ریاست کا حق
سید محمد کفیل بخاری ۵؍رمضان المبارک ۱۴۳۷ھ /۱۱؍جون ۲۰۱۶ء کو آج ٹی وی چینل کی شام کی نشریات ’’رمضان ہمارا ایمان‘‘ میں میزبان اداکار حمزہ علی عباسی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ: ’’ریاست کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو غیر مسلم ڈکلیئر کرے انھوں نے قادیانیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھی حقوق ہیں ان کو قتل کرنے کا کسی کو حق نہیں وغیرہ وغیرہ۔ قارئین! یہ گفتگو رمضان المبارک کے حوالے سے ہونے والے پروگرام کی ہے۔ جو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت کی گئی۔قادیانیوں کا یہ پرانا حربہ ہے اور وقتاً فوقتاً وہ کرائے کے ٹٹوؤں سے یہ کام لیتے رہتے ہیں او رہمیشہ منہ کی کھاتے ہیں۔ الحمدﷲ اس مرتبہ بھی وہ منہ کے بل
چیئرمین پیمرا کے نام کھلا خط
بسم اﷲ الرحمن الرحیم بخدمت جناب چیرمین ’’پیمرا‘‘ اسلام آباد جناب عالی! اسلام علیکم ! گزارش ہے کہ ۱۱؍ جون 2016، 5؍ رمضان المبارک 1437 بروز ہفتہ، ’’آج ‘‘ ٹی وی چینل کی شام کی نشریات میں حمزہ علی عباسی کی میزبانی میں ’’رمضان ہمارا ایمان‘‘ پروگرام میں اینکر پرسن نے اُمت کے چودہ سوسالہ متفقہ عقیدۂ ختم نبوت میں تشکیک پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی اور 1974ء میں قادیانیوں کو قومی اسمبلی میں غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے فیصلے کو ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ ’’ریاست‘‘ کا یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو غیر مسلم ڈکلیئر کرے۔ جناب والا! قادیانی اسلاماً اور قانوناً غیر مسلم اقلیت ہیں لیکن قادیانی اس فیصلے کو نہ صرف تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس
ایک اور یوٹرن!
عبداللطیف خالد چیمہ اسلام ایک مذہب نہیں بلکہ دین ہے اور دین اسلام انسانی زندگی کے تمام امور کا احاطہ کرتا ہے ،اسی لیے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں نے دین کے عملی نفاذ کے لیے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا تھا ،بانیٔ پاکستان محمد علی جناح مرحوم نے متعدد بار واضح طور پر قیام ملک کا مقصد ’’اسلامی فلاحی ریاست قرار دیا تھا‘‘لیکن واحسرتا! کہ آج تک وطنِ عزیز اسلام کا گہوارہ بننے کی بجائے ،عالمی کفر کی چیرہ دستیوں کا شکار ہے اور امریکی اثرو نفوذ کی دلدل میں پھنسا ہواہے ،ہمارے حکمران اور سیاستدان امریکی مفادات کے تابع آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی پالیسیاں اپناتے چلے آرہے ہیں اور قوم کو معاشی طور پر گداگر بنا دیا ہے ،سابق
مجلس احرارِ اسلام کی ماتحت شاخیں متوجہ ہوں
مجلس احرار اسلام پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس منعقدہ ملتان 20؍ مارچ 2016 ء کے فیصلے کے مطابق آئندہ پانچ سال کے لیے جماعت کی جدید رُکنیت و معاونت سازی کا عمل جاری ہے اور یہ مدت 30؍جولائی 2016 ء کو ختم ہو رہی ہے ،بظاہر اکثرماتحت شاخوں نے اس کام کو جاری تو رکھا ہوا ہے لیکن سست روی کاشکار ہیں ،ان سطور کے ذریعے جملہ ماتحت شاخوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ رُکنیت و معاونت سازی کے عمل کو تیز تر کردیں اور دستور کے مطابق اپنے اپنے انتخابات مکمل کرکے اس کی مصدقہ نکل مرکزی دفتر ملتان روانہ کریں ،مزید یہ کہ رُکنیت ومعاونت سازی کے دائرے کو ہر ممکن حد تک وسیع کرنے کی کوشش کریں، مساجد
اداکار حمزہ علی عباسی کے خلاف کاروائی پر قادیانی دھمکیاں
سیف اﷲ خالد دو ہفتے قبل نجی ٹی وی چینل پر قادیانیت کی حمایت کے خلاف پیمرا کو خط لکھنے پر قادیانی جماعت نے شکایت کنندگان کے فون نمبر حاصل کرکے انہیں ڈرانے دھمکانے اور گالی گلوچ کا سلسلہ شروع کردیا ہے ،قانونی کارروائی سے بچنے کی خاطر فون بیرون ملک سے کروائے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب قادیانی جماعت کھل کر حمزہ علی عباسی کی پشت پر آگئی ہے، قادیانی ویب نے حمزہ کے ساتھ ایک پروگرام بھی کیا ہے اور قادیانی جماعت کی نیوز ویب سائٹ Rabwa Timesبھی مسلسل حمزہ علی کی حمایت میں سٹوریز شائع کرکے حمزہ اور قادیانی جماعت کے تعلق کو ثابت کیا جا رہا ہے ۔ اوصاف کو دستیاب اطلاعات کے مطابق چند روز قبل ایک نجی ٹی وی
مولوی اور معاشرہ
اوریامقبول جان شیر شاہ سوری کے بنائے ہوئے پیمائشِ زمین کے خوبصورت نظام کی بنیاد پر جب انگریز نے برصغیر پاک و ہند میں زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنے شروع کیے تو اس کے دماغ میں ایک طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی اور وہ تھا اس سر زمین کا مولوی۔انگریز کی آمد سے پہلے یہ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء وفضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر کرتے تھے۔ انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ دلی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے
تاریخ کے دو سبق …… جواب آں غزل
محمود حجازی 29؍مئی 2016ء کو روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں معروف کالم نگار جاوید چودھری کا کالم بعنوان ’’تاریخ کے دو سبق‘‘ نظر سے گزرا۔ اس کالم کے بنیادی نکات اور مندرجات ، ٹیڑھے ترچھے زاویہ نگا، عجیب و غریب استدلال ، الٹی سیدھی تاویلات اور برخود غلط منطقی موشگافیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ موصوف نے مطالعۂ تاریخ کے مسلمہ اصولوں کو پس پشت ڈال کر تاریخ کے نام پر تاریخ کے موضوع سے جو کھلواڑ کیا ہے وہ آنجناب کے یک رخے پن، جانبدارانہ رویے اور من مانی تعبیرات و تفہیمات کا شاہکار ہے۔ ان کے اس مطالعاتی تجزیے کونہ معروضی ، نہ موضوعی ، نہ انعکاسی ، نہ فلسفیانہ اور نہ ہی عالمانہ قرار دیا جاسکتاہے بلکہ یہ سطحی اصل حقائق کے برعکس اور Logic
کہاں سے چلے ہم کہاں آن پہنچے
پروفیسر خالد شبیر آف شور کمپنیوں کے شور کے پیچھے ایک اور شور بھی ہے اور وہ شور نہیں بلکہ اب شر کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ سیاسی رقابت اپنے پورے عروج پر ہے۔ اس عروج کے پیچھے معلوم یہ ہوتا ہے کہ ایک دفعہ پھر وہی کچھ ہونے والا ہے جو پہلے ہوا تھا، یہ ملک کے لیے ایک خطرناک صورت حال ہوگی۔ اس ملک کے سیاسی پنڈتوں کی بیان بازی نے ہر محب وطن شہری کی نیند حرام کر کے رکھ دی ہے۔ اس بیان بازی میں نہ شعور ہے نہ تدبر نہ تفکر۔ بس اپنے اپنے مورچے میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر اپنے دلوں کی کدورت کے تیر چلائے جاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتائج ملک اور وطن
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اﷲ علیہ نام ، نسب خاندان: عائشہ رضی اﷲ عنہا نام، صدیقہ لقب، ام المؤمنین خطاب ام عبداﷲ کنیت اور حمیرا لقب ہے[۱]۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنت الصدیق سے خطاب فرمایا ہے [۲]۔ عبداﷲ ، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے بھانجے یعنی آپ کی بہن حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا کے صاحبزادے تھے، جو زیادہ تر اپنے باپ کی نسبت سے عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ کے نام سے مشہور ہیں۔ عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے، چونکہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی اولاد نہ تھی، اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے حسرت کے ساتھ عرض پرداز ہوئیں کہ اور بیبیوں نے تو اپنی سابق
امیر المؤمنین خلیفۂ راشدسیدنا علی رضی اﷲ عنہ
شجرۂ نسب: آپ کا شجرۂ نسب والد کی طرف سے یوں ہے۔ علی بن عبدمناف(ابوطالب) بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف۔ ماں کی طرف سے علی بن فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبدمناف ۔ آپ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا زاد بھائی ہیں۔ عبدمناف کی اولاد بہت تھی۔ اسبابِ معاش بہت کم، اس لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علی کو چچا سے مانگ لیا کہ اس کی تربیت وتعلیم اور پرورش کا میں کفیل ہوں۔ ابوطالب نے بخوشی بیٹا دے دیا۔ جسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پالا پوسا، پروان چڑھایا، قلب ِ علی کو نورِ ایمان سے منور کیا، علم وعمل کی نعمتوں سے مالا مال کیا، داماد بنایا اور ’’اقضیٰ ھم علّی‘‘ کے منصبِ جلیلہ پر فائز کیا۔ کنیت: آپ
سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا
مولانا محمد نافع رحمتہ اﷲ علیہ ولادت با سعادت: سیرت نگاروں کے نزدیک سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سن ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض حضرات لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں قریشِ مکہ کعبہ شریف کی بنا کر رہے تھے اس زمانہ میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی ولادت باسعادت حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کے بطن مبارک سے ہوئی اور اس وقت آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک پینتیس سال کو پہنچ چکی تھی۔ یہ واقعہ نبوت سے قریباً پانچ برس پہلے کا ہے [۱]۔ بعض علماء کے نزدیک ان کی ولادت بعثت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب ہوئی اور آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک
صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم
شاہ بلیغ الدین رحمتہ اﷲ علیہ فرمایا کہ ُاحد کا پہاڑ سونے کا بن جائے اور کوئی یہ پورا سونے کا پہاڑ اﷲ کی راہ میں بانٹ دے اور میرا صحابی ایک مُد، سمجھو کہ ایک مٹھی اﷲ کی راہ میں دے تو جو ثواب میرے صحابی کو ہوگا اس کا آدھا ثواب بھی اسے نہ ملے گا جو سونے کا پہاڑ لُٹادے گا یہ روایت حضرت ابوسعید خُدری رضی اﷲ عنہ نے بیان کی ہے بخاری اور مسلم دونوں میں یہ موجود ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ( رضی اﷲ عنہم) کی کیفیت اُمت میں یہ ہے کہ جیسے کھانے میں نمک اگر نمک نہیں تو کھانا بیکا رہے!
عیدالفطر
مولاناابوالکلام آزادرحمۃ اﷲ علیہ فقیرنے یہ تحریر مولاناابوالکلام آزادؒکے عیدالفطرکے حوالے سے لکھے جانے والے ایک منفرد مضمون میں سے منتخب کی ہے۔اس میں عمومی تحریروں کی طرح عیدکے فضائل ومسائل نہیں بیان کیے گئے۔ مختصراًکہاجائے تویہ تحریرامت مرحومہ کو اس کا بھولاسبق یاددلاتی ہے اوراس کاحرف حرف دعوت فکرکہن دیتاہے۔اس کاعنوان گوسادہ ساہے لیکن مولاناآزادؒکے فکراورخاص داعیانہ اندازنے اس کو وہ رنگ دیاہے کہ جیسے جیسے پڑھتے جاؤ دل ودماغ کی دنیامیں ہلچل پیداہوجاتی ہے۔غرض اس تحریرسے عیدکا حقیقی معنیٰ ومفہوم سمجھ میں آتاہے۔ اور بندۂ حقیرنے تو مولاناؒکی اس تحریرسے ہی اس جشنِ ملّی کی حقیقت کوسمجھاہے اوراسی حقیقت کوآپ تک پہنچانے کے لیے اس کا انتخاب کیاہے۔دعا ہے کہ رب کریم قارئین کواس کے مطالب مطلوب تک لے جائے۔ مولاناؒ کی قبر
احادیث نزول عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام
منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ (قسط:۳) حافظ عبیداﷲ امام ابومحمد حسن بن علی البربہاری ؒ (متوفی 329 ہجری) لکھتے ہیں: ’’اذا سمعتَ الرجل یطعن علی الآثار ولا یقبلہا او یُنکر شیئاً من اخبار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فاتّہمہ علی الاسلام فانہ رجل ردیء القول والمذہب……‘‘ جب تم کسی آدمی کو سنو کہ وہ آثار میں طعن کرتا ہے اور انہیں قبول نہیں کرتا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کسی بات کا انکار کرتا ہے تو اس کا اسلام متّہم ہے اور وہ خراب قول اور مذہب والا ہے ۔ (شرح السنۃ للبربہاری، صفحہ 79 ، مکتبۃ دار المنہاج ، الریاض) حافظ ابن قیم رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 791ھ) لکھتے ہیں : ’’ان اﷲَ سبحانہ وتعالیٰ انزل علیٰ رسُولِہ
نعت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم
ماہرالقادری رسولِ مجتبیٰ کہیے محمد مصطفی کہیے خدا کے بعد بس وہ ہیں پھر اس کے بعد کیا کہیے شریعت کا ہے یہ اصرار ختم الانبیاء کہیے محبت کا تقاضا ہے کہ محبوبِ خدا کہیے جبین و رُخ محمدؐ کے تجلی ہی تجلی ہیں کسے شمس الضحیٰ کہیے، کسے بدرالدجیٰ کہیے جب ان کا ذکر ہو دنیا سراپا گوش ہو جائے جب ان کا نام آئے مرحبا! صلِ علیٰ کہیے غبارِ راہِ طیبہ سرمۂ چشمِ بصیرت ہے یہی وہ خاک ہے جس خاک کو خاکِ شفا کہیے صداقت پر بِنا رکھی گئی ہے دینِ فطرت کی اسی تعبیر کو انسانیت کا ارتقا کہیے مرے سرکار کے نقشِ قدم شمعِ ہدایت ہیں یہ وہ منزل ہے جس کو مغفرت کا راستا کہیے محمدؐ کی نبوت دائرہ
جناب پروفیسر سید محمد وکیل شاہ رحمتہ اﷲ علیہ کے انتقال پر
پروفیسر خالد شبیر احمد ہم سے بچھڑ کے کھو گئے وکیل شاہ جی ملک عدم کے ہوگئے وکیل شاہ جی داماد تھے وہ امیر شریعت کے طرحدار چہرہ تھا ضَوفشاں تو گفتار ضوفشار شاداب تھے وہ مثل گل، سرسبز مثلِ برگ در فراق و ہجر کھلا ہم پہ بعد مرگ دنیائے پارسائی میں یکتا تھے بے مثال
سیرت و سوانح امیر المؤمنین خلیفۂ راشدسید نا معاویہ سلام اﷲ ورضوانہ علیہ
خطاب: مولانا سید ابومعاویہ ابوذر حسنی بخاری رحمتہ اﷲ علیہ قسط نمبر۳ جمعۃ المبارک، ۲۳؍ رجب ۱۳۹۸ھ/ ۳۰؍ جون ۱۹۷۸ء، وہاڑی تورات اور انجیل میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نشانیاں: کیونکہ آپ کی نشانی تورات اور انجیل میں یہ آئی تھی کہ لَاْ یُمِلُّہُ السُّؤَالُ، کہ کوئی کتنا مانگے، پیسہ مانگے، نقد مانگے، کپڑا مانگے، غلّہ مانگے، اناج مانگے، جانور مانگے، زمین مانگے اور آپ سے کوئی مسئلہ پوچھے، ایک پوچھے، سو پوچھے آپ تنگ نہیں ہوں گے۔ یہ نشانی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچائی کی پچھلی کتابوں میں آئی تھی۔ چنانچہ عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ یہودیوں کے استاد تھے۔ بہت بڑے شیخ الحدیث اور مفسر تھے، تورات پڑھاتے تھے۔ یہودی علماء میں سے تھے۔ مدینہ منوّرہ سے باہر
تبصرہ کتب
مبصر: حافظ اخلاق احمد نام کتاب:قادیانیوں کا کفر کے اندھیروں سے اسلام کی روشنیوں تک مرتب:مولانا مفتی عظمت اﷲ سعدی ؒ ناشر:ادارہ تحقیقات اسلامیہ جامعہ عظمۃ المدارس العربیہ جدید ہنجل بنوں خیبر پختونخواہ (پاکستان) مسلمان ہونا اﷲ کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے مقابلے میں دنیا جہاں کی تمام نعمتیں ہیچ اور بے حیثیت ہیں، اسلام کتنی بڑی عظیم نعمت ہے اس کا احساس، یہودیت، عیسائیت، ہندومت اور قادیانیت سے توبہ تائب ہو کر اسلام لانے والوں کے حالات پڑھ کر ہوتا ہے۔ لیکن اسلام مکمل صورت اختیار کرنا جتنا مشکل ہے اس سے کہیں دشوار اپنے آبائی مذہب کو ترک کر کے اسلام کی آغوش میں آنا ہے۔ یہ کام انھیں لوگوں کا ہے جن کے حوصلے بلند اور ہمتیں غیر متزلزل
مسافران آخرت
٭حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمتہ اﷲ علیہ کی لاڈلی بیٹی اور حضرت مولانا عزیز احمد مدظلہٗ، حضرت مولانا خلیل احمد دامت برکاتہم (خانقاہ سراجیہ ) کی ہمشیرہ ۳۱؍مئی ۲۰۱۶ء کو انتقال کرگئیں۔ یکم جون کو بعد ظہر خانقاہ سراجیہ میں حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد مدظلہٗ نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ مجلس احرار اسلام پاکستان کے نائب امیر سید محمد کفیل بخاری، مولانافیصل متین، مولانا محمد اکمل اور سید عطاء المنان بخاری نے نماز جنازہ میں شرکت اور حضرات صاحبزادگان سے تعزیت کی۔ ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المومن بخاری دامت برکاتہم اور قائد احرار حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہٗ کی طرف سے بھی تعزیت کی۔ ٭ حضرت قاری عبد القیوم رحمۃ اﷲ علیہ : جامعہ صدیقیہ لاہور کے بانی