تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابو ذربخاری رحمہ اﷲ کا ۱۹۷۴ء میں گمٹی بازار لاہور میں درسِ قرآن

عبدالکریم قمر
مملکت خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی تین سو سیٹوں کے لیے پہلے عام انتخابات 7دسمبر 1970 کو منعقد ہوئے۔ قومی اسمبلی کے ان انتخابات میں بہت سی سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا پاکستان کے صوبہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے پورے صوبہ سے ایک سیٹ کے سوا سب سیٹیں جیت لیں جن کی تعداد 150 سے زیادہ تھی۔ ایک سیٹ جس پر عوامی لیگ کے علادہ دوسرا ممبر منتخب ہوا وہ راجہ تری دیو رائے کی تھی جو چکمہ قبیلے کے سربراہ اور بدھ مت مذہب کے پیروکار تھے۔ پاکستان کے مغربی حصے جس کو مغربی پاکستان کہتے تھے اس کے چار صوبے پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان تھے۔
مغربی پاکستان کے ان چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں جن کی تعداد 81 تھی دیگر سیاسی جماعتوں میں سے پاکستان مسلم لیگ (قیوم خاں گروپ) نے 9، پاکستان مسلم لیگ (کونسل) نے 7، جمعیت علماء اسلام نے 7، جمعیت علماء پاکستان نے 7، نیشنل عوامی پارٹی (ولی خان) نے 6، جماعت اسلامی نے 4 اور پاکستان مسلم لیگ (کنونشن) نے 2 سیٹیں حاصل کیں۔ اس طرح پاکستان میں سیٹوں کے جیتنے کے اعتبار سے دو بڑی جماعتیں سامنے آئیں ایک عوامی لیگ جس کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن تھے جو 150 سے زائد سیٹیں جیت کر پہلے نمبر پر تھی۔ اور دوسری پیپلز پارٹی جس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو تھے اور یہ 81سیٹیں جیت کر دوسرے نمبر پر تھی۔ عوامی لیگ نے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں صرف سنگل عدد کی چند نشستوں پر اپنے امیدوار کھٹرے کیے تھے جو کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ جب کہ پیپلز پارٹی نے صوبہ مشرقی پاکستان پر کسی ایک نشست پر بھی اپنا امیدوار کھڑا نہ کیا۔ اس طرح وطن عزیز کے دونوں حصوں سے الیکشن جیتنے والی دونوں بڑی پارٹیوں کی ملک کے ایک ایک حصہ میں ہی اکثریت تھی اور دوسرے حصہ سے ایک بھی نشست نہ تھی۔ مارشل لاء ایڈمنسٹریڑ جنرل محمد یحییٰ خان کے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ انتخابی فریم ورک کی رو سے قومی اسمبلی کے اجلاس منعقد ہونے کے بعد 120 دنوں کے اندر دستور بنانا تھا۔ دونوں بڑی پارٹیوں نے اسمبلی سے باہر ہی شراکت اقتدار کے لیے بات چیت شروع کی جو ناکام ہوئی۔ اس دوران ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے کی تاریخ کا اعلان کیا گیا لیکن 28 فروری 1971 کو مینار پاکستان لاہور کے سایہ تلے منعقد ہونے والے پیپلز پارٹی کے جلسہ عام میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا اور یہ اعلان کیا کہ جو رکن اسمبلی اس اجلاس میں شرکت کے لیے جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اس طرح دونوں بڑی جماعتوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیااور قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہی نہ ہو سکا۔ پھر وطن عزیز کے ازلی دشمن بھارت نے بین الاقوامی سامراجی قوتوں کے اشارہ اور تعاون سے ملک کو دو لخت کر دیا۔ اور امت اسلام کو سقوط بغداد اور سقوط غرناطہ کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی ہزیمت اٹھانا پڑی۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئے ملک کے طور پر وجود میں آگیا اور مغربی پاکستان کو ہی پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ یہاں دوسری اکثریتی پارٹی پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا۔
جنرل محمد یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کے ساتھ ساتھ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا اختیار بھی منتقل کیا اور اس طرح دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سول آدمی نے مارشل لاء ایڈمنسٹریڑ کے اختیارات سنبھالے۔ صوبوں میں گورنروں کو صوبائی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات دیے گئے۔ پنجاب میں غلام مصطفی کھر نے گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے ساتھ صوبائی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات بھی سنبھالے۔ پیپلز پارٹی نے صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کی قومی اسمبلی کی 113 میں سے دو تہائی سے زیادہ سیٹیں جیتی تھیں۔ پاکستان مسلم لیگ (قیوم خان) جس نے عام انتخابات میں 9 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ اس نے بھی پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا اس طرح پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور اس کے حامیوں کی تین چوتھائی اکثریت ہوگئی۔ اور متحدہ اپوزیشن جس میں جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی، مسلم لیگ (کونسل)، مسلم لیگ (کنونشن) اور جماعت اسلامی شامل تھی کے کل ممبران کی تعداد صرف 35 کے قریب رہ گئی پھر مسلم لیگ (کونسل) کے صدر میاں ممتاز دولتانہ بھی اقتدار کو پیارے ہوگئے اور سفیر بن کر برطانیہ چلے گئے۔ ان کے ساتھی سردار شوکت حیات بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کے اس دور اقتدار میں صوبہ پنجاب سے جماعت اسلامی کے منتخب ہونے والے اکلوتے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد جو ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے تھے کو ان کے کلینک کے باہر دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کی پہلی سالگرہ پر احتجاجی جلوس نکالنے پر موجودہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق کے والد محترم اتحاد پارٹی کے صدر خواجہ محمد رفیق کو 20 دسمبر 1972 کو اس وقت دن دیہاڑے سرِعام گولی مار کر قتل کر دیا گیا جب وہ لاہور اسمبلی ہال کے سامنے احتجاجی جلوس ختم ہونے کے بعد گھر جا رہے تھے۔ مولانا مفتی محمود ؒکی جمعیت علما ء اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی نے سیاسی اتحاد قائم کیا اور اس کے تحت صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں صوبائی حکومتیں قائم کیں۔ صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی کے گورنر ارباب سکندر خلیل مقرر ہوئے جبکہ وزارت اعلیٰ کا منصب جمعیت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمودؒ نے سنبھالا۔ صوبہ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کے غوث بخش بزنجو گورنر اور عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ جبکہ صوبائی اسمبلی کے سپیکر کا عہدہ جمعیت علماء اسلام کے مولانا شمس الدین شہید مرحوم کو ملا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان دونوں صوبائی حکومتوں کو چلنے نہ دیا اور بالآخر 15 فروری 1973 کو بلوچستان کی مخلوط حکومت کو ختم کیا تو احتجاجاً صوبہ سرحد کی مخلوط حکومت نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ اس پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان دونوں صوبوں میں بھی اپنے نمائندے مقرر کر دیے۔ ان حالات میں اپوزیشن کی ساری جماعتوں نے 21 مشترکہ نکات کے حصول کے لیے مل کر متحدہ جمہوری محاذ کے نام سے اتحاد قائم کیا۔ اور پیپلز پارٹی کے خلاف بحالی جمہوریت کے لیے تحریک شروع کر دی جس کا مرکز لاہور تھا۔ بحالی جمہوریت کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک بھی بڑے زور شور سے شروع تھی۔ اس میں طلباء تنظیمیں بھرپور شرکت کر رہی تھیں۔ جاوید ہاشمی اور پرویز الطاف جو اس وقت طالب علم لیڈر تھے اس میں پیش پیش تھے۔ حکومت نے ان دونوں تحریکوں کو سختی سے کچل دیا۔ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد اور مسلم لیگ کنونشن کے سربراہ ملک محمد قاسم کے علاوہ کئی ایک سرکردہ سیاسی رہنماؤں اور طالب علم لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز سلوک کیا گیا۔ دسمبر 1973 تک حکومت کے خلاف شروع ہونے والی تمام تحریکیں دم توڑ چکی تھیں۔ اور پیپلز پارٹی کے رعب داب کا سورج نصف النہار پر چمک رہا تھا ساری اپوزیشن جماعتیں حکومت کے آمرانہ اقدامات کے سامنے دبک گئی تھیں۔ یہ سارا پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے تا کہ پتا چل سکے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت کی مخالفت کتنے دل گردے کا کام تھا۔
ان حالات میں مجلس احرار اسلام نے لاہور میں جہاں سے پیپلز پارٹی نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی ساری سیٹیں بھاری اکثریت سے جیت رکھی تھیں۔ امام سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ امیر مجلس احرار اسلام کے گمٹی بازار میں شبینہ درس قرآن کا پروگرام رکھ دیا گیا۔ میں ایک ضروری کام کے سلسلے میں 16 جنوری 1974 کو لاہور گیا 18 جنوری 1974 کو جمعۃ المبارک تھا نماز جمعہ ادا کرنے حضرت مولانا عبید اﷲ انورؒ کی مسجد شیرانوالہ گیٹ حاضری ہوئی نماز جمعہ ادا کر کے فارغ ہوا تو دیکھا مسجد کے صحن میں دائیں جانب وضو کرنے والے تالاب کی طرف ابن امیر شریعت سید عطاء المحسن شاہ صاحب مرحوم و مغفور بھی تشریف فرما تھے وہ کسی سفر سے واپس آئے تھے اور نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے وہاں تشریف لائے تھے۔ حضرت شاہ صاحبؒ سے ملاقات ہوئی انھوں نے فرمایا اگر نماز سے فارغ ہوچکے ہو تو دفتر چلیں۔ چناچہ وہاں سے پیدل مرکزی دفتر مجلس احرار اسلام بیرون دہلی دروازہ بالمقابل دربار حضرت شاہ محمد غوثؒ پہنچے۔ عصر کے بعد جانشین امیر شریعت سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ دفتر تشریف لے آئے۔ انکی طبیعت بہت خراب تھی اور بخار میں مبتلا تھے اسی اثنا دفتر احرار میں کارکنوں کی آمد شروع ہوگئی۔ سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ کو 102 درجے سے زائد پر بخار تھا۔ مجلس احرار لاہور کے صدر جناب یعقوب بٹالوی صاحب بہت پریشان تھے کیونکہ درس قرآن کے پروگرام کے وہی منتظم و میزبان تھے۔ ادھر پیپلز پارٹی والوں نے دھمکی دے رکھی تھی کہ یہ پروگرام نہیں ہونے دیں گے۔ ادھر سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ کی طبیعت بھی خراب تھی لیکن حضرت شاہ جیؒ نے فرمایا کہ پروگرام ان شاء اﷲ ضرور ہوگا۔ دوائیں استعمال ہو رہی تھیں تاکہ طبیعت بحال ہو جائے نماز عشاء کے بعد احرار کارکنوں کو پروگرام کی جگہ پہنچنے کی ہدایت کی گئی۔ میرے سمیت سب تانگوں میں سوار ہو کر اس جگہ پہنچے جہاں بازار کے اندر لوگوں کے بیٹھنے کے لیے دریاں بچھائی گئی تھیں۔ حضرت شاہ صاحب ؒکے درس قرآن کے لیے فرشی سٹیج بنایا گیا تھا وہاں لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے لیکن دریوں پر بیٹھنے کی بجائے ارد گرد کھڑے تھے جیسے تماشائی ہوں۔ سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ تشریف لائے تو چند لوگ دریوں پر بیٹھ گئے لیکن زیادہ تر ابھی تک ادھر ادھر ٹولیوں کی صورت میں کھڑے تھے۔ سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ نے اپنی جگہ سنبھالی اور فرمایا کہ میں نے درس قرآن دینا ہے۔ تلاوت قرآن مجید، اسکا ترجمہ اور تشریح ہو گی اس لیے تشریف رکھیں۔ اس پر آپ نے تلاوت قرآن مجید شروع کی تو کچھ اور لوگ دریوں پر بیٹھ گئے لیکن اکثریت ابھی تک اردگرد کھڑے ہونے والوں کی تھی۔ تلاوت کلام پاک کے بعد ان آیات کا ترجمہ کیا اور پھر ان آیات کریمہ کا سیاق و سباق اور تشریح۔ یوں بات سے بات چل نکلی اور سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ کا زور بیان آہستہ آہستہ اپنے جوبن پر آنے لگا۔ لوگ آپ کی تقریر کے سحر میں جکڑے جانے لگے اور جو لوگ کہتے تھے کہ پروگرام نہیں ہونے دیا جائے گا وہ لوگوں کو بٹھانے اور سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ کی باتیں سننے کے لیے کہنے لگے اب آپ ؒکی طبیعت بھی کھلنے لگی اور آ پ نے وہ سب کچھ کہا جو کہنا چاہتے تھے تقریبا 2 گھنٹے آپ کا بیان جاری رہا اور اب حالت یہ تھی کہ سب لوگ دریوں پر بیٹھ چکے تھے۔ سارا مجمع ہمہ تن گوش آپکی باتیں سن رہا تھا اور کسی کو بھی مخالفت کا یارا نہ تھا۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
پروگرام توقع سے بڑھ کر کامیاب رہا اس کے بعد جناب یعقوب بٹالوی صاحب، سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ کو قریب ہی واقع اپنے گھر لے گئے جہاں دال چاول اور کشمیری چائے سے ضیافت کا انتظام تھا۔ سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ پروگرام کی کامیابی سے بڑے خوش تھے اور آپکی طبیعت بھی اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بحال ہو چکی تھی۔ سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ نے اس موقع پر نجی محفل میں 1939 کی متحدہ پنجاب اسمبلی میں مجلس احرار اسلام کے پارلیمانی لیڈر محترم چوہدری عبد الرحمن راہوں والے (موجودہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر احسن اقبال کے نانا )کے پنجاب اسمبلی کے خطابتی معرکوں کی روداد سنائی اور بتایا کہ کس طرح انھوں نے سرکاری بینچوں پر بیٹھے حضرات کے سامنے اپنی حق گوئی کا علم بلند کیے رکھا۔ درس قرآن کا یہ یادگار پروگرام آج بھی میرے ذہن کے دریچے میں یادوں کے چراغ روشن کر دیتا ہے۔
______________________________________________________
علامہ فیاض عادلؔ فاروقی کے ہاتھ پر برطانیہ میں ایک مسیحی خاتون کاقبولِ اسلام
اتوار ۱۸ جنوری ۲۰۲۰ کو ایک تیس سالہ رومانین عیسائی خاتون علینہ اِیورداشے نے ادارہ ٔدعوتِ اسلامیہ سٹین مور-برطانیہ، کے مہتمم اور ممتاز شاعر و ادیب مولانا محمد فیاض عادلؔ فاروقی کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ اِس سوال کے جواب میں کہ’ اگر حضرت عیسیٰؑ خدا کے بیٹے نہیں تھے تو حضرت عیسیٰؑ نے خدا ئے برحق کو باپ کہہ کر کیوں مخاطب کیا؟‘ مولانا عادلؔ فاروقی نے سائلہ کو فرمایا کہ خدا کو باپ کہنے کا مطلب جسمانی یا حقیقی باپ نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ استعارہ اور تشبیہ کے پیرایہ میں خدا کی عزت اور اس سے قرب کے اظہار کا طریقہ تھا، جونزولِ قرآن سے پہلے یہود و نصاریٰ کی مذہبی کتابوں میں استعمال ہوتا تھا۔ لیکن اس سے لغوی اور حقیقی باپ مراد نہیں ہوتا تھا۔ عیسیٰ ؑ نے کبھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کیا نہ ہی لوگوں کو اﷲ کے علاوہ اپنی یا کسی اور کی عبادت کی تعلیم دی۔ عادلؔ فاروقی صاحب نے چرچ میں پڑھی جانے والی ٹرینیٹیرین بائبل سوسائیٹی کی شائع کردہ مصدقہ بائبل سے اولڈ ٹیسٹامنٹ (پرانا عہد نامہ) اور نیو ٹیسٹامنٹ (نیا عہد نامہ) کے کئی حوالے پیش کیے جن میں خدا کو آدمؑ، اسرائیلؑ، افراہیمؑ، داؤدؑ بلکہ تمام انسانوں کا باپ بھی کہا گیا ہے۔ اسی طرح نئے عہد نامے میں بھی مثلاً افِسیوں کے نام خط میں باب ۱، مصرعہ ۲ میں سینٹ پال (پَولُس) نے ’ہمارے باپ خدا ‘ استعمال کیا ہے۔ اِس میں خدا کو تمام انسانوں کا باپ کہا گیا ہے۔ جب مسیحی لوگ اپنے پادری اور پوپ کو فادر (باپ) کہتے ہیں تو اس سے بھی جسمانی اور حقیقی باپ مراد نہیں ہوتا بلکہ صرف باپ کی طرح مہربان شخصیت مراد ہوتی ہے۔ چنانچہ بائبل کی رُو سے بھی عیسیٰ علیہ السلام خدا کے حقیقی بیٹے نہیں تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.