۲۷؍ مئی (ہفتہ، اتوار) کی درمیانی شب انتقال فرما گئے ٭چیچہ وطنی: مجلس احرار اسلام پاکستان کے مبلغ ختمِ نبوّت مولانا محمد سرفراز معاویہ کے دادا جان قاسم علی ڈوگر (کنگن پور) ۴؍ جون پیر کو انتقال کر گئے ٭چیچہ وطنی: حافظ محمد عابد مسعود ڈوگر کے برادرِ نسبتی پروفیسر محمد امجد ڈوگر (فیصل آباد) ۷؍ جون جمعرات کو انتقال کر گئے ٭چیچہ وطنی: