تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تبصرہ کتب

نام کتاب:الوفاء باسماء النساء مرتب: ڈاکٹر محمد اکرم ندوی
مبصر: ڈاکٹر محمد سلیم (استاذ کلیۃ العلوم والادب، جامعہ ملک عبد العزیز سعودی عرب )
اسلاف کی علمی روایت کی تجدید
علم حدیث ایک انتہائی عظیم علم ہے۔ قرآن مجید حضور اکرم علیہ الصلوات و التسلیم پر نازل ہوا اور اس کی تفسیر و تبیین کا کام بھی آپ کو سونپا گیا۔ محققین کے نزدیک حدیث و سنت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فہم قرآن کا نبی کی اپنی زبان میں بیان ہے۔ یہ علم گرچہ ترتیب میں علوم القرآن کے بعد آتا ہے، لیکن یہ ترتیب فی الواقع محض اعتباری ہے اور ان دونوں چیزوں میں تعلق تکمیلی نوعیت کا ہے۔ قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو قرآن کی تبیین و تشریح کی ذمہ داری سونپی اور اﷲ کے رسول نے اس ذمہ داری کو اپنے اعمال و اقوال سے نبھایا۔ حدیث و سنت اسی تبیین نبوی کا تحریری سرمایہ ہے۔ یہ حضرات محدثین و محدثات کی محنتیں ہی ہیں جنکی بدولت آج ہمارے پاس یہ علم انتہائی منظم و مہذب شکل اور قابل فخر انداز میں موجود ہے اور صدیوں سے بغیر کسی انقطاع کے یہ امت اس حدیث کے ذخیرے سے فیضیاب ہورہی ہے۔ کسی اور امت یا کسی اور علمی روایت میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
حضرات محدثین کی عظیم محنت کے اعتراف اور انکی مبارک زندگیوں کی تاریخ کی تدوین میں تو اہل علم پہلے ہی سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔ انکے تراجم و طبقات پر بڑی عالمانہ کتابیں ہمارے ممتاز تاریخی ذخیرے کا انتہائی قابل فخر سرمایہ ہیں، لیکن علم حدیث سے وابستہ خوش بخت مسلم خواتین کی حدیث کی علمی و فنی خدمات اور انکے احوال و تراجم کے حوالے سے باقاعدہ کتابیں بہت کم ہیں اور یہ صدیوں سے امت پر فرض کفایہ کی حیثیت سے ایک علمی قرض چلا آرہا تھا۔ ہمارے دور کے مشہور عالم دین، علم حدیث کے خادم، مغربی دنیا کی قدیم اور معروف ترین دانشگاہ آکسفورڈ میں علوم اسلامی کے نقیب ڈاکٹر محمد اکرم ندوی حفظہ اﷲ و رعاہ کو اﷲ تعالی نے اس علمی فرض کفایہ کی ادائیگی کیلئے منتخب فرمایا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس فرض کفایہ کو کچھ اس شان سے ادا کیا کہ نہ صرف یہ تاریخی قرض اچھی طرح ادا ہوگیا، بلکہ قرض کی ادائیگی میں صدیوں کی جو تاخیر ہوئی تھی اسکی بہتر انداز میں تلافی بھی ہوگئی۔
بلا شبہہ موسوعہ الوفاء باسماء النساء ایک واجب الاعتراف عظیم علمی خدمت ہے۔ کسی بھی کام کے علمی اعتبار اور اس کے فنی مقام کی تعیین و تحدید کے لیے بنیادی طور پر دو ہی اصول ہوسکتے ہیں۔ پہلی چیز نفسِ موضوع کی قدر و قیمت اور علمی و عملی دنیا میں اس کی اہمیت۔ دوسری چیز ہے کہ کام کس نہج پر کیا گیا ہے، اس کی گہرائی و گیرائی۔ یہ دونوں اصول اپنی جگہ بہت ہی اہم اور کسی بھی علمی خدمت سے براہِ راست متعلق ہیں۔ ان دونوں اصولوں کی روشنی میں اگر ہم الوفاء باسماء النساء کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں تو موضوعیت پسندی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اس موسوعہ کی بلند علمی قدر و قیمت اور فنی عظمت کا کھل کر اعتراف کریں۔ جہاں تک صاحبِ کتاب جناب ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کا تعلق ہے تو گزشتہ تین چار عشروں میں مختلف تصانیف کے ذریعہ انکی خداداد غیر معمولی اور واضح طور پر ممتاز علمی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا رہا ہے اور یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اہلِ علم کو ڈاکٹر صاحب کے علمی تفوق کو تحفظات کے بغیر تسلیم کرنا چاہیے۔
یہ تصنیف علمِ حدیث کی خدمت کے ایک ایسے گوشے سے متعلق ہے جو کئی پہلوؤں سے غیر معمولی طور پر اہم ہونے کے باوجود ابھی تک اگر مخفی نہیں تو کم از کم عام نگاہوں، بلکہ حدیث کی خدمت سے وابستہ متخصصین کی نظروں سے بھی اوجھل ضرور رہا ہے۔ حدیث کی بڑی سے بڑی کتاب کی عالمانہ شرح لکھنا بھی اگرچہ بہت بڑا کام ہے، لیکن اس زمانے میں یہ کام علمی طور پر پہلے کی طرح مشکل اور خونِ جگر کا طالب نہیں رہا۔ ہمارے مدرسوں میں علم کے بڑے بڑے ہنگاموں کے باوجود عام طور پر معاملہ درسیات کی شرح نویسی یا لفظی، بے جان اور مردہ ترجموں اور تلخیص کی روایت بہت تیزی سے مقبول ہوئی ہے، اور بڑے بڑے اہلِ علم اس کام میں احساسِ زیاں کے بغیر عمریں کھپا رہے ہیں۔ ایسی تاریک علمی فضا میں ڈاکٹر اکرم ندوی نے متقدمین اہلِ علم کی سطح کے جس کام کو عربی زبان میں 43جلدوں میں مکمل کیا ہے وہ علم کی خدمت کے حوالے سے طرحِ نو بھی ہے اور طرحِ اسلاف کا احیاء بھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلاف کی اس مرحوم علمی روایت کی تجدید کی ہے۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کیونکہ ایسے علمی کارنامے ان عباقرہ کی یاد دلاتے ہیں جنھوں نے اسلامی علوم کی روایتوں کی بنیادیں ڈالی تھیں۔ اور طرح نو اس طرح کہ ہم بھلے طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمۃ کا ورد کرتے رہیں اور کہتے رہیں کہ اسلام بلا تفریق مرد و زن حصول علم کا حکم دیتا ہے لیکن ہمارے پاس علمی خدمات انجام دینے والی خواتین کے حوالے کم ہی تھے۔ اسماء الرجال میں محدثات کے جا بجا حوالے تو ملتے ہیں لیکن جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ان کا ذکر ضمنی حیثیت کا ہی حامل رہا ہے۔ اس حوالے سے اسلام پر حملے بھی ہوتے ہیں۔ یعنی ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو میدانِ علم سے دور رکھا ہے۔ وہ انھیں گھر کی چہار دیواری میں محبوس رکھتا ہے اور معاشرے میں سرگرم کردار ادا کرنے سے روکتا ہے۔ وہ مردوں اور عورتوں کو اختلاط سے سختی سے منع کرتا ہے، جس کی بنا پرعورتیں علمی میدان میں استفادہ کرنے سے محروم اور علمی فیض پہنچانے سے قاصر رہتی ہیں۔ مسلمانوں کے دور زوال میں عورتوں کی حالتِ زار خواہ اس اعتراض کو حق بہ جانب قرار دیتی ہو، لیکن قرونِ اولیٰ کے اسلامی معاشروں میں عورتوں کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا اس سے اس اعتراض کی تردید ہو سکتی ہے۔ جواب دینے کی کوشش میں دور جدید میں بعض تصانیف وجود میں آئیں، مثلاً خدمت حدیث میں خواتین کا حصہ یا عورت اور اسلام یا اسلام میں عورت کا مقام جیسی کتابیں۔ در حقیقت یہ ناممکن تھا کہ تاریخی، جغرافیائی، تہذیبی، ثقافتی اور علمی نیز ہر حوالے سے ایک آفاقی انقلاب بپا کردینے والی تحریک صرف مردوں کی اجارہ داری کی بنیاد پر کامیاب ہوئی ہو۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب دو چار جلدیں تصنیف فرما دیتے تو بھی جواب ہو جاتا لیکن انھوں نے ایسا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے جس کا علم حدیث کی تاریخ میں منفرد مقام حاصل کرنا طے ہے۔ یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ جہاں اغیار کے ان حملوں کے نتیجہ میں بہت سے لوگوں کی راہیں گم ہو جاتی ہیں، وہیں انھیں حملوں کا اثر اور فائدہ ہے کہ پختہ اور سنجیدہ علمی شخصیات اسکا نتیجہ خیز مثبت اثر لیتی ہیں۔ ورنہ جب تک فیمینزم والوں کے حملے نہیں ہوئے تھے ہم اسماء الرجال تک محدود رہے اور کسی کو اسماء النساء کی نہ سوجھی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کو اس کتاب کی تالیف کا خیال 1995ء میں اس وقت آیا جب برطانیہ میں بعض ایسے مضامین شائع ہوئے کہ دین اسلام میں خواتین کی تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں اور ایک مستشرق نے کہا کہ مسلمان ایسی پانچ تعلیم یافتہ خواتین اسلام کے نام بھی نہیں بتا سکتے جن کا اسلامی علوم کی ترویج میں حصّہ رہا ہو۔ ڈاکٹر صاحب کے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ ایک دو جلدوں میں تاریخ اسلام کی نامور تعلیم یافتہ خواتین کی سوانح حیات اور ان کی علمی خدمات لکھی جائیں تاکہ مستشرقین کی اسلام کے تئیں غلط فہمیاں دور ہوں۔ اسلام اور نبیوں کی تعلیم میں خواتین کو کیا درجہ، دائرہ کار، علم و ادب، تحقیق و تخریج، تدریس و تعلیم کے حقوق دیے گئے ہیں خود تاریخ اسلام کی نامور خواتین کی علمی و تعلیمی سرگرمیوں اور کارناموں کو لکھ کر خواتین کے مرتبۂ بلند پروازی کو اجاگر کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر مطالعہ و تحقیق کا کام شروع کیا تو معلوم ہوا کہ خواتین اسلام کی ایک طویل فہرست ہے جو تاریخ میں حدیث و تفسیر، فقہ و فتاویٰ کی خدمات کے حوالے سے ممتاز علمی مقام رکھتی ہیں۔ تحقیق و مطالعہ کے بڑھنے کے ساتھ یہ تعداد بڑھتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ فن حدیث سے وابستہ تقریباً دس ہزار ممتاز علمی مقام کی حامل نامور محدثات کی سوانح حیات اور کارناموں کا تذکرہ رقم کر دیا۔ اس کام میں پندرہ برس لگے اور نادر کتب و مخطوطات سے استفادہ کے لیے مختلف ملکوں کا سفر بھی کیا۔ مزید تحقیق و تخریج کے نتیجے میں یہ تعداد ابھی اور بڑھ سکتی تھی لیکن علامہ یوسف القرضاوی نے کہا کہ اب بس کر دیں ورنہ یہ سلسلہ تو کبھی ختم نہ ہوگا۔
اب اس تصنیف کو دیکھ کر ایک متجسس طالب علم کے لیے دو باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ فنِ حدیث ہرگز ایسا علم نہیں جو بلا شرکت غیرے تنہا مرد محدثین کی مقبوضہ سرزمین ہو۔ اس عظیم القدر اسلامی علم کی ترویج میں عورتوں کی حصہ داری بھی بہت زیادہ قابلِ لحاظ ہے۔ محدثین نے اگر اپنے خونِ جگر سے اس علمِ نبوی کی آبیاری کی ہے تو محدثات نے بھی اس حوالے سے اپنا خون پسینہ بہایا ہے۔ عورت صنفِ نازک ہے۔ فاطرِ فطرت نے اس پر جو فطری ذمہ داریاں ڈالی ہیں وہ مرد کی ذمہ داریوں کی بہ نسبت زیادہ نازک بھی ہیں، وسیع الابعاد بھی اور بہت دقت طلب بھی۔ ان فطری مسائل کے نرغے میں رہتے ہوئے بھی اس قدر بڑی تعداد میں ہماری بزرگ اور سعید خواتین نے اگر حدیث جیسے علم کی ترویج و ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ عورت اپنے فطری فرائض کی ادائیگی کے ساتھ علم کے میدان میں بھی مرد کے ساتھ اور انکے برابر کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ وَفِی ذَٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنافِسُونَ۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورتوں کی زبردست علمی اور حدیثی خدمات سے یہ بات بالکل مبرہن ہوجاتی ہے کہ اسلام کی تعلیمات عورتوں کی تعلیم پر نہ صرف یہ کہ کوئی قدغن نہیں لگاتیں، بلکہ اسلام اس حوالے سے انتہائی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ مثلا الوفاء کے مقدمہ(جس کا انگریزی ترجمہ المحدثات کے عنوان سے پہلے ہی شائع ہو چکا ہے )کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری کے اساتذہ میں امام مسلم بن ابراہیم الفراہیدی البصری اور امام ابو الولید الطیالسی جیسے محدثین نے ستّر ستّر شیخات و محدثات سے روایتیں نقل کی ہیں۔ امام ابن عساکر الدمشقی نے اسی اور امام سمعانی نے اناسی محدثات سے روایتیں لی ہیں۔ مصر میں علم حدیث کا احیاء خواتین کے ہاتھوں ہوا۔ ابن الرشید السقطی نے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ فاطمہ بنت ابراہیم بن محمود الدمشقیہ سفر حج کے دوران مدینہ منورہ آئیں تو وہ روضۂ اطہر کے قریب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سرہانے بیٹھ کر درس دیا کرتی تھیں اور تھک جانے پر روضۂ رسول کی دیوار سے ٹیک لگا لیا کرتی تھیں۔ اسی طرح حطیم کعبہ میں محدثات کا درس ہوتا رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ میں دمشقی محدثات کا درس ہوتا تھا جس میں شریک ہونے والوں کی تعداد 396تک نقل کی گئی ہے۔ ابن حجر العسقلانی نے عائشہ الدمشقیہ سے ستر کتابیں پڑھیں ہیں۔ حدیث کی اصح کتاب امام بخاری کی الجامع الصحیح ہے، اس کا ایک مستند و معتبر ترین نسخہ بھی ایک خاتون راویہ کا ہے جو نسخہ کریمیہ مروزیہ کے نام سے معروف ہے۔ امام بخاری کی سب سے اعلیٰ سند عائشہ بنت عبد الہادی المقدسیہ کی ہے جو بیت المقدس کے قبّۃ الصخرہ میں درس دیتی تھیں۔ ان کی سند میں صرف چودہ واسطے ہیں۔
٭……٭……٭

تصحیح: گزشتہ ماہ ’’معارف سیرت‘‘ پر تبصرہ شائع ہوا تھا۔ اس میں تبصرہ نگار کا نام ڈاکٹر محمد سلیم غلط لکھا گیا جب کہ درست نام راجہ قاسم محمود تھا۔ (ادارہ)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.