تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

امیرالمومنین، خلیفۃالمسلمین سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ

(قسط:2)

غلام مصطفی

رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں فرمایا: أَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ ھَادِیًا وَاہْدِ بِہٖ (ترمذی، ج:2ص: 247) ترجمہ: اے اﷲ! معاویہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پرقائم رہنے والا اورلوگوں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنا۔
أَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الَکِتَابَ وَ مَکِّنْ فِیْ الْبِلَادِ (البدایہ والنہایہ،ج: 8، ص: 121)ترجمہ:اے اﷲ! اس کو کتاب کا علم عطا فرما اور اس کو مختلف شہروں میں حکومت عطا فرما۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اسی دعاکا اثر تھاکہ حضرت قتادہ رضی اﷲ عنہ فرمایا کرتے تھے: لو اصبحتم فی مثل عمل معاویۃ لقال اکثرکم ہٰذا المہدی ترجمہ: اگر تم سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حالات و معاملات دیکھتے توتم پکار اٹھتے کہ یہ مہدی ہیں۔
اسی کوسیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے خاص عقیدت مند ابواسحاق السبعی ان الفاظ میں فرمایا کرتے تھے: لو ادرکتموہ او ادرکتم ایاہ کان المہدی ترجمہ: اگر تم لوگ معاویہ رضی اﷲ عنہ کو پا لیتے تو پکاراٹھتے کہ یہی مہدی ہیں۔ (البدایہ والنہایہ، ج: 8، ص: 145)
اسی طرح کا قول سیدنا مجاہد رحمہ اﷲ سے بھی منقول ہے، فرماتے ہیں: لو ادرکتم معاویۃ لقلتم ہذا المہدی ترجمہ:اگر تم معاویہ رضی اﷲ عنہ کو پالیتے تو پکار اٹھتے کہ یہی مہدی ہیں۔(العواصم، ص: 205)
عبدالعزیز بن ولید بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو سنا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اﷲ عنہما کو والی ٔشام بنایا تو لوگوں نے کہا کہ کم عمری میں اس کو والی بنا دیا۔ توسیدنا عمر رضی اﷲ عنہ فرمانے لگے، اس (معاویہؓ) کو برامت کہو اور والی بنانے میں مجھے ملامت مت کرو، کیونکہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے، اے اﷲ! معاویہ کو ہدایت یافتہ اور ہدایت کا ذریعہ بنا۔ (البدایہ والنہایہ، ص: 112)
یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں، میں نے اپنے جدِامجد کوبیان فرماتے ہوئے سنا کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے سیدناابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کے بعد پانی والا برتن لیا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیچھے چل دیے، سیدنا ابو ہریرہ بیمار تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ وضو کرا رہے تھے، اتنے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ایک دفعہ یا دو دفعہ سر مبارک اوپر کیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاویہ! اگر تمہیں یہ امر خلافت سونپا گیا تو اﷲ سے ڈرتے رہنا اور عدل کرنا۔ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ میں ہمیشہ یہ سوچتا رہا کہ نبی علیہ السلام کے اس اشارہ کی وجہ سے میں ضرور آزمایا جاؤں گا، یہاں تک کہ واقعی آزمایا گیا یعنی خلیفہ بنادیا گیا۔ (تفرد بہ احمد و رواہ ابوبکر ابن ابی الدنیا رواہ منہ)
عبدالملک بن عمیر کہتے کہ سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ فرماتے تھے کہ خدا کی قسم مجھے امرِ خلافت پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد نے آمادہ کیا۔ اِنْ مُلِکْتَ فَأَحْسِنْ۔ اگر آپ خلیفہ بنا دیے گئے تو لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا۔ (البدایہ والنہایہ، ج: 8، ص: 123)
سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں، میں نے معاویہ رضی اﷲ عنہ کو خطبہ کے دوران یہ کہتے ہوئے سنا، فرمایا، مَیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو وضو کراتے ہوئے پانی ڈال رہا تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک میری طرف اٹھا کر فرمایا: ’’دیکھو تم میرے بعد امرِ خلافت سے آزمائے جاؤ گے، جب ایسا ہو تو تم اِن مسلمانوں کے نیک لوگوں کے عذر قبول کیا کرنا اور اِن میں جو برے ہوں ، ان سے بھی در گزر سے کام لینا۔‘‘ معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا، مجھے ہمیشہ اس ارشاد کایقین تھا ، یہاں تک کہ میں اس مقامِ خلافت پر فائز ہوا۔
اﷲ تعالیٰ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کو قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اُن پرنور کی چادر ہو گی۔ (کنز العمال، ج: 6، ص:190)
بے شک سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کو کوئی نہیں پچھاڑے گا، مگر معاویہ رضی اﷲ عنہ سے پنجہ آزمائی کرنے والے کو (معاویہؓ) پچھاڑ دے گا۔ (کنز العُمال، ج: 17، ص: 87)
اے اﷲ! معاویہ کو علم سکھا اوراُسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا۔ (کنز العُمال، ج: 11، ص: 748)
سیدنا جابر رضی اﷲ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے، تم جب معاویہ رضی اﷲ عنہ کودیکھو تو پس اس کی اطاعت کرو، پس بے شک وہ امانت دار اور امن والا ہے۔ اس کے سامنے اپنے معاملات پیش کرو اور اُنھیں اپنے معاملات کا گواہ بنا لو، طاقت ور، امانت دار ہے۔
سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، جبرائیل علیہ السلام، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا،اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم! معاویہ کو سلام کہو اور اُن کے حق میں حسنِ سلوک کی وصیت کرو، کیونکہ اﷲ کی کتاب اور وحی کے امین ہیں اور کیا ہی اچھے امین ہیں۔(البدایہ والنہایہ، ج: 8، ص: 120)
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم آپس میں ہم زلف تھے:
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ و اُم المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اﷲ عنہا کی بہن قریبۃ الصغریٰ، سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی بیوی ہیں۔
1۔ میمونہ بنت حارث رضی اﷲ عنہا اُم المؤمنین، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ تھیں۔
2۔ اسماء بنت عُمیس رضی اﷲ عنہا، یہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیوی تھیں۔
3۔ سَلَمہ بنت عمیس رضی اﷲ عنہا، یہ سیدنا امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ کی بیوی تھیں۔
4۔ اُم فضل بن عمیس رضی اﷲ عنھا۔ سیدنا عباس رضی اﷲ عنہ کی بیوی تھیں۔
5۔ قریبۃ الصغریٰ رضی اﷲ عنہا، سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی بیوی تھیں۔
اس طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا امیر حمزہ، سیدنا عباس، سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہم اجمعین ہم زلف ہیں۔ یہ نو (9) سگی ماں جائی بہنیں تھیں، ان کا قبیلہ ’’بنی خشعم‘‘ تھا۔ ماں کا نام ہند بنت عوف تھا۔
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی شادی نہ کرنے کی بات من گھڑت ہے۔ شادی نہیں، کئی شادیاں کیں اور اولاد بھی ہوئی۔شیعہ روافض نے کئی کہانیاں گھڑی ہوئی ہیں جو کہ سب کی سب جعلی ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی ازواج و اولاد بارے تفصیل ان شاء اﷲ آگے آئی گی۔
بریلوی امام، اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب کا فتویٰ:
جو سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ پر طعن کرے، وہ جہنی کتوں میں سے ایک کتا ہے، ایسے شخص کے پیچھے نماز حرام ہے۔ (احکامِ شریعت، ج:1، ص: 91)
فضائل سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی مستند احادیث:
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے فضائل میں چند احادیث ہم قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جن کو اکابر محدثین رحمہم اﷲ نے اپنی تصانیف میں درج فرمایا ہے۔ملاحظہ فرمائیے:
سیدنا عبدالرحمن بن ابی عمیرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: أللّٰہُم علّمہ الکتاب والحساب وقہ العذاب۔ترجمہ:اے اﷲ! معاویہ کو کتاب و حساب کا علم عطا فرما اور اُسے عذاب سے محفوظ فرما۔
امام ذہبی فرماتے ہیں: ہذا الحدیث رواتہ ثقات لکن اختلفوا فی صحتہ عبدالرحمن والاظہر انہ صحابی روی نحوہ من وجوہ آخر۔ (تاریخ اسلام، ج: 2،ص : 309)
حضرت مجدد رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: در احادیث نبی باسناد ثقات آمدہ، یعنی احادیث نبویہ میں ثقہ سندوں سے واردہوا ہے۔ (مکتوب دفتر اوّل، مکتوب: 251)
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: أَللّٰہم علّم معاویۃ الکتاب والحساب وقہ العذاب۔ ترجمہ: اے اﷲ! معاویہ رضی اﷲ عنہ کو کتاب و حساب کا علم دے اور عذاب سے محفوظ رکھ۔ (مسند احمد، ج: 4، ص: 157،تحت مسند عرباض بن ساریہ رضی اﷲ عنہ )
سیدنا عبدالرحمن بن ابی عمیرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حق میں یہ دعا فرمائی: أللٰہم اجعلہ ہادیا مہدیا واہد بہ ۔ترجمہ: اے اﷲ! سیدنا معاویہ کو ہادی بنا، ہدایت یافتہ فرما اور ان کے ذریعے دوسروں کو ہدایت عطا فرما۔ (جامع ترمذی، ص: 574، کتاب المناقب، باب مناقب معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما)
ان احادیث پر حافظ ابن کثیر ؒ کا تبصرہ: واکتفینا بما اوردناہ من الاحادیث الصحاح والحسان والجیاد عما سواہا من موضوعات والمنکرات۔ ترجمہ:ہم نے صحیح ،حسن اور جید احادیث ہی کے ذکر پر اکتفاکیاہے، موضوع، منکر روایات سے احتراز کیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ، ج: 8، تحت ترجمہ، معاویہ بن ابی سفیان )
تائیدات:
منقولہ بالا احادیث کے ساتھ ساتھ ہم سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی فضیلت میں چند احادیث اور پیش کر رہے ہیں:
صحیح بخاری، باب ما قیل فی قتال الروم، میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے: اوّل جیش من اُمتی یغزون البحر قد اوجبو۔ترجمہ: میری امت کا پہلالشکر جو بحری جہاد کرے گا،انھوں نے (جنت کو اپنے لیے) واجب کر لیا۔ (بخاری، ج: 1، ص: 410، کتاب الجہاد، باب ما قیل فی قتال الروم)
اس بات پر اُمت کا اجماع ہے کہ اس ’’اوّل جیش‘‘ کے ’’امیر جیش‘‘ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ تھے۔ کیا یہ حدیث صحیح اُن کی فضیلت میں نہیں ہے؟ اور کیا ناقد کو اس طرح جنت کی سندحاصل ہے؟
حافظ ابن حجر عسقلانی اور حافظ بدر الدین عینی فرماتے ہیں: قال المہلّب فی ہذا الحدیث منقبۃ لمعاویہ لانہ اوّل من غزا البحر۔ ترجمہ: مہلّب نے کہا کہ اس حدیث میں سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ کی منقبت ہے کیونکہ وہی پہلے شخص ہیں، جنھوں نے سب سے پہلے سمندر پار جہاد کیا۔ (فتح الباری، ج:6، ص: 102۔ عمدۃ القاری، ج: 14، کتاب الجہاد، باب: ماقیل قتال الروم)
لہٰذا یہ سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ کے لیے بہت بڑی فضیلت ہے اور اس دنیا میں بشارتِ جنت نہایت سعادت مندی ہے۔ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حق میں عدمِ فضیلت کا قول کسی طرح درست نہیں۔
حضرت عبدالملک بن عمیر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے، اے معاویہ! جب تمھیں اقتدار نصیب ہو تو لوگوں سے حسنِ سلوک کرنا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج: 11، ص: 147-148، کتاب الامراء)
درج بالا حدیث کے بارے میں علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں: یہ حدیث درجہ حسن میں ہے، جیسا کہ معلوم ہے اور سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ کے فضائل میں قابلِ استدلال ہے۔ (المطالب العالیہ، ج: 4، ص: 108، تحت باب فضائل معاویہ رضی اﷲ عنہ)
تائید مزید:
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا کاتبِ وحی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ عالیہ سے جاری شدہ خطوط و فرامین کا کاتب ہونا، آپ رضی اﷲ عنہ کی بڑی عظیم فضیلت ہے۔ سیرت کی کتابوں میں جہاں کاتبان نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے، وہاں آپ رضی اﷲ عنہ کا نامِ نامی اسمِ گرامی بھی ہے۔ (الاستیعاب تحت الاصابہ، مجمع الزوائد، البدایہ والنہایہ، جوامع السیرت)
خدمت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سعادت کے آگے ساری دنیا کی دولت ہیچ ہے۔ سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ کو بار باریہ سعادت میسر آئی۔ سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ ایک مرتبہ کا واقعہ بیان کرتے ہیں:’’ایک مرتبہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال مبارک (مقص،لوہے کا ایک خاص قسم کا آلہ) کے ساتھ کاٹے۔ (صحیح بخاری، ج: 1، ص: 233، کتاب الحج، باب الحق والقصر عند الاحلال)
آپ رضی اﷲ عنہ کے پاس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کچھ بال مبارک او ناخن مبارک بھی بطورتبرک موجود و محفوظ تھے، جسے آپؓ نے اپنے کفن میں رکھنے کی وصیت کی تھی، جو پوری ہوئی۔ َ(تاریخ الخلفاء، مترجم، ص: 70)
پھر غزوات (مثلاً حنین، طائف، تبوک) میں آپ رضی اﷲ عنہ کی شرکت اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے آپ کے نسبی تعلقات، یہ وہ فضائل ہیں جنھیں ناقدین معاویہ رضی اﷲ عنہ اپنے باطن کی آلودگی سے کبھی گدلا نہیں کر سکتے۔ سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ حجۃ الوداع میں بھی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔
پیر سید محمد کرم شاہ ازہری صاحب لکھتے ہیں:
پھر ظہر سے پہلے سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کی طرف اپنی ناقہ پر سوار ہو کر روانہ ہوئے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بٹھایا ہوا تھا اور جا کر طواف افاضہ کیا، اسی کو طواف صدر اور طواف زیارت بھی کہتے ہیں۔ (ضیاء النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، ج: 4، ص: 768، باب حجۃ الوداع)
ان سب کے علاوہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا نہ صرف صحابی بلکہ ایک فقیہ اور مجتہد صحابی رسول ہیں۔ یہ بذات خود ایک عظیم فضیلت ہے اور فضائلِ صحابہؓ میں قرآن کی جتنی آیات اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی جتنی احادیث موجود ہیں، وہ سب سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لیے ایک مستقل باب فضیلت رکھتی ہیں۔ ان فضائل کے ہوتے ہوئے اگر دوسرے فضائل نہ بھی ہوں، تواس سے آپ کی شان میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
ًًحافظ ابن قیم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
’’یعنی ان لوگوں کی مراد یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے خصوصی مناقب کے لیے عدم صحت حدیث کا قول ہے۔ ورنہ وہ تمام صحیح و مسلّم مناقب جو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اورقریش کے لیے کتاب و سنت میں علی العموم موجودہیں، سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ ان میں داخل ہیں‘‘۔
حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اﷲ کا قول:
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ ایک عرصہ تک دربارِ رسالت میں کتابت وحی کے فرائض انجام دیے اور بحیثیت کاتب ایک سو تریسٹھ احادیث کے راوی ہیں۔ آپ کے حوالہ سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے من جملہ سیدنا عباس، عبداﷲ بن عمر، عبداﷲ بن زبیر، جریر بَجَلی، نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہم اجمعین اورتابعین منجملہ ابن مسیب، حمید بن عبدالرحمن نے احادیث بیان کی ہیں۔ ہوشیاری اوربردباری میں مشہور تھے۔
آپ رضی اﷲ عنہ کی فضیلت میں اکثر احادیث وارد ہیں، ترمذی نے ابن عمیر صحابی رضی اﷲ عنہ کی زبانی لکھا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لیے یہ دعاکی، اے اﷲ! انھیں ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا۔
احمد رحمۃ اﷲ علیہ نے عرباض بن ساریہ رضی اﷲ عنہ کی زبانی لکھا ہے ، میں نے خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اے اﷲ ! معاویہ کو کتاب اور حساب سکھا دے اور عذاب سے محفوظ رکھ۔
ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے عبدالملک بن عمیر رحمۃ اﷲ علیہ کی زبانی لکھا ہے،سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے کہا: ’’جب سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ اے معاویہ! جب تمھیں اقتدار نصیب ہو تو لوگوں سے حسنِ سلوک کرنا، اُس وقت سے مجھے امید تھی کہ میں خلیفہ ضرور بنوں گا‘‘۔ (تاریخ الخلفاء، ص: 65، تحت سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ)
حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
’’باید دانست کہ معاویہ بن سفیان رضی اﷲ عنہما یکے از اصحاب آنحضرت بود۔ او صاحب فضیلت جلیلہ و زمرہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم۔ زنہار در حق او سوء ظن نکنی در ورطہ سب او نہ افتی تا مرتکب حرام نشوی‘‘۔ رجمہ: جاننا چاہیے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ بن ابی سفیان ایک شخص تھے اصحابِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں سے اورزمرہ صحابہ رضی اﷲ عنہم میں بڑے صاحب فضیلت تھے، تم کبھی اُن کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور اُن کی بدگوئی میں مبتلا نہ ہونا ورنہ تم حرام کے مرتکب ہو گے۔
۱۔ حضرت امام مالک رحمہ اﷲ نے کہا کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما کو برا کہنا اتنا بڑا جرم ہے، جتنا بڑا جرم سیدنا ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کو برا کہنا ہے۔ (صواحق محرقہ، ص:102، شفا، ص: 2/555)
۲۔ ایک صحابی نے فرمایا میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نماز سے عین مشابہ نماز سوائے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے کسی کی نہیں دیکھی۔ (منہاج السنہ، ص: 185،ج: 3)
۳۔ عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہم نے قسم کھا کر کہا، حضرات خلفاءِ راشدین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے افضل تھے اور سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ، سرداری کی صفت میں اُن سے بڑھ کر تھے۔ (الاستیعاب)
۴۔ سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہم نے کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے بڑا سردار کسی کو نہیں دیکھا۔ (الاستیعاب)
۵۔ فاتح عراق و ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص نے فرمایا: میں نے اس شہیدمظلوم سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے بعد دروازہ والے یعنی سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے زیادہ حق فیصلہ کرنے والاکسی کو نہیں دیکھا۔ (البدایہ والنہایہ، ج: 8، ص: 123)
۶۔ سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے کہا، میں نے ملکی حکومت کو زینت دینا والا سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا۔ (البدایہ والنہایہ)
۷۔ سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں، میں نے ملک کے لیے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے زیادہ لائق اور موزوں کوئی نہیں دیکھا۔(تاریخ بخاری)
۸۔ حضرت شاہ ولی اﷲ نے لکھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو ہدایت یافتہ اور ذریعہ ہدایت فرمایا، اس لیے کہا کہ انھوں نے مسلمانوں کا خلیفہ بننا تھا۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اُمت پر بہت شفیق ہیں۔ (ازالۃ الخفا، ص: 73، ج: 1)
۹۔ اے اﷲ معاویہ! کو جنت میں داخل فرما، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک مبارک دعا ہے۔ (تعلیق علی العواصم، ص: 206)
سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ کی تاریخ ساز اصلاحات و فتوحات:
1۔ اسلامی بحری بیڑے کا قیام
2۔ بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کے لیے خصوصی پولیس سی، آئی ، ڈی سٹاف کی بنیاد
3۔ دس بڑی بڑی سلطنتوں کے 5400علاقوں پر اسلامی پرچم لہرایا
4۔ عرب میں ذراعت کو فروغ دے کر بڑی بڑی نہروں اور بندوں کا قیام
5۔ محکمہ رجسٹرار اور نقول کا قیام
6۔ جہاز سازی کے کارخانے
7۔ دنیا کا سب سے بڑا شہر ’’قیساریہ‘‘ جس کے تین سو بازار تھے اور جس کی حفاظتی پولیس کی تعداد ایک لاکھ تھی، اس پر اسلامی حکومت قائم کی گئی
8۔ خانہ کعبہ پر سب سے پہلے دیبا اور حریر کا غلاف چڑھایا گیا
9۔ احادیث جمع کرنے اور دینی شعائر کے تحفظ کے لیے باقاعدہ محکمہ کا اجراء
10۔ شکایات سیل کا قیام
11۔ حفاظتی قلعوں کی تعمیر
12۔ سرما اور گرما افواج کی تشکیل
13۔ بری اور بحری فوج کی بنیاد
14۔ پارلیمنٹ کا قیام
معاویہ رضی اﷲ عنہ ایک دانش مند شخص تھے:
جن کی دانش مندی، اُن کی آنکھوں پر اغراض کا پردہ نہیں پڑنے دیتی تھی۔ حکیم الطبع تھے، جن کی بردباری اُنھیں طاقت کے استعمال سے روکتی تھی۔ وہ بالغ نظر تھے، جن کی حکومت سے لوگ مانوس ہو گئے تھے اور جنھوں نے اپنی خوش کلامی اور حسنِ تدبیر سے عوام کا دل موہ لیا تھا۔ (عمرفاروق اعظم، مؤرخ مصری محمد حسین ہیکل، ص: 357)
ایک شیعی مؤرخ ابن طبائی کا سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ بارے تاثر:
باوجود ایک مقتدر اور عظیم المرتبت فرماں روا ہونے کے سیدنا معاویہ نے سادہ مزاج پایا تھا۔ وہ ہر موقع پر اپنے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے تھے،ہر شخص سے نہایت مہربانی اور لطف و کرم سے پیش آتے تھے، خواہ وہ کیسا ہی ادنیٰ درجہ کا آدمی ہو، ان کی یہ ہمدردی ایسے شخص کے ساتھ اس وقت اور بھی بڑھ جاتی تھی جب کوئی بے حیثیت آدمی اُن کے سامنے کوئی شکایت کرتا، مساوات میں ’’بین المسلمین‘‘ کے نہایت سختی سے قائل تھے۔ (سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ، مطبوعہ: سعادت گنج لکھنؤ، شیعی مؤرخ ابن طبائی)
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی یزید کو آخری وصیت:
بیٹا! سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ، تیرے مقابلے میں آئیں تو اُن سے درگزر کرنا، عزت و محبت سے پیش آنا، وہ جگر گوشۂ رسول اﷲ اور تیرے قرابت دار ہیں۔ (شہدائے کربلاء، ص: 6، مطبوعہ: امامیہ مشن لکھنؤ)
ایک خدا رسیدہ بزرگ نے خواب دیکھا کہ حضورِ انور صلی اﷲ علیہ وسلم کے گرد خلفاءِ راشدین ترتیب وار بیٹھے ہیں، اتنے میں ایک شخص آیا جسے دیکھ کر سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے عرض کی، اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم یہ شخص ہماری توہین کرتا ہے، اس نے کہا نہیں نہیں، میں تو معاویہ کی توہین کرتا ہوں، یہ سن کر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم غصے میں آ گئے اور فرمایا کیا معاویہ میرا صحابی نہیں ہے؟ پھر حکم دیا اس گستاخ کو سخت سزا دی جائے۔ (البدایہ والنہایہ، ج: 8، ص: 140)
سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ:
میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے زیادہ امورِ مملکت میں ماہر کسی کو نہیں دیکھا، آپ سے کہا گیا؟ کیا ابوبکر ، عمر، عثمان و علی رضی اﷲ عنہم کو بھی؟ آپ نے فرمایا، وہ سب سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے افضل اوربہترتھے لیکن سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ ’’طریق جہاں بانی‘‘ میں اُن سے لائق تھے۔ (اُسد الغابہ، ج: 4، ص: 486)
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا رعایا سے سلوک بہترین حکمرانوں کی طرح تھا اور آپ کی رعایا کو آپ سے محبت تھی، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تمھارے بہترین امام وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے لیے دعائیں کرو، وہ تمھارے لیے دعائیں کریں اور تمھارے بدترین امام وہ ہیں جن سے تم بغص رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں اور تم ان پر لعنتیں بھیجو اور وہ تم پرلعنتیں بھیجیں۔ (شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ،منہاج السنۃ، ج:3، ص: 189)
مسلمانوں کی خانہ جنگیوں میں خلافت راشدہ کی دل نواز، نظر افروز تصویر کا ایک چوکھٹا ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا، تاہم سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اپنے حسنِ تدبر سے اصل تصویر باقی رکھنے کی جو کوشش کی، وہ بہرحال قابلِ داد ہے۔ (تاریخ ملت، ج:3، ص: 50)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.