تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میرا افسانہ

مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ

قسط: ۱۳
ہماری کمزوریاں :
میرے اس غریب خانے میں بکثرت موش خانے تھے۔ اس مختصر گھر میں ہمیشہ چوہے قلابازیاں کھاتے۔ کبھی ایسی بے تکلفی برتتے کہ چھاتی پر چڑھ آتے۔ کچھ ایسے نڈر کہ کمبل اٹھا کر گود میں اچھلتے۔ آخر جانتے تھے کہ قیدی ہے کیا کرلے گا۔ ان کی شوخی ایسی بڑھی کہ بوٹیاں نوچنے کی نویت آئی۔ ایک رات میں ہاتھ سرہانے دئیے لیٹا ہی تھا کہ انگلی کاٹ کھائی۔ سانپ سنپو لیے کے شبہ میں دھڑدھڑا کر اٹھا۔ ہاتھ میں جوتا لیا اور بستر کمبل الٹاسیدھا کیا۔ دل میں بڑا تردو کہ بس بری بلا ہے۔ مگر فکرو ترود کے اس پہاڑ کو کھودا تو چوہیا نکلی۔ ہرصبح اٹھ کران کی سوراخ بندی میرا فرض ہوگیا۔ چوہوں سے جان میں جان آئی۔ تو گلہری نے ستانا شروع کیا۔ مجھے دوپہر کے قیلولہ کی عادت تھی۔ شاید آنکھ پر گلہری آنکھ لگائے رہتی کہ پلک لگتے ہی میرے چرخہ کی مابل گلوٹے کاٹ کر تونبہ تونبہ کردیتی۔ محنت رائیگاں دیکھ کر میرے دل کے ٹکڑے ہوجاتے تھے۔ گلوٹے تو میں سینے سے لگا کر سو جاتا۔ مگر چرخہ کو کہاں چھپاتا۔ یہ چھیڑ چھاڑ کئی دن جاری رہی۔ میں عدم تشدد کا حامی ہونے کی وجہ سے ہاتھ نہ اٹھاتا۔ مگر گلہری نے میرا ناک میں دم کردیا ۔ تنگ آمد بجنگ آمدایک دن جھوٹ موٹھ ہاتھ میں جوتالے کر سوگیا۔ گلہری دبے پاؤں آئی اور کارستانی شروع کردی۔ میں نے آنکھ بچا کر جوتا اچھالا پہلے تو لوٹ پوٹ ہوگئی۔ پھر چڑ چڑاتی بھاگی۔ ایک کھا کر پھر رخ ادھر نہ کیا۔ اس طرح عذاب سرسے ٹلا۔ اگرچہ اس جیل میں مچھرمیرے گناہوں سے بھی زیادہ تھے۔ خوراکی عنایت کہو یا مچھروں کی نظر کرم۔ کہ میرے جسم کو انہوں نے خوان یغما نہیں بنایا۔ بناتے بھی کیا ۔ نہ میری ہڈی نہ بوٹی نہ جسم میں قطرہ خون۔ جب اور موٹے موٹے سیاسی قیدی قید تنہائی میں چند تنگ آجایا کرتے تھے۔ نہ جسم پرنگاہ رکھیں تو مچھر کھائیں۔ کمبل اوڑھیں تو مارے گرمی کے نیند نہ آئے۔ ہر ایک تنہائی میں ڈالے ہوئے قیدی پر ایک دستی پنکھے کی مہربانی سرکار سے ہوتی ہے کہ ہوا کو ٹھڑی میں قسمت سے پہنچی ہے۔ ساری رات ہائے وائے کر کے اور پنکھا کرتے کٹتی ہے۔
برسات: برسات یوں توبرسا برس آتی ہے۔ مگر اس برس برسات کا رنگ اورتھا۔ کو ٹھڑی میں پڑے گرمی نے جلا کرجان کباب کردی تھی۔ ناگاہ گھٹا زلف یارسے زیادہ سیاہ۔ ایک ادا سے ٹھنڈی ہوا کا شانہ پکڑ کر اٹھی اٹھکیلیاں کرتی بڑھی۔مصحف عالم پر چھائی۔ بادل سے ہنسی بارش کے موتی زمین کے دامن پر گرے۔ گرد وغبار سے آلود برگ شجر نہائے نکھرے۔ قیدیوں کی قسمت نے خوشگوار پلٹا کھایا ۔ میٹھا منہ لگے مہینے گزر گئے تھے۔ آم کی بہار تھی، ایک دن میرا جی آموں کو للچا رہا تھا۔ گھٹا اٹھی برسی۔ بادل کھل گیا۔ میری کوٹھڑی کے سامنے نیم کا درخت تھا۔ نمولیاں بارش سے نہاکر پتوں میں چھپی ایسی معلوم ہو رہی تھیں۔ گویا کوئی حسین سیر چلمن کے پیچھے کھڑا جھانک رہا ہے۔ میں بیتابی میں بڑھا۔ منہ لگاتے ہی مزے میں آم کوبھولا۔ جب تک موسم رہا نمولیاں سے منہ ملاحظہ رہا۔ روٹی بھی نمولیاں کے ساتھ کھاتا اور بغیر اس کے کھانے کامزا نہ آتا۔ میری دیکھا دیکھی اوروں کو بھی شوق ہوگیا۔ سوائے افسران کی آمد کے وقت کے سارا دن قیدی نمبردار ملازم درخت کے گرد رہتے ہیں۔ نمولیاں گویا جیل کے آم تھے۔ کہ ساری برسات منہ سے نہ چھوٹیں۔
ایک عجیب اتفاق: قیدی پولیس افسرکی درگت جوجیل میں ہوتی ہے۔ اس کو خدا ہی جانتاہے۔ کون قیدی ہے جس کاافسرِ پولیس کی شکل دیکھ کر ہاتھ نہیں کھجلاتا۔ اور بیچارے کی چندی پرچپت نہیں جماتا۔ گالیو ں کا تو ذکر ہی کیا ۔ گال مار مار کے لال کئے جاتے ہیں ۔ دانوں کی بوریاں اٹھوائی جاتی ہے۔ بوجھ برداشت سے زیادہ ہوتا ہے۔ بوری گرجاتی ہے۔ نگران کار قیدی جوتا اتار کردھڑا دھڑ سو گنتا ہے۔ جب ننانوے پر پہنچتا ہے تو جان بوجھ کر گنتی بھول جاتا ہے۔ پھرایک دو سے گنتی شروع کردیتا ہے۔ جو اس طرح انتقام پورا نہیں ہوتا۔ تو منہ میں جوتے دئیے جاتے ہیں ۔جس سب انسپکٹر کا پیٹ بڑھا ہوا۔ اس پرلاتیں مارمار کر کہتے ہیں کہ اس میں ہمارے تمام گاؤں کے مرغے جمع ہیں ۔ کوئی ادھر آتا تھپڑ لگاتا ہے۔ کوئی ادھر جاتا مُکا رسید کرتا ہے۔ مونچھوں کو پکڑکر جیل بھر میں کھینچے پھرتے ہیں ۔ دست بدست دیگرے پا بدست دیگرے۔ جھُلاتے ہیں اور جھولا جُھلا کر پتھر کی طر ح پرے پھینک دیتے ہیں۔
خدا کااحسان ہے۔ کہ میں جیل میں دوسرے رنگ میں موجود تھا۔ ورنہ کیا جانے کیا بیتی۔ ایک روز انبالہ جیل میں، میں بھی غلطی کاشکار ہونے لگا تھا۔ فیروز پور جیل سے ایک ٹولی قیدیوں کی آئی۔ ان کے کان میں کہیں بھنک پڑی کہ ایک تھا نیدار یہاں قید ہے۔ ا ن کی صلاح ہوئی کہ چلو چل کر دستور پورا کریں۔ کسی پرانے قیدی کو خبر لگی تو اس نے روکا کہ وہ اب سرکاری تھانیدار نہیں رہا،اب ہمارا تھانیدار ہے۔ یہ خبر پاکر سب میرے پاس آئے اور پاؤں چھوئے کہ اگر معاملہ کاپتہ نہ لگ جاتا تو آج بے ادبی ہو جاتی۔
اس کے چند روز بعد لاہورسے نئے نمبرداروں کا چالان آیا۔ ایک دن میں کوٹھڑی میں بند تھا۔ باہر تالا لگا ہوا تھا۔ ایک کالی والا آیا۔ پوچھا کہ آپ نے مل سنگھ وغیرہ کا ڈاکہ میں چالان بھی کیاتھا؟۔ میں چونکا کہ الٰہی خیر!اس ذکر کے کیا معنی؟ اور پوچھے بغیرمیں نے اپنی صفائی پیش کرنی شروع کردی۔ اس پر اس نے کہا کہ مل سنگھ نمبردار ہو کر آیا ہے ۔ آپ کو کل ملنے آئے گا۔ تمام دن بے چینی میں گزرااور رات بھر نیند نہ آئی۔ میری تشویش بے جانہ تھی۔ اس شخص کو میں نے معہ اس کے چھ رفقا کے ڈکیتی میں چالان کیا تھا۔ اور سوائے سرگردہ کے جس کو ۳۳ سال سزا ہوئی۔ سب پانچ پانچ سا ل سزا میں قید ہوئے۔ میں سمجھا کہ میر ی شامت اس کو یہا ں نمبرد ار بنا لائی ہے۔ بے تعلق سب انسپکٹرقیدی کاوہ حال ہوتا ہے جو میں نے بیان کیا۔ اس سب انسپکٹر کی بد قسمتی کا کیا ذکر جس کے سر پروہ نمبردار ہو کر آئے جسے اس نے سزا دلائی ہو۔میرا لہواس کی آمد سے اس طرح خشک ہورہا تھا۔ جس طرح قصاب کے خیال سے بکرے کا۔دودن کے دھڑ کے نے جان کھالی ۔یک بیک مل سنگھ سامنے آتا دکھائی دیا۔ حلق خشک اور لب پر پپڑی جم گئی۔ جسم کو کاٹو تو قطرہ خون نہ تھا۔وہ میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ میں اس کو دیکھ کر خاموش۔ وہ مجھ کو دیکھ کرچپ۔ میں اس کے ہاتھوں کودیکھتا تھا کہ کب اٹھتا ہے۔ لیکن اس کبریا کی شان دیکھیے جس سے بدی کا اجتمال قوی تھا۔ اس نے اپنا سر میرے پاؤں پررکھ دیا۔ آنکھو ں میں آنسو بھرلا یا۔ آپ کا کیا سے کیا حال ہوگیا۔
میرے ساتھ اتنی عقیدت ہوگئی کہ اپنی رائے کے مطابق وہ جیل میں جو امکانی خدمت کرسکتا تھاکرتا ۔ ابتدا میں دودھ چراچرا کر میرے لئے لاتا۔ اور اصرار کرتا کہ ضرور پی لیں۔ پیاز جو جیل خانہ میں بہترین نعمت تصور کیا جاتا ہے۔ آنکھ بچاکر لنگر خانہ سے اٹھا لاتا کہ روٹی کے ساتھ کھائیں ۔جیل کی روشوں سے پھول توڑ توڑ کر لایا کرتا۔ اسے خیال نہ تھا کہ چوری جرم ہے۔ اس لئے اول میرا انکار اس کی دل شکنی کا باعث ہوا۔ مگر جب میں نے اس کے جر م اور ذمہ داری کی وضاحت کی ۔ تو اس کی عقیدت بیش از پیش ہوگئی۔
داس کی موت اور بھگت سنگھ کی پھانسی:
محکموں میں پولیس اور جیل پر میں نے بے رحمانہ مگر مبنی برانصاف نکتہ چینی شروع کی ۔ ابتدا میں عملًاحکومت نے تندی سے کونسل میں مقابلہ کیا بعد میں ہتھیار ڈال دیے۔ غیر سرکاری ممبران کونسل کی جیل کمیٹی کا تقرر منظور کر کے قیدیوں کی اصلاح کی عمدہ ابتدا کردی۔ میں نے جیل کمیٹی میں منتخب ہو کر پورے سات برس جیل کو گھر بنائے رکھا۔ اور قید خانے کے حالات کے علاوہ قیدیوں سے بھی واقفیت حاصل کی۔
قید کی حیثیت سے صبح وشام ہندو اور سکھ اہل وطن کے ہاتھوں روٹی کی تقسیم پر جو ذلت ہوتی تھی۔ اس سے مسلمان محبان وطن بجا طور پر برا فردختہ تھے۔ ہندو اور سکھ لانگری’’کتے‘‘ کی طرح دور سے روٹی پھینکتے تھے۔ مسلمان انکے قریب آیایاکپڑا چھوانہیں تو قیامت آئی نہیں ۔ دور عدم تعاون سے قبل جیلو ں میں یہ سلوک بھی دو قوموں کی بڑی بڑی لڑائیوں کا باعث تھا۔
ہندو سیاسی طورپر خواہ کتنا اشتراک عمل کامدعی ہو۔ لیکن اقتصادی اور معاشرتی طور پر وہ من حیث القوم تنگ دل اور تنگ نظر ہے ۔میں نے جیل کمیٹی میں ہندو مسلم قیدیو ں کے سر پھٹول کے بو اعث بیان کرتے ہوئے ہندو مسلم لنگر علیحدہ کرنے پر زور دیا۔ تاکہ اس معاملہ میں تصادم کا موقعہ ہی نہ آئے۔ حکومت نے باکراہ اس کو منظور کیا اور پورے چھ برس اسی ایک اصلاح کی تکمیل میں لگے۔
بیلوں کی بجائے قیدیوں سے کنواں خراس چلانے پر مجھے سخت اعتراض تھا۔بمشکل حکومت اس اصول کو مانی۔ جیل خانوں میں لائبریر یاں جاری کرنے، بڑی عمر کے قیدیوں کیلئے سکول کھولنے پر متواتر زور دیا۔ اخلاقی تعلیم اور دوسرے اصلاحات کے متعلق حکومت کو مسلسل توجہ دلائی۔ گڑ اور گندم کی روٹی جیل میں فضول خرچی سمجھی جاتی تھی۔ بڑے قضمے کے ساتھ اس کی منظور ملی۔ اُس زمانے اور اِس وقت کے جیلوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے پرانا سٹاف تمام کاتمام بدل دیاگیا۔ محکمہ عدل وانصاف کے افسرجیلوں کے سپرنٹنڈنٹ لگائے۔ اس انقلاب حال نے پنجاب کے جیلوں کی کایا پلٹ دی۔ سات برس تک میں نے اپنے قلم سے جیل کی اصلاحات کے لیے جیل کے سرکاری رجسٹروں پر اتنی رپور ٹیں لکھی ہیں۔ کہ اس سے ایک دفتر تیار کرسکتا ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ میرے جیل میں داخلہ کو امن عامہ کے خلاف سمجھا گیا۔
اخلاقی قیدیوں کی قسمت میں تو خوشگوار انقلاب آیا۔ لیکن سیاسی قیدیوں کے ساتھ منتقمانہ سلوک جاری رہا۔ ہندوستان عجب ملک ہے۔ یہاں کے غلام اپنے آقاؤں سے زیادہ ہندو ستان کی آزادی کے دشمن ہیں وہ ہر اس ہاتھ کو مفلوج کر کے خوش ہیں ۔ جوان کی زنجیریں کاٹنے کی سعی کرتا ہے۔ جیل کے اکثر ملازمین سیاسی قیدیوں کی دل آزاری میں خوشی حاصل کرتے تھے۔ ہرسیاسی قیدی ذلت تو محسوس کرتا تھا۔ لیکن جیل کی زندگی گاندھی کے نزدیک جبرو صبر کی زندگی تھی۔ اس لئے ہرقیدی راضی برضا رہتا تھا۔
یک بیک عدم تشدد کی پر سکون فضا میں تلاطم پیداہوگیا۔ کچھ نوجوانوں نے اسمبلی ہال میں بم گراکر ملک میں ہنگامہ بیاکردیا۔ یوں تو ہر نوجوان انقلاب پسند ہوتا ہے لیکن غلام ملک میں اس کے محرکات قوی ہوتے ہیں ۔ ملک کی دولت لوٹنے اور اہل ملک کو ذلیل ہوتے دیکھ کر بوڑھے اور بزدل آہیں بھرتے ہیں۔ نوجوان اور جری کچھ کر بیٹھے ہیں۔
سائمن کمیشن میں کسی ہندوستا نی کو شریک نہ کر کے انگریزی حکومت نے ہندوستان کی سیاسی بیچارگی کا اعلان کیا۔ جس کے معنی یہ تھے۔ کہ انگلستان ہندوستان کی ۲۴ کروڑ بھیڑ بکریوں پر اپنی مرضی کے مطابق حکمرانی کریگا۔ انہیں کمیشن سے باہر رہ کربے معنی فریاد کاحق ہے۔ لیکن آئین کی تشکیل میں ہندوستا ن کو دخل نہ ہوگا۔
ہندوؤں اور مسلمانوں نے سائمن کمیشن کے خلاف مظاہرے کیے۔ ا ن مظاہروں کے درمیان لالہ لاجپت رائے ایک انگریز افسرکی لاٹھی کی ضرب سے چند دن کے بعد مرگئے۔ پنجاب میں خاصا شورہوا۔ بے ہتھیار ہندوستان نے زبان ہلا کر صبر کیا۔ لیکن ایک سال بعد سانڈرس کو دن دہاڑے نوجوانوں نے پستول سے چلا کر ہلاک کردیا ۔ سی آئی۔ ڈی بارود سو نگھتی پیچھے دوڑی۔مگر وہ مفرور ہوگئے۔
یہ ہندوستان ہے۔ ہندوستان میں پھر پنجاب، یہاں لوگ سازش کوپایۂ تکمیل تک پہنچانے کی قابلیت نہیں رکھتے۔ سازش کیلئے راز داری کی ضرورت ہے۔ باتونی لوگ بک بک نہ کریں توکھانا ہضم نہیں ہوتا۔ بات کو ہضم کرنا بہت کم لوگوں کونصیب ہوتا ہے۔ ہندوستان عام طورپر گفتار کاغازی ہے۔ پنجابی بے شک کردار کا غازی ہونے کا مدعی ہے۔ لیکن لٹھ پہلے مارتا ہے۔ سوچتا بعد میں ہے۔ جب نتیجہ کو سوچتا ہے۔ تو جلدی گھبرا جاتا ہے۔ سیاسی سازشوں میں وہ شریک ہوجو خوب سوچے اور خطرناک نتائج کی ذمہ داری کو قبول کرے۔
ہندو نوجوانوں نے سازش کی سانڈرس کو حوصلے سے قتل کیا۔ لیکن سال بعد راز طشت ازبام ہوا۔ کچھ سرکاری گواہ بن گئے۔باقی دھر لئے گئے۔ اسمبلی میں بم کے دھماکے سے جوشور اٹھا۔ مدت تک اس کی صدائے بازگشت شہرکے گلی کوچوں سے آتی رہی۔ بھگت سنگھ اور دت کا نام اتنا اچھلا کہ گاندھی جی کا ستارہ غروب ہوتا نظر آیا۔ فضاؤں میں تشدد کی برچھیاں تیرتی دکھائی دیں۔ عدم تشدد کا فلسفہ مضحکہ خیز سا معلوم ہونے لگا۔
بھگت سنگھ اور دت توپہلے ماخوذ تھے۔ اب سانڈرس کیس کے جملہ میں ملز مین بجولاں ہو کر لاہور جیل میں جمع ہوگئے۔ سب ملزم تعلیم یافتہ نو جوان تھے۔ زندگی کی بازی تو ہار چکے تھے۔ جیل کے سلوک نے انہیں اور برافروختہ کردیا۔ زندگی سے مایوس شخص برفروختہ ہوکر کیا کچھ نہیں کربیٹھتا۔ انہو ں نے سمجھا جب مرنا ہے تو پھرموت سے کیاڈرنا۔ جیل میں بہترسلوک کے مطالبہ کی بنا پربھوک ہڑتال کااعلان کردیا۔ حکومت معاملہ کی پیچیدگی کو سمجھتی تھی۔ کہ قتل کے ملزم آماد ۂ قضا ہیں۔ بات آسانی سے نہ ٹلے گی۔ گورنمنٹ کامیرے نام اچانک تارآیا۔ کہ جیل میں تحقیقاتی کمیٹی کی ممبر ی قبول کر کے اطلاع دو۔ میں نے منظوری سے پہلے دوستوں کامشورہ ضروری سمجھا۔ دو سرے دن پھر دو سرا تار آیا۔ دوستو ں نے حکومت کی اس دعوت کو قبول کرلینے کامشورہ دیا۔
چونکہ میرے جیل کا معائنہ کرنے پرپہلے ہی کوئی پابندی نہ تھی۔ اس لئے جیل تحقیقاتی کمیٹی میں شمولیت سے قبل میں نے سمجھا کہ ماخوذ نوجوانوں کے نقطہ نظرکو معلوم کرلوں ۔ اگرچہ بھگت سنگھ کومیں نہ جانتا تھا۔ لیکن اس نے مجھے جاتے ہی پہچان لیا۔ وہ اس وقت خود اپنے مطالبات ضبط تحریرمیں لانے میں منہمک تھا۔ میں نے چاہاکہ علیحدگی میں اس کا زاویۂ نگاہ معلوم کروں لیکن سپرنٹنڈنٹ جیل میں جو میرے ہمراہ تھا، مزاحم ہوا۔ میں نے صرف علیحدہ ملنے پراصرار کیا۔ میرے اصرارکے باوجود سپرنٹنڈنٹ نے انکار کیا۔ میں نے دفتر میں آکر ہوم سیکرٹری کوٹیلیفون کے ذریعہ کیفیت بیان کی۔ اس نے سپرنٹنڈنٹ کو میرے علیحدہ ملنے کی ہدایت کردی اور یہ بھی کہہ دیا کہ میں ہر سیاسی اسیر سے علیحدہ مل سکتا ہوں ۔
بھگت سنگھ نے کہا ہم یہ سیاسی قیدی ہیں۔ متمدن دنیا میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ چور اور ڈاکو کاسلوک نہیں کیا جاتا۔ لیکن یورپین چور اور بدمعاش بھی مزے اڑاتا ہے ۔ اورمحب وطن جیل کے دن بری حالت میں پورے کرتے ہیں۔ اس کا دوسراساتھی دت کم گو مگر پختہ خیال نوجوان تھا۔ وہ کئی روز سے بھوکا تھا۔ میز پرکئی پھل دھرے تھے۔ تاکہ سوندھی خوشبو سے منہ میں پانی بھرآئے۔ ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک ہوشیار شخص نے ایک خدا کے نیک بندے کوا یک سفر میں حیلے اور بہانے سے بھوکا رکھ کردل پسندکھچڑی تیار کی۔ جس کی بوباس سے بے قابو ہو کر نیک بندے نے اپنی نیکی کھچڑی کے عوض بیچ دی۔ شاید افسرا ن کا خیال ہو کہ ان نوجوانوں کادل بھی عمدہ پھلوں کے خوشنما چھلکوں پرپھسل جائے گا اور اپنے ارادو ں کو ارزاں فروخت کر کے معاملہ ختم کردیں گے۔ سنٹرل جیل سے رخصت ہو کر بورسٹل جیل پہنچا وہاں سانڈرس کیس کا سب سے کم عمر ملزم مسٹرداس بھوک ہڑتال سے کمزور معلوم ہوتا تھا۔ میں نے ہرچندچاہا کہ کم ازکم یہ اس امتحان میں شامل نہ ہو۔اس نے کہا یہ عزم موت تک نبھاؤں گا۔ اس کی بھوک ہڑتا ل نے غیر معمولی طول کھینچا۔ جب جیل کی مقر ر شدہ کمیٹی معزز گواہوں کے بیانات لے رہی تھی۔ اس وقت سرکاری طور پر خبر پہنچی کہ بھول ہڑتالیوں کی حالت نازک ہوگئی ہے۔ میں نے تجویز پیش کرنی چائیے۔ انگریز ممبران آمادہ نہ تھے۔ ہندوستانی البتہ متفق تھے۔ گورنر نے ہندوستانی ممبران سے اتفاق کیا جب ہم لاہور پہنچے تو معلوم ہواکہ بعض ہڑتالیوں کی حالت دگر گوں ہوچکی ہے۔
انسان کی نیکی اس کی خود غرضی پر مبنی ہے۔ اکثروہ دوسروں سے حسن سلوک اس لئے کرتا ہے تاکہ اس سے بد سلوکی نہ ہو۔ وہ جودوسروں کی مصیبت زدہ کواپنے اوپر قیاس کرتا ہے نیکی کی طرف مائل ہوجاتاہے۔ اسی لئے آسمانی صحفوں میں دوزخ اور جنت کا تکرار ہے تاکہ انسان میں بہتر رحجانات پیدا ہوں۔جیل کمیٹی کے ممبران میں لالہ دوٹی چند انبالوی اور سردار بہادر مہتاب سنگھ تو ایسے تھے۔ جومیری طرح سابقہ سزا یافتہ تھے۔ ہمارا قدرتی میلان ہڑتالیو ں کے حق میں تھا۔ دوسرے ممبروقتی حالات کے ماتحت اسیران بلا سے ہمدردی پرمجبور تھے۔
ہڑتالی اسیروں نے ہماری اس استدعا پر کہ کھانا کھالیاجائے۔ باہم مشورہ کے بعد جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ انسپکٹر جنرل جیل کمیٹی کاصدر تھا۔ پہلے وہ نہ مانا۔ پھرہمارے متفقہ اصرار پر دت اور بھگت سنگھ کوسنٹر ل جیل سے بورسٹل منتقل کیاگیا۔سب کو سٹریچرپرڈال کر بور سٹل جیل کے ہسپتال پہنچایا گیا۔ جیل کی تحقیقاتی کمیٹی نے شملہ جانے سے پہلے جیل کی مجوزہ اصلاح کا عام خاکہ تیار کرلیا تھا۔ جب اسے سیاسی اسیروں کو دکھایاگیا۔ تو ان میں سے بھگت سنگھ نے اس کی خامیوں کو بھانپ لیا اور ہم پر صاف طور سے واضح کردیا کہ یہ خاکہ موجودہ صورت میں قطعی ناتسلی بخش ہے۔
میں اس اعلان پر خوش تھا لیکن تردد اس امر کے لیے تھا کہ وہ مزید بھوک ہڑتال سے جانبر نہ ہوسکتے تھے۔ انہیں زندگی اور موت کے متعلق جلدی فیصلہ کرنا تھا ۔احتمال تھا کہ ا ن کا حوصلہ جواب نہ دے جائے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی ممبروں کی خواہ کمزوری کے باعث ہی کیو ں نہ ہو۔ یہی رائے تھی کہ جان بچالینی چاہیے۔ خواہ اس مشورہ کو ہماری بزدلی پر محمول کیا جائے۔ ہم نے انہیں بھوک ہڑتال ترک کرنے کا مشورہ دیا۔ انگریز انسپکٹر جنرل دوسرے اسباب کی بنا پرہڑتال ترک کرانے کے لیے بے تاب تھا۔ تاکہ جرم ثابت ہوکر موت کی سزا پائیں۔
کیونکہ میں پورے سات برس جیل کی اصلاح سے متعلق رہا تھا۔ اور پنچاب کونسل میں سیاسی اسیروں کا ان تھک حامی تھا۔ اسیروں نے تخلیہ میں میرا مشورہ پوچھا۔ میں نے ان کے اعتماد کا شکریہ ادا کیا۔ لیکن مشورہ بھوک ہڑتال کے ترک کا دیا ۔ انہوں نے کہا کہ جب مرنا ہے۔ تو مرنے سے کیا ڈرنا۔ میں نے کہاکہ ہرچند انگریزی سرکار بر سرپیکار ہے۔ تا ہم داناؤں نے کہا کہ : مترس ازبلائے کہ شب درمیان است (اس بلا سے نہ ڈرو جس کے آنے میں ابھی ایک رات باقی ہے)پھرباہم مشورہ کے لیے انہوں نے چاہا۔ کمیٹی کے ممبر اور ملازمان جیل سب دور ہٹ گئے۔
نوجوان داس آنکھیں بندکئے سٹر یچر پر پڑا تھا۔ اگر چہ زندگی کے دن گن رہا تھا۔ تا ہم اجتماع کے مقصد سے بے خبر نہ تھا۔ جب وہ آنکھیں کھولتا تھا۔ ہاتھ سے ساتھیوں کونفی کا اشارہ کرتا تھا۔ کہ بات نہ مانو۔ موت قبول کر لو۔ مجھے محسوس ہو تا تھا کہ داس امید کی سرحد سے پار ہوچکا ہے۔ میں نے ڈاکٹر سے پوچھا۔ کہ آیا یہ جانبر ہوسکتا ہے۔ اس نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا کہ ممکن ہے مگر یقینی نہیں۔ وہ جبری خوراک کے وقت بھی سخت مزاحمت کرتا رہا ہے۔ وہ پہلے ہی کمزور تھا۔ اب تو فاقہ نے موت کے منہ میں لاڈالا ہے۔ پہلی ملاقات جوآج سے ڈیڑھ ماہ قبل ہوئی تھی۔ اس وقت بھی میں نے اسے مہیا بقضا پایاتھا۔ اس وقت میرادل تڑپتا تھا۔ کہ وہ کسی طرح بچ جائے۔
تین گھنٹے کی طویل گفتگو کے بعد بھگت سنگھ کا سٹریچر داس کے سٹریچر کے قریب لایا گیا۔ چونکہ بھگت سنگھ خود بھی نحیف اورکمزور تھا۔ اس نے اپنا منہ داس کے کا ن کے قریب لے جاکر کچھ کہا۔ لیکن داس نے تیوری چڑھا کر ہاتھ نفی میں ہلادیا۔
ہم سمجھ گئے کہ سب ترک فاقہ پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ لیکن داس اسی منزل پر بڑھے جانے کاارادہ رکھتاہے ۔اب ہم قریب آگئے۔ داس کوخود سمجھا نے لگے۔ جب میں اس پرجھکا۔ تو دیرینہ آشنا کو دیکھ کر ہلکا ساتبسم اس کے لبو ں پر کھیلنے لگا۔ زبان سے بولنے کی طاقت نہ رکھتا تھا۔ تا ہم انکار کے معروف اشارے سے مجھے ناامیدکردیا۔
ہم پھر کمرے کے باہر آگئے۔ تا کہ اس کے ساتھی ترک فاقہ پر اسے امادہ کرسکیں ایک گھنٹہ کے انتظار کے بعد اس کے ساتھیو ں کے مایوس چہرے داس کے جواب کے آئینہ دار تھے۔ ہم میں بعض اس امر پر اصرار کرتے تھے کہ داس جیل سے رہا کردیا جائے۔ میں نے کہا کہ کل تک تک تو وہ زندگی کی قید ہی سے رہاہو جائے گا میں تو اس کی زندگی سے مایوس ہو ں۔ تا ہم جو ہوتا ہے ۔ آج ہی ہوجائے۔ ورنہ التجا کر کے بات بھی کیو ں کھوئیں۔ بہرحال بات کہہ کرگنوائی۔ رہائی کی درخواست کی ۔ جوانسپکٹر جنرل نے حکومت کو شملہ بھیجی اور مستردہوئی ۔ایک گونہ مجھے اطمینان ہوا۔ اگر داس نے مرناہی ہے۔ تو پھر حکومت کے سر ہی چڑھ کرمرے۔ چنانچہ ایساہی ہوا وہ دوسرے روز مر کر زندہ ہو گیا۔ عاشق کے جنازے کی طرح اس کی ارتھی بڑی دھوم سے اٹھی۔ لاہور سے کلکتہ تک ماتم کی لہردوڑگئی۔ ایسا معلوم ہوتاتھا۔ کہ اب حکومت کی خیریت نہیں۔ لیکن یہ غلام ملک ہے یہاں کڑھی کی طرح ابال اٹھتا ہے۔ اورپیشاب کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ چند دن کے بعد کسی میں احساس تک نہ تھا۔ کہ کون مرا اور کس طرح مرا۔ کچھ عرصہ کے بعد بھگت اوراس کے رفقاء کو موت کی سزا ہوئی۔ انگریزی قوم کی پیش بندیاں مشہور ہیں۔ پھانسی کے متوقع ایام میں پہرے چوکی بڑھادئے گئے۔ پھر فضاؤں میں تشدد کے بادل منڈلانے لگے۔ مال روڈ پرانگریزی عورتوں کی آمد ورفت کم ہوگئی۔ عد م تشدد کے اوتار مہاتما گاندھی نے پبلک مطالبے سے متاثر ہو کر پھانسی کے رسے سے جھوم کر جانے والوں کے بچانے کی سعی کی۔ انگریزی حکومت کی نظر میں بھلا غلام قوم کے محترم نمائندے کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے۔ مہاتما کی استد عاؤں کے باوجود تختہ دار پرلٹکائے گئے اور جنگل میں جلا کر دریا میں بہائے گئے۔ ہرخیال کے آدمی کو یقین ساتھا۔ کہ بھگت سنگھ کے ہمدرد اور ساتھی قیامت برپا ہرکردیں گے مگر کسی نکسیر نہ پھوٹی۔ معلوم ہوا کہ سازش کاطول عرض یہی چند ساتھی تھے جو پکڑے گئے۔ چند روز کے بعد لوگوں کی طبیعتیں اعتدال پر آگئیں۔ غلام ہندوستانی جوں کے توں اپنے اپنے مشاغل میں مصروف ہوگئے۔
(جاری ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.