تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

پانامہ فیصلہ اور الزام کی سیاست

سید محمد کفیل بخاری پانامہ کیس کا ایسا فیصلہ آیا ہے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں سے دو نے کہا کہ ’’دال میں کالاکالا ہے‘‘ تین نے کہا کہ کچھ ہے تو سہی لیکن مزید تحقیق کی ضروت ہے۔ چنانچہ جے آئی ٹی کو کالا کالا تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس فیصلے پر فریقین نے مٹھائیاں تقسیم کیں، لڈو کھائے اور لڈی ڈالی، اپنے اپنے رہنماؤں پر پھول برسائے اور تعریف میں نعرے بلند کیے۔ ہمارے خیال میں شیخ رشید کا تبصرہ زیادہ دلچسپ ہے۔ ’’دو میں فیل، تین میں پاس اور وہ کہتے ہیں پپو پاس ہوگیا‘‘ عمران خان تو اب بھی تصور پانامہ کیے بیٹھے ہیں، دیکھئے پانامہ کا اونٹ کس

آزاد کشمیر اسمبلی میں تحریک ختم نبوت کی کامیابی!

عبداللطیف خالد چیمہ یادش بخیر ! راقم الحروف کو یاد ہے کہ 30 ؍ اپریل 1973 ء کو اخبارات کے ذریعے یہ خبر معلوم ہوئی کہ 29 ؍ اپریل 1973 ء کو (جب مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم خان مرحوم آزاد کشمیر کے صدر تھے )آزاد کشمیر اسمبلی نے لاہور ی و قادیانی مرزائیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے کر سبقت حاصل کر لی جس کا ملک بھر میں پر جوش خیر مقدم کیا گیا ،مجلس احرارا سلام نے مختلف مقامات سے خیر مقدمی اشتہارشائع کیے اور اجتماعات بھی منعقد کیے،راقم نے ملتان کا سفر کرکے قائد احرار سید عطا ء المحسن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ سے عبارت کی ترتیب بنوا کر اشتہار شائع کیا،آزاد کشمیر اسمبلی کے اس کلیدی فیصلے کو

قادیانیوں کی بے جا طرف داری

ڈاکٹر عمر فاروق احرار روزنامہ 92 نیوز لاہور کے 22؍ اپریل2017ء کے ادارتی صفحہ پر جناب ڈاکٹر طاہر مسعود کا کالم بعنوان ’’پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟‘‘ پڑھا۔ فاضل کالم نگار نے عبیداﷲ علیم کا ایک شعرنقل کرکے تحریرکیاہے کہ ’’ہم نے علیم کا شعر نقل تو کر دیا، لیکن اک ذرا شرمندگی سی بھی ہے کہ [علیم] کا ایک اقلیتی فرقہ سے تعلق تھا اور اِن دنوں اِس فرقہ پر اپنے دین کے بے رحم عشاقوں کے ہاتھوں افتادٹوٹی پڑی ہے کہ کوئی دن جاتاہے کہ کوئی نہ کوئی اس فرقے کا مقتول ہو جاتا ہے۔‘‘ پھر ڈاکٹرطاہرمسعودنے فسادفی الارض کا تعلق مذہب سے جوڑنے اور’’مذہب کی آڑ میں فسطائی چیرہ دستیوں کے بے رحمانہ مظاہروں ‘‘ پر زورِ بیان صرف کیاہے۔جناب

قادیانی جماعت اور بی جے پی کا گٹھ جوڑ

سیف اﷲ خالد بھارتی حکومت اور قادیانی جماعت کے درمیان گٹھ جوڑ بڑھنے کی اطلاعات ہیں، مرکز میں بی جے پی اور پنجاب میں کانگریس کے ساتھ قریبی تعلقات کا انکشاف ہوا ہے۔ بتایا گیا ہے بھارتی ریاست حیدر آباد میں قادیانی جماعت باقاعدہ طور پر بی جے پی کی اتحادی ہے اور حیدر آباد کے صدر کی بھارتی وزیراعظم نریندر موودی کے ساتھ خصوصی دوستی کی بھی اطلاعات ہیں اور قادیانی جماعت پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کے موقف کی ناصرف حامی بلکہ بعض معاملات میں مدد گار بھی بتائی جاتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی حکومت نے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا مسرور کو بھارتی پنجاب کے سرکاری طور پر دورہ کی دعوت دی ہے او رکہا ہے کہ

مشال خان کا قاتل …… مولوی یا مسٹر؟

عبدالرشید قمر مردان کی’’’ولی خان یونیورسٹی‘‘ میں غیر مذہبی طلبہ کے ہجوم کے ہاتھوں توہین مذہب کے نام پر ایک غیر مذہبی نوجوان مشال خان کا سفاکانہ قتل…… انتہائی افسوس ناک اور شرمناک ہے، مقتول توہین مذہب کا مرتکب ہوا تھا یا نہیں اس بحث سے قطع نظر کسی بھی فرد کو یا گروہ کو شریعت اسلامیہ یہ اختیار نہیں دیتی کہ وہ خود خدائی فوج دار بن کر اپنی عدالت لگائے اور سزائیں دیتا پھرے،……اسلامی ریاست میں حدود اﷲ کا نفاذ……سزا و تعزیر کی تنفیذ میں اتھارٹی یا توحاکم وقت ہو سکتا ہے یا عدالتیں ہوا کرتی ہیں…… مذہب کے نام پر ایسے کسی بھی قتل کو جسٹی فائی نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں کچھ باتیں غور طلب ضرور ہیں جن پر مکالمہ

سودی نظام اور وفاقی شرعی عدالت کا حالیہ فیصلہ

مولانا زاہد الراشدی وفاقی شرعی عدالت نے گزشتہ دنوں سودی نظام کے بارے میں مقدمہ کی سماعت یہ کہہ کر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے کہ جب سود کو حرام قرار دیا گیا تھا اس وقت حالات آج سے مختلف تھے، جبکہ آج کے حالات میں سود، ربوا اور انٹرسٹ کی کوئی متعینہ تعریف اور ان کے درمیان فرق واضح نہیں ہے اس لیے ان حالات میں مقدمہ کی سماعت کو جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ اس حوالہ سے ملک بھر میں اہل دین اور اہل علم کی طرف سے اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان شریعت کونسل نے بھی گزشتہ روز راولپنڈی میں ایک مشاورت کا اہتمام کیا جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سرکردہ علماء کرام

وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے کیا کہہ دیا!!

انصار عباسی گزشتہ منگل کے روز جنگ اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ریاض احمد خان نے سود کے متعلق کیس کو سنتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جس وقت سود کی ممانعت کا حکم ہوا اس وقت کی معیشت آج سے مختلف ہے۔ چیف جسٹس شرعی عدالت نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اس وقت کے نظام کو آج کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ interest کی تعریف سود نہیں بلکہ نقصان کا ازالہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر یقین نہیں آیا کہ یہ سوال شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے اٹھائے ہوسکتا ہے کہ وہ سود کے متعلق ایک خاص طبقہ فکر کے ذہن میں موجود سوالات

اُس پار کا منظر

پروفیسر محمد حمزہ نعیم ایک ہندوستانی اپنے انگریز دوست کے ہمراہ گپ شب میں مصروف تھا۔ اس نے انکشاف کیا کہ ہم نے ایک ایسی چیز بنائی ہے جس سے ہم دیوار کے اس پار دیکھ سکتے ہیں۔ انگریز بولا واؤ! وہ کیا چیز ہے؟ اس نے اسے اپنی بیٹھک کی دیوار میں ایک خفیہ سوراخ دکھایا اور کہا آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ دور تک دوسری طرف کے مناظر نظر آرہے ہیں۔ انگریز بیچارا اس کی بات سمجھا نہیں مگر چودہ صدیاں پہلے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سیکڑوں میل دور بہ مشیت الٰہی مجاہدوں کو دیکھ لیتے تھے، ان کو عسکری ہدایات دے لیتے تھے۔ بے دھڑک بِلا خوف بیت المقدس کے یہودیوں ، عیسائیوں کے سامنے جا کھڑے ہوتے تھے۔

معارف الحدیث

مولانا محمد منظور نعمانی رحمتہ اﷲ علیہ خریدو فروخت کے متعلق احکام و ہدایات پھلوں کی فصل تیاری سے پہلے نہ بیچی، خریدی جائے: عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ نھیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم عَنْ بَیْعِ الثِمَارِ حَتّٰی یَبْدُو صَلَا حُھَا نَھیَ الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِیْ۔ (رواہ البخاری ومسلم) وَفِیْ رَوَایَۃٍ لِمُسْلِم نَھٰی عَنْ بَیْعِ النَّخْلِ حَتّٰی تَزْ ھُوَ وَ عَنِ السُّنْبُلِ حَتَّی یَبْیَضَّ وَیَا مَنَ الْعَاھَۃَ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا پھلوں کی بیع سے اس وقت تک کہ ان میں پختگی آجائے آپ نے بیچنے والے کو بھی منع فرمایا اور خریدنے والے کوبھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور اسی حدیث کی صحیح مسلم کی ایک

جنت در آغوش

امام فخرالدین رازی رحمتہ اﷲ علیہ،ترجمہ و استفادہ: صبیح ہمدانی جان لو کہ اﷲ تعالی کی معرفت وہ جنت ہے جو عارفین کو موت سے پہلے ہی حاصل ہو گئی۔ گویا یہ قیامت کے بعد ملنے والی اس غائب از نظر اور موعودہ جنت کے مقابلے میں حاضر و موجود جنت ہے۔ وہ ایسے کہ جنت اسی کا نام ہے کہ تمھیں وہ حاصل ہو جائے جو تمھاری عقل کے ساتھ ساتھ تمھارے نفس کو بھی پسند ہو۔ اسی وجہ سے جنت سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے جنت نہ رہی تھی کہ ان کی عقل یہ سمجھتی تھی کہ اس شجرۂ ممنوعہ سے استفادہ اچھا نہیں جبکہ ان کا جی اس درخت کا پھل کھانے کو چاہتا تھا، جہاں عقل اور جی کی چاہت

بے نمازی

شاہ بلیغ الدین رحمتہ اﷲ علیہ منافق کی پہچان کئی طرح ہوتی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے بھی منافق کی ایک پہچان بتائی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی تھے۔ قریش کو سب سے پہلے اونچی آواز سے قرآن سنانے والے وہی تھے۔ اس کے لیے انھیں بڑے سخت امتحان سے گزرنا پڑا لیکن ایمان کے آگے امتحان کی پروا کسے تھی۔ جب مقامِ ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر انھوں نے قریش کو سورۂ رحمن سنائی تو پہلے وہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ یہ کیا پڑھ رہا ہے؟ کسی نے کہا یہ وہی ہے جو ان کے صاحب پر نازل ہوتی ہے! بس یہ سننا تھا کہ مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے

دو ’’رداءِ تطہیر‘‘

محمد یوسف شیخوپوری٭ اہل السنت والجماعت کے ہاں رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین جس طرح ایمان کا حصہ ہیں بالکل اسی طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت عظام بھی ایمان کا حصہ ہیں۔ جیسے چہرے کی دونوں آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے ایسے ہی ہم عقیدت کی نگاہ سے دونوں کو سرکاتاج سمجھتے ہیں اور یہ محض افسانہ یا الفاظ گوئی ہی نہیں بلکہ حقائق و براہین اس پر شاید ہیں ہمارا کلمہ وہ ہے جو ان دونوں کا تھا، نماز اور طریقہ نماز اوقاتِ نماز اور مقامِ نماز، زکوٰۃ، حج و عمرہ، صوم و دیگر تمام عبادات اور ان کے طریقے وہ ہی ہیں جو ان دونوں کے ہیں۔ صحابہ رسول

احادیثِ نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ

حافظ عبیداﷲ (قسط:۱۳) راویوں کا تعارف زُہیر بن حرب: ان کا تعارف ہوچکا ۔ مُعلّیٰ بن منصور الرازي (ابو یعلیٰ) الحنفي نزیل بغداد امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے ’’علامہ، حافظ، فقیہ اور بغداد کے مفتی‘‘۔ سنہ150ھ کے قریب پیدا ہوئے۔ ابوزرعہ نے کہا :’’معلی سچے ہیں‘‘۔ یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ امام عِجلی نے کہا کہ ’’وہ ثقہ اور صاحبِ سُنت اور قابل تھے، انہیں کئی بار قاضی بننے کی پیش کش ہوئی لیکن آپ نے انکار کیا‘‘۔ یعقوب بن شیبہ نے کہا : ’’وہ ثقہ، پختہ، سچے ، (جھوٹ سے) محفوظ اور فقیہ تھے‘‘۔ ابن سعد نے بھی انہیں ’’صدوق‘‘ (سچے) لکھا۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ’’ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں، مجھے ان کی

پروفیسر خالد شبیراحمد (مرکزی نائب امیر مجلس احرار اسلام) سے انٹرویو

شفقت رسول مرزا پرفیسر خالد شبیر احمد بیک وقت ایک معروف سیاسی رہنما، شاعر، ادیب اور محقق ہیں۔ فن خطابت کی خوبیوں سے بھی مالا مال ہیں۔جس طرح دیکھی ہوئی شخصیتوں میں وہ امیر شریعت کے والا و شیدا ہیں اسی طرح ان دیکھی شخصیات میں وہ مولانا حسرت موہانی اور علامہ اقبال کو بھی اپنے فکر و نظر کا قائد و رہنما سمجھتے ہیں اور ان دونوں شخصیات کو آزادی سے ہم کنار کرنے کے میدان میں بھی اپنا آئیڈیل اور ہیرو جانتے ہیں۔ جس طرح وہ امیر شریعت کی قوت گفتار کے شیدائی ہیں بالکل اسی طرح مولانا ظفر علی خان کی روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کے ذریعے، مولانا محمد علی جوہر کی ’’ہمدرد‘‘ اور’’ کامریڈ‘‘ کے ذریعے اور مولانا ابوالکلام آزاد کی ’’الہلال اور

عشق کے قیدی

(قسط:۹) ظفر جی قسمتِ شہباز و شاہیں 27 فروری ․․․․ 1953 ء ․․․․ کراچی ہم سویرے سویرے ہی سنٹرل جیل پہنچ گئے ۔چاند پوری نے پہلے تو وَارڈن کو اچھی خاصی تبلیغ کی ، جب وہ ٹس سے مس نہ ہوا تو منّت سماجت کی۔ اس پر بھی دال نہ گلی تو ایک بھاری سی تھیلی جیب سے نکال کر اس کی جب میں گھسیڑی اور کہا: " پورے 5 روپے کا بھان ہے۔ اب روک کے دکھا۔ " وارڈن بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رات کو گرفتار ہونے والے مولویوں کی پہلی ملاقات اس قدر قیمتی بھی ہوسکتی ہے ۔ پانسو " ٹیڈی پیسہ" بخشیش لے کر اُس نے جیل کا گیٹ کھول دیا۔سونا اُس دور میں

شیر کی ایک دن کی زندگی……ٹیپو سلطان شہید رحمتہ اﷲ علیہ

فیروز الدین احمد فریدی ۴؍مئی ۱۷۹۹ء ہماری تاریخ کا وہ الم ناک دن ہے جب برصغیر پاک و ہند کا ایک غیرت مند سپوت اپنی مادرِ وطن پر یہ کہہ کر نثار ہوگیا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ یہ سانحہ بیتے دو صدیاں بیت چکی ہیں لیکن آج بھی ہمارے کان یہ فقرہ ایک بار پھر سننے کو ترس رہے ہیں۔ یہ ملت آج اپنے ٹیپو سلطان کو تلاش کر رہی ہے۔ کسی کو کیا خبر کہ آج کس کو کس کا امتحان مقصود ہے؟ ٹیپو کے آباؤ اجداد کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار کے قبیلے زرکزئی سے بتایا جاتا ہے جو آج بھی وہاں آباد ہے۔ ٹیپو کی والدہ کا نام فاطمہ اور

دُنیا ئے تحقیق میں اشاریہ سازی کی اہمیت

سلمان عابد اشاریہ ’’برہان‘‘ دہلی : ایک نادر مثال علمی دُنیا میں ہر محقق اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے کہ کسی بھی موضوع یا کسی بھی چیز پر تحقیق کرنے سے قبل یہ جاننا نہایت ضروری ہوتا ہے کہ اس موضوع پر آج سے قبل کیا تحقیق ہوچکی ہے۔ سابقہ تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے وہ فیصلہ کرتا ہے کہ تحقیق کہاں سے شروع ہوگی۔ مزید یہ کہ سابقہ تحقیق سے آگاہی حاصل کرنے پر اُس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر تاریخ میں کیا کیا کام ہوچکے ہیں۔ اس کے لیے کتابیات اور اشاریہ نویسی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ موجودہ تیز رفتار اور سپیشلائزیشن کے دور میں اس کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے۔ پاک و ہند کی جامعات میں

تبصرہ کتب

نام کتاب: خدمات علماءِ سندھ اور جمعیت العماء مؤلف: مولانا محمد رمضان پھلپوٹو صفحات:۴۴۸ قیمت:۳۰۰ روپے ناشر: جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ ملنے کا پتہ: سندھ کے اہم دینی مراکز سے دستیاب ہوسکتی ہے۔0307-3604061 مبصر: سلیم اﷲ چوہان یہ کتاب سندھ کے علماء اور علماء ِ ہند کے کارناموں پر مشتمل ہے۔ کتاب میں چھے ابواب ہیں۔ باب اوّل میں مشائخ و علماءِ قادریہ راشدیہ سندھ کی سیاسی و جہادی خدمات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ باب الاسلام سندھ میں مشائخ عظام سلسلہ قادریہ راشدیہ کا فیض ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ شیخ الشیوخ، مرشدالموحدین حضرت پیر سید محمد راشد روضے دھنی رحمہ اﷲ کے سرچشمہ فیوضات سے چہار سو روشنیاں ہی روشنیاں نمودار ہوئیں، صاحب سرگزشت کابل رقم طراز ہیں:’’سید محمد

نقیب

گزشتہ شمارے

2017 May

پانامہ فیصلہ اور الزام کی سیاست

آزاد کشمیر اسمبلی میں تحریک ختم نبوت کی کامیابی!

قادیانیوں کی بے جا طرف داری

قادیانی جماعت اور بی جے پی کا گٹھ جوڑ

مشال خان کا قاتل …… مولوی یا مسٹر؟

سودی نظام اور وفاقی شرعی عدالت کا حالیہ فیصلہ

وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے کیا کہہ دیا!!

اُس پار کا منظر

معارف الحدیث

جنت در آغوش

بے نمازی

دو ’’رداءِ تطہیر‘‘

احادیثِ نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ

پروفیسر خالد شبیراحمد (مرکزی نائب امیر مجلس احرار اسلام) سے انٹرویو

عشق کے قیدی

شیر کی ایک دن کی زندگی……ٹیپو سلطان شہید رحمتہ اﷲ علیہ

دُنیا ئے تحقیق میں اشاریہ سازی کی اہمیت

تبصرہ کتب