تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرُ ……

مولانا منظور احمد آفاقی
پاکستان نیا نیا بنا تھا۔ اس نئے ملک میں مرزائیوں نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں تیز کردیں۔ علمی محفلوں میں بحث مباحثے بھی ہونے لگے اور مناظرہ بازی کے میدان بھی سجنے لگے۔انھیں دنوں میں ملتان میں ایک مناظرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مقرر شدہ تاریخ پر مسلمانوں اور مرزائیوں نے اپنے اپنے اسٹیج سجائے ، مناظرین اپنی اپنی نشستوں پرتشریف فرما ہوئے۔ دونوں طرف مختلف موضوعات کی کتابوں کے ڈھیر لگ گئے۔ سامعین کی بھی اچھی خاصی تعداد جمع ہو گئی۔ مرزائی مناظر نے بحث کی ابتدا کی اور اپنی ’’علمیت‘‘ کا رعب جھاڑتے ہوئے کہنے لگا:’’آج کا مناظرہ عربی زبان میں ہو گا، ہم اردو کو نہیں جانتے کہ کیا ہوتی ہے‘‘۔مسلمانوں نے باہم مشورہ کیا اور علامہ طالوت رحمہ اﷲ تعالیٰ کو دعوت دی۔ علامہ اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر مناظرہ گاہ میں تشریف لے آئے۔ انھو ں نے مرزائی مناظر کا چیلنج قبول کرتے ہوئے
فرمایا:’’ جی ہاں! یہ مناظرہ عربی زبان میں ہو گا اور نظم میں ہو گا۔ ہم نثر کو نہیں جانتے کہ کیا ہوتی ہے‘‘۔ یہ کہہ کہ آپ نے فی البدیہ عربی میں چند اشعار بھی کہہ سنائے۔اس جوابی وار سے مرزائی کے ہوش اڑ گئے اور وہ ایسا مبہوت ہوا کہ دم دبا کر میدان سے بھاگ گیا۔ رہے نام اﷲ کا۔
پاکستان بنے سے قبل مرزائی کہا کرتے تھے:’’ہندوستان میں ہم مکی دور سے گزر رہے ہیں ، جبپاکستان بن جائے گا ہم وہاں مدنی دور کا آغاز کریں گے‘‘۔ یہ دو فقرے معمولی نہ تھے۔ ان میں ایک بہت بڑی بھیانک سازش چھپی ہوئی تھی۔ انگریز کی چھتری تلے پرورش پانے والے لوگ پاکستان بننے سے پہلے ہی کلیدی اسامیوں پر قابض ہوچکے تھے۔ ان کا اگلا منصوبہ یہ تھا کہ پاکستان کے قیام کا اعلان ہوتے ہی فوج ملک کا نظم ونسق سنبھال لے گی اور مرزا قادیانی کے بیٹے بشیر الدین محمود کو (امیر المؤمنین کی حیثیت سے) قادیان سے لاکر راج سنگھا سن پر بٹھا دے گی۔ مرزائیوں کی بدقسمتی اورمسلمانوں کی خوش قسمتی کہ اس سازش کا بھانڈا قبل ازوقت پھوٹ گیا، اور ’’مدنی دور‘‘کا خواب دیکھنے والے ہاتھ ملتے رہ گئے ۔ رہے نام اﷲ کا۔
آج کل مرزائی پوچھ رہے ہیں ’’کیا پارلیمنٹ کے ارکان اس بات کے مجاز ہیں کہ وہ کسی شخص کے مسلمان یا کافر ہونے کا فیصلہ کرسکیں؟ ‘‘انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے گرو کو ایک حکومت نے اٹھایا تھا۔ اور یہی حکومت انھیں ہر خطرے سے بچاتی رہی انھیں آلۂ کار بنا کر اپنا الو سیدھا کرتی رہی۔ اس پیچیدہ مسئلے کو کوئی حکومت ہی حل کر سکتی تھی۔ علماء کے فتووں سے تو یہ مسئلہ حل ہونے سے رہا۔ جناب ذوالفقار علی خان بھٹو مرحوم نے یہ جرأت مندانہ قدم اٹھایاکہ اسے حل کردیا۔ یعنی ایک حکومت کے مسئلے کو دوسری حکومت نے حل کیا ہے۔ اب یہ بحث ہی فضول ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اس کے مجاز ہیں یا نہیں ۔
۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کو مرزائیوں اور ان کے ہم نواؤں نے فسادت پنجاب کا نام دیا تھا پھر اس کی تحقیق کے لیے ایک عدالتی کمیشن قائم ہوا تھا۔ پاکستان کے چیف جسٹس منیر نے فریقیں کے بیان سنے۔ اسے حیرت اس بات پر ہوئی کہ’’ مسلمان‘‘ کی تعریف پر دو عالم بھی آپس میں متفق نہیں ہیں۔ اس تجاہل عارفانہ کے قربان جائیے۔ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک (۱)کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کو پتا ہی نہیں تھا کہ مسلمان کون ہوتا ہے! 7ستمبر 1974ء کو وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس مسئلہ کو حل کردیا لیکن افسوس مرزائیوں نے اس فیصلے کو قبول نہ کیا۔ اس کے بعد شہید پاکستان جناب جنرل ضیاء الحق مرحوم ومغفور نے ربوہ کی متوازی حکومت کے خلاف قدم اٹھایا تو اس کے کرتا دھرتا لندن کی طرف بھاگے۔ اگر یہ مخلوق بزعم خویش مسلمان تھی تو اسے مرکز اسلام، حجاز مقدس کا رخ کرنا چاہیے تھا۔ ان کا فرنگی ملکوں کی طرف جانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ سب دشمنان اسلام کے لگائے ہوئے پودے اور انھیں کے آلۂ کار ہیں۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
حواشی
(۱) 1971ء کی جنگ سے پہلے پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.