تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میرا افسانہ قسط نمبر:۱۸

مفکر احرار،چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ
اب شاعروں میں ماعر کی سنئے۔ صدارت تو سنبھال لی۔ مگر تقاضا ہوا۔ کہ صدر صاحب بھی کچھ ’’اچریں‘‘۔ یہاں دھواں دھار تقریر کام نہ دے سکتی تھی۔ بلکہ خیالات کے ساتھ لفظوں کے حسن ترتیب کی نمائش ضروری تھی۔ الفاظ کی اس مینا کاری کو میں کیا جانوں۔ عمر میں پہلی دفعہ شعر کہنے پڑگئے۔ پہلے دن قلم لے کر بیٹھا تو ایک مصرعہ گز دوسرا سوا گز نکلا۔ طبیعت میں اوز ان کا شعور پیدا نہ ہوا تھا۔آخر مشق سے کچھ طبیعت رواں ہوئی۔ لیکن شاعری مجبوری کی تھی، جیل میں پیدا ہوئی اور اسی جگہ ختم ہوگئی۔ یہ شعر صدری شاعری کے ’’چند مفصلہ نمونے‘‘ نہیں۔ بلکہ میری شاعری کا طول وعرض یہی ہے:
بلبلیں روئیں کھلے جس وقت پھول

اور زوال حسن کی فریاد کی
حسن نے دیکھا ذرا سا گھور کر

عقل حیراں ہوگئی نقاد کی
شوق دل میں خود ہی پیدا ہوگیا

اجڑی بستی حسن نے آباد کی

پکارا جب دل رفتہ کو میں نے

کہا زلفوں میں الجھایا گیا ہوں
سنا کرتا تھا ان کی چکنی چپڑی

انہیں باتوں سے پھسلایا گیا ہوں
نگاہ لطف پر ٹھہرا تھا سودا

کھری قیمت پہ بِکوایا گیا ہوں
’نکل جا شہر سے‘ تھا حکم حاکم

بس اس پر سال دھروایا گیا ہوں

اک نگاہ کے لاکھ گھائل ہوگئے

ہم ترے جادو کے قائل ہوگئے
غزنوی تھے جن کے آباء بت شکن

سنتے ہیں اک بت پہ مائل ہوگئے
بادشاہوں کے لیے جھکتے نہ تھے

وہ بھی تیرے در کے سائل ہوگئے
عشق بازوں کی ہوئی ترکی تمام

ختم جب ان کے وسائل ہوگئے
جیل سے لکھوں میں کیسے درد دل

منقطع رسل و رسائل ہوگئے

ہے غلامی ایسی قوموں پر نثار

مرد جن کے سست وکاہل ہوگئے
روح آزادی وہاں آتی نہیں

فرض سے اپنے جو غافل ہوگئے
ہیں مبارک باپ وہ جن کے پسر

غازیوں میں جا کے شامل ہوگئے
راہ حق میں لڑنے والوں کی نہ پوچھ

جان دی جنت میں داخل ہوگئے
ہند میں پیدا ہوئے بھی تو صغیر

مصطفٰے ترکی میں کامل ہوگئے
جان دے راہ خدا میں اور سمجھ

طے تصوف کے مراحل ہوگئے
ہے جہاد اسلام کا اصل اصول

ہم تو اس نکتے کے قائل ہوگئے

تنگدل دوست سے خوش کب دلِ احباب ہوا

جوئے کم آب سے گلزار نہ شاداب ہوا
چاندنی رات میں گلگشت کو نکلی سلمیٰ

رو برو دیکھنے مہتاب کو مہتاب ہوا
اس کی تعبیر سے فطرت بھی گریزاں ہی رہے

زندگی کیا ہوئی بس خواب سا اک خواب ہوا
تذکرے عشق ومحبت کے زبانوں پہ رہے

ان میں دلچسپ و دل آویز مرا باب ہوا
سنگدل بت ہیں زمانے کے مگر وہ تو نہیں

درد دل جونہی سنایا اسے بے تاب ہوا

جوانی گنوائی تھی عشق بتاں میں

طبیعت نہ پیری میں بھی باز آئی
مرے دل کی دولت لٹی جارہی ہے

دہائی الٰہی! الٰہی دہائی!
نظر آئے حسن وجوانی کے جلوے

ذرا سینہ تانا، ذرا لی جمائی
بہت دون کی شیخ صاحب نے لی تھی

پتے کی بتائی تو گردن جھکائی
شرارت سے غصے کی صورت بنائی

قیامت مری جان پر اس نے ڈھائی

وہ ساعت بری تھی بری ساعتوں میں

پڑا قوم پر جب تنباکو کا سایا
مکدر ہوا شیشہ دین مبیں کا

دھواں دل پہ مسلم کے حقے کا چھایا
مجاہد کی ہمت ہزیمت سے بالا

اسے پست حقے نے کرکے دکھایا
جنہیں اپنی تہذیب کا ادعا تھا

انہیں پایۂ خلق سے بھی گرایا
اڑایا دھواں اور اڑی گھر سے برکت

;پناہ ہم خدایا! پناہ ہم خدایا!

خانہ خراب عشق سے کس کو ملی شفا

اس دردِ لا دوا کی دوا ہو تو جانیے
طعنہ نہ درد عشق کا دے مجھ کو بے خبر

وہ میٹھا میٹھا درد چکھا ہو تو جانیے
نیکی کا اپنے واسطے طالب ہے ہر کوئی

کی غیر کے لیے بھی دعا ہو تو جانیے
ہم سا گناہ گار کوئی دوسرا نہیں

بخشش کا جام ہم کو عطا ہو تو جانیے
ہاں آپ کی نوازش اول کا شکریہ

اک جام ہم کو اور عطا ہو تو جانیے
راہ خدا میں دنیا لٹا دی تو کیا وا

ہاں راہ حق میں سر کٹا ہو تو جانیے
کہتے ہیں مستحقِ کرم ہیں گناہ گار

میرا بھی عاقبت میں بھلا ہو تو جانیے

ہر روز رونے دھونے کے قائل نہیں ہیں ہم

بس ایک آہ…… آہِ رسا ہو تو جانیے

وصل میں بھی غیر کا وہ ذکر فرماتے رہے
پھول کے پہلو میں بیٹھے خار ہم کھاتے رہے
وہ اٹھی کالی گھٹا یاد آگئی زلف سیاہ

درد سینہ میں اٹھا اور سانپ لہراتے رہے
عاشقوں کا نالۂ شب گیر سن کر یہ کہا!

کون تھے شورید سر جو رات ٹراتے رہے
سنگدل قاتل بہت ہیں پر کوئی ان سا نہیں

وہ تڑپنے کی خطا پر مجھ کو ٹھکراتے رہے
میٹھی باتیں غیر سے مجھ پر نگاہ خشمناک

پھول پھینکے ان پہ مجھ پر تیر برساتے رہے
میری کیا ہستی تھی مشق ناز کر جاتے رہے

ان کی بخشش ہے کہ دل پر جور فرماتے رہے
کجروی ہے عشق سے نا آشنا ہونے کا نام

عشق جب دل کو لگا سب پیچ وخم جاتے رہے
جان دے کر جلوہ جانانہ آتا ہے نظر

ورنہ عاشق کیوں وفا میں کھال کھنچواتے رہے
دار پر چڑھ کر نہیں رہتا کوئی محروم دید

طور پر موسیٰ تو ناحق غش پہ غش کھاتے رہے
بزدلی کی زندگی سے موت بہتر جان کر

بانکے ترچھے نوجواں سر اپنا کٹواتے رہے
کر بھروسا حق تعالیٰ پر جو کودے آگ میں

ان کی خاطر نار سے گلزار بن جاتے رہے

غیر کی آنکھوں کا تو تنکا بھی آتا ہے نظر

دیکھتا ہے کون اپنی آنکھ کے شہتیر کو
اے بتو کتنا بنو تم بن نہیں سکتے خدا

تم میں عادت ہی نہیں جو بخش دو تقصیر کو

اجڑی دنیا میں کہاں حضرت آدم کو قرار

باغ جنت میں پہنچ کر جو پریشاں نکلا
پیشوا کس کو بنائیں رہ حق کے طالب

جو معلم تھا فرشتوں کا وہ شیطاں نکلا
زندگانی میں مصیبت ہی مصیبت دیکھی

آخرش موت ہی سے درد کا درماں نکلا
راز محفوظ تھا دل میں دیا آنکھوں نے پتہ
مرا مخبر تو مرے گھر ہی کا درباں نکلا
ایسی دنیا کے لیے دین بگاڑا جس نے

سودا مہنگا کیا اس نے بڑا ناداں نکلا
دنیا تاریک تھی جب تک نہ تھا وہ جلوہ فروز

ظلمتیں دور ہوئیں جب مہ تاباں نکلا
اُمّی آیا تو ہوئے علم کے دریا جاری

فیض صحبت سے ہر اک عالم دوراں نکلا

اے صوفی! آ کہ سرِ دار دکھا دوں

کیا صاف ہم اﷲ کا گھر دیکھ رہے ہیں
یورپ کو تو بارود سے تسخیر کی دھن ہے

اک ہم ہیں کہ آہوں کا اثر دیکھ رہے ہیں
واں گیس سے بجلی سے لڑی جاتی ہیں جنگیں

یاں سان پہ گھس گھس کے تبر دیکھ رہے ہیں
ہم شعر میں لاتے ہیں لب لعل کے مضمون
وہ کھود کے خود کان گہر دیکھ رہے ہیں
وہ چیر کے آتے ہیں یہاں سات سمندر

ہم حسن کے دریا میں بھنور دیکھ رہے ہیں
وہ کرچکے سر قطب شمالی کی ہمیں

ہم زلف کو ہوتے ہوئے سر دیکھ رہے ہیں
اغیار کمر بستہ ہیں دنیا نئی ڈھونڈیں
احباب ابھی عرض کمر دیکھ رہے ہیں
رات دن ان کو منانا ہے مقدر مرا
ان کا ہر روز کا شیوہ ہے خفا ہو جانا
ہاتھ تو زیست سے میں دھو ہی چکا ہوں لیکن
ان کے دیدار سے ممکن ہے شفا ہو جانا
گر نہیں دیکھا تو آؤ یہ تماشا دیکھو
جان سے جانا مرا ان کی ادا ہو جانا
دل دیا میں نے جونہی اس نے نگاہیں بدلیں
کیا زمانہ ہے بھلا کرنا‘ برا ہو جانا
تلاشی لی پولیس نے شیخ جی کی اور براہمن کی
ادھر نکلیں تو تصویریں ادھر نکلے تو بم نکلے
دل عاشق کو جب چیرا بہت الٹا بہت پلا
اٹھا کر تہ بہ تہ دیکھا تو پیکان الم انکلے
لیا اہل نظر نے جائزہ سارے حسینوں کا
بہت نکلے حسیں دنیا میں لیکن تم سے کم نکلے
وہ زندگی کے لطف کو کیا جانتا ہے جو

محبوب کے گلے کا ہوا ہار بھی نہیں
وہ عشق کی گلی میں قدم کیوں دھرے بھلا

جو ساری عمر رونے کو تیار بھی نہیں

Sوہ تو بگڑے تھے مگر ہے موت بھی روٹھی ہوئی

ان کا شکوہ کیا کہ ہم سے ہے قضا بگڑی ہوئی
بگڑا کیا وہ گلبدن غنچہ دہن سر و چن

باغ محبوبی کی ہے ساری فضا بگڑی ہوئی
نو گرفتاروں سے حال ملک پوچھا تو سنا

آج کل سارے وطن کی ہے ہوا بگڑی ہوئی
منہ چڑاتا ہے مرا حاسد ذرا صورت تو دیکھ

شکل تیری کس طرح ہے بے حیا بگڑی ہوئی
مست و کاہل کی زبان پر ورد رہتا ہے سدا

آج کل تقدیر ہے بے انتہا بگڑی ہوئی
دل ہی جب ٹوٹا تو پھر دنیا کا راگ اور رنگ کیا

ساز جب بگڑے تو آتی ہے صدا بگڑی ہوئی

آؤ اے نا مہرباں کر لو جفا دل کھول کر

آئے ہیں کوچے میں تیرے کھال کھنچوانے کو ہم
حال دل میں نے کہا منہ پھیر کر بولے حضور

سنتے سنتے تھک گئے ہیں تیرے افسانے کو ہم
اﷲ اﷲ کیا فرائض مختلف تجویز ہیں

جھڑکیاں دینے کو وہ اور پھول برسانے کو ہم
اس بت کافر نے باندھا ہے ہمیں زنار میں

الوداع اے شیخ جی جاتے ہیں بت خانے کو ہم

ہر اک نگاہ سے لب بستہ پھول کہتے ہیں

کہ اس چمن میں نہ کوئی زباں دراز کرے
جسے نہ علم میں بہرہ ہو اور نہ دانش میں

برے بھلے میں بھلا کیا وہ امتیاز کرے
کہو کہ عشق کو روز ازل سے ناکامی

ہوئی ہے عشق نہ کوئی بھی عشق باز کرے
نگہ میں پھرتی ہے اس بت کی صورت دل کش

ہاں! کس طرح سے ادا کوئی اب نماز کرے
کلی کے کھلتے ہی لے کر اڑی ہوا خوشبو

ہنسی میں بھی کوئی افشا نہ اپنا راز کرے
یہ حسن وعشق کی دنیا کا ہے عجب قانون

کہ حکم دولت محمود میں ایاز کرے

واہ کیا وہ وقت تھا جب تھا زمانہ سازگار

آنکھ تھی محو تماشا، تھی میسر دید یار
ایک لطف زندگانی تھا میسر پے بہ پے

دل میں جنت تھی کھلی اور غم نے راہ پائی نہ تھی
کیا بتاؤں راز دل درد آشنا قصہ نہ پوچھ

کس طرح سے درد کا ہم کو ملا حصہ نہ پوچھ
پوچھ اتنا حال کیا ہے اور سن یہ مختصر

چوٹ وہ کھائی دل پر جو کبھی کھائی نہ تھی

ہاں وہ ہے اک شاہ خوباں‘ تاجدار حسن وعشق

جس کی تابانی سے تاباں تھے دیار حسن و عشق
کیا کہوں وہ ہے مَلَک یا مُلکِ خوبی کا نگار

صورت دلکش کبھی ایسی نظر آئی نہ تھی

ہے افق پر شعر ونغمہ کے وہ رشک آفتاب

اس کی مستانہ اداؤں کا نہیں کوئی جواب
اس کی رعنائی کے آگے ماند تھے شمس وقمر

طور سینا پر بھی ایسی جلوہ فرمائی نہ تھی

حسن کا دریا تھا وہ اس کا تبسم موج خیز

طوطیٔ گل ریز وہ انفاس اس کے عطر بیز
بوٹا بوٹا گلشن ہستی کا دیکھا آنکھ نے

حاشا ﷲ ایک بھی گل میں وہ رعنائی نہ تھی
چارہ سازو کچھ کرو میں اس سے چھٹ کر لٹ گیا
اس طرح کی سخت آفت عمر بھر آئی نہ تھی

٭

اک ناز میں بیٹھی تھی پیتم کی یاد میں

اور تھا ہجومِ غم دلِ حوریں نژاد میں
کڑھتی تھی بار بار زباں سے یہ کہتی تھی

بس چند دن تو ہوتے ہیں حسن اور نکھار کے
اب کے بھی دن گزر گئے یونہی بہار کے
سکھیاں اڑاتی رنگ ہیں ہر صبح وشام سے

میں راہ تکتی رہتی ہوں ہر روز بام سے
تم میٹھی بانی بول کر الفت جتاتے تھے

اب قصے بھول بیٹھے ہو الفت کے پیار کے
اب کے بھی دن گزر گئے یونہی بہار کے
آؤ کبھی تو گھر کہ ہوں میں انتظار میں

جو بن ٹپک رہا ہے ہر ایک سبزہ زار میں
کھلتی ہیں عطر میں ڈوبی ہوائیں بھی

تم بن دکھاؤں کس کو بنا اور سنوار کے
اب کے بھی دن گزر گئے یونہی بہار کے
٭……٭……٭
بظاہر ہم نا کام جیلوں سے نکلے لیکن تحریک میں بے حد اخلاص تھا۔ ہندو مسلم جھگڑے کی طرف ہمارا ذہن نہ گیا تھا۔ اس لیے خدا نے مسلمانوں میں ہمیں مقبولیت دی اور ہندوؤں کے بھی ناراض ہونے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔ کیونکہ تمام کشمیر کی غریب قوم کے لیے ہم لڑے تھے۔ ہماری قربانیاں کشمیر کی آزادی کے لیے تھیں۔ محض مسلمانوں کو نوکریاں دلانا مقصود نہ تھا۔ جب احرار جیلوں سے باہر آئے تو برسات کے خوشگوار بادلوں کی طرح ان کے اثر ور سوخ کا سایہ سارے ملک پر چھا رہا تھا۔ گذشتہ تحریک کشمیر میں ہم نے محسوس کیا کہ مرزائیت عیسائیت کی حلیف بن کر محاذیٔ اسلام ہے بلکہ دین متین کے نشوو ارتقا کے لیے امربیل کا حکم رکھتی ہے۔ اسلامی سیاست کے جسم سے اس ناسور کو دور کرنا مذہب کی بھی سب سے بڑی خدمت ہے۔
مولوی عبد الکریم مباہلہ نے ……جو کسی وقت مرزائیت کے پر جوش داعی تھے اور مرزائی گروہ کے لیڈروں کی ہوس کار گھناؤنی داستان کے باعث ا ن سے علیحدہ ہوگئے تھے…… مشورہ دیا کہ احرار کا دفتر قادیان میں کھول دیا جائے۔ مذہبی اعتبار سے یہ فرقہ اسلامی تنظیم کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہ تھا۔ دین مکمل ہوچکا۔ یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔ تکمیل دین کے بعد نبی کی ضرورت باقی نہیں رہتی’’لا نبی بعدی‘‘کے قول فصیل نے تو تمام نقلی دلائل پر پانی پھیر دیا۔ بہر حال ہم نے اس فتنہ کے سدِّ باب کے لیے قادیان میں دفتر کھول دیا تاکہ ان دشمنان دین کی نگرانی ان کے مرکز میں رہ کر ہو سکے۔ اس پر مرزائیت نے بڑاطوفان اٹھایا۔ انہیں حکومت وقت کی تائید حاصل تھی، ہمیں جیلوں سے نکلتے ہی اور مقابلہ پڑ گیا۔ انگریزی تعلیم یافتہ مذہب سے بیزاری کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں لیکن خدا غریق رحمت کرے علامہ سر اقبال کو ان کی قلمی معاونت سے ہمیں بے حد تقویت ہوئی۔ وہ مجلس احرار کے یوں بھی دلی دوست تھے، ان کی بروقت تحریروں کے باعث ہمارا قادیانی محاذ مضبوط ہوگیا۔ گور نمنٹ نے مرزائیت کے ایماء پر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری پر (جو وقت کے بے مثال خطیب ہیں) مقدمہ چلایا۔ جس کا فیصلہ دیتے ہوئے مسٹر کھوسلہ سیشن جج نے مرزائیت کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا۔ یہ فیصلہ اس فرقہ کے لیے بم کا گولہ تھا۔ مسلمان بھی ایک حد تک بیدار ہوگئے۔ لیکن حکومت نے مرزائیت کوبچانے کے لیے مجلس احرار پر پابندی لگادی کہ قادیان سے آٹھ میل کے اندر وہ کوئی کانفرنس نہ کرسکے۔ یہاں تک بس نہیں کی بلکہ ہمارے ایک سو کارکنوں پر مقدمات چلا کر انہیں جیل میں ڈال دیا ہرچند مرزائی قادیان میں قتل وغارت کا بازار گرم رکھتے ہیں۔ انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ تا ہم یہ سارے واقعات ہمارے اثر ورسوخ میں اضافہ کا باعث بن رہے تھے۔
اب احرار ہندوستان بھر میں ایک بے پناہ قوت ہوچکی تھی۔ اس لیے اس کو فنا کرنے کے لیے بہت سی قوتیں تدابیر سوچ رہی تھیں ۔ (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.