تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

کراماتِ صحابہ کے ایک واقعہ سے حیات مسیح علیہ السلام پر استدلال

افادہ حضرت پیر سید مہرعلی شاہ گولڑوی قدس سرہ
انتخاب: قائد احرار امام سید ابو معاویہ ابوذر بخاری قدس سرہ
(سیدنا حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کے رفعِ آسمانی اور نزول و آمد ثانی کی مصدقہ، بے مثال، الہامی اور تاریخی و واقعاتی دلیل۔ معجزۂ اصحابِ کہف سے سیکڑوں گنا لمبی عمر پانے والے سیّدنا مسیح علیہ السلام کے صحابی حضرت زریت بن برثملا رضی اﷲ عنہ کی دورِ خلافتِ حضرت عمرِ فاروقِ اعظم سلام اﷲ علیہ میں عراق کے کوہِ حلوان کے پاس اسلامی فوج کے علاقائی کمانڈر صحابی رسول حضرت نضلہ بن معاویہ رضی اﷲ عنہ کو زیارت و گفتگو۔ تاریخی عجوبہ کے طور پر خلافِ عادت بہت طویل عمر پانے، اپنے صحابیٔ عیسیٰ ہونے اور حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے رفع و آمدِ ثانی کی گواہی دے کر امّتِ محمدیہ کے قطعی اِجماعی عقیدہ کی تصدیق ۔ نیز یہود و نصاریٰ اور سبائیوں، بہائیوں اور لاہوری و کادیانی مرزائیوں اور دہریوں کی تردید و تکذیب۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گیلانی قدس سرہ کی تصنیف لطیف ’’سیفِ چشتیائی‘‘ سے ایک اقتباس)
حضرت نضلہ ابن معاویہ رضی اﷲ عنہ صحابی جو قادسیہ کے علاقہ میں اسلامی فوج کے افسر تھے ان کے متعلق سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اﷲ عنہ نے امیر الافواج (کمانڈر انچیف) حضرت سعد ابن وقاص رضی اﷲ عنہ کو حکم بھیجا کہ ان (نضلہ) کو’’ حُلو ان‘‘( عراق) کی طرف روانہ کرو تاکہ اس محاذ سے غارت کر کے مال غنیمت حاصل کریں۔ چنانچہ حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے حضرت نضلہ کو تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا وہ حُلوانِ عراق میں آئے اور اس کے اطراف میں ہلہ بولا اور بہت سامال غنیمت اور قیدی لارہے تھے کہ عصر کے وقت نے تنگی میں ڈالا او ر قریب تھا کہ سورج ڈوب جائے۔ اس وقت نضلہ نے قیدیوں اور غنیمت کو کوہ حُلو ان کے ایک طرف پناہ میں رکھا اور کھڑے ہو کر اذان کہنا شروع کی۔ جب اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا تو ا چانک ایک جواب دینے والے نے پہاڑ میں جواب ِاذان کے ساتھ کہا کہ’’ اے نضلہ تو نے خداوند بزرگ کی طرف کبریا اور عظمت کی نسبت کی ہے‘‘ الخ۔
جب نضلہ اذان کہنے سے فارغ ہوئے تو سب لوگ کھڑے ہو کر کہنے لگے ’’خدا تجھ پر رحم کرے تو کون ہے؟ کیا تو فرشتہ ہے یاجن؟ یااﷲ کے بندوں میں سے کوئی بندہ ہے۔ تو نے ہم کو اپنی آواز سنائی ہے تو ہمیں اپنی صورت بھی دکھا؟ کیونکہ یہ لشکر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور عمر ابن الخطاب رضی اﷲ عنہ کا بھیجا ہوا ہے‘‘۔ پس اُسی وقت چکی کے پاٹ کی طرح اس شخص کا سر پہاڑ کے شگا ف سے ظاہر ہوگیا جس کے سر اور داڑھی کے بال سفید اور اس کے جسم پر پشم کے دو پرانے کپڑے تھے اور اس نے ہم کو خطاب کرکے السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ کہا اور میں (نضلہ) نے اس کا جواب وعلیکم السلام ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ کہہ کر پوچھا خدا تجھ پر رحم کرے تیر ا نام کیا ہے؟ ا س نے جواب دیامیں زَرِیت بن بَرْثَمْلا، خدا کے عبدِ صالح عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا وصی ہوں۔ انھوں نے مجھے پہاڑ میں ٹھہرایا ہے اور میرے لیے آسمان سے نزول کے وقت تک طویل بقا کی دعا کی ہے پس میری طرف سے عمرکو سلام کہہ دو اور کہو کہ اے عمر استوار اور قریب ہو جا کیونکہ امرِ معہود (نزول عیسیٰ) نزدیک ہوگیا ہے او ر ان سب خصائل سے اطلاع دینے کے لیے (جواس حدیث میں مذکورہیں) حکم دیا ہے اس کے بعد وہ (زریت ابن برثملا) غائب ہوگیا اور وہ اس کو نہ دیکھ سکے۔
پھر نضلہ نے یہ سارا واقعہ حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ کی طرف لکھا اور انہوں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی طرف لکھا اور حضرت عمر نے ا س کے جواب میں سعد کو لکھا کہ تو اپنے ساتھی مہاجرین وانصار کی معیت میں اس پہاڑ پر جا اور اگر زَرِیتْ اِبنِ برَثَمْلا ملے تو میری طرف سے اُس کو سلام کہہ دے۔ چنانچہ سعد حکم کے مطابق چار ہزار مہاجرین وانصار کی معیت میں اس پہاڑ پر گئے اور چالیس دن تک وہاں نماز کے لیے اذان دیتے رہے لیکن ان کو کوئی جواب یا خطاب سنائی نہ دیا ۔
ناظرین کو معلوم ہو کہ ابن عباس رضی اﷲ عنہماکی اس حدیث نے کئی امور کی ا طلاع دے دی۔ اول وصیِّ عیسیٰ علیہ السلام کا اس قدر زمانہ دراز تک بغیر کھائے پیے زندہ رہنا۔ ثانی عیسیٰ صلوات اﷲ علیہ کے نزول کی بشارۃ دینا۔ ثالث حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے علاوہ چار ہزار صحابہ مہاجرین وانصار کا عیسیٰ نبی کے نزول پر ایمان رکھنا۔ حتیٰ کہ نضلہ اور تین سو سواروں کی روایۃ پر واضح ہے کہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم او رصحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اور کل اُمت مرحومہ انہی عیسیٰ ابن مریم اسرائیلی علیہ السلام کے نزول کی خبر دے رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ (قرآن پاک کی آیت کریمہ) مُتَوَفّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ میں تقدیم وتاخیر کہتے ہیں (یعنی اگر آیت میں توفی کا معنی پوری حفاظت میں لینا نہ لیا جائے بلکہ وفات دنیا مراد لیا جائے تو پھر بھی حیٰوۃ عیسیٰ علیہ السلام میں کوئی شبہہ نہیں کہ اﷲ فرماتے ہیں: میں تجھے وقت پر وفات بھی دوں گا اور اس سے پہلے آسمان پر بھی اُٹھاؤں گا۔( سیف چشتیائی ص۲۲۰، تالیف سید مہر علی شاہ گو لڑوی۔ روز بازار سٹیم پریس امرتسر ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء)
مطبوعہ:۔ پندرہ روزہ الاحرار لاہور شمارہ ۲۲،جلد ۲۱، ص ۱۳،۱۵ ،(۱۶تا ۲۹فروری ۱۹۹۲۔ ۶تا ۲۳شعبان ۱۴۱۳ء ہجری)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.