تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میرا قصور کیا ہے؟

حامد میر
دو دشمنوں نے آپس میں ہاتھ ملایا اور ایک امن معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے بعد ہر طرف سے ’مبارک ہو، مبارک ہو‘ کی آوازیں آنے لگیں۔ مجھے ان آوازوں کے پیچھے کچھ سسکیاں سنائی دیں۔ میں نے ان سسکیوں کو غور سے سننے کی کوشش کی۔
دور بہت دور سے سنائی دینے والی سسکیوں کو میں نے اپنا وہم قرار دے کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی لیکن یہ میرا وہم نہ تھا۔ یہ ایک عورت کی آواز تھی جو درد بھرے انداز میں روتے ہوئے پوچھ رہی تھی کہ یہ امریکہ، یہ برطانیہ، یہ اقوام متحدہ، یہ مہذب دنیا یہ سب کے سب تو طالبان کو دہشت گرد کہتے تھے پھر ان دہشت گردوں کیساتھ امن مذاکرات بھی ہوئے اور اب دوحہ میں ان کے ساتھ امن معاہدہ بھی ہو گیا، اب اگر یہ دہشت گرد نہیں رہے تو میرا کیا قصور ہے؟
مجھ پر بھی تو دہشت گردی کا الزام لگایا تھا آپ سب نے اور کہا تھا کہ میں طالبان کیساتھ ملکر امریکیوں پر حملے کے منصوبے بنا رہی تھی، اب پوچھو ان طالبان سے میں نے کب اور کہاں ان کے ساتھ مل کر حملوں کا منصوبہ بنایا؟ میں نے غور کیا تو یہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آواز تھی۔ میں نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا دیا۔
افغان طالبان کے نمائندے ملا عبدالغنی برادر اور امریکی حکومت کے نمائندے زلمے خلیل زاد کے درمیان امن معاہدے پر دوحہ میں دستخط ہوئے اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگ یہ منظر دیکھ کر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے تھے اور میرے کانوں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آواز گونج رہی تھی جو دوحہ سے ہزاروں میل دور امریکہ کی ایک جیل میں 86سال قید کی سزا بھگت رہی ہے۔
وہ صرف ایک عورت نہیں بلکہ ایک المیہ ہے اور اگر آپکا ضمیر ابھی زندہ ہے تو اس المیے کی سسکیاں آپ کو بھی سنائی دیں گی۔ آپ بھی غور سے ان سسکیوں کو سنیے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی آپ سے پوچھ رہی ہے: اے میرے پیارے پاکستان کے پیارے لوگو! آج تم دنیا کو بڑے فخر سے بتا رہے ہو کہ اگر پاکستان مدد نہ کرتا تو امریکہ اور افغان طالبان میں امن معاہدہ کبھی نہ ہوتا لیکن ذرا مجھے یہ تو بتاؤ کہ اس امن معاہدے کے تحت امریکی اور افغان حکومت پانچ ہزار افغان طالبان قیدیوں کو رہا کریگی اور طالبان ایک ہزار مخالف قیدیوں کو رہا کرینگے، کیا اس سارے معاملے میں پاکستان کے حکمران اپنی قوم کی ایک بیٹی کو رہا نہیں کروا سکتے تھے؟ جنہوں نے طالبان کیساتھ ہاتھ ملا لیا اور اُن کیساتھ امن معاہدے پر دستخط بھی کر دیے، اُنکے لئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی ابھی تک دہشت گرد کیوں ہے؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن ۲۹؍فروری۲۰۲۰ء کو دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے مابین امن معاہدے کے بعد کئی پاکستانی مجھ سے اس خاتون کے بارے میں پوچھ رہے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کب رہا ہو رہی ہے؟ میرا بھی عجیب معاملہ ہے۔ مجھے نوبیل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی کا حامی بھی سمجھا جاتا ہے جس پر طالبان نے سوات میں حملہ کیا تھا اور مجھے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہمدرد بھی کہا جاتا ہے جسے امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ۲۰۰۳ء میں عمران خان وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے جیو نیوز پر میرے پروگرام کیپٹل ٹاک میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا پر اُس وقت کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات سے احتجاج کیا۔ اس ٹی وی پروگرام میں پاکستان کے وزیر داخلہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک خطرناک عورت قرار دیا جس سے واضح ہو گیا کہ یہ عورت ہماری حکومت کی تحویل میں ہے۔
پھر عمران خان نے بار بار عافیہ صدیقی کیلئے آواز بلند کی لیکن اُس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ عافیہ صدیقی کے معاملے پر انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے زیادہ آواز نہیں اٹھائی کیونکہ جنرل پرویز مشرف کی ’’روشن خیال‘‘ حکومت اپنے اکثر جرائم کو دہشت گردی کیخلاف جنگ قرار دیکر اپنے ہم وطنوں کو بیوقوف بنا دیا کرتی تھی۔
عافیہ کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ وہ تو پاکستانی شہری بھی نہیں بلکہ امریکی شہری ہے۔ پھر عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی نے مجھے کراچی میں اپنے گھر بلا کر بیٹی کا پاکستانی پاسپورٹ دکھایا جس پر امریکہ کا ویزا موجود تھا تو یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی شہری تھی۔
یہ بھی کہا گیا کہ عافیہ نے اپنے سابقہ خاوند امجد سے طلاق لے کر القاعدہ کے کسی دہشت گرد سے شادی کر لی تھی لیکن یہ الزام بھی کہیں ثابت نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مشکلات کا آغاز اکتوبر ۲۰۰۲ء میں اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد ہوا۔ اُن کے سابقہ شوہر کا دعویٰ ہے کہ وہ ۲۰۰۳ء میں گرفتار نہیں ہوئی تھیں بلکہ خود ہی غائب ہو گئی تھیں حالانکہ ۳۰؍مارچ ۲۰۰۳ء کو پولیس کی وردیوں میں ملبوس افراد نے انہیں کراچی سے گرفتار کیا تو بہت سے لوگوں نے یہ گرفتاری اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اگلے دن یہ خبر کراچی کے کئی اخبارات میں شائع بھی ہوئی۔
عصمت صدیقی نے جن شخصیات کے ذریعہ اپنی بیٹی کی رہائی کیلئے کوششیں کیں اُن میں اُس وقت کے چیئرمین سینیٹ میاں محمد سومرو بھی شامل تھے جنہیں یہ کہا گیا کہ تھوڑے دن میں عافیہ کو چھوڑ دیا جائے گا لیکن پھر اُس کی گمشدگی ایک معما بن گئی۔
یہ ایک عافیہ کی کہانی نہیں۔ مشرف کے دور میں علی اصغر بنگلزئی اور زرینہ مری سمیت سینکڑوں افراد کی گمشدگی معمہ بنی اور ان میں سے اکثر کا آج تک پتا نہیں چلا۔ عافیہ کی کہانی میں نیا موڑ جولائی ۲۰۰۸ء میں آیا۔ مشرف کا اقتدار ختم ہونے سے صرف ایک ماہ پہلے امریکی حکومت نے دعویٰ کیا کہ عافیہ کو افغانستان کے شہر غزنی سے گرفتار کر لیا گیا ہے جہاں وہ طالبان کیساتھ مل کر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔
عافیہ کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔ ستمبر ۲۰۱۰ء میں عافیہ پر مقدمہ چلایا گیا جس میں الزام لگایا گیا کہ اُس نے ایک امریکی فوجی سے رائفل چھین کر اُس پر گولی چلائی لیکن وہ بچ گیا۔
عافیہ کیخلاف نو گواہوں کو پیش کیا گیا جن میں ایک افغان شہری احمد گل بھی شامل تھا لیکن کسی رائفل پر عافیہ کے فنگر پرنٹ ثابت نہ ہو سکے۔ ۱۴؍دن کے ٹرائل کے دوران عافیہ نے بار بار بتایا کہ اُس پر امریکیوں نے تشدد کیا لہٰذا عدالتی کارروائی میں خلل ڈالنے کے الزام میں اُسے عدالت سے نکال دیا گیا اور صرف اقدامِ قتل کے الزام میں۸۶سال قید سنا دی گئی۔ یہ قید ۳۰؍ اگست ۲۰۸۳ء کو ختم ہو گی۔ عافیہ کی رہائی کیلئے پاکستان کی قومی اسمبلی ۲۱؍اگست ۲۰۰۸ء کو پہلی قرارداد منظور کی، اُس وقت یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ تھے۔
سینیٹ نے عافیہ کی رہائی کیلئے ۱۵؍ نومبر ۲۰۱۸ء کو قرارداد منظور کی تو پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تھے۔ دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تو وہاں بھی قریشی صاحب موجود تھے اور معاہدے کا کریڈٹ عمران خان کو دے رہے تھے۔
وہی عمران خان جنہوں نے۲۰۰۳ء میں سب سے پہلے عافیہ کیلئے آواز بلند کی تھی وہ آج پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ عافیہ نے کچھ عرصہ قبل جیل میں ہیوسٹن کے پاکستان قونصل جنرل کو عمران خان کے نام ایک خط بھی دیا۔
پتا نہیں یہ خط خان صاحب تک پہنچا یا نہیں لیکن عافیہ کی سسکیاں بہت لوگوں تک پہنچ رہی ہیں۔
وہ پوچھ رہی ہے کہ مجھ پر کسی ایک انسان کا بھی قتل ثابت نہیں ہوا مجھے ۸۶؍سال کیلئے قید میں ڈالا گیا اور جو خود کش حملوں کی ذمہ داریاں قبول کرتے رہے ان کے ساتھ امن معاہدہ ہو گیا، کیا میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں پاکستانی ہوں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.