تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

اسے کہنا سبھی موسم بہاروں کے نہیں رہتے !

حافظ محمد اکمل( ناظم مجلس احرار اسلام گوجرانوالہ )
سنہ 2011ء کی بات ہے والد محترم صوفی محمد عالم صاحب کے ساتھ گھر سے مدرسہ نصرۃ العلوم کی طرف روانگی کے دوران ایک اشتہار نظر سے گزرا۔جس میں امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ صاحب کے صاحبزادے حضرت مولانا سید عطاء المہیمنؒ شاہ صاحب کی گوجرانوالہ آمد کا ذکر تھا ۔والد صاحب کی خوشی دیدنی تھی پوچھنے لگے کہ کہاں آرہے ہیں؟ ہم ضرور شرکت کریں گے لیکن اﷲ کی شان کہ جس دن شاہ صاحب کا درس تھا ذہن سے نکل گیا اس بات نے جہاں والد صاحب کو بے قرار کیا وہاں میری تڑپ میں بھی اضافہ ہو گیا ۔ پورا ماہ آئندہ درس کا انتظار رہا لیکن پھر میں درس والے دن دوبارہ بھول گیا ۔ والد صاحب چونکہ خاندان بخاری کے دلدادہ تھے فوری ان کی آمد کے شیڈول کو آئندہ کیلئے یاد رکھنے اور ملاقات کے شوق کو تازہ کرنے نصرت العلوم چلے گئے ۔ وہاں پر شیخ الطاف الرحمٰن صاحب سے ملاقات ہوئی اور اپنی بے قراری کا ذکر کیا۔ شیخ صاحب نے انتہا کی شفقت فرماتے ہوئے آئندہ درس ہمارے گھر میں کروانے کی نوید سنا دی ۔ یہ خبر والد صاحب کے لیے یوم عید سے کم نہ تھی۔ فوراً حکم ہوا کہ ابھی سے تیاری شروع کر دو۔ غالباً اپریل کا مہینہ تھا اور مہینے کی پہلی سوموار تھی۔ جب حضرت شاہ صاحب نے ہمارے غریب خانہ میں قدم رنجہ فرمائے۔ چونکہ ہمیں تحریک ختم نبوت وراثت میں ملی تھی اس لیے اہل خانہ کے لیے آج کا دن جشن کا سماں پیدا کر رہا تھا۔ سید عطاء المہیمنؒ شاہ صاحب اپنے والد گرامی کی ہو بہو تصویر تھے وہی اپنے والد کی طرح سادگی، متانت اور چہرے پر ہلکی مسکراہٹ لیکن سنجیدگی سے بھرپور گفتگو امیر شریعت کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ گفتگو اور تعارف کا سلسلہ شروع ہوا تو دادا جی کے امیر شریعت کے ساتھ تعلقات کی داستان اور پھر 1953ء کی تحریک میں 365دن کی گرفتاری کا تذکرہ بھی ہوا۔ تحریک کے اختتام پر بھی ضمانت نہ کروانے اور دیگر بہت سی یادیں جب تازہ ہوئیں تو شاہ صاحب بے اختیار شیخ الطاف صاحب سے مخاطب ہوئے کہ شیخ صاحب ! اب ہم اصل مقام پر پہنچ چکے ہیں اب ہمارا ڈیرہ یہیں پر ہوگا۔ الحمد ﷲ! پھر اﷲ کے فضل و کرم سے ہمارے غریب خانے کو سعادت بخشی گئی کہ ہر ماہ درس قرآن کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔شاہ صاحب کی آمد نے اہل محلہ اور محبان ختم نبوت کے لیے ملاقات اور حصول برکت کا راستہ ہموار کر دیا۔ گرمی کی شِدت اور جگہ کی تنگی کے باعث باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ سے مستقل پروگرام قریبی جامع مسجد القمر میں منتقل کیا جائے۔ پھر تقریباً ساڑھے تین سال تک حضرت شاہ صاحب کی گوجرانوالہ میں آمد جاری رہی اور اس دوران مجلس احرار اسلام کی از سر نو تشکیل گوجرانوالہ میں کی گئی۔ پیرجی نے اس دوران پابندی وقت اور عہدوفا کی مثال قائم کی۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر عوام سراپا احتجاج تھے راستے بند تھے پیرجی چن دا قلعہ بائی پاس پر پہنچ گئے اور فون پر مطلع کیا کہ احتجا ج کی وجہ سے آگے آنا مشکل ہے۔ ابا جی اور شیخ الطاف الرحمٰن صاحب نے عرض کیا کہ آپ پریشان نہ ہوں اگر نہ بھی آتے تو کوئی بات نہیں تھی لیکن حضرت نے فرمایا کہ ’’بھئی دوست انتظار کرتے ہیں ہم تو اﷲ کی بات سنانے اور اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں‘‘۔
22؍فروری 2013ء میرے لیے انتہا کا سخت دن ثابت ہوا۔ جب والد گرامی کچھ دن علیل رہنے کے بعد داغ مفارقت دے گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اگرچہ یہ غم میرے لیے اور اہل خانہ کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور پورے گھر کا بوجھ بڑا ہونے کے باعث میرے ناتواں کندھوں پر آگیا۔لیکن الحمدﷲ دین سے تعلق نے ہمیں ڈھارس دی اور زندگی کے تمام معمولات جاری رہے۔ الحمد ﷲ والد گرامی کی وفات کے بعد ان کی دین سے محبت کا سلسلہ جاری ہے۔ بہرکیف ان کی وفات کے بعد اگلے ماہ جب حضرت شاہ جی درس کے لیے تشریف لائے تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمانے لگے حافظ جی تیرے ابا کی تعزیت کے لیے آیا ہوں کدھر تعزیت کروں مسجد میں یا گھر میں؟ میں ابھی خاموش سوچ رہا تھا کہ کیا کہوں ،خود ہی فرمانے لگے گھر چلتے ہیں اور چائے بھی پئیں گے۔ شاہ صاحب کا ہماری مسجد میں آخری درس اپریل 2013ء کا تھا۔ اس کے بعد سفری صعوبتیں اور ناسازئی طبع کے باعث درس کی ذمہ داری سید کفیل شاہ بخاری صاحب کو سونپ دی گئی۔ جو تا حال اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔ شاہ جی سے ملاقات اب ہر سال 12؍ربیع الاول کو چناب نگر میں ہونے لگی۔ ملاقات پر گھر کا حال احوال پوچھتے اور ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ رخصت فرماتے سفر کے معاملے میں کافی کمزور ثابت ہوا ہوں۔ شاہ جی کی ناسازی طبع کا علم ہونے کے باوجود تین چار ماہ کوشش کی کہ تیمارداری کے لیے ملتان حاضری دی جائے لیکن نصیب کی بات ہے کہ رکاوٹیں حائل رہیں۔ اس مرتبہ 12؍ربیع الاول کو کچھ انتظامی مصروفیت کی وجہ سے لیٹ ہوگیا۔ ملاقات کے لیے پہنچا تو جلوس کی تیاری کی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی۔ حضرت جلوس کی قیادت ایمبولینس میں فرما رہے تھے۔ زیارت تو ہوگئی لیکن تسلی نہ ہوئی۔ ملاقات کی خواہش شِدت اختیار کر گئی لیکن موقع نہیں مل رہا تھا پھر اچانک ایک شاگرد کی شادی کا کارڈ موصول ہوا اس وقت طے کیا کہ بارات کے ساتھ ملتان جاؤں گا اور شاہ جی سے ملاقات کا موقع مل جائے گا۔ 5؍ فروری کی رات کو سفر کیا صبح نو بجے کے قریب ملتان پہنچے اسی وقت ڈاکٹر آصف صاحب سے رابطہ کیا معلوم ہواکہ سید کفیل شاہ صاحب کے ساتھ لاہور کے لیے روانہ ہو چکے ہیں لیکن تھوڑی دیر کے بعد کال آئی کہ آپ عصر کی نما زدار بنی ہاشم میں ادا کریں۔ بھائی عطاء المنان سے بات ہو گئی ہے آپ کی ملاقات ہو جائے گی۔ اس خوشخبری نے ڈھارس بندھائی اور ملاقات کا جنون اور بڑھ گیا۔ تین بجے کے بعد ہم چھ ساتھی قاری اعجاز احمد، قاری محمد عبداﷲ، محمد خبیب، احمد خلیل اور حسن شاہد کے ساتھ راقم (حافظ محمد اکمل ) اپنے رہبر اور میزبان خادم حسین کے ساتھ دار بنی ہاشم کے لیے روانہ ہوئے۔ ابھی پانچ منٹ کی مسافت باقی تھی کہ خبیب نے موبائل میری طرف بڑھایا اور کہنے لگا کہ چاچو یہ خبر پڑھیں میری آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کیونکہ کچھ عرصہ قبل سید عطاء المومن شاہ صاحبؒ کی وفات کی خبر کسی نے غلط لگا دی تھی۔ شاید وہی خبر لگا دی گئی ہے۔ اسی دوران خبیب نے مجلس احرار اسلام کا آفیشل پیج کھولا جس پر تین منٹ پہلے کی خبر تھی۔ پیر جی کی وفات کی خبر پڑھ کر واقعتاً آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور پاؤں کے نیچے سے زمین نکلتی محسوس ہوئی۔ بے اختیار زبان سے انا ﷲ وانا الیہ راجعون جاری ہو گیا۔ آنکھوں سے نکلتے ہوئے آنسوؤں نے منظر کو دھندلا کر دیا۔ کب رکشہ دار بنی ہاشم رکا اور ہم وہاں پہنچ گئے معلوم ہی نہ ہوا۔ مولانا سید عطاء المنان بخاری سے ملاقات ہوئی۔ تیمار داروں کا وقت اب تعزیت کرنے والوں میں بدل گیا۔
شاہ جی کا چہرہ مبارک آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا ۔ ان کی باتیں ان کی دعائیں حافظ اکمل کو تنہا کیے جا رہی تھیں۔ والد گرامی کے بعد پیر جی کی جدائی آج پھر زخموں کو تازہ کر گئی ۔
وقت آخری ملاقات کا تھا ……جاری آنکھوں سے یار برسات ہو گئی
بیٹھے صبح کے دوپہر سے شام گزری ……وقت سحر آیا ختم رات ہو گئی
گوجرانوالہ سے جنازے میں شرکت کے لیے فون آئے ۔وقت بتایا گیا 25کے قریب جماعتی ساتھیوں نے گوجرانوالہ سے جنازے میں شرکت کی اورپھر نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد اسی قافلے کے ساتھ اپنے پیر جی کے شہر کو الوداع کہہ کر واپس آگئے ۔
اسے کہنا سبھی موسم بہاروں کے نہیں رہتے …… سبھی پتے بکھرتے ہیں ہوا جب رقص کرتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.