تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

مولانا شاہ محمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ بھی رخصت ہو گئے

مفتی آصف محمود قاسمی
سابق مدرس جامعہ قاسمیہ ،لاہور

نمونۂ اسلاف ،ولی کامل ،استاذ العلماء حضرت مولانا حافظ شاہ محمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ، مہتمم جامعہ قاسمیہ رحمانپورہ لاہور طویل علالت کے بعدبالآخر اس عظیم الشان شخصیت نے 18؍شوال 1442ھ مطابق 29؍ مئی 2021ء بروز ہفتہ رات ساڑھے دس بجے شیخ زاید ہسپتال لاہور میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔اور پھر اگلے روز بعد از عصر گول باغ وحدت روڈ میں برصغیر کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب مدظلہ کی امامت میں ہزاروں علماء ،طلبہ اور عوام الناس نے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی نماز جنازہ ادا کی ۔پھر آپ کو آپکی وصیت اور دیرینہ خواہش کے مطابق اچھرہ کے مشہورقدیمی قبرستان شیر شاہ قبرستان میں آپ کے اساتذۂ حدیث کے جُھرمٹ میں اورحضرت مولانا صوفی محمد سرور رحمۃ اﷲ علیہ (سابق شیخ الحدیث جامع اشرفیہ)کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔
بنا کر دند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
میں ناچیز اپنی اس تحریر کے ذریعے حضرت کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک کوشش کر رہا ہوں، حضرت کے جنازہ میں اسیری کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکا لیکن اﷲ نے مجھے استاذ جی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع عطا فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ اس سعی کو اپنی بارگاہ عالیہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے (آمین )۔
شخصیت و کردار: ولی کامل ،عالم باعمل مولانا حافظ شاہ محمد صاحب بلا شبہ اس قافلۂ حق میں نمایاں مقام رکھتے تھے ۔جو عزیمت کو رخصت پر ،جرأت کو مصلحت پسندی پر، شریعت کو رسم و رواج پر ترجیح دیتے ہیں ۔آپ کے مزاج میں بے ساختگی ،انکساری،تواضع ،اخلاص اور للّٰھیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔
پیدائش: آپ 7؍مارچ 1936ء کو دھولر تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام ’’گل نصیب‘‘تھا ۔
حفظ قرآن: آپ کا آغازِ تعلیم حفظ قرآن حکیم سے ہوا۔ آپ نے اپنے گاؤں کی ’’درمیانی مسجد ‘‘میں حافظ میاں محمد قاسم سے حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کی ۔
آغاز درسِ نظامی: ابتدائی کتب دو سال تک ’’لٹیری‘‘گاؤں میں واقع ’’مدرسہ رضوان‘‘میں پڑھیں ……پھر آپ ’’جامعہ اشرف المدارس‘‘ فیصل آباد آگئے ،یہاں آپ نے مولانا عبدالرحمٰن صاحب رحمۃ اﷲ و دیگر اساتذہ سے آٹھ سال تعلیم حاصل کی ،آپ نے فنون کے مشہور زمانہ استاذ مولانا ولی اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ (اَنّی میانوالی)سے بھی پڑھا۔
دورۂ حدیث شریف : آپ دورۂ حدیث دارالعلوم دیوبند میں عالم اسلام کی نابغۂ روزگار شخصیت شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی رحمۃ اﷲ سے پڑھنا چاہتے تھے ۔اسباب سفر بھی مکمل ہو چکے تھے ،لیکن جب آپ نے اپنے استاذ مولانا عبدالرحمن صاحب رحمۃ اﷲ سے سفر کی اجازت چاہی تو انہوں نے فرمایا ۔حافظ صاحب !آپ ذی استعداد ہو، میرا جی چاہتا ہے کہ کچھ سال مزید میرے پاس پڑھ لو ،پھر دیو بند چلے جانا ،چنانچہ آپ نے استاذ صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ارادۂ سفر ملتوی کر دیا ،قیام فیصل آباد کے دوران شیخ الاسلام رحلت فرما گئے ۔مولانا فرمایا کرتے تھے’’مجھے اس صدمے سے بڑھ کر کوئی صدمہ نہیں پہنچا کہ میں شیخ الاسلام کی شاگردی سے محروم رہ گیا‘‘۔ دارالعلوم دیوبند نہ جا سکنے کے باعث آپ نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں کبار اساتذہ کرام مولانا محمد رسول خان رحمۃ اﷲ ،مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اﷲ ،مفتی جمیل احمد تھانوی رحمۃ اﷲ علیہم سے 1960ء میں دورۂ حدیث پڑھا ۔
دورۂ تفسیر :آپ نے دو مرتبہ مختلف اساتذہ سے دورہ تفسیر پڑھا ،پہلی مرتبہ امام الاولیاء شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اﷲ علیہ سے پڑھا ،اور دوسری مرتبہ حافظ الحدیث مولانا عبداﷲ درخواستی رحمۃ اﷲ علیہ سے پڑھا ،بنا بریں آپ درسِ قرآن میں دونوں اساتذہ کے طرزِ تدریس کو ملحوظ رکھتے۔ اوّل پندرہ پارے حضرت لاہوری رحمۃ اﷲ علیہ کی طرز پر اور ثانی پندرہ پارے حافظ الحدیث رحمۃ اﷲ علیہ کی طرز پر پڑھاتے۔
بیعت:اولاً آپ نے اپنے استاذ مولانا ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت کی ،ان کے انتقال کے بعد مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اﷲ (حضرو)کی راہنمائی سے وکیل صحابہؓ مولانا قاضی مظہر حسین رحمۃ اﷲ خلیفہ مدنی رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت کی ۔آپ نے اپنے شیخ حضرت قاضی صاحب سے بھرپور استفادہ کیا ،شیخ کامل نے مرید صادق کو خوب سے خوب تر بنا دیا ۔
خلافت : آپ کو مختلف مشائخ سے اجازت بیعت یعنی خلافت حاصل تھی ۔
(1) شیخ الحدیث مولانازکریا کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے خلیفہ و خادم خاص جناب صوفی محمد اقبال رحمۃ اﷲ علیہ نے جامعہ قاسمیہ میں پورے رمضان کے اعتکاف کے دوران خلافت دی۔
(2) پیر سید خورشید شاہ صاحب کے خلیفہ مجاز مولانا سید امین شاہ رحمۃ اﷲ علیہ (مخدوم پور جہانیاں ) نے بھی آپ کو خلافت عنایت فرمائی ۔
(3) مولانا عبدالوحید رائے پوری رحمۃ اﷲ علیہ کے خلیفہ مجاز اور سابق رئیس دارالافتاء جامعہ اشرفیہ مفتی حمید اﷲ جان رحمۃ اﷲ علیہ نے جامعہ قاسمیہ للبنات کے ختم بخاری کے موقع پر اجازت بیعت دی ۔
بانی جامعہ اشرفیہ مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے خصوصی تلمذ: آپ یہ بات تحدیث بانعمت کے طور پر بیان کیا کرتے تھے کہ بانی جامعہ اشرفیہ مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اﷲ علیہ باقاعدہ تدریس نہیں کرتے تھے لیکن میری درخواست پر انہوں نے مجھے ’’سلم العلوم ‘‘پڑھائی ۔اور فرماتے کہ شاید بات ان کی اولاد کو بھی معلوم نہیں ہے ۔
نامور ہم جماعت ساتھی :جس طرح اﷲ تعالیٰ آپ سے دین کی گرانقدر خدمات لیں ۔اسی طرح آپ کے چند ہم جماعت ساتھیوں سے بھی نمایاں خدمات لیں ۔ ان میں سرفہرست جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے سابق شیخ الحدیث مولانا بدیع الزماں بانی و مہتمم جامعہ علوم الشرعیہ جھنگ مولانا سید صادق حسین شاہ شہید رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا عبدالغفور سابق آرمی خطیب اورمولانا عبدالغفار خان رحمۃ اﷲ علیہم ہیں ۔
جامعہ قاسمیہ آمد : اہلیان رحمن پورہ بالخصوص خواجہ عبدالرشید مرحوم ،حاجی صدیق مرحوم ،چوہدری رشید احمد مرحوم حضرت لاہوری رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت سے جامعہ قاسمیہ کیلئے امام وخطیب کی درخواست کی ،چنانچہ حضرت لاہوری رحمۃ اﷲ علیہ نے مولانا محمد رسول خان رحمۃ اﷲ علیہ کے ذمہ لگایا کہ وہ اپنا لائق اور معتمد شاگرد دیں ۔مولانا محمد رسول خان کی نظر التفات آپ پر ٹھہری :چنانچہ آپ کو کہا کہ حضرت لاہوری کے پاس چلے جاؤ اور میرا حوالہ دینا ،آپ فرماتے ہیں ،کہ میں شیرانوالہ حضرت لاہوری کے پاس حاضر ہو گیا ،ظہر کے بعد کا وقت تھا ،اس وقت عام ملاقات پر پابندی ہوتی تھی لیکن طلبہ اس سے مستثنیٰ تھے ۔لہٰذا میں نے دروازے پر دستک دی ۔حضرت نے دروازہ کھولا،چوکھٹ پر ہاتھ رکھ کر آمد کا مقصد پوچھا ،میں نے عرض کی،کہ استاذ جی مولانا رسول صاحب نے جامعہ قاسمیہ میں مجھے بھیجا ہے ۔یہ سن کر حضرت نے فرمایا ،بالکل ٹھیک ہے ،چنانچہ ان دو بزرگوں کے باہمی انتخاب سے آپ کا جامعہ قاسمیہ میں بطور امام و خطیب تقرر ہو گیا ۔
آغاز تدریس :جامعہ قاسمیہ میں آپ کی تقرری رجب 1381ھ بمطابق 1961ء کو ہوئی ۔تقرری کے صرف تین ماہ بعد ہی آپ نے جامعہ قاسمیہ میں درسِ نظامی کی تدریس شروع کر دی ۔یوں امامت و خطابت کی ذمہ داری کے ساتھ اہتمام اور تدریس کی خدمات کا بھی آغاز ہو گیا ۔آپ نے 1961ء تا 2012ء مسلسل اکاون51سال دورۂ حدیث کے علاوہ تمام درس نظامی کی تدریس فرمائی ۔آپ کی تدریس صرف جامعہ قاسمیہ تک ہی رہی ،اس کے علاوہ آپ نے کسی اور ادارے میں تدریس نہیں فرمائی ۔2012ء میں ضعف اور شدت مرض کی وجہ سے تدریس سے بالکل الگ تھلگ ہو گئے ۔
تلامذہ:اکاون سالہ تدریس کے باعث آپ کے تلامذہ کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔جو ملک کے اطراف میں پھیلے ہوئے ہیں ۔آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کی حیات میں ہی آپ کے سلسلہ تلمذ کی پانچویں پشت بھی منصب تدریس پر فائز ہو گئی ۔آپ کے چند مشہور تلامذہ کے نام یہ ہیں :مولانا حافظ سلیم ، جنڈیالہ شیر خان ،مولانا حافظ محمد مسعود ، مدینہ منورہ ،مولانا شبیر احمد ،مفتی محمد حسن،مفتی سعید احمد رائے ونڈ ،مولانا عبدالقیوم ربانی ،قاری نذیر احمد ،مولانا اسماعیل عباسپور کشمیر، مولانا عبدالوحید ثناء ہلوکی ۔
انداز تربیت کے مختلف پہلو:آپ مسلکی اور متصلب نظریاتی مزاج کے حامل ہیں ،آپ کا یہ مزاج آپ کے صاحب عزیمت اساتذہ اور شیخ کی مرہون منت ہے ۔ فکری و نظریاتی شخص ہر وقت اسی فکر میں متفکر رہتا ہے ،کہ وہ اپنی سوچ ،فکر اور نظریے کو کس طرح دوسرے میں منتقل کر دے ۔چنانچہ آپ نے طلبہ و عوام کے عقائد و اعمال کی درستگی اور حفاظت کیلئے درج ذیل کام کئے ۔
(1) بلاناغہ نماز فجر کے متصل بعد صرف 25منٹ کا درس قرآن دیتے تھے،اس درس سے طلبہ و عوام بھرپور مستفید ہوتے ۔
(2) سالانہ جلسے کا اجراء فرمایا ،اس جلسے میں وقت کے جیّد علماء کرام کو دعوت دیتے جو عقائد و اعمال پر سیر حاصل گفتگو فرماتے ۔ان میں مولانا رسول خان ،مولانا احمد علی لاہوری ،مولانا غلام غوث ہزاروی ،مولانا محمد علی جالندھری ، مولانا عبیداﷲ انور ،مولانا اسعد مدنی ، مولانا سید حامد میاں ،مولانا قاضی مظہر حسین ،مولانا عبدالستار تونسوی ، مولانا حق نواز جھنگوی رحمۃ اﷲ علیہم شامل ہیں ۔
(3) صرف طلبہ ہی کو نہیں بلکہ عوام کو بھی مقدس شخصیات یعنی انبیاء ،صحابہ اور علماء کے کارناموں سے روشناس کروایا ۔آپ نے کئی مرتبہ رمضان کے درس میں ’’ارواح ثلاثہ‘‘اور ’’اکابر کا تقوی‘‘کی باقاعدہ تعلیم کروائی ۔
(4) آپ اپنے متعلقین کو مستند کتب پڑھنے کی نصیحت فرماتے اور فرماتے اپنے ایمان کی حفاظت کیلئے ہر ایک کی تقریر نہ سنو اور ہر ایک کا لٹریچر نہ پڑھو ۔رسائل میں ’’حق چار یار ‘‘اور ’’احسان و سلوک‘‘کے پڑھنے کی ترغیب دیتے ۔
(5) آپ نے طلبہ و عوام کو ہمیشہ اس بات کی نصیحت فرمائی کہ اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرو ۔فرمایا کرتے ،اگر نیت میں صفائی ہے تو نورانی قاعدہ پڑھانے والا بھی جنتی ہے اور اگر نیت میں فتور ہے تو بخاری پڑھانے والا بھی برباد ہے ۔
(6) آپ کا خطبہ جمعہ بیباکانہ اور جرأت مندانہ ہوتا ۔ہر باطل کی ،خواہ وہ ظالم حکمران کی صورت میں ہو یا گمراہ فرقے کی صورت میں ، سرکوبی میں سرگرم عمل رہتے ۔
(7) بناتِ اسلام کی تعلیم و تربیت کی خاطر جامعہ قاسمیہ سے متصل الگ عمارت میں مدرسۃ البنات کا آغاز فرمایا ۔جہاں شعبہ حفظ و ناظرہ کے ساتھ درس نظامی اور دراساتِ دینیہ کورس کا انتظام ہے ۔
(8) آپ نے نمازیوں کو طہارت ،نماز ،روزہ ،حج ،عمرہ کے مسائل زبانی یاد کروانے کیلئے اذان مغرب کے متصل بعد صرف تین منٹ کا درس شروع کر رکھا تھا ۔جو سالہا سال جاری رہا ۔پھر ضعف اور بیماری کے باعث یہ سلسلہ موقوف ہو گیا ۔
(9) رحمن پورہ میں تبرائی مجالس و جلوس رکوانا بھی آپ کے مشن کا حصہ رہا ۔آپ نے بہت ساری مجالس کو بغیر قانونی چارہ جوئی کے محض اﷲ کے فضل سے بند کروایا ۔
(10) اس کے علاوہ آپ نے اپنے گاؤں والوں کی اصلاح کیلئے اپنی ذاتی زمین پر مسجد بنائی اور سالانہ جلسے کا آغاز کیا ۔آپ کی انتھک محنتوں کی بدولت وہ گاؤں جہاں دیوبندی کو مردود سمجھا جاتا تھا ،سارے کا سارا گاؤں مسلک اہل سنت والجماعت کا پیرو ہو گیا ۔
قارئین !یہ مولانا شاہ محمد صاحب کی حیاتِ مستعار کا مختصراً خاکہ تھا ۔تفصیلات کیلئے دفاتر درکار ہیں ۔دعا گو ہوں ……اﷲ کریم میرے استاذ جی کے فیضان کو تا قیامت جاری و ساری رکھے ……آمین ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.