تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تحریک ختم نبوت کی بین الاقوامی صورتحال اور جناب طہٰ قریشی کی گفتگو!

عبداللطیف خالد چیمہ
کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے مشترکہ پلیٹ فارم سے خواجۂ خواجگان حضرت مولاناخواجہ خان محمدرحمۃ اﷲ علیہ(خانقاہ سراجیہ) کی قیادت وسیادت میں 1984ء کی تحریک ختم نبوت کے نتیجے میں 26؍ اپریل1984ء کو اس وقت کے صدر پاکستان محمد ضیاء الحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ کے ذریعے لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو اسلامی شعائر وعلامات اور مسلمانوں کی اصطلاحات وغیرہ کے استعمال سے ایک آرڈیننس کے ذریعے روک دیا (جو بعد میں تعزیرات پاکستان کا حصہ بنا) تو قادیانی سربراہ مرزا طاہر احمد فرار ہو کر ربوہ سے کراچی اور کراچی سے لندن پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ جس پر ختم نبوت کی جدوجہد سے متعلق جماعتوں اور شخصیات کو فکر مندی ہوئی کہ برطانیہ میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کا سد باب بھی ہونا چاہیے۔ عملاً قادیانی ہیڈ کوارٹر ربوہ سے لندن منتقل ہو چکا تھا چنانچہ مجلس احرار اسلام برطانیہ کے سربراہ شیخ عبد الغنی اور ان کے فرزند شیخ عبد الواحد کی دعوت پر مجلس احرار اسلام کا دو رکنی وفد (حضرت سید عطاء المحسن شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اور راقم الحروف) نومبر 1985ء میں برطانیہ پہنچا اور برطانیہ کے طول وعرض میں ختم نبوت کے حوالے سے آگاہی مہم شروع کی۔ پھر ہمارا آنا جانا لگا رہا تا آنکہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے برطانیہ میں ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کرلیا جو کسی نہ کسی درجے میں اب بھی متحرک ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے جناب عبد الرحمن یعقوب باوا اور دیگر حضرات کی انتھک کوششوں سے لندن کے مشہور علاقے سٹاک ویل میں ایک وسیع بلڈنگ دفتر کے لیے خریدلی جو پہلے ایک چرچ ہوا کرتی تھی۔ 1989ء میں ملتان سے جناب طہٰ قریشی نامی ایک نوجوان جو مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اﷲ علیہ کے دور سے تحریک ختم نبوت سے وابستہ ہو چکے تھے۔ اپنی ذاتی مصروفیات کے لیے لندن سیٹل ہوگئے۔ جنہوں نے ختم نبوت سنٹر میں سرگرمیوں کو تیز اور منظم کیا اور قادیانیوں کے طریق کار کو دیکھا ،سمجھا اور پرکھا۔ کئی نشیب وفراز سے گزر کر آجکل وہ تحفظ ختم نبوت کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ برٹش ایمپائر کے باضابطہ ممبر ہیں اور تھینک ٹینک کے طور پر عالمی سطح ُپر مشہور ہیں۔ چند دن پہلے پاکستان آنے سے قبل لندن سے ان کا فون آیا اور بتایا کہ وہ پاکستان آرہے ہیں اور ملاقات کا کوئی سبب بننا چاہیے۔ میری اور اپنی مصروفیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے 8مارچ کو انہوں نے بتایا کہ وہ 9مارچ کو چیچہ وطنی کچھ وقت کے لیے آئیں گے۔
میں نے موقع غنیمت جانا اور ملاقات کے ساتھ ساتھ جناب طہٰ قریشی کے اعزاز میں بعد نماز عصر دفتر احرار جامع مسجد چیچہ وطنی میں ایک عصرانہ تقریب کا اہتمام کیا۔ حکیم حافظ محمد قاسم، حافظ حبیب اﷲ رشیدی اور قاضی عبد القدیر نے عجلت میں دوستوں کو اطلاع کی۔ جناب طہٰ قریشی اپنے بھائی جناب طاہر قریشی اور جناب سید مظفر حسین شاہ کے ہمراہ چیچہ وطنی پہنچے۔ مولانا منظور احمد نے ان کی رہنمائی کی اور مراکز احرار چیچہ وطنی، مسجد ختم نبوت اور مرکزی مسجد عثمانیہ کا وزٹ کرانے کے بعد دفتر احرار جامع مسجد لے آئے جہاں ان کا احرار دوستوں نے پر جوش استقبال کیا ۔عصر کی نماز کے بعد شہر کی ممتاز شخصیات اور احرار کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر نئی صف بندی ہو چکی ہے اور ساری ترتیب بدل چکی ہے۔ نہایت ہی عقل مندی کے ساتھ مذہبی قوتوں کو بین الاقوامی حالات و واقعات کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنا راستہ بنانے کی ضرورت ہے اور مرزائی مذہب میں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بے حرمتی اور توہین کس طرح مذہبی عقائد میں شامل ہے، اِس کو آج کی دنیا میں اُجاگر کرنے کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔
طہٰ قریشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد پر پڑنے والی گرد و غبار کو ہم بین الاقوامی سطح پر صاف کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری مرحوم اور اکابر احرار و ختم نبوت کی لازوال جدوجہد سے جو ماحول اور مراکز بنے آج اُس کا پھل ہم کھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تعلیمات کی اشاعت و اظہار کے لیے ہمیں کسی صورت معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اعتماد کے ساتھ دین حق کے پیغام کو آگے پہنچانے والے بن جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کو نہ ماننے والے آئینی تحفظ کا مطالبہ نہیں کر سکتے جیسے کہ قادیانی کمیونٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون تحفظ ناموس رسالت کو کالا قانون کہنے والے معاشرے میں اشتعال اور کشیدگی کا موجب بن رہے ہیں۔ ان کی زبانوں کو قانون خود لگام دے تو یہ بہتر راستہ ہے۔ ورنہ لوگوں کا اشتعال میں آنا فطری بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ قربانیاں تو شہداء ختم نبوت اور مجاہدین ختم نبوت نے دیں۔ 1974ء میں قومی اسمبلی میں بحث اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے کی اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت بھٹو مرحوم کے دور میں قرار دیا گیا۔ جبکہ اس پر مزید قانون سازی صدر محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ قادیانی بین الاقوامی سطح پر لابنگ کے ذریعے امت مسلمہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہمیں بھی اب نئے مورچوں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہمیں کہا جانے لگا کہ ختم نبوت کے ادارے بند کیے جائیں۔ یہ اصل میں قادیانی اثرو نفوذ اور پراپیگنڈے کا نتیجہ تھا۔ لیکن ہم نے اﷲ کی توفیق سے ہمت کی اور برطانوی حکومت کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئے۔ قادیانی غلط پراپیگنڈہ کر رہے ہیں اور حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں کہ ہم دہشت گرد ہیں یا یہ کہ ہم برطانیہ کے امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس کے لیے قانونی جنگ لڑی اور بالآخر قادیانیوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ لیکن لابنگ اور ذہن سازی کی یہ قانونی جنگ طویل بھی ہے اور مسلسل جاری بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے برطانوی حکومت کو باور کرایا کہ عقیدۂ ختم نبوت مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے جس کو ہم کسی صور ت پس پشت نہیں ڈال سکتے۔ قادیانی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرتے ہیں اورپوری دنیا کے مسلمان اس پر متفق ہیں کہ قادیانیوں کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں تو پھر یہ کس بنیاد پر اسلام کا کلیم کرتے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بہر حال بہت سارے اداروں اور مقتدر شخصیات کی سمجھ میں یہ بات ایک حد تک تو آگئی لیکن ابھی یہ سفر جاری ہے اور اس کے لیے بڑ اذہن اور بڑی محنت درکار ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہماری نصرت فرمائیں اور ہم جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے منصب رسالت اور ختم نبوت کے تحفظ کی اس جدوجہد کو باور ہوتے دیکھ لیں آمین۔
راقم الحروف نے اپنے کلمات میں جناب طہٰ قریشی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجلس احرار اسلام کی برپا کردہ تحریک ختم نبوت پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اور آج کا ماحول ہم سے متقاضی ہے کہ آئین و قانون کی بالا دستی کے لیے پر امن جدوجہد کو ترتیب دیں اور استعماری ایجنڈے اور قادیانی سازشوں کے جال کو سمجھ کر رد کریں، استقبالیہ تقریب میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی، تلاوت قرآن پاک کی سعادت حافظ محمد جاوید نے حاصل کی جبکہ حافظ محمد احسن دانش نے نعت رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم پیش کی اور نظامت کے فرائض حکیم حافظ محمد قاسم نے ادا کیے۔ مرد احرار شیخ عبد الغنی، اکرام الحق سرشار، پروفیسر محمود احمد، پروفیسر محمد افضل طیار، پیرجی عبد القادر رائے پوری، چودھری عبد الرزاق ایڈووکیٹ، چودھری خادم حسین وڑائچ ایڈووکیٹ، ڈاکٹر خالد حمید، مولانا منظور احمد، قاری محمد قاسم، رانا قمر الاسلام سمیت شہر کی سرکردہ شخصیات نے بھی شرکت کی۔
بعد ازاں طہٰ قریشی نے تحریک ختم نبوت کی تازہ ترین صورتحال پر راقم الحروف سے تبادلۂ خیال کیا اور بتایا کہ ختم نبوت سنٹر لندن میں نہایت مثبت بنیادوں پر کام اور سرگرمیاں جاری ہیں جبکہ قادیانی اور قادیانی نواز لابیوں کا پروپیگنڈا دم توڑ رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمدتقی عثمانی مدظلہ العالی، حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری مدظلہ العالی جیسی شخصیات ختم نبوت سنٹر لندن کی سرپرستی کر رہی ہیں اور بہت سارے اکابر علماء و مشائخ سے مفید مشاورت رہتی ہے۔ اس موقع پر اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں قادیانیوں کو دعوت اسلام دینے کے لیے محنت کو حکمت، بصیرت اور استقامت کے ساتھ از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور ہم باہمی تعاون سے اس سلسلے کو آگے بڑھائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو مل جل کر صورتحال کا صحیح ادراک کر کے اپنی اس جدوجہد کو اور زیادہ منظم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
یوم معاویہ رضی اﷲ عنہ کی پذیرائی اور عہد حاضر!
جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کے مطابق ’’ان کے سب صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی پیروی بھی کی جائے گی وہ ہمیں جنت میں لے جائے گی‘‘۔ خلیفۂ راشد و بر حق ششم سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کا منصب صحابیت، آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے قرابت داری، حکمرانی کا قرینہ اور فتوحات اسلامی اپنی مثال آپ ہے۔ امسال۲۲؍ رجب المرجب ۱۴۴۱ھ کو یوم معاویہ رضی اﷲ عنہ کے موقع پر سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں جس اہتمام کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کا ذکر خیر آیا ہے، وہ ہم کارکنان تحریک مدح صحابہ کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ ہمت افزا اور تازگی ٔ ایمان کا سبب ہے۔ آج سے ۵۹؍ برس قبل ہمارے سید و قائدجانشین امیر شریعت قائدِ احرار امام اہلسنت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے بر صغیر میں سب سے پہلے ملتان میں ’’یوم معاویہ‘‘ منانے کا اعلان کیا تو اپنے اور بیگانے سبھی سیخ پا ہوگئے۔ لیکن شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ اوالعزمی کے ساتھ جمے اور ڈٹے رہے ہتھکڑیاں لگیں جیل گئے لیکن پایۂ استقلال میں ذرہ برابر کمی نا آئی، جماعت پر پابندی کے دنوں میں ’’مجلس خدام صحابہ‘‘ کے نام سے احیائے اسمائے صحابہ کی ایسی ملک گیر تحریک چلائی کہ اب پوری دنیا میں معاویہ، معاویہ کی گونج صحیح العقائد اہلِ ایمان کی سماعتوں کو مہکا رہی ہے۔
کس کس جگہ سے ان کو نکالو گے ظالمو!
اندر معاویہ ہے تو باہر معاویہ
اس مرتبہ ’’یوم معاویہ‘‘ کے موقع پر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب سراج الحق کا ویڈیو پیغام بھی میڈیا کی زینت بنا جو اُمت کے اجماعی و متفقہ عقائد کی عکاسی کرتا ہے۔ راقم الحروف نے قائد احرار ابن امیر شریعت حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ العالی اور مجلس احرار اسلام کی جانب سے ان کو مبارکباد دی اور شکریہ ادا کیا کہ اتنے مشکل موضوع پر آپ نے جو گفتگو فرمائی ہے اس سے اہلِ سنت والجماعت کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ جناب سراج الحق نے کہاکہ وہ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، وحی کے کاتب ہیں، حکومت، جنگ اور صلح جو کچھ بھی سیکھنا ہو، اس کی تعلیم سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے کردار سے ملے گی۔ اس پر محبان صحابہ اور خصوصاً احرار حلقوں میں خوشی کی لہر دوڈ گئی اﷲ ان کو سلامت با استقامت رکھے۔ آمین۔ اس کے ساتھ ’’سماء نیوز‘‘ کی اینکر پرسن محترمہ کرن ناز نے ۱۸؍ مارچ ۲۰۲۰ء، ۲۲؍ رجب المرجب ۱۴۴۱ھ کے دن سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی سیرت و کردار اور حسب نسب کے حوالے سے جو گفتگو کی وہ تاریخ کے ایک خوشگوار موڑ کے طور پر ہمیں ہمیشہ یاد رہے گی۔ بڑے شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ (جانشین امیر شریعت امام اہل سنت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری) فرمایا کرتے تھے کہ اس مشکل کام کے لیے تم لوگ لگے رہو بالآخر نتیجہ تمہارے سامنے آجائے گا۔ سو ان کا لگایا ہوا پودا آج تن آور درخت بن چکا ہے جس کی خوشبوئیں چہار سو پھیل چکی ہیں اور ہمارا انتظارِ بہار اب عالم واقعی میں مکمل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ الحمد اﷲ مجھے یہ خود اعزاز حاصل ہے کہ سیرت سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ پر مرکزی مسجد عثمانیہ چیچہ وطنی میں تقریر کرنے پر انسداد دہشت گردی کورٹ میں ملتان میں مقدمہ چلا اور اﷲ کے فضل و کرم سے بری ہوا، سفر جاری ہے اور ہمار ا یقین ہے کہ
راہ ملتی ہے شب کو تاروں سے
اور ہدایت نبی کے یاروں سے
یوم امتناع قادیانیت ایکٹ (۲۶؍ اپریل۱۹۸۴ء)
فتنہ ارتداد مرزائیہ کے قلع قمع کے لیے تقریبا ۹۰ سالہ جدوجہد بار آور ہوئی اور ۷ ستمبر ۱۹۷۴ ء کو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور اقتدار میں لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو ایک طویل بحث کے بعد ملک کی ساتویں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ لیکن بہت سے آئینی تقاضے باقی رہے جس بناء پر قادیانی اپنے آپ کو نہ صرف مسلمان لکھتے اور کہتے بلکہ اسلامی شعائر و اصطلاحات بے دریغ استعمال کرتے اور اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کا نام دیتے رہے۔ تاآنکہ ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت کے نتیجہ میں۲۶؍ اپریل ۱۹۸۴ء کو صدرِ پاکستان محمد ضیاء الحق مرحوم نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور ظاہر کرنے پر پابندی لگا دی۔ یہ آرڈیننس بعد میں تعزیرات پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اور قانون کی کتابوں میں یہ آرڈیننس بلا استثناء وبلا ابہام نافذ العمل ہونے کے لیے درج ہے۔ لیکن چناب نگر سمیت ملک بھر میں قادیانی اس قانون کی دن رات خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی مقامات پر کشیدگی بھی جنم لے چکی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کی عمل داری کو یقینی نہیں بناتے۔ امریکہ و یورپ اوربین الاقوامی ادارے اور این جی اوزقانون تحفظ ناموس رسالت اور قانون تحفظ ختم نبوت کے مسلسل تعاقب میں ہیں۔ بین الاقوامی وفود پاکستان کے قومی و سرکاری سرمائے اور وسائل پر اسلام اور وطن کے خلاف محاذ تیز کئے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ریاست ِمدینہ کے دعویدار حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے قادیانی وائرس کا خاتمہ کریں اور آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو مل جل کر اسلام اور وطن کی حفاظت کرنے کی توفیق سے نوازیں آمین یارب العالمین !

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.