تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

نور العیون فی سیرت الامین المامون صلی اﷲ علیہ وسلم (قسط دوم)

علامہ ابن سیّد الناس رحمہ اﷲ تعالیٰ ترجمہ: ڈاکٹر ضیاء الحق قمرؔ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے غزوات کا بیان:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدنی زندگی میں پچیس غزوات ہوئے۔ اور ایک روایت کے مطابق ان کی تعداد ستائیس ہے۔ ان غزوات میں سے سات میں لڑائی ہوئی اور وہ یہ ہیں:
عزوہ بدر، غزوہ اُحد، غزوہ خندق، غزوہ بنی قریظہ، غزوہ بنی مصطلق، غزوہ خیبر، غزوہ حنین اور غزوہ طائف۔ (۱)
اور بعض کے مطابق وادی القریٰ، غابہ اور غزوہ بنی نضیر میں بھی لڑائی ہوئی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے روانہ کردہ لشکروں کا بیان:
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے روانہ کردہ لشکروں کی تعداد پچاس ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حج کا بیان:
حج کے فرض ہونے کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حج ادا فرمایا جبکہ اس سے قبل دو حج ادا فرمائے۔
حجۃ الوداع کی ادائیگی کے لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم دن کے وقت مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ روانگی سے قبل آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سر مبارک میں تیل لگایا، بال بنائے اور خوشبو لگائی۔ ذوالحلیفہ(۲) میں رات گزاری اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آج رات میرے پاس میرے رب کی جانب سے ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز ادا کیجیے اور فرما دیجیے کہ عمرہ حج میں ہے‘‘۔ (۳)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا اور اتوار کی صبح کداء (۴) کی جانب سے ثنیۃ العلیا (۵) کے مقام سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور طوافِ زیارت ادا کیا۔ (دوران طواف) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تین بار رمل کیا اور چار بار بغیر رمل کے چلے۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم صفا کی جانب تشریف لے گئے، سواری پر بیٹھے سعی کی۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جو لوگ اپنے ہمراہ قربانی کے جانور نہیں لائے وہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دیں۔ اور اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مقام حجون (۶) کے بالائی حصہ میں قیام فرمایا۔
جب یوم ترویہ (۷) آیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم منی کی طرف تشریف لے گئے، وہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں اور وہیں رات گزاری اور نماز فجر ادا کی۔ جب سورج طلوع ہوا، تب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم میدان عرفات کی طرف روانہ ہوئے۔ اور نمرہ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے خیمہ نصب کیا گیا (تھا)۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم وہاں آرام فرما ہوئے۔ سورج ڈھلنے کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمیا اور ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ظہر و عصر کی نمازیں ادا کیں۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مشعر حرام (۸) کے پاس وقوف کیا، یہاں تک کہ روشنی ہو گئی۔ پھر وہاں سے طلوع آفتاب سے قبل منیٰ کی طرف روانہ ہوئے، جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں ماریں۔ ایام تشریق میں ہر روز تینوں جمرات کو چلتے ہوئے سات کنکریاں ماریں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد خیف کے ساتھ والے جمرہ سے ابتدا کرتے، پھر درمیان والے کو پھر جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے۔ پہلے اور دوسرے جمرہ کے پاس اپنے رب کے حضور طویل دعا و مناجات فرماتے۔
اور نزول منیٰ کے دن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قربانی کی، اس کے بعد بیت اﷲ شریف تشریف لے گئے اور سات چکر لگائے۔ پھر زمزم پلانے والوں کے پاس تشریف لائے اور پانی پیا، پھر منیٰ کی طرف تشریف لے گئے۔ اس کے بعد تیسرے دن منیٰ سے لوٹے اور وادی محصب (۹) میں قیام فرمایا۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو مقام تنعیم سے عمرہ کرایا، اس کے بعد روانی کا حکم فرمایا اور طواف وداع کے بعد مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ (۱۱)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے، وہ سب کے سب ذی القعدہ میں ہی کیے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم متوسط قامت تھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان کا فاصلہ نسبتاً زیادہ تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا رنگ سرخی مائل سفید تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال کانوں کی لَو تک پہنچتے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سر اور داڑھی میں بیس سے کم بال سفید تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا رنگ کھِلا ہوا تھا، رُخ انور چودہویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حسین الخلقت اور معتدل الاعضاء تھے۔
جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم خاموش بیٹھتے تو باوقار ہوتے اور اگر گفتگو فرماتے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آواز نمایاں ہوتی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سب سے خوبصورت تھے۔ دور سے دیکھنے میں بہت پرنور نظر آتے اور قریب سے بہت ہی حسیں اور پیارے لگتے۔ بہت میٹھی اور دل موہ لینے والی گفتگو فرماتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جبیں مبارک کشادہ تھی اور باریک ابرو تھے جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے نہیں تھے۔ بلند ناک اور نرم رخسار والے، کشادہ دہن اور موتیوں جیسے خوبصورت اور کشادہ دانت تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وصف بیان کرنے والا کہتا ہے کہ میں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جیسا حسین و جمیل نہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کوئی دیکھا اور نہ بعد میں۔ (۱۲)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسمائے گرامی کا بیان:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک اسماء جن کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود ہی بیان فرمایا (وہ) یہ ہیں:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں۔
میں ماحی ہوں یعنی وہ جس کے ذیعے اﷲ نے کفر کو مٹایا۔
اور میں حاشر ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر جمع ہوں گے۔
اور میں عاقب ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (۱۳)
ایک دوسری روایت میں ہے:
میں مقفی ہوں (سب انبیاء کے پیچھے آنے والا اور ان میں سے آخری) اور نبی التوبہ ہوں، میں نبی الرحمۃہوں۔ (۱۴)
اور صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
میں نبی الملحمہ ہوں (یعنی غزوات والا نبی)۔ (۱۵)
اور اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز قرآن مجید میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ان اسماء سے ذکر فرمایا ہے:
بشیر، نذیر، سراج منیر، رؤف رحیم، رحمۃ للعالمین، محمد، احمد، طہٰ، یٰسین، مزمل، مدثر۔
عبد، جیسا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے قول:
سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرَی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا۔ میں ہے۔(۱۶)
اور عبداﷲ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کے قول:
وَ اَنَّہُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوْہٗ ۔میں ہے۔ (۱۷)
اور نذیر مین جو کہ اﷲ تعالیٰ کے فرمان:
وَ قُلْ اِنِّیْ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ میں ہے۔ (۱۸)
اور مذکّـِر جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌ ۔(۱۹)
اور ان کے علاوہ بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسماء گرامی ذکر کیے گئے ہیں، ان ناموں میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اکثر صفاتی نام ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ کا بیان:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ: ’’ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ ‘‘ (۲۰)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم قرآن مجید کے حکم کے مطابق ہی کسی سے ناراض ہوتے اور اس کے حکم کے مطابق ہی کسی سے راضی ہوتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا اور نہ ہی کبھی اپنی ذات کی وجہ سے کسی سے ناراض ہوتے۔ اگر کسی کام سے اﷲ کی حدود کی خلاف ورزی ہوتی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سلم غضبناک ہو جاتے اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کی ذات کے لیے غضبناک ہوتے تو کوئی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی کسی کے سوال کے جواب میں لا،یعنی ’’نہیں‘‘، نہیں فرمایا۔ (۲۱)
کبھی کوئی ایسی رات نہیں گزری کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں درہم و دینا (تقسیم میں) بچ گیا ہو۔ اگر کبھی ایسا ہوتا کہ کسی سائل کے نہ آنے کی وجہ سے کوئی درہم و دینار بچ رہتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس وقت تک رات کو گھر میں تشریف نہ لے جاتے جب تک وہ کسی محتاج کو دے کر ان سے سبکدوش نہ ہو جاتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے دیے ہوئے مال میں سے اپنے اہل خانہ کے لیے سال بھر کا صرف اتنا نفقہ لیتے جو قوت لا یموت (اتنی غذا کہ جس میں بمشکل گزارا ہو سکے) ہوتا، اور یہ نفقہ بھی اس مال سے لیتے جو سب سے ارزاں ہوتا جیسے کھجور اور جَو۔ پھر اس میں سے بھی محتاجوں کو ترجیح دیتے، بسا اوقات ایسا ہوتا کہ سال گزرنے سے پہلے ہی وہ نفقہ ختم ہو جاتا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے سچے، سب سے زیادہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے والے، نہایت نرم مزاج اور معاشرہ میں سب سے زیادہ معزز تھے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سب سے زیادہ حلیم اور سب سے بڑھ کر حیا کرنے والے تھے بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تو گوشہ نشین کنواری لڑکی سے بھی بڑھ کر حیا دار تھے۔ (۲۲)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی نظروں کو جھکانے والے تھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نظر آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ ہوتی۔ جب کسی چیز کی طرف دیکھتے تو نیچی نظر سے دیکھتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ متواضع تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہر امیر یا غریب، آزاد یا غلام کی دعوت قبول فرماتے۔ (۲۳)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سب سے زیادہ رحم دل تھے، اگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے کوئی بلی بھی آ جاتی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس پر شفقت فرماتے ہوئے برتن نیچے کر دیتے۔ اور جب تک وہ اپنی پیاس نہ بجھا لیتی برتن نہ اٹھاتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ پاک دامن تھے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی بہت تکریم فرماتے۔ محفل میں پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے، اگر جگہ کم ہوتی تو ان کے لیے وسعت پیدا کر لیتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھٹنے، ساتھ بیٹھنے والے کے گھٹنوں سے آگے نہیں ہوتے تھے۔
جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دور سے دیکھتا، مرعوب ہو جاتا اور جو مل لیتا وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا گرویدہ ہو جاتا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے رفقاء آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایسے تابعدار تھے کہ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کو خاموش ہونے کا فرماتے تو سب فوراً چپ ہو جاتے۔ اور اگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی کام کے کرنے کا حکم فرماتے تو وہ اسے اسی وقت سرانجام دیتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اﷲ عنہم سے ملاقات کے وقت زیب و زینت کا اہتمام فرماتے۔
جو موجود نہ ہوتا اس کے بارے میں دریافت فرماتے۔ کوئی بیمار ہو جاتا تو اس کی عیادت فرماتے۔ جو کوئی سفر پر ہوتا اس کے لیے دعا فرماتے۔ جو فوت ہو جاتا اس کی تعزیت کرتے اور اس کے لیے دعاءِ مغفرت فرماتے۔
اور اگر کسی شخص کے بارے میں یہ محسوس ہوتا کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے ناراض ہیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کی غلط فہمی کو دور کرنے اس کے ہاں تشریف لے جاتے۔
اپنے اصحاب رضی اﷲ عنہم کے باغات میں تشریف لے جاتے اور ان کی ضیافتوں کو رونق بخشتے۔
اہل شرف کی دلجوئی فرماتے، اہل فضل کی تکریم فرماتے۔
کسی شخص کو ناپسند نہ فرماتے نہ کسی سے بے رخی فرماتے۔ اور نہ ہی (کسی پر) ظلم کرتے۔ جو شخص معذرت خواہ ہوتا اس کی معذرت قبول فرما لیتے۔
طاقت ور اور کمزور، حق پر ہونے کے اعتبار سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک برابر ہوتے۔
حواشی
(۱)یہاں فاضل مصنف نے جن غزوات میں لڑائی ہوئی ان کی تعداد سات لکھی اور آٹھ نام گنوائے، جب کہ ان کی اصل کتاب عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسِیَر میں ان غزوات کی تعداد نو لکھی ہے اور نو ہی نام گنوائے ہیں۔ غزوات کے ضمن میں عیون الاثر کی عبارت ذیل ہے:
جن غزوات میں لڑائی ہوئی تھی ان کی تعداد نو ہے:
غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ المریسیع (المصطلق)، غزوہ خندق، غزوہ بنی قریظہ، غزوہ خیبر، فتح مکہ، غزوہ حنین، غزوہ طائف۔ عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر: 353/1
(۲)ذوالحلیفہ: اسے بئر علی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اہل مدینہ کا میقات ہے، جو شہر سے نو کلو میٹر کے فاصلے پر مکہ مکرمہ کے جنوبی راستہ پر واقع ہے۔ (۳) صحیح بخاری، حدیث نمبر 1534(۴) کداء: بالائی مکہ کا ایک مقام ۔(۵) ثنیۃ العلیا: مکہ کے بالائی حصہ میں واقع شہر میں داخل ہونے کا راستہ، آج کل اس کا نام ’’المعلاۃ‘‘ ہے۔ یہیں پر مکہ مکرمہ کا مشہور قبرستان جنت المعلیٰ ہے۔ (۶) حجون: بیت اﷲ شریف سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ایک مقام، ساتھ ہی اس نام کا پہاڑ بھی ہے۔ (۷) یوم ترویہ: آٹھویں ذی الحجہ (۸) مشعر حرام: مزدلفہ کا ایک نام (۹) وادی محصب: منیٰ کے قریب ایک مقام ۔(۱۰) تنعیم: مکہ مکرمہ اور مقام سرف کے درمیان ایک جگہ ۔(۱۱) صحیح مسلم، حدیث نمبر 1218(۱۲) سنن ترمذی، حدیث نمبر 3638(۱۳) صحیح بخاری، حدیث نمبر 3532، صحیح مسلم، حدیث نمبر 2354(۱۴) صحیح مسلم، حدیث نمبر 2355(۱۵) یہ روایت صحیح مسلم میں موجود نہیں، البتہ المنہاج بشرح صحیح مسلم بن الحجاج، الامام النووی، ص 1722پر وفی حدیث آخر: ’’نبی الملاحم‘‘ کے الفاظ سے مذکور ہے۔ (۱۶) الاسراء: ۱۔(۱۷) الجن: 19(۱۸) الحجر: 89(۱۹) الغاشیہ: 21(۲۰) مسند الامام احمد بن حنبل: 91/6،الادب المفرد، الام البخاری، حدیث نمبر 308(۲۱) صحیح مسلم، حدیث نمبر 2311(۲۲) صحیح بخاری، حدیث نمبر 3562، صحیح مسلم، حدیث نمبر 2320، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4180۔(۲۳) سنن ترمذی، حدیث نمبر 1017، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4178۔ (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.