دل کی بات
سید محمد کفیل بخاری حضرت حافظ سید محمد وکیل شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کا سانحۂ ارتحال حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے داماد، حضرت مولانا سید عطاء المومن بخاری مدظلہٗ، قائد احرار حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم کے بہنوئی اور میرے والد ماجد حضرت حافظ سید محمد وکیل شاہ بخاری ۸؍ رجب ۱۴۳۷ھ /۱۶؍ اپریل ۲۰۱۶ء بروز ہفتہ بعد از ظہر دو بج کر پچیس منٹ پر انتقال کرگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ والد ماجد رحمۃ اﷲ علیہ گزشتہ آٹھ ماہ سے شدید علیل تھے۔ اگست ۲۰۱۵ء میں معمولی بخار سے علالت کا آغاز ہوا جو بالآخر مرض الوفات پر منتج ہوا۔ درمیان میں کچھ افاقہ بھی ہوا مگر انتقال سے تین چار روز
جناب عبداللطیف خالد چیمہ کا دوروزہ کراچی کا دورہ
ابوعثمان احرار تحریک ختم نبوت کے رہنما اور مجلس احراراسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ 3؍ اپریل کی رات کے دوروزہ دورے پر کراچی پہنچے۔ رات کا قیام ماڈل کالونی میں محمود احمد کے ہاں کیا۔ رات گئے تک ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔ 4؍اپریل کو بعدنماز ظہر کراچی جماعت کے نائب امیر قاری علی شیر قادری کی دعوت پرمدرسہ عربیہ سیف الاسلام (کھنڈوگوٹھ)نارتھ ناظم آباد کراچی میں طلباء وطالبات سے مختصر خطاب کیا اور قاری علی شیر قادری کی جانب سے دیئے گئے ظہرانے میں شرکت کی ،اس موقع پر محمد شفیع الرحمن احرار،قاری کرامت علی ،مولاناعبدالغفور مظفر گڑھی،قاری ریاض احمد ،مولانا محمد عبداﷲ،مولانا احمدمعاویہ بھی موجود تھے۔رات کا قیام پروگرام کے میزبان مفتی عطاء الرحمن قریشی اور مصطفیٰ طارق قریشی کے مدرسہ
لبرل ازم کا محرک کون؟
محمد اعجاز مصطفی بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ ہمارا ملک ایک عرصہ سے دہشت گردی کی زد میں ہے۔ ۱۷؍جمادی الاخریٰ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۷؍مارچ ۲۰۱۶ء بروز اتوار شام کے وقت گلشن اقبال پارک لاہور میں خود کش دھماکا ہوا جس میں ۷۰؍افراد شہید اور ساڑھے تین سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے اس دھماکا کی پر زور مذمت ، غمزدہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی اور اس واقعہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا، لیکن اپنے سے اس ملبہ کو ہٹانے اور اس واقعہ کو مذہبی طبقے کی طرف رخ دینے کی ناکام کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ خود کش حملہ آور کا نام محمد یوسف ہے اور
نفاق و افتراق ہے، شدید خلفشار ہے
پروفیسر خالد شبیر احمد دین اسلام نے کیا کچھ نہیں دیا۔ کاش ہم دین اسلام کی راہ پر چلتے لیکن ہم نے تو زندگی کے ہر ایک پہلو میں خواہ وہ معاشی ہو یا پھر سیاسی ، تمدنی ہو یا پھر اخلاقی، اسلام سے عملی بغاوت کر کے اپنے آپ کو نفاق وافتراق کی بے پناہ گہرائیوں میں گرالیا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کی جو صورت حال ہے اس کو نثر میں بیان کرنا قدرے مشکل نظر آتا ہے۔ شدت احساس کی عکاسی اشعار کی صورت میں مزید واضح ہو کر سامنے آتی ہے اور بہتر طور پر اندازہ کیا جاسکتا ہے ملکی حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔ اور ہمارے ملک کے اندر کیا صورت حال ہے۔ خزاں چمن پہ چھا گئی
پاکستانی میڈیا کا ’’اپریل فول ‘‘ اور ہمارا ثقافتی فقدان
عاصم حفیظ پاکستانی قوم کو مبارک ہو کہ اور کسی نے منایا ہو یا نہ منایا ہو ، ملک کے روشن خیال اور روایت سازمیڈیا نے خوب دھوم دھڑکے سے ’’ اپریل فول ‘‘ نامی تہوار منایا ہے ۔ملک کے بڑے میڈیا نیٹ ورک ’’ اے آر وائی نیوز‘‘ اور ’’ نیو چینل‘‘ کی جانب سے کرکٹ ورلڈ کپ سیمی فائنل کے حوالے سے جھوٹی خبریں چلائی گئیں اور بعدازاں انہیں اپریل فول قرار دے دیا گیا۔ گویا میڈیا لوگوں کو یہ یاد کرانے میں کامیاب رہا کہ آج ایک اپریل فول نامی تہوار بھی ہے ۔ اسے کہتے ہیں توجہ مبذو ل کرانا ۔ کہیں کوئی بھول نہ جائے ۔کسی قوم میں من پسندروایات اور رسوم و رواج کس طرح پروان چڑھائے جاتے ہیں
مدبّرِ اعظم…… سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما
شاہ بلیغ الدین رحمۃ اﷲ علیہ اکتالیس سال جسے اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی حکمرانی بخشی اور پھر خیرالقرون سے متصل یعنی سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کے بالکل بعد کے دور میں جسے گورنری اور امارت کا منصب نصیب ہوا اس کی عظمت کا کیا ٹھکا نہ ہے۔ اس جلیل القدر فرزندِ اسلام کے دور میں جہاد کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر قائم ہوا۔ لاالٰہ کا پرچم بلند ہوتا رہا، مالِ غنیمت ، سلطنت کے اطراف سے بیت المال میں آتا رہا اور مسلمانوں نے راحت وآرام اور عدل و انصاف سے زندگی بسر کی۔ صحیح بخاری کتاب الایمان اور صحیح مسلم کتاب الاقضیہ کی حدیث ہے کہ فتحِ مکہ کے موقع پر نبیِ قبلتین صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے اس
ذرا ہمت سے کام لیں!
پروفیسر محمد حمزہ نعیم سردار جی مچھر دانی لگائے لیٹے ہی تھے کہ انھیں باہر ایک جگنو نظر پڑا۔ وہ فوراً چیخے ’’واہ گرو جی! مجھے اس ظالم سے بچاؤ، اب تو یہ مجھے ٹارچ لے کر ڈھونڈ رہا ہے۔ میں نے پورے ایک ہزار کی مچھر دانی خریدی ہے مگر یہ میری طرف ہی آرہا ہے۔‘‘ جگنو کو ڈینگی مچھر سمجھنے والے سردار کی طرح آج مسلمان ہر روشن چیز کوسپریم طاقتوں کا ایٹم بم سمجھ رہا ہے۔ کاش اس کا تعلق سپریم طاقتوں کے اوپر کی سپر طاقت کے ساتھ ہوتا تو یہ اس طرح یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْمِکا شکار نہ ہوتا۔ ’’زندگی اﷲ کی امانت ہے‘‘ اور یہ امانت کوئی دوسرا نہیں چھین سکتا۔ سپریم طاقت کا اعلان ہورہا ہے لاَ یَسْتَاء
احادیثِ نُزولِ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ
حافظ عبید اﷲ قسط نمبر۱ نبی کریم حضرت محمد مصطفی ِ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جیسے ماضی میں پیش آنے والے بہت سے واقعات کے بارے میں خبر دی اسی طرح مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے بہت سے احداث وواقعات کے بارے میں بھی خبردار فرمایا، ماضی کے جن واقعات کے بارے میں آپ ِ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتایا ان
دنیائے اسلام کے سب سے بڑے حکمران سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما
تنویر الحسن احرار اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لیے انبیا ء کرام علیھم الصلوٰات والتسلیمات کو دنیا میں بھیجا۔ سب سے آخر میں سب سے بلند درجہ نبی جناب سیدنا محمد کریم رؤف الرحیم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھیجا گیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں کو دعوت ِفلاح دی۔ جنہوں نے دعوت قبول کی اﷲ نے انعام کے طور پر ان کو کامیابی کا پروانہ اس دنیا میں عطاء کر دیا۔ نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رحلت تک کم و بیش ایک لاکھ چوالیس ہزار لوگوں نے کلمہ اسلام پڑھا اور کامیابی کی سند حاصل کی۔ ان عظیم لوگوں کو صحبت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم حاصل ہونے کی وجہ سے ’’صحابی‘‘ کہا جاتا ہے ۔اور انہی صحابہ
امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا
’’میں سر سے پاؤں تک سیاسی آدمی ہوں۔ میری یہ دِلی آرزو ہے کہ مسلمان رہوں اور اسلام پر قائم رہ کر مروں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں اسلام کا فرزند ہوں۔‘‘ _____________________(۱۴؍ جون ۱۹۳۱ء، بٹالہ) استبداد کی چکی کا دستہ گورے کے ہاتھ میں ہو یا کالے کے ہاتھ میں چکی وہی رہتی ہے …… اور میں اس چکی کو توڑ دینا چاہتا ہوں _____________________(جلسۂ عام سے خطاب، ۱۹۳۰ء موچی دروازہ لاہور) میں حکومت سے کہتا ہوں کہ: وہ مفلسی وبیروزگاری کے مسئلے کو حل کرے جو حکومتیں اس مسئلے کو حل نہیں کرتیں…… تو یہ مسئلہ اُن حکومتوں کو حل کر دیتا ہے _____________________(جلسۂ عام سے خطاب، ۱۹۳۰ء موچی دروازہ لاہور)
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ اور تاریخی روایات
محمدعرفان الحق ایڈووکیٹ قرآن و حدیث جیسے معطر گلدستوں کو چھوڑ کر تاریخ کے رطب و یابس پر اعتماد کرنے والوں کو کس طرح باور کروایا جائے کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کا دورِ حکومت اسلامی تاریخ کا وہ عظیم الشان سنہرا دور ہے، جس کی مثال بعد از خلفائے راشدینؓ چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریبی رفیق ، برادرنسبتی، ہم زلف، کاتب وحی اور کئی بشارتوں کے مصداق ،عظمت و کردار کے گوہر،تابدار صحابی ہیں۔ لسان ِنبوت نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کوجنتی کہہ کر ان کی عدالت و دیانت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ ان کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی بہت بڑا گناہ
سیرت و سوانح ، امیر المؤمنین، خلیفۂ راشد سیدنا معاویہ سلام اﷲ ورضوانہ علیہ
خطاب :امام اہلِ سنت سید ابو معاویہ ابوذر حسنی بخاری رحمہ اﷲ قسط نمبر ۱ جمعۃ المبارک، ۲۳؍ رجب۱۳۹۸ھ/۳۰؍ جون ۱۹۷۸ء خطبۂ مسنونہ: أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ وَ نُؤْمِنُ بِہٖ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سِیِّئٰاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ہَادِیَ لَہُ وَ نَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہُ فِیْ الْخَلْقِ وَالْاَمْرِ وَ نَشْہَدُ أنَّ سِیِّدَنَا وَ مَوْلٰنَا مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ لَاْ نَبِیَّ بَعْدَہٗ وَ لَاْ رَسُوْلَ
منقبت درمدحِ سیدنا حسن سلام اﷲ علیہ
محمد سلمان قریشی ہیں دِل کی دھڑکن وہ فاطمہؓ کے تو نورِ چشمِ علیؓ حسنؓ ہیں چمن نبیؐ نے لگایا تھا جو اسی چمن کی کلی حسنؓ ہیں خطابت ایسی کہ لفظ و معنی کے جھرنے دِل میں اترتے جائیں جلا جو بخشے دِل و نظر کو وہ ایسی اک روشنی حسنؓ ہیں اٹھا کے کندھوں پہ ابن زہراءؓ کو بولے صدیق ؓ یہ علیؓ سے نہیں شباہت میں آپ جیسے مگر شبیہِ نبیؐ حسنؓ ہیں بنا ہے سید یہ میرا بیٹا صلح کرائے گا مسلمیں میں لسانِ آقاؐ سے دنیا والو! جنھیں بشارت ملی حسنؓ ہیں معاویہؓ سے مصالحت میں ذرا بھی تاخیر تم نہ کرنا یہ بات حضرت علیؓ نے جن سے بوقتِ رحلت کہی حسنؓ ہیں نفاق سے اور مقاتلت سے بچا
غزل
عتبان محمد چوہان اُٹھ گیا تیرے آستانے سے تجھ کو نسبت ہی کیا دوانے سے ہم کو کچھ فرق ہی نہیں پڑتا اُن کے آنے سے، اُن کے جانے سے تیری یادوں کے سلسلے جاناں جان جاتی ہے ٹوٹ جانے سے کچھ مہذب نہ ہوسکا انسان صرف بستی نئی بسانے سے تو جسے سنگِ راہ سمجھا تھا ہم ہی بیٹھے تھے وہ، زمانے سے بس درندے نکل رہے ہیں اب بَن کے دنیا کے کارخانے سے تم یہ سمجھے، رقیب جیسے ہیں! ’’ہم بھی مر جائیں جان جانے سے‘‘ وہ مرے منتظر ہیں خلوت میں آ ہی جائے کسی بہانے سے آدمی معتبر نہیں ہوتا سر کو دستار میں چھپانے سے گر یہ عتبانؔ ہی نہ ہو لوگو باز آجاؤ گے ستانے سے؟ (۱۳؍ اپریل
سید وکیل شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ
میجر سعید اختر اُو مردِ خوش خِصال و نیک خُو بُود حیا دار و غیور و صُلح جُو بُود حلیم و صابر و جُویائے تسلیم فہیم و بُردبار و خندّہ رُو بُود عُلوم و آگہی صہبائے اُو شُد دریں میخانہ ، خُود جام و سُبو بُود کہ صدہا تِشنہ کام از ایں نوشیدند ہزاراں را نوشیدن آرزو بُود نہ دامادِ عطا اُو را فقط دان مُراد و اِعتماد و دادِ اُو بُود کفیل و ذوالکفل را پدرِ مُشفق برائے خواہرانِ آنہا حِصارِ آبرو بُود الٰہی از تو بر اُو جُود خواہم کہ اُو بر خَلقِ تو ، خُود نرم رُو بُود ٭……٭……٭
حافظ سید محمد وکیل شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
حبیب الرحمن بٹالوی ’’یہ سوچ کر میں نے چنی ہے آخری آرامگاہ میں تھا مٹی اور مجھے مٹی کا گھر اچھا لگا‘‘ ۱۶؍اپریل ۲۰۱۶ء بروز ہفتہ سید وکیل شاہ جی بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ دوسرے دن صبح سات کے قریب ان کا جسد خاکی جلال باقری قبرستان میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ طبیعت ان کی کافی دنوں سے مضمحل چلی آرہی تھی۔ خبریں ا چھی نہیں مل رہی تھیں۔ کولہے کی ہڈی کے فریکچر کے بعد ان کی نقل و حرکت اولاً لاٹھی کے سہارے اور پھر مریضوں والے واکر پر گھر سے باہر دارِ بنی ہاشم کے صحن اور پھر گھرتک محدود ہوکے رہ گئی تھی۔ اخبار بینی دوست احباب سے
پروفیسر عطاء اﷲ اعوان صاحب کا سانحہ ارتحال
مولانا جمیل الرحمن عباسی پروفیسر عطاء اﷲ اعوان صاحب کا نام بھی میرے موبائل کی ڈائری سے کٹ کر قرطاسِ دل پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوگیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۷ اپریل بروز جمعرات دو بجے استاذ محترم مولانا مفتی عطاء الرحمن صاحب مدظلہ کے ساتھ مرکزی عید گاہ میں جب جنازہ کے لئے پہنچا تو وہاں مولانا عزیز الرحمن جالندھری مدظلہ کو بھی جنازہ میں شرکت کا منتظر پایا تب حضرت مفتی صاحب مدظلہ سے پوچھا کہ جنازہ کس کا ہے؟ مفتی صاحب نے بتایا : ’’پروفیسر عطاء اﷲ اعوان صاحب کی رحلت ہوگئی ہے، ان کی نماز جنازہ ادا کرنی ہے‘‘ بے ساختہ زبان سے انا ﷲ وانا الیہ راجعون نکلا اور میں نے مفتی صاحب سے عرض کیا کہ اعوان
اختلافاتِ اُمت اور اُن کا حل، وحدت امت
مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمتہ اﷲ علیہ (آخری قسط) نقیب ختم نبوت مارچ اور اپریل ۲۰۱۶ء کے شماروں میں مفتی اعظم حضرت مولانامفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ کے خطاب کی دو قسطیں قارئین مطالعہ فرما چکے ہیں۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف رحمہ اﷲ کی دعوت پر جامعہ تعلیمات اسلامیہ فیصل آباد میں حضرت مفتی صاحب نے یہ خطاب فرمایا جسے حکیم صاحب مرحوم نے اپنے جریدہ ہفت روزہ ’’المنبر‘‘ میں شائع کیا۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’اختلافاتِ اُمت اور اُن
تبصرہ کتب
مبصر: صبیح ہمدانی نام کتاب: قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ (جدید ایڈیشن) مؤلف: پروفیسر محمد الیاس برنی رحمۃ اﷲ علیہ تصحیح و ترتیب ِجدید: عبد الرحمن باوا ناشر: ختمِ نبوّت اکیڈمی، لندن ضخامت: ۸۰۰ صفحات قیمت: درج نہیں ملتِ کاذبہ مرزائیہ کے نمودار ہونے سے لے کر آج تک علمائے اسلام نے اس موضوع پرجو تحریری خدمات سر انجام دی ہیں وہ حقانیتِ اسلام کی ایک مستقل دلیل ہیں۔یعنی مسیلمۂ پنجاب اور اس کی امت کی جانب سے اٹھائے جانے والا
مسافران آخرت
٭ مجلس احرارِ اسلام ڈیرہ اسمٰعیل خان کے مخلص اور وفادار کارکن جناب غلام حسین احرار گزشتہ ماہ انتقال کر گئے۔ مرحوم انتہائی صالح انسان تھے۔ جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی تقاریر سنیں، ان کی شخصیت اور فکر سے متاثر ہوئے اور پھر تادم واپسیں مجلس احرار اسلام سے وابستہ رہے۔ احرار کے ساتھ ان کی وابستگی مثالی تھی۔ ٭ حافظ محمد سعید خواجہ گزشتہ ماہ امریکہ میں انتقال کر گئے۔مرحوم، خواجہ اﷲ بخش کے فرزند تھے اور خواجہ اﷲ بخش مرحوم قیام پاکستان سے قبل امرتسر میں رہائش پذیر تھے جہاں حضرت امیر شریعت سے تعلق قائم ہوا جو عقیدت و محبت کے سانچے میں ڈھل کر آخری سانس تک باقی رہا۔ قیام پاکستان کے بعد