مجلس احرارِ اسلام ، محاسبۂ قادیانیت اور دعوت اسلام
سید محمد کفیل بخاری ۱۱،۱۲؍ ربیع الاوّل کو مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام چناب نگر میں ۳۹؍ویں سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس منعقد ہورہی ہے۔ جس میں معروف علماء و مشائخ، دانش ور، صحافی، سکالرز، مختلف مکاتب فکر کے رہنما اور عوام شریک ہو رہے ہیں۔ ذیل کی تحریر میں احرار، تحفظ ختم نبوت اور قادیانیوں کو دعوت اسلام کی مناسبت سے مجھے چند معروضات پیش کرنی ہیں۔ ٍ مجلس احرار اسلام اتحاد امت کی داعی جماعت ہے۔ ۲۹؍دسمبر ۱۹۲۹ء کو قائم ہونے والی یہ جماعت آج اپنی عمر عزیز کے ۸۷؍سال مکمل کر رہی ہے۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مفکر احرار چودھری افضل حق، مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور مولانا مظہر
چناب نگر کے تعلیمی ادارے قادیانیوں کو دینے کا فیصلہ
عبداللطیف خالد چیمہ آج سے 44 سال قبل 1972ء میں پیپلز پارٹی کے دور ِ اقتدار میں جب پرائیویٹ تعلیمی ادارے قومیائے گئے تو اُس وقت کے ربوہ (حالیہ چنا ب نگر)کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی سرکاری تحویل میں لے لیے گئے ،گزشتہ چوالیس سالوں کے طویل عرصہ میں صوبائی حکومت کے اربوں روپے اِن تعلیمی اداروں کی تعمیر و ترقی پر خرچ ہوئے اور یہاں سے ریونیو بھی صوبائی حکومت کے خزانے میں ہی جاتاہے،سرکاری محکموں میں مسلط قادیانی اپنے سرپرستوں کے تعاون سے کوئی نہ کوئی اندرون خانہ سازش کرتے رہتے ہیں،قادیانیوں نے چناب نگر کے نیشنلائزڈ تعلیمی ادارے حاصل کرنے کی خفیہ کوششیں نومبر 2013 ء میں باقائدہ شروع کیں ،اُس وقت قادیانی جماعت کا ایک 20 رکنی وفد وزیر اعلیٰ پنجاب
مائنارٹی بل یا اسلام سے بغض؟
یعقوب غزنوی دل نہیں مانتا کوئی کتنا ہی روشن خیال اور جمہوریت پرستی کا دلدادہ کیوں نہ ہو، اگر سچا مسلمان ہے تو سندھ اسمبلی میں گزشتہ جمعرات کی قانون سازی کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا جہاں اقلیتوں کی آڑ میں شعائر اسلامی کا قتل عام کرتے ہوئے مائنارٹی رائٹس کمیشن بل ۲۰۱۵ء نہ صرف منظور کیا گیا ، بلکہ سینئر وزیر پارلیمانی امور نثار کھوڑونے اسلامی اقدار کی پامالی کے اس تازیانے پر خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے سندھ اسمبلی کی توجہ ، محنت اور جدوجہد کا ثمر جانا اور پورے ایوان کو مبارکباد کا مستحق بھی قرار دے ڈالا۔ صدحیف ! یہ کون سے مسلمانوں کی اسمبلی ہے؟ انھی کی جنھوں نے قیام پاکستان کی قرارداد سب سے پہلے
تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں اور امریکی کمیشن کی رپورٹ
ڈاکٹرعمرفاروق احرار تعلیم قوموں کی تہذیب وتربیت کی اساس ہواکرتی ہے۔ماں کی گود کے بعددرس گاہیں قلم اورکتاب کے ذریعے تحصیلِ علم کا ذریعہ ہوتی ہیں۔درس گاہوں ہی میں ناپختہ ذہن ،پختگی کے مراحل سے گزرکرشعورودانش کی منزل تک پہنچتاہے۔ اوائل عمری میں جو نقوش طالب علم کے ذہن پرثبت ہوتے ہیں ۔اُن کے اثرات عملی زندگی میں بنیادی کرداراداکرتے ہیں۔قوموں کے مستقبل یعنی نسلِ نو کو بگاڑنے اورسنوارنے میں تعلیمی نصاب کا کرداربہت اہم ہوتاہے۔ بدقسمتی سے ہماراتعلیمی نصاب پاکستان کے قیام سے اب تک تجربات کی بھٹیوں ہی سے گزررہاہے۔ہرسال سرکاربیرونی امداددہندگان کی مشروط امدادکے نتیجے میں نصابِ تعلیم میں نت نئی تبدیلیاں کرتی ہے ۔ان تبدیلیوں کے پیچھے مخصوص لابیوں کا کیاکردارہوتاہے ؟ اس کا اندازہ حال ہی میں ایک امریکی ادارے’’کمیشن
احادیثِ نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام
اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ (قسط:۸) حافظ عبیداﷲ لہٰذا اگر غور کیا جائے اور تدلیس کی نسبت صحیح بھی تسلیم کرلی جائے تو امام زہری ؒ طبقہ ثانیہ کی شرائط پر پورے اترتے ہیں جس کی مندرجہ ذیل خصوصیات بیان کی گئی ہیں : (1)…… اس طبقہ کے لوگ بخاری ومسلم کے رواۃ میں سے ہیں ۔ (2)……یا وہ ائمہ حدیث میں سے ہیں ۔ (3)…… اس طبقہ میں وہ محدثین شامل ہیں جن سے تدلیس شاذ ونادر ثابت ہوتی ہے ۔ (4)…… یا اگر وہ تدلیس کرتے بھی ہیں تو وہ ثقہ راوی سے تدلیس کرتے ہیں (یعنی جس راوی کو حذف کیا گیا ہو وہ ثقہ ہو ضعیف یا کاذب نہ ہو)۔ امام زہری ؒ بلاشبہ ائمہ حدیث کے بھی
ذکر امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ
محمد فیاض عادل فاروقی (لندن) ذکرِ بخاریؒ پھر سے ہر اک انجمن میں ہے کیا گل تھا جس کی تازگی اب تک چمن میں ہے مدنی کے سوز، امیر شریعتؒ کے ساز سے اسلاف کا ہے نام جو اہل وطن میں ہے احرار سے ہی پوچھئے عیشِ دوامِ عشق کیا لطف، کیا ہے کیف جو دار و
عشق کے قیدی
(قسط:۴) ظفر جی پہلی ملاقات 13اگست․․․ 1952ء․․․ گورنمنٹ ہاؤس کراچی ہم اس تاریخ ساز بلڈنگ کے سامنے کھڑے تھے جو سوسالہ برٹش راج کی یادگار ہے ۔ یہ وہی بلڈنگ ہے جہاں کبھی حضرت قائداعظم ، گورنر جنرل کی حیثیّت سے بیٹھا کرتے تھے ۔میں بڑے کالر والی شرٹ اور کھلے پائنچوں والی تنگ پتلون میں "مارک ٹیلی " لگ رہا تھا اور چاند پوری تنگ پاجامہ ، شیروانی اور قراقلی ٹوپی پہنے آغا حشر کاشمیری۔ ہمارے علاوہ یہاں اور بھی اخبار نویس آئے ہوئے تھے ۔آنکھوں پر موٹے فریم کے چشمے ٹکائے ، ہاتھوں میں پنسل اور ڈائریاں تھامے اور گلے میں ڈبہ کیمرہ لٹکائے مختلف جرائد کے صحافی بھی کھڑے تھے۔کچھ ہی دیر بعد ایک ٹرام سڑک پر آکر رُکی اور اُس سے
جنابِ جاوید غامدی اور جماعتِ احمدیہ لاہور مخمصے میں
شکیل عثمانی ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی کی 15 تا 21 جنوری 2016ء کی اشاعت میں راقم کا ایک مضمون ’’ غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ، دستورِ پاکستان اور قادیانیت‘‘ شائع ہوا تھا جس میں ملک کے ممتاز دانش ور ’’ جانب جاوید احمد غامدی کے مضمون اسلامی ریاست ایک جوابی بیانیہ‘‘ کے چند نکات پر گفتگو کی گئی تھی۔ مضمون میں غامدی صاحب کے جوابی بیانیے کے نکتہ نمبر4 پر تفصیلی بحث کی گئی تھی اور اُن سے عرض کیا گیا تھا کہ اپنے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے واضح طور پر اعلان کریں کہ 7ستمبر1947ء کی آئینی ترمیم جو کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، قرآن و سنت کے مطابق ہے ۔ یہ بھی عرض
اسلام اور قادیانیت
(آخری قسط) مولانا محمد مغیرہ ایسے ہی ایک سرخی یہ لگائی گئی کہ: اما مکم منکم۔ امام تمہارا تم میں سے ہوگا کوئی آسمان سے آنے والا نہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی بھی ایسے کرتے رہے اور اس کا مرید اور متبع بھی وہی کر رہا ہے کہ پوری حدیث رسول کی بجائے اما مکم منکم کا جملہ ذکر کر کے ساتھ ہی اپنا فیصلہ سنادیا کہ کوئی آسمان سے آنے والا نہیں ہے لہٰذا امامکم منکم امام تمہارا تم میں سے ہوگا اور وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ قارئین محترم یہ جملہ جس حدیث میں وارد ہوا ہے وہ پوری حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے معروف صحابی ہیں سے یوں مروی ہے: قال رسول اللّٰہ
تبصرہ کتب
نام کتاب: جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ مرتب: شکیل عثمانی ضخامت: ۱۷۶ صفحات اہتمام: نشریات ، ملنے کا پتہ: کتاب سرائے، الحمد مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (مبصر: صبیح ہمدانی ) غلام احمد پرویز صاحب برِّ صغیر پاک و ہند میں انحراف کی تاریخ کا ایک اہم نام ہیں۔ اگرچہ ان کی معنویت اور تطبیق آج کے دور میں اتنی اہم نہیں رہی لیکن ملکِ عزیز پاکستان میں اعتقادی و عملی گمراہی ایک طویل عرصہ تک اس فکر کی ہی مرہونِ منت رہی ہے۔اہلِ اقتدار اور پاکستانی معاشرے کے اونچے طبقے کے لوگوں کو اس فکر میں ہمیشہ اپنی دلچسپی کا سامان ملتا رہا ہے۔ چنانچہ آج بھی پاکستان کی ملت اسلامیہ اگر اس فکر اور اس کے بعض منتجات
حافظ ارشاد احمد دیوبندی رحمتہ اﷲ علیہ
عبدالمنان معاویہ یاد گار اسلاف ،محقق، عالم دین، مصنف کتب کثیرہ، قافلۂ امیرشریعت رحمتہ اﷲ علیہ کے فرد فرید ،شیخ القرآن مولانا غلام اﷲ خان ؒوحافظ الحدیث مولانا عبداﷲ درخواستیؒ اورمحقق اہلِ سنت مولانا سید احمد شاہ چوکیروی ؒ کے شاگردرشید ،اما م الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کے شیدائی ،جانشین امیر شریعت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری ؒ کے فدائی،حضرت مولانا حافظ حکیم ارشاد احمد دیوبندی 6صفر المظفر 1438 ھ مطابق 7نومبر 2016 ء بروز سوموار کو جہان فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کرگئے ،انا للّٰہ وانا الیہ راجعون حضرت مولانا ارشاد احمد دیوبندی ؒ19 رمضان المبارک1352ھ،جنوری 1934ء ،بروزجمعۃ المبارک بوقت صبح صادق بستی گوپانگ بلوچ، ظاہر پیر میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد کا نام حاجی عبداﷲ ؒ گوپانگ تھا،حاجی عبداﷲ
مسافران آخرت
حاجی غلام رسول نیازی رحمتہ اﷲ علیہ: مجلس احرارِ اسلام پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی غلام رسول نیازی ۱۱؍نومبر بروز جمعہ بعمر ۸۸؍سال فیصل آباد میں انتقال کرگئے۔ مرحوم روز اوّل سے احرار کے ساتھ وابستہ تھے۔ آپ مجلس احرارِ اسلام کے سابق صدر صوفی عبدالرحیم نیازی رحمتہ اﷲ علیہ کے سب سے بڑے فرزند تھے۔ ۲۸؍ستمبر ۱۹۲۸ء کو موسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے اور وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ آپ کے والد ماجد ایک قابل استاد تھے۔ معروف سیاسی رہنما مولانا کو ثر نیازی مرحوم ان کے شاگرد تھے۔ صوفی عبدالرحیم نیازی رحمتہ اﷲ علیہ اپنے بچوں سمیت موسیٰ خیل سے فیصل آباد منتقل ہوئے تو پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان کا انتقال ۱۷؍اپریل ۱۹۹۱ء کو