تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تاریخ احرار

(قسط نمبر 20)

مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ

فوجی حکومت کا قیام:
سرسکندر بقول مسٹر جناح ، مسٹر ایمرسن گورنر پنجاب کی پیداور تھے۔ ہماری غلطی یہ تھی کہ ہمارے دیہاتی امیدوار پرانی جاگیراداری کے نمائندہ تھے۔ ہم نے ان کے وعدے پر اعتبار کر کے اپنی انقلابی مشین کے پرزے ثابت ہونے کی توقع کر لی۔ وہ جونہی اسمبلی میں آئے فطرت کے قانون کا عام عمل ان کی طبیعتوں پر حاوی ہوگیا۔ ان کے رجحانات انقلابی ہونے کے بجائے سرمایہ دارانہ تھے انقلابی جماعتیں ہمیشہ غریب ہوتی ہیں۔ سرمایہ داروں کو غرباء سے قلبی نفرت ہوتی ہے۔ البتہ غرباء سے غرض پوری کرنے اور ان پر حکومت جاری رکھنے کے خیال سے نفرت کو چھپانا ہوتا ہے۔ آبرو باختہ عورت چاہے کسی کو چاہے نہ چاہے مگر وہ چہرے پر شیریں تبسم کا خوش نما نقاب اوڑھے رکھتی ہے۔ اور یوں دل کی کدورت چھپی رہتی ہے۔ اعلیٰ طبقے کے ظاہری اطوار بہت بلند ہونے چاہئیں تاکہ عوام ان کے شکار رہیں ۔ مکاری اعلیٰ طبقے کا خاص فن ہے جس کے بغیر حاکم خاندان عموماً برباد ہوتے ہیں اور ان کو انقلاب کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ غریب اور انقلابی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعلیٰ طبقہ کے ممبروں کو دیر تک زیر تربیت رکھنے کے بعد انھیں ذمہ دار ی کے کام پر لگائیں ۔ ذہنیت بدلے بغیر ان سے ہر وقت خدشہ رہتا ہے کہ وہ پھر کان نمک میں نمک ہوجائیں گے۔ ہم نے یہی غلطی کھائی کہ سمجھا کہ امراء غریب طبقے کے لیڈروں کی رہنمائی قبول کرلیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ انھوں نے اپنی طبیعت کے تقاضوں کے مطابق ہم جنس امراء کا ساتھ دینا شروع کیا ۔ جو ایک آدھ غریب ممبر تھا وہ بلند درجہ پر پہنچ کر احرار کو اونچے طبقے کی طرح ذلت کی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ اور پھر ڈریہ بھی تھا کہ سرسکندر حکومت انگریزی کا پروردہ ہے۔انگریز ہر حال میں اس کی پشتیبانی کرتا ہے وہ احرار سی باغی جماعت سے وابستہ ہو کر خطرات کیوں برداشت کریں۔ غرض آئندہ کے لیے ایک سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جہاں تک ہوسکے جماعت سے باہر کے لوگوں پر اعتماد نہ کیا جائے۔ اگر احرار کو غریبوں کی نمائندہ جماعت کا لقب قائم رکھنا ہے تو اعلیٰ طبقے سے امیدِ وفاداری فضول ہے۔ اور ناتربیت یافتہ غریب بھی اونچی کرسی پر بیٹھ کر غریبوں کے حال کو بھول جاتے ہیں۔ پس احرار کو کسی حال میں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ غریب انقلابی جماعتوں کو اپنے ممبروں کی ذہنی تربیت پر اعتماد کے سوا چارہ نہیں ۔ اسی پر زور دیناراہ نجات ہے۔
لدھیانہ ، جالندھر،لائل پور کے میونسپل انتخابات میں ہمیں پوری کامیابی ہوئی۔ مگر بعد میں ممبر احرار سے وفادار نہ رہے۔ انھوں نے کانگریس اور لیگ کی طرف جھکنا پسند کیا۔ اس لیے کہ احرا رپارٹی میں سرمایہ دار لوگ نہیں۔ عام طبیعتیں مشکل پسند نہیں۔ کبھی کبھی جیل ہوآنا بھی معمولی بات ہے۔ عام احرار کی روزانہ زندگی جیل کی زندگی سے کم تکلیف دہ نہیں۔ بس ایسی تکلیف وہ زندگیاں بسر کرنا یا ان سے وابستہ ہونا کچھ آسان کام نہیں۔ سرمایہ دارنہ ذہن رکھنے والے لوگ اسی لیے کانگریس میں رہ کر آسودہ ہیں کہ کانگریس کا عام ذہن سرمایہ دارانہ ہے۔ غرض احر ار کی شکست کے بعد، جس کی عام ذمہ داری شہید گنج گرانے کی سکیم کی مرہون منت ہے، پنجاب میں فوجی وزارت قائم ہوئی۔ یہ وزارت دراصل آئندہ جنگ کی تیاریوں کا مقدمہ تھی۔ یہ برطانوی سرکارکی کامیاب جنگی تدبیروں میں ایک تدبیر تھی۔
باب پنجم
تحریک مدحِ صحابہ:
شیعہ سنی مسئلہ ہر چند سیاسی مسئلہ ہے۔ دونوں فرقوں کی مذہبی بنیادیں ایک ہیں(ا۔ یہ مرحوم کی ذاتی رائے ہے ورنہ پوری امت اور اس فرقہ میں سخت اصولی اور بنیادی اختلافات ایک مسلمہ حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ابو معاویہ ابوذر) مگر انتہاپسند لوگوں نے اسے کیا سے کیا بنا دیا ۔ اس وقت تاریخ اسلام کے اس حادثے کی چھان بین مطلوب نہیں بلکہ قضیۂ تبرااور لکھنوء کی تحریک مدح صحابہ کی واقفیت ضروری ہے۔ اس مسئلہ کے متعلق احرار کا ایک نظریہ ہے۔ اسی نظریہ کے لیے احرار نے سردھڑ کی بازی لگارکھی ہے۔ دنیا میں کوئی حکومت کسی کے بزرگوں کو علانیہ دشنام کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ بزرگوں کی مدح سے روک سکتی ہے۔اگر اخلاق عامہ کی بنیاد اس سے الگ ہو تو شرافت کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔ اس بارے میں لکھنو کے شیعہ احباب کو احرار برسرحق نہیں سمجھتے ۔آؤ پہلے لکھنو کے قضیہ کی تاریخ کا مطالعہ کر لو۔
مدح صحابہ کا تاریخی مسئلہ:
ذیل میں عالی جناب مولوی محمد احمد کاظمی (ایم۔ ایل۔ اے مرکزی )جوالٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک ممتاز وکیل ہیں، کا ایک تفصیلی مقالہ درج کیا جارہا ہے جس میں ان تمام واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جو مدح صحابہ اور تبرے کے موجود ہ قضیے کا باعث ہوئے۔کاظمی صاحب ملک کے ایک مایہ ناز ذمہ دار رہنما ہونے کے علاوہ مدح صحابہ کے پچھلے مقدمات میں مشیر قانون بھی رہ چکے ہیں۔ اس لیے اس مقالے میں آپ نے جو معلومات فراہم کی ہیں وہ نہایت مستند اہم اور معتبرہیں جن کے مطالعے کے بعد یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ مدح صحابہ کے موجودہ قضیہ کی ذمہ داری سراسر شیعوں کے سر ہے۔ یہ مقالہ طویل ضرور ہے لیکن اس کی افادی حیثیت کا تقاضا ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھا جائے:
تحریک مدح صحابہ کا پس منظر ۔ از جناب مولوی محمد علی کاظمی ایم ایل اے
لکھنو میں ۱۹۰۴ء سے قبل محرم کے جلوسوں میں شیعہ سنی اور ہندو سب شریک ہوتے تھے او رسب تعزیے نکالتے تھے۔ ۱۹۰۴ء میں ایک صاحب مقبول احمد نامی شیعہ نے لکھنو میں شیعوں میں کثرت سے لیکچر اور وعظ دیئے۔ جو شیعہ سنی منافرت پیدا کرنے کا باعث ہوئے۔ مقبول احمد مذکور اپنی تقریروں میں تبراکرنے میں بھی تامل نہ کرتے تھے چنانچہ اس سلسلے میں بعض مقدمات بھی چلائے گئے۔ اسی زمانہ میں شیعوں میں محرم کے جلوسوں میں اصلاح کرنے کا جذبہ پیدا ہوا لیکن چونکہ اس کی بناء مقبول احمد کی پیدا کردہ فضا میں ہوئی اس وجہ سے سنیوں کا عام طبقہ ان اصلاحات کو شک و شبہہ کی نظر سے دیکھنے لگا۔ سب سے پہلے ان اصلاحات کا نفاذ ۱۹۰۵ء میں ہوا۔ اگرچہ اس وقت سنیوں کی طرف سے کوئی زیادہ احتجاج نہیں ہوا لیکن جب ۱۹۰۶ء میں ان اصلاحات میں اور سختی کی گئی تو سنیوں میں بہت ہیجان ہواجس چیز پر سنیوں کو اعتراض تھا۔ وہ یہ تھی کہ کربلا میں ضرور ننگے پیر اور ننگے سر ہی جانا چاہیے۔ فاقے کی صورت سب کے لیے بنانا ضروری ہے۔ جلوس میں سوائے ماتم اور کچھ نہیں ہونا چاہیئے ۔ غرض کہ ایسی چیزیں جن سے جلوس میں خالص شیعہ طریق ورسم کا غلبہ ہو ان پرسنی رضامند نہ تھے۔ چنانچہ سنیوں کا ایک وفد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس ان پابندیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے گیا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ان پابندیوں کے بارے میں معذوری کا اظہار کیا اورا ن سے کہاکہ اگر وہ اپنی علیحدہ کربلا کا انتظام کرلیں تو ان کے جداگانہ جلوس کا انتظام کردیا جائے گا۔ چنانچہ سنیوں نے لکھنو سے قریب ۸ میل کے فاصلہ پر ایک اراضی کا بطور کربلا کے انتظام کیا اور اس کی اطلاع مجسٹریٹ کو دے دی اور وہاں پرتعزیہ وغیرہ لے جانے کاڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے انتظام کرادیا۔سابقہ کربلا کا نام تال کٹور ا تھا۔ اور نئی کربلا کا نام پھول کٹورا رکھا گیا۔ سنیوں اور شیعوں دونوں کے جلوسوں کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے مختلف راستے او رمختلف اوقات مقرر کر دیئے۔ تاکہ باہم تصادم نہ ہوسکے۔ چنانچہ ۱۹۰۶ء میں ہر دو جلوس علیحدہ علیحدہ نکالے گئے۔ سنیوں کے جلوس کے ساتھ ہندوتعزیہ داروں نے بھی کثرت سے شرکت کی جس سے تال کٹورا جانے والے جلوس کی رونق اور شان بہت گھٹ گئی۔ یہ امر شیعوں کو بہت ناگوار ہوا۔ جلوس کے جداجدا ہوجانے کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ سنی جلوس میں سنی نقطہ نظر غالب ہونے لگا او راس میں علاوہ مرثیوں کے خلفائے راشدین کی مدح میں بھی اشعار پڑھے جانے لگے۔ اس کے علاوہ جس طرح کہ شیعہ ایام محرم میں مختلف اوقات میں علم وغیرہ نکالتے رہتے ہیں۔ سنیوں نے بھی چاریاری جھنڈے کے نام سے چھوٹے چھوٹے جلوس نکالنے شروع کیے اور اس میں بھی خلفائے راشدین کی مدح کے اشعار پڑھے جاتے تھے یہ امر بھی شیعوں کو نہایت ناگوار ہوا۔ شیعہ جو اپنے جلوسوں میں کم وبیش اشارتاً وکنا یتاً پہلے تبراپڑھتے تھے۔ اس علیحدگی کے بعد زیادہ آزادی کے ساتھ تبرا کرنے لگے۔ جس کی وجہ سے سنیوں سے ان کا تصادم بھی ہوا اور بعض اوقات مارپیٹ تک نوبت پہنچی۔ غرض کہ ۱۹۰۷ء ،۱۹۰۸ء میں یہ نزاعات بڑھ گئے۔ اور شیعوں نے ۸؍اپریل ۱۹۰۸ء کو سرجان ہیوٹ گورنر یو۔پی کی خدمت میں ایک عرضداشت پیش کی جس کے اہم مطالبات درج ذیل کیے جاتے ہیں:
۱۔لکھنو میں شیعہ تعزیہ داری ہر سال ۲۸ذی الحجہ سے ۸ربیع الاوّل تک دو مہینے دس روز کی جاتی ہے اور اس تعزیہ داری کے دوران میں وہ اپنے اماموں اور اہل بیت کی شہادت کا دن مناتے ہیں۔ بالخصوص حضرت امام حسین کی شہادت کا دن ۔
۲۔ یہ کہ تعزیہ داری سنی مذہب کے خلاف ہے اور شیعوں کے طریقوں پر اس کو نہیں منایا جاتا لیکن چند سنی حضرت امام حسین کی شہادت عشرہ محرم کے دن محض ایک افسوسناک واقعہ کی حیثیت سے مناتے ہیں۔
۳۔ یہ کہ شیعہ تعزیہ داری کے مواقع پر سنیوں کا چاریاری اشعار پڑھنا جو خلفائے ثلاثہ کی تعریف میں ہوتے ہیں، اس سے شیعوں کے مذہبی جذبات کو صدمہ پہنچتا ہے اور وہ ان کے مذہبی جذبات کی توہین ہونے کی وجہ سے ان کو سخت ناگوار ہے۔
۴۔ یہ کہ اس قسم کے پبلک جلو س امر جدید ہیں اوراس بنا پر بھی قابل اعتراض ہیں۔
۵۔ یہ جلوس سنیوں کے مذہب کے بھی خلاف ہیں۔
۶۔ یہ کہ ایسے جلو س کامقصد سوائے شیعوں کے مذہبی جذبات کو صدمہ پہنچانے کے اور کوئی نہیں ہے۔
پگٹ کمیشن کا تقرر:
اس یادداشت میں آخری استدعاء یہ تھی کہ سنیوں کو چاریاری جھنڈے لے جانے اور خلفائے ثلاثہ کی تعریف میں اشعار پڑھنے کی ممانعت کی جائے تاکہ درخواست دہندگان محرم کی ماتمی تقریبات بسہولت ادا کر سکیں اور تعزیے جا سکیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی مداخلت یا ان کی کوئی توہین نہ کی جاسکے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھ کر گورنمنٹ نے ۸؍ اکتوبر ۱۹۰۸ء کو ایک کمیشن معاملات کی تحقیقات اور سفارشات کے واسطے مقرر کیا ۔ا س کمیشن کے چیئرمین مسٹر پگٹ، آئی سی ایس مقرر کیے۔ اس کمیٹی کے ممبران میں دوہندو دوسنی اور دو شیعہ نامزد کیے گئے تھے۔ لیکن سنی ممبران میں سے ایک صاحب بالکل حاضر نہیں ہوئے اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی اور اس کی بابت گورنمنٹ نے اپنا آخری ریزولیوشن ۷؍ جنوری ۱۹۰۹ء کو شائع کیا۔جس میں کمیٹی نے متعلقہ سفارشات کا بھی مفصلاً تذکرہ کیا۔ انھوں نے جلوس کی تفریق اور دو کربلاؤں کے وجود پر بہت اظہار افسوس کیا لیکن اس وقت ان دونوں جلوسوں کو یکجا کرنا یا پھول کٹورے کی کربلا ؤں کو ختم کرنا مصلحت وقت نہ سمجھا۔ گورنمنٹ نے محرم کے دو جلوس ہوجانے کی وجہ سے پولیس کو جو انتظامی دقتیں پیش آتی تھیں۔ ان کا تذکرہ کرنے کے بعد جلوسوں کی علیحدگی کے خلاف حسب ذیل الفاظ میں نکتہ چینی کی۔
’’محرم کے دوجلوسوں کو مان لینے پرا یک زبردست اعتراض یہ ہے کہ ایک جلوس سنی او ر دوسرا شیعہ ہو جاتا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ اختلافات اور پختہ ہوجائیں گے اور دونوں فرقوں میں جھگڑے کا باعث ہوں گے۔ کمیٹی نے اس اعتراض کے دفع کرنے کے لیے یہ تجویز کی ہے کہ جلوسوں کے ساتھ لفظ سنی او رشیعہ کا استعمال نہ کیا جائے بلکہ پولیس کے قواعد میں محض یہ تحریر کیا جائے کہ تعزیے جو پھول کٹورہ جانے والے ہوں۔ اور تعزیہ داروں کو موقعہ دیا جائے کہ وہ جس کربلامیں چاہیں تعزیہ لے جائیں۔ اگرمقصد صرف یہی ہوتاکہ عشرہ آئندہ پر باہم فریقین میں تصادم نہ ہو تو خیال یہ ہے کہ ۱۹۰۸ء کے چہلم کے موقعہ پر جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ یعنی شیعہ اور سنی جلوس کے لیے مختلف راستے اور مختلف اوقات مقرر کردیئے گئے تھے وہ کافی ہوجاتا لیکن لیفٹیننٹ گورنر کمیٹی کی رائے سے متفق ہیں۔ اس معاملہ میں ہمیں کچھ آگے بڑھنا چاہیے اور آئندہ باہمی گفتگو اور آخری مصالحت کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر اس اصول سے کہ ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنا تعزیہ کسی راستہ سے اور کسی کربلا کو لے جائے انحراف کیا جائے گا تو اس نصب العین کے حصول میں اور دیر لگے گی۔‘‘
لیکن گورنمنٹ کو ان دونوں جلوسوں کو یکجا کر نے کے مقصد میں کہاں تک کامیابی ہوئی اس کا اندازہ واقعات حاضرہ سے ہوسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بھی سنیوں کے لیے مستقل پریشانی کا سبب بن گیا۔ اگر گورنمنٹ کا مقصد ان دونوں جلوسوں کو یکجا کرنے کا نہ ہوتا تو ان جلوسوں میں سنی اور شیعہ خصوصیات ہونے سے کوئی حرج واقع نہ ہوسکتا تھا۔ جیسا کہ خود گورنمنٹ کو تسلیم ہے کہ چہلم ۱۹۰۸ء کے انتظامات بالکل قابل اطمینان تھے پولیس کی طرف سے جو ہدایات گورنمنٹ کے ریزولیوشن کے مطابق ہر سال شائع کی جاتی ہیں ان کی دفعہ ۵ حسب ذیل ہے۔
’’شادیوں کے جلوس جو کسی تعزیہ علم یا دوسرے جلوس کے سامنے آجائیں وہ سوگز کے فاصلے پر رک جائیں اور سڑک کے ایک جانب ہوجائیں اور باجہ بجانا بند کردیں۔ جب تک کہ تعزیے وغیرہ ہزار گز کے فاصلہ پر نہ ہو جائیں۔‘‘
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.