تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

دل کی بات

سید محمد کفیل بخاری

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
ابنِ امیر شریعت، قائد احرار، حضرت پیر جی
سید عطاء المہیمن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کا سانحۂ ارتحال

مجلس احرارِ اسلام پاکستان کے امیر و قائد، امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے چوتھے اور آخری فرزند حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری 23جمادی الثانی1442ھ 6/فروری 2021ء بروز ہفتہ 77برس کی عمر میں ملتان میں انتقال کر گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
حضرت پیر جی رحمۃ اﷲ علیہ، امیر شریعت کی اولاد میں آخری نشانی تھے۔ وہ ایک عظیم باپ کے عظیم فرزند تھے۔ علم دین، محبتِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم، اتباعِ سنت، دعوت و تبلیغ، خطابت، حق گوئی و بے باکی، جرأت و شجاعت، سخاوت و فیاضی اور فقر و استغناء جیسی عظیم الشان نعمتیں انھیں ورثہ میں ملی تھیں۔ اُن کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں تضاد نہ تھا۔ کم و بیش پچاس برس انھیں پورے شعور کے ساتھ دیکھا، سنا اور پرکھا۔ اُن کی پوری زندگی تقویٰ و للّٰہیت کے نور سے منور و مزیّن تھی۔ وہ اپنے عہد میں فقرِ بوذر (رضی اﷲ عنہ) کی چلتی پھرتی مثال اور توکل علی اﷲ کا عملی نمونہ تھے۔
دسمبر 1999ء میں آپ مجلس احرارِ اسلام پاکستان کے امیر منتخب ہوئے۔ کم و بیش 21برس وہ مجلس کے امیر رہے۔ مجلس شوریٰ کے ہر انتخابی اجلاس میں عہدہ قبول کرنے سے انکار فرماتے، لیکن جماعت نے ہمیشہ اُن کی قیادت پر اعتماد بھی کیا اور فخر بھی۔ نام و نمود کی خواہش و کوشش دونوں سے بے زار تھے۔ ہمیشہ چھوٹوں کو بڑا کرنے کی کوشش کرتے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کی جدوجہد کو ایمان کا جزو اعظم سمجھتے۔ تمام عمر اسی مقدس مشن کی آبیاری میں صرف اور خرچ کر دی۔
مجلس احرار اسلام کو اپنے اسلاف کی مقدس امانت سمجھتے ہوئے زندہ و جاوید رکھا۔ مجلس کے امیر ہونے کے باوجودعام کارکن کی طرح رہتے۔ کارکنوں میں بیٹھنے اور اُن کے ساتھ مل کر کام کرنے کو ہمیشہ ترجیح دیتے۔ انھیں کم و بیش 14برس مدینہ منورہ میں حضور خاتم النبیین سیدنا محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر پر قدمین مبارک میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ اپنے وقت کے ولی اﷲ تھے۔ حضرت پیر جی رحمۃ اﷲ علیہ نے فقر و درویشی میں استقامت اور مجاہدے والی زندگی گزاری۔ وہ اپنے عظیم والد امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی خوبیوں کا عکس جمیل تھے۔
اﷲ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں عزت دی اور آخرت میں بھی عزت عطا فرمائیں گے، ان شاء اﷲ۔ اڑھائی تین سال سے علالت کی وجہ سے اجتماعی سرگرمیاں معطل ہو گئی تھیں، لیکن انھیں اس کا بہت قلق تھا۔ جس کا ازالہ وہ سالانہ ختمِ نبوت کانفرنس و جلوس دعوتِ اسلام چناب نگر میں شرکت سے کرتے۔ گزشتہ دو سال سے وہ ایمبولینس میں لیٹ کر ملتان سے چناب نگر تشریف لا رہے تھے۔ فرماتے:
’’مجھے ختمِ نبوت کے کام سے نہ روکو، خواہ کچھ بھی ہو جائے میں بہرصورت ختمِ نبوت کانفرنس میں شرکت کروں گا‘‘۔
7؍ فروری کو قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان کے اسٹیڈیم میں اُن کی نمازِ جنازہ بڑی شان و شوکت سے ادا ہوئی۔ بلا مبالغہ اُن کے جنازے میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اسٹیڈیم اپنی تنگ دامانی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ اُن کے اجتماعِ جنازہ میں بھی عقیدۂ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت کے تحفظ کا عہد کیا گیا۔
حضرت پیر جی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی حیاتِ مستعار کا سفر مکمل کر کے دارِ فنا سے دارِ بقا کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ مجلس احرارِ اسلام اُن کی سپرد کی ہوئی امانت ہے۔ ان شاء اﷲ ہم اس امانت کی حفاظت کریں گے، عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ، ناموسِ صحابہ ؓ کے دفاع اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.