تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

اسلام کا تصورِ تفریح اور موجودہ معاشرہ

مولانا سفیان علی فاروقی

ہمارے معاشرے میں تعلیم وتربیت کی کمی کی وجہ سے بہت سے معاملات میں غلط فہمیاں اور اُلجھنیں پیدا ہوچکی ہیں، جن میں سے ایک اہم بات ’’اسلام کا تصورِ تفریح‘‘ بھی ہے، لوگوں کے ذہنوں میں آج کل جو اسلام کا عمومی تصور پایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام صرف عبادات کا دین ہے اور یہ فرد کا انفرادی مسئلہ ہے، اس کا معاشرتی، حکومتی اور تفریحی پہلو اب قابل عمل نہیں رہا۔ تاریخ کی یہ سب سے بڑی غلط فہمی نا صرف مسلم قوم کے لیے زہرِ قاتل بنی بلکہ دیگر اقوام کے معاشرتی واخلاقی پہلو بھی تشنگی کی آخری حدوں کو چھو ر ہے ہیں۔
بلاشبہ تفریح، انسانی شخصیت کے بنانے اور بگاڑ نے کا بہت اہم ذریعہ ہے اور صحیح وبامقصد تفریح بغیر کسی عمر کی قید کے انسان کی بہتر نشوونما کی ضامن ہے اور بے مقصد وغلط تفریح اخلاقیات کے مقتل تک پہنچا کر سانس لیتی ہے، معاشرے اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اور نوجوان نسل بے راہ روی کی دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ یہی وہ اسلامی نقطہ نظر ہے جس پر نام نہاد عقلمندوں، مادر پدر آزاد ذہنوں، احترام انسانیت کی چادر تار تار کرتے روشن خیالوں کو دن رات کھٹکتا ہے کہ بھلا تفریح طبع کی بھی کوئی حد ہوسکتی ہے؟ تفریح کے لیے فن کا اظہار جس طرح مرضی کیا جائے، کوئی حرج نہیں اور تفریح طبع کو من مرضی کے مطابق کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ وغیرہ
مگر اسلام بامقصد تفریح کی اجازت دیتا ہے، وقت کے ضیاع اور اخلاقیات کی بربادی کرنے والی تفریحات کی سخت ممانعت کرتا ہے۔ اسلام میں اخلاقی اور شرعی حدود کو توڑنے والا جو بھی طریقۂ تفریح ہے وہ ناجائز ہے، جیسے کسی کا از راہ مزاح استہزاء کرنا، کسی کے بارے میں محض لذتِ زبان کے لیے جھوٹ بولنا اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے تفریح کو اختیار کرنا سخت معیوب ہے، البتہ اعتدال وتوازن بر قرار رکھتے ہوئے صحت مند تفریح کی نا صرف اسلام میں اجازت ہے، بلکہ اسلام صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی اور سر پرستی بھی کرتا ہے۔ اسلام میں خوشی کے اظہار کے لیے اکٹھاہونا، نئے کپڑے پہننا، اچھے اچھے پکوان بنانا، کھیل کود کرنا سب ٹھیک ہے، مگر اخلاقی وشرعی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے مثلا شادی کا موقع خاندان کی خوشی وتفریح کا ایک بہترین ذریعہ ہے، مگر اس تفریح میں اسلام کہتا ہے کہ چند چیزوں کا لازمی خیال رکھا جائے، مثلا شرعی حدود کی پابندی یعنی آپ اپنی خوشی کو ہمسایوں، پڑوسیوں، اہل محلہ کے لیے باعث مصیبت نہ بنائیں، حقوق اﷲ کا خیال رکھیں، یعنی جس پروردگار کی عطا کر دہ خوشی کو آپ منا رہے ہیں، اس کے احکامات کی پاسداری کریں، شعائر اﷲ کی پاسداری کریں، اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کریں، لیکن نام ونمود کے لیے، کسی کو نیچا دکھانے کے لیے کسی کو کم ترباور کرانے کے لیے اور اپنے اعزہ واقارب کی آنکھوں میں حسرتیں بکھیر نے کے لیے بالکل بھی اجازت نہیں ہے، بلکہ ایسے اعمال اﷲ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ جدید دور میں مغرب سے جو تفریحی تصور مشرقی اقدار کا جنازہ نکال رہا ہے۔ وہ ’’جنسی تفریح وتسکین‘‘ کے گرد گھومتا ہے۔ تفریح پروگرامز، ناچ گانا، ڈرامے اور فلموں وغیرہ میں ناظرین کی جنسی تفریح وتسکین، کو لازمی جزو بنا دیا گیا۔ جو کہ بعد میں معاشرتی واخلاقی بگاڑ کا بہت بڑا ذریعہ بنتا ہے۔ بدقسمتی سے اب یہ موذی مرض ملک عزیز پاکستان میں بھی آچکا ہے۔ اخلاق باختہ مارننگ شوز، بدتہذیب ٹاک شوز، معاشرتی اقدار کا جنازہ نکالتے ڈرامے اور فلمیں، ماڈرن ازم کی نذر ہوتی تشہیری مشہوریاں قوم کے معماروں کے ذہنوں کو پراگندہ کر رہی ہیں اور پیمرا خاموش تماشائی بنا اپنے ملک کے قیمتی اثاثہ کو لٹتا ہوا دیکھ رہا ہے۔
اب آتے ہیں اسلام کے تصورِ تفریح کی طرف جو کہ تفریح کو خوش طبعی کے ساتھ ساتھ فلاحِ انسانی کے لیے ایک معاون کے طور پر اپناتا ہے۔
اسلام کے تفریحی اصول وحدود
(1) مقصدیت:
اسلام کہتا ہے کہ تفریح نہایت دلچسپ ومزیدار سرگرمی ہے، بشر طیکہ بہتر وبامقصد ہو، محض وقت کے ضیاع کے لیے یانفسانی خواہش کے لیے تفریح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک اور احادیث میں بیان کیا گیا اور دنیا کی سیر، میاں بیوی کو ایک دوسرے سے حاصل ہونے والی فرحت وخوشی، مختلف قوموں کے احوال وواقعات، گھڑ سواری، تیرا ندازی، دوڑ،وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
(2)حرمت:
مضرِ انسانیت کھیل جن میں انسانیت کا احترام اور وقار مجروح ہوتا ہو، اسلام اس کی سخت ممانعت کرتا ہے۔ جیسے بھو کے جانوروں اور انسانوں کا مقابلہ، کسی کی عزت کو اُچھالنا، خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کا استہزا کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کے مخصوص کھیل مردوں کے لیے اورمردوں کے مخصوص کھیل عورتوں کے لیے ممنوع ہیں، ان سے دونوں کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ مگر چند ایک کی اجازت ہے۔
اسی طرح اسلام میں کھیل کے دوران لباس کی بہت اہمیت ہے۔ ایسا لباس جو مرد خواتین کے مخفی اعضاء کے نمایاں ہونے کا سبب ہیں ان کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ کھیل کسی کی حرمت کے ظہور کے لیے نہیں ہونا چاہیے اور جو کھیل شارحِ اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع کردئیے۔ مثلاً شطرنج، جوا، جانور لڑانا وغیرہ، وہ بھی حرام ہیں، اسی طرح وہ تفریحی مشاغل جو ایمان ودین میں کمی کا باعث بنیں یا جن سے قوم و ملت کو فائدہ نہ ہو یاکسی کی بھی ضرر رسانی کاباعث ہوں، اسلام ان کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن پاک کی سورۂ حجرات میں ہے کہـ:
’’اے ایمان والو! نہ مردوں کو مَردوں پر ہنسنا چاہیے، کیا عجب ہے کہ (جن پرہنستے ہیں) وہ ان (ہنسنے والوں) سے (خدا کے نزدیک) بہتر ہوں اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو، ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا (ہی) براہے اور جو (ان حرکتوں سے) باز نہ آویں گے تو وہ ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘
ایک حدیث شریف میں ہے: ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ر ہیں‘‘
(3) حدودِ اوقات کی پابندی
اسلام کہتا ہے کہ تفریح بے وقت اور بے قاعدہ نہیں ہونی چاہیے، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ:
’’آپ صلی اﷲ علیہ وسلم عشاء سے پہلے نیندکو ناپسند کرتے تھے اور عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے۔‘‘ (البخاری)
رات کو اﷲ پاک نے آرام کے لیے بنایا ہے اور دن کو باقی سرگرمیوں کے لیے اور آج ہم فطرت کے اصولوں کے خلاف چلنے میں زندگی کی ترقی اور خوشی ڈھونڈ رہے ہیں۔ تفریح کرنی چاہیے، لازم اورہر روز کرنی چاہیے، اگر صحت مند تفریح نہیں ہوگی تو آپ اپنے حقوق وفرائض بحسن وخوبی انجام نہیں دے سکتے، مگر اخلاقی، گھریلو، سماجی اور مذہبی خدمات کے اوقات کو کھیل کود میں لگانا سخت نا اہلی کا ثبوت ہے ۔ ایک ضروری بات کہ تفریحی مشاغل میں فضول خرچی کی بھی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا، بلکہ فضول خرچ کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔
(4) حقوق اﷲ وحقوق العباد سے متصادم نہ ہوـ:
اسلام کہتا ہے کہ کھیل سے حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں حرج واقع نہ ہو، بلکہ حقوق و فرائض میں معاون ثابت ہو، چنانچہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ: ’’ہر وہ چیز جس سے ابن آدم غفلت میں پڑے وہ باطل ہے۔‘‘ (ترمذی)
یہ چند ایک مثالیں ذکر کی ہیں، ورنہ اسلام دیگر شعبوں کی طرح تفریح میں بھی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ اسے بہتر اور بامقصد بنانے کے لیے احکامات جاری کرتا ہے اور اسلام کہتا ہے کہ ایک صحت مند جسم ایک صحت مند دماغ کا ذریعہ بنتا ہے اور ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد بنتا ہے۔ اور اسلام کہتا ہے کہ تندرست، توانا، چاق وچوبند مسلمان ایک بیمار، لاغر اور کمزور مسلمان سے بہتر ہے۔ اگر وہ اسلامی احکامات کی پابندی کرنے والا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.