سالِ نو کا آغاز، پرانے شکاری، نیا جال
سید محمد کفیل بخاری 2017ء بہت سی تلخ و خوشگوار یادیں جلو میں لیے رخصت ہوا اور 2018ء نئی توقعات اور ہزاروں خواہشات کے ساتھ طلوع ہوا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: تلک الایام نداولہا بین الناس،’’ہم لوگوں میں دنوں کو الٹتے پلٹتے رہتے ہیں‘‘۔ یہ قانون قدرت اور نظام فطرت ہے جو کائنات میں ازل سے جاری ہے اورتب تک جاری رہے گا جب تک لمحاتِ عالم کی اس ریت گھڑی کا آخری ذرہ باقی رہے گا۔ پھر ایک دن آئے گا کہ خالق الایّام و اللیالی اس روز لمن الملک الیوم کا اظہار پر جلال کرے گا اور بساطِ روز و شب آخر کار لپیٹ دی جائے گی۔ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے
2018 ء اور شعور ختم نبوّت
عبد اللطیف خالد چیمہ انتخابی اصلاحات 2017 ء میں عقیدۂ ختم نبوت کے حلف نامے کو حذف کرنے سے ایک ہنگامی صورتحال پیدا ہوئی۔ اُس کے رد عمل میں قوم نے مِن حیث المجموع مثالی بیداری کا اظہار کیا۔ فیض آباد ،لاہور دھرنے اور پیران عظام کے عوامی اجتماعات نے عقیدۂ ختم نبوت کی جدوجہد کو نمایاں کیا۔ اصولی طور پر تو قانونی جدوجہد نے اپنا ہدف پورا کرلیا تھا، لیکن حکومت کی طرف سے خواہ مخواہ معاملات کو کڈھب طریقے سے حل کرنے کی کوششوں کے تناظر میں دھرنے والوں کے ساتھ ہونے والے معاہدات پر عمل درآمد تادم تحریر ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ فیض آباد دھرنے میں شھادتیں اور راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ کو شائع کرنے میں حکومتی ٹال مٹول
خواہشِ اقتداراور سیاست دانوں کی ذہنی صحت
پروفیسر خالد شبیر احمد ہمارے ملک کے نیتاؤں کی موجودہ گفتگو سن کر لگتا ہے کہ شاید ملک میں سیاست کرنے کے لیے ذہنی صحت کی شرط اٹھا دی گئی ہے۔ مرکزی دھارے کی ہر جمہوری و سیاسی جماعت کا ہر لیڈر بلکہ اس کے چھٹ بھی خواہشِ اقتدار کے ہاتھوں دیوانگی کی منازل طے کر چکے ہیں۔ جمہوری طرزِ سیاست ملک و ملت کے حق میں تو مضر ہے ہی مگر انسان کو اپنے ہوش و حواس سے بھی بیگانہ کردیتا ہے۔ اسی وجہ سے سید الوجود ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرزِ سیاست کی بنیاد یعنی خواہش اقتدارہی کی شدت سے نفی فرمائی۔دینِ اسلام میں خواہش اقتدار کی مذمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا
مجلس احرار اِسلام …… قافلۂ سخت جاناں
ڈاکٹر عمر فاروق احرار برصغیرکے سیاسی افق پر 29؍دسمبر1929کومجلس احراراسلام ایک نئی سیاسی جماعت کے طورپر اُبھری۔جس کے بانیوں میں وہ شخصیات نمایاں تھیں ،جن کا شمارتحریک خلافت کی صف ِ اوّل کی قیادت میں ہوتاتھا۔جن میں سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری،مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،مولانا سیدمحمدداؤدغزنوی ،چودھری افضل حق،مظہرعلی اظہر اورشیخ حسام الدین شامل ہیں۔سیاسی سطح پر کانگریس اورمسلم لیگ اورجمعیت علماء ہندکی موجودگی میں مجلس احراراسلام کاقیام انفرادیت کی انوکھی مثال تھی۔مجلس احراراِسلام دیگرجماعتوں کے برعکس متوسط طبقہ کے رہنماؤں اورکارکنوں کی ترجمان تھی،جوپہلے دن ہی سے کسی مخصوص طبقے ،گروہ یافرقے کی بجائے ایک ایسامتحدہ پلیٹ فارم بن گئی ۔جس میں بلاتفریق مسلک ہرطبقہ کا نمائندہ رہنماموجودتھا،چونکہ مجلس احراراسلام کے بنیادی مقاصدمیں آزادیٔ وطن اورتحفظ ختم نبوت ایسے عظیم اہداف شامل تھے ۔اس لیے کسی
سلف صالحین اور امر بالمعروف کے قرینے
ترجمہ: مولوی محمد نعمان سنجرانی ولید بن داؤد بن محمد بن عبادہ بن الصامت اپنے چچا زاد بھائی عبادہ بن ولید سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے پاس تھے کہ ایک روز حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اِن کو اپنی مجلس میں بٹھایا۔ ایک خطیب نے اُٹھ کر حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی مدح و ثنا کی، حضرت عبادہ رضی اﷲ عنہ ہاتھ میں مٹی لے کر کھڑے ہوئے اور اُسے خطیب کے منہ میں ڈال دیا۔ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو ناگواری ہوئی تو عبادہ رضی اﷲ عنہ اُن سے کہنے لگے: آپ اُس وقت ہمارے ساتھ نہیں تھے جب رسول اﷲ ﷺ نے ہم سے
نعت
سلیم احمد طبیعت تھی میری بہت مضمحل کسی کام میں بھی نہ لگتا تھا دل بہت مضطرب تھا ، بہت بے حواس کہ مجھ کو زمانہ نہ آیا تھا راس مرے دل میں احساسِ غم رَم گیا غبار آئینے پر بہت جم گیا مجھے ہو گیا تھا اک آزار سا میں تھا اپنے اندر سے بیمار سا یونہی کٹ رہی تھی مری زندگی کہ اک دن نویدِ شفا مل گئی مجھے زندگی کا پیام آ گیا زباں پر محمدﷺ کا نام آ گیا محمدﷺ قرارِ دلِ بے کساں کہ نامِ محمدﷺ ہے آرامِ جاں ریاضِ خدا کا گلِ سر سبد محمدﷺ ازل ہے محمدﷺ ابد محمدﷺ کہ حامد بھی محمود بھی محمدﷺ کہ شاہد بھی مشہود بھی محمدﷺ کہ باطن بھی ظاہر بھی ہے محمدﷺ
منقبت امیر المؤمنین سیدنا مروان بن حکم رضی اﷲ عنہما
یوسف طاہر قریشی اک پیکرِ شجاعت، مروان بن حکمؓ تھے تصویرِ عزم و ہمت، مروان بن حکمؓ تھے (۱) کتنے ہی پاک طینت مروان حکمؓ تھے کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے عم زاد اور داماد عثمانؓ کے تھے بے شک اک بہترین قاری قرآن کے تھے بے شک (۲) اور اک فقیہِ اُمّت مراون بن حکمؓ تھے کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے مہر و وفا کا نیّرِ تاباں کہوں میں اُن کو اور شیفتۂ خواجۂ گیہاںؐ کہوں میں ان کو عمدہ خطیب حضرت مروان بن حکمؓ تھے کتنے ہی نیک سیرت مروان بن حکمؓ تھے وہ خود بھی تھے صحابی والد بھی تھے صحابی رکھتے تھے اپنے دل میں وہ حُبِّ ابُو ترابیؓ (۳) فرّخ نصیب حضرت مروان بن
اے کشمیر کے شہید!
پروفیسر خالد شبیر احمد زندہ دلانِ وادیٔ کشمیر زندہ باد دل بستگانِ غیرتِ شبیرؓ زندہ باد تیری شجاعتوں کے ترانے فضاؤں میں عشق و جنوں کی بولتی تصویر زندہ باد ظلم و ستم کے سامنے سینہ سپر ہے تو ہے لب پہ تیرے نعرۂ تکبیر زندہ باد گونجا جہاں میں تیرا شعلہ صفت پیام عظمت کی تونے لکھی ہے تحریر زندہ باد روکے گا آج کون یہ صف شکن افواج باطل کی رگ پہ دین کی شمشیر زندہ باد بھارت ہر ایک ظلم کی حد سے
محمد شفیق مرزا مرحوم …… ختم نبوت کا سچا محافظ
اویس حفیظ ایک سال گزر گیا، سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سال اس قدر ہنگامہ خیز ہو گا کہ آج، کل، آج، کل کرتے پورے ایک سال بعد محمد شفیق مرزا صاحب کی شخصیت پر کچھ لکھنے کی نوبت آئے گی۔اس ایک سال میں وہ کچھ دیکھنے کو ملا کہ مرزا صاحب حیات ہوتے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہ کرتے۔مثلاً ’’ریاض صحافی‘‘ کی یہ خبرہی کیا کم صدمہ تھی کہ ’’کالم نگاروں کے گرو‘ شفیق مرزا کی رسمِ قل میں 21لوگوں کی شرکت‘‘۔ یہ شفیق مرزا کوئی عام شخص نہ تھا کہ ہارون الرشید صاحب نے’’وفاتِ حسرتِ آیات‘‘ لکھتے ہوئے کہا کہ’’آدمیوں کی طرح شہر بھی مر جاتے ہیں، رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے، کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ مرزا صاحب کی وفات کے
علامہ اقبال یونیورسٹی اور قادیانیت کی وکالت
محمد عرفا ن الحق ایڈووکیٹ [وطن عزیز پاکستان میں بر عکس نہند نامِ زنگی کافور کا چلن بہت عام ہے۔ یہی دیکھ لیجیے کہ قادیانی دین کے سنجیدہ ناقدین میں نمایاں نام شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کے نام پر بنائی جانے والی قومی جامعہ کے حوالے سے انھی دنوں اوپر تلے دو افسوس ناک باتوں کا تذکرہ ذرائع ابلاغ میں آیا۔ یعنی ایک تو مشہور زمانہ قادیانی سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام کو اپنی نصابی کتاب میں اسلام کا سرٹیفیکیٹ عنایت کرنا۔ اور دوسرے اسلامیات کے طلبا کو مطالعۂ تفسیر کے لیے مولوی محمد علی لاہوری مرزائی کی تحریفات کے مطالعے کی ترغیب دینا۔ جب ختم نبوت کی مبارک محنت سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں کے سامنے یہ باتیں آئیں تو ہم نے چارہ جوئی
خادم رضوی کی گندا گوئی اور شاہ جی اور شورش کی میراث؟ !
طیب علی تگہ (گذشتہ روزوں اردو بلاگنگ کی معروف آزاد خیال ویب سائٹ ’’ہم سب‘‘ پر لطف الاسلام نامی ایک قادیانی لکھاری نے اسلام آباد فیض آباد دھرنے کے بعض شرکاء کی غیر محتاط گفتگو کے تناظر میں ایک مضمون گھسیٹا جس میں اپنی چوٹوں کو یاد کرتے ہوئے احرارِ اسلام پر اپنے پرانے کینے کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ اس غیر ذمہ دارانہ اور مفتریانہ تحریر کے جواب میں کچھ مسلمان اہلِ قلم نے جواب دیا تو موصوف جواب الجواب پر اتر آئے، زیر نظر تحریر ان تین اقساط پر مشتمل ہے جنھیں جناب طیب علی تگہ نے تحریر کیا اور لطف الاسلام کی ہذیانی کیفیت میں الاپے گئے راگوں راگنیوں کا تعاقب کیا۔ مضمون کا پہلا حصہ لطف القادیان کی پہلی بے
ختم نبوت پر ایک سوشلسٹ کا موقف
حامد میر ختم نبوت کے حلف میں تبدیلی کے معاملے پر اسرار کے سائے لہرانے لگے ہیں۔ وزیر قانون زاہد حامد کے مستعفی ہونے کے باوجود یہ معاملہ آسانی سے ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ زاہد حامد سمیت مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے کئی وزراء کا شروع سے یہ کہنا تھا کہ ختم نبوت کے حلف میں تبدیلی ایک کلیریکل غلطی تھی۔ بعد ازاں موقف تبدیل کرکے کہا گیا کہ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی میں موجود حکومت اور اپوزیشن کے تمام ا رکان کو ختم نبوت کے حلف میں تبدیلی کا علم تھا لیکن اس وقت کسی نے اعتراض نہ کیا۔ اس کمیٹی میں شامل اپوزیشن ارکان کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کی اتحادی جے یو آئی (ف) کے ارکان کا کہنا ہے کہ
خطبات بہاولپور کا علمی جائزہ…… نماز میں سر کاڈھانپنا…… ڈارون کا نظریۂ ارتقاء
(قسط: ۳) علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ نماز میں سر کا ڈھانپنا: خطبہ نمبر ۱۰ کے بعد جو سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو اس دوران ایک سوال یہ پوچھا گیا تھا کہ نماز میں سر پر کپڑا لینا ضروری ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جناب ڈاکٹر صاحب نے مردوں اور عورتوں کا حکم الگ الگ بیان فرمایا۔ جہاں تک فقہی لحاظ سے جواب کا تعلق ہے تو انھوں نے درست ارشاد فرمایا، مگر ہم چند اور نکات کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: ’’مرد کے متعلق سر ڈھانپنا ضروری نہیں ہے…… کپڑے پہنے تو بہت اچھا ہے، نہ پہنے تو کسی کو کافر کہنے کا حق نہیں ہے۔ چنانچہ اس قسم
متلاشیانِ حق کے لیے دعوت فکرو عمل
مکتوب نمبر: ۷ ڈاکٹر محمد آصف بسم اﷲ الرحمن الرحیم عزیز احمدی دوستو! مرزا غلام احمد قادیانی 1893ء میں ایک کتاب لکھتے ہیں اور اس میں لکھتے ہیں: ترجمہ: جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن کے اندر مہدی کے آنے کا ذکر ہے تُو خوب جانتا ہے کہ وہ تمام احادیث ضعیف اور مجروح ہیں اور ایک دوسرے کی مخالف و معارض ہیں یہاں تک کہ ابن ماجہ اور دوسری کتابوں میں ایک حدیث یہ بھی موجود ہے کہ نہیں مہدی مگر عیسیٰؑ بن مریم پس احادیث کے اس شدید اختلاف، تعارض اور ضعف کے ہوتے ہوئے ان جیسی احادیث پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ ان احادیث کے راویوں پر بہت زیادہ کلام کیا گیا ہے جیساکہ محدثین پر مخفی نہیں۔
تبصرہ کتب
نام کتاب: ڈاکٹر سید شیر علی شاہ مدنیؒکے دلچسپ سفر نامے مرتب: مولانا نور اﷲ فارانی (مبصر:نجم الحق ) ضخامت: ۱۹۲ صفحات ناشر: القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد نوشہرہ زیر تبصرہ کتاب دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث حضرت ڈاکٹر سید شیر علی شاہ رحمہ اﷲ کے سفرناموں کا مجموعہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت کو حرمین شریفین، فلسطین، اردن، عراق اور ایران وغیرہ بلادِ اسلامیہ کی سیاحت کا موقع دیا۔ حضرت نے اپنے مشاہدات قلمبند فرمائے ہیں۔ ان مقدس مقامات میں بہت سے انبیاء علیہم السلام کی قبور ہیں۔ حضرت کو جن انبیاءِ کرام علیہم السلام کی قبور کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، ان مقامات کی جغرافیائی حدود اور وہاں کے رہنے والوں کے رسم و رواج، عادات و اخلاق
رُوداد احرار ختم نبوت کانفرنس، چناب نگر
حکیم محمد قاسم /مولانا کریم اﷲ قادیان کی طرح ربوہ میں بھی حضرت امیر شریعت سید عطا اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی جماعت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے اﷲ کی توفیق سے ستائیس فروری 1976 ء کو پیپلز پارٹی کے فسطائی دور کے باوجود ربوہ میں فاتحانہ داخل ہوکر اُس سرزمین پر پہلی نماز ِ جمعۃ المبارک ادا کی۔ اور چھ ضلعوں کی پولیس کے ناکوں کے باوجود قائد احرار جانشین امیر شریعت سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے پہلے اسلامی مرکز ’’جامع مسجد احرار ربوہ ‘‘کا سنگ بنیاد رکھا اور دورانِ تقریر گرفتار ہوئے ۔پھر بطل حریت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اﷲ علیہ وہاں پہنچے اور تقریر فرمائی ،اسی دوران فاتح ربوہ قائد احرار
مجلس احرار اسلا م سندھ کے مرکزی دفتر کا افتتاح
مولانا تنویر الحسن سفر کراچی کی تقریب یہ ہوئی کہ مجلس احرار اسلام سندھ کے امیر جناب مفتی عطاء الرحمن قریشی نے کراچی کے مجلس احرار اسلام کا صوبائی دفتر مسجد الفلاح، گلشن عمر میں قائم کیا۔ (اﷲ کریم اس مرکز کو شاد و آباد رکھے۔ آمین) مفتی صاحب نے مرکز کے افتتاح کے لیے نائب امیر مجلس احرار اسلام نواسۂ امیر شریعت سید محمد کفیل بخاری،مرکزی ناظم اعلیٰ مجاہد ختمِ نبوت حاجی عبداللطیف خالد چیمہ،مرکزی ناظم تبلیغ و دعوت و ارشاد ڈاکٹر محمد آصف اور خادمِ مجاہدینِ ختم نبوّت (راقم الحروف) کو مدعو کیا۔ محترم ناظم اعلی صاحب جناب عبد اللطیف خالد چیمہ ۷؍ دسمبر کو کراچی پہنچے جب کہ بھائی محمد آصف کے ہمراہ راقم ۸؍ دسمبر کو ملتان سے کراچی آمد ہوئی۔
مسافران آخرت
مجلس احرار اسلام ملتان کے مخلص کارکن حافظ محمد طارق چوہان کی بھاوج اور محمد سلیم چوہان کی اہلیہ، انتقال: 6نومبر2017 ہمارے کرم فرما جناب ملک طارق محمود (اسلام آباد) کی خوش دامن صاحبہ، انتقال: 19نومبر 2017 مطابق 29صفر 1438 مجلس احرار اسلام ملتان کے سابق نائب امیر چودھری عبد الجبار مرحوم، انتقال: 28نومبر 2017 مجلس احرار اسلام ملتان کے کارکن محمد شاکر خان خاکوانی کی والدہ ماجدہ، انتقال: 4دسمبر 2017 مجلس احرار اسلام ملتان کے کارکن شیخ محمد عاطف کی والدہ ماجدہ، انتقال: 8دسمبر2017 مدرسہ معمورہ ملتان کے سابق طالب علم سعید عباس خان کی اہلیہ اور آدم خان کی بہو، انتقال: 10دسمبر 2017 مجلس احرار اسلام ملتان کے ناظم نشرواشاعت فرحان الحق حقانی کے پھوپھو زاد حاجی عبد العزیز مرحوم کی اہلیہ اور