تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

(فرحت الصائمین (روزہ کے مسائل

تالیف: مولانا سید اصغر حسین دیوبندی نوّر اﷲ مرقدہٗ
قولِ جمیل
(۲۵؍ نومبر ۱۹۶۱ء میں حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب حنفی نور اﷲ مرقدہ کے مرتبہ مکتوب شیخ الہند رحمۃ اﷲ علیہ، اس عاجز کو شائع کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حسنِ اتفاق ملاحظہ کیجیے کہ ٹھیک گیارہ برس گیارہ ماہ بعد پھر یہی سعادت میرے حصہ میں آئی کہ حسبِ سابق میں کتابوں کی گرد چھاڑ رہا تھا کہ کچھ رسائل سنوار کے رکھنے لگا تو اچانک حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب حنفی رحمۃ اﷲ علیہ کا رسالہ ’’فرحت الصائمین‘‘ باصرہ نواز ہوا۔ دیکھتے ہی پھڑک اٹھا کہ آج شام ہی رمضان المبارک کی شب اوّل کا مطلع آغاز ہے اور آج ہی اﷲ نے اس مبارک و مسعود کام کی طرف مطلع فرمایا ہے۔ فوراً ہی میرے منہ سے نکلا کہ اس رسالہ کو موقع کی مناسبت سے اشاعت پذیر ہونا چاہیے۔ احباب سے مشورہ کیا تو اس عملِ خیر پر سب متفق اللسان پائے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس کی اشاعت کے لیے زرِ مصارف کہاں سے حاصل ہو، تو جس اﷲ مسبب الاسباب نے اس نیک کام تک خود ہی پہنچایا تھا۔ اسی بے نیاز نے اس کے ابتدائی مراحل کے لیے شاہد انصاری کے دل میں بات ڈالی اور انھوں نے بطور قرض کچھ رقم دی اور یہ کام آغاز پذیر ہوا۔ مؤلف کتاب حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب حنفی نوّر اﷲ مرقدہٗ، مدرسہ عالیہ دارالعلوم دیوبند کے جلیل القدر فرزند اور مایہ ناز مدرس تھے۔ حضرت نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور جس موضوع پر بھی خامہ فرسائی کی، اس کا حق ادا کر دیا۔ زیر نظر رسالہ بھی ان کے اعجاز و ایجاز قلم کا کرشمہ ہے کہ چند اوراق میں روزہ کے احکام و مسائل سمو دیے ہیں۔ اس دور میں جب کہ مسلمان گمراہی کے عمیق غاروں کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے، اکابر کی خیر و برکت بداماں تحریروں کا مطالعہ ہی انھیں راہِ راست پر واپس لا سکتا ہے۔ بڑی بڑی کتابیں کون پڑھتا ہے، ایسے رسائل ہی ہیں جو فکر و عمل کی یکجائی کا سبب بن سکتے ہیں۔
ان شاء اﷲ یہ رسالہ ’’جو بقامت کہتر و بقیمت بہتر ‘‘ ہے، اصلاح کا حق ادا کر دے گا۔ احباب سے التماس ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت میں ہاتھ بٹائیں اور ناشر و ناصر کو رمضان پاک کی سعید ساعتوں میں دعاءِ خیر سے نوازیں۔ واﷲ الموافق وہو المستعان۔
خاکِ پائے علمائے احناف
(حضرت مولانا) سید عطاء المحسن بخاری(رحمہ اﷲ)۔مہتم مدرسہ معمورہ ، سنہ ۱۹۶۲ء)
قال اﷲ تبارک و تعالیٰ :
یٰا اَیُّہَا الَّذِیْن آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَِّذیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔
حمد ہے اس ذات بے مثال ذوالجلال کو جس نے اپنی حکمت سے رمضان المبارک مقرر فرماکر ناچیز گنہگار بندوں کے لیے رحمت و مغفرت کا سامان فرمایا اور درود و سلام ہو سردار دو عالم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کی اولاد اور دوستوں پر جنھوں نے ہم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے روزہ کا حکم سنایا اور سیدھا راستہ بتایا۔ اس کے بعد عرض ہے کہ رمضان المبارک کے متعلق مسائل میں اگرچہ بعض اردو کے رسالے اس سے پہلے لکھے گئے ہیں، لیکن چونکہ اکثر مسائل کو تفصیل سے علیحدہ علیحدہ نہیں لکھا گیا، اس سے عوام کو دشوار ی ہوتی ہے۔ لہٰذا احقر نے حدیث و فقہ کی نہایت معتبر کتابوں سے مختصر طور پر یہ مسائل جمع کر کے بفضل خدا تعالیٰ ماہِ رجب ۱۳۲۲ھ میں ایسی سادھی سادی عبارت اور عام فہم طور سے لکھ دیے ہیں کہ عام مسلمانوں کو نفع ہو، خدا تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور ہمارے لیے باعثِ نجات بنا دے۔ آمین
رمضان المبارک اور روزہ کے فضائل اور فرضیت کا بیان 
رمضان المبارک میں خدا تعالیٰ کی رحمت اہلِ دنیا کی طرف خاص طور سے نازل ہوتی ہے۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ کیسا برکت کا مہینہ ہے کہ اکثر آسمانی کتابوں کا نزول اسی ماہ میں ہوا ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کے صحیفے اسی مہینہ میں تیسری تاریخ کو عطا ہوئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو زبور اسی مبارک مہینہ کی اٹھارہ تاریخ رمضان کو دی گئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل بھی ۱۳ رمضان کو نازل فرمائی گئی اور اہلِ اسلام کی سب سے بڑی نعمت یعنی کلامِ مجید بھی اسی ماہ مبارک میں لوحِ محفوظ سے آسمان پر نازل کیا گیا۔ اور پھر حسب موقع و ضرورت تیئس برس تک رفتہ رفتہ رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوتا رہا۔ حضرت رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں جبرئیل علیہ السلام سے ایک مرتبہ قرآن مجید کا دور فرمایا کرتے تھے اور سب سے آخری رمضان المبارک میں آپ نے دو مرتبہ دور فرمایا۔ اس ماہ میں اکثر شیاطین قید ہو جاتے ہیں، جس کا ظاہر اثر یہ ہے کہ گناہ اس مہینہ میں بہت ہی کم ہو جاتے ہیں خصوصاً رمضان کے اخیر دنوں میں بہت ہی کم ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسی بات ہے کہ کسی پر پوشیدہ نہیں۔ صدقات و خیرات کا ثواب اس میں معمول سے صدہا درجہ زیادہ ملتا ہے۔ رمضان کے روزے رکھنا اسلام کا تیسرا فرض ہے، جو اس کا انکار کرے، مسلمان نہیں رہتا اور جو شخص اس فرض کو چھوڑ دے، وہ سخت گنہگار اور فاسق ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے روزے میں بے شمار حکمتیں رکھی ہیں اور اعضاء سست ہو جاتے ہیں، تو نفس کی تیزی جاتی رہتی ہے اور حرام کی طرف رغبت بہت کم ہو جاتی ہے۔ جب اعضاء میں صفائی آتی ہے تو دل بھی صاف ہو جاتا ہے، غریبوں مسکینوں کی حالت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور ان پر رحم آتا ہے۔ ہر چیز کے لیے اس کے مناسب زکوٰۃ اور پاکی کا سامان ہوتا ہے۔ بدن کی زکوٰۃ اور پاکی کے لیے خدا تعالیٰ نے روزہ کو مقرر فرما دیا ہے۔ چونکہ روزہ میں نفس پر سخت مشقت ہوتی ہے، لہٰذا خدا تعالیٰ نے ہر نیکی کے ثواب کی ایک حد مقرر فرمائی ہے مگر روزے کے ثواب کے لیے فرما دیا ہے کہ ہم خود بے حساب جس قدر ثواب چاہیں گے، عطا فرمائیں گے اور جب ایسا رحیم و کریم خود بلا حساب عطا فرمائے گا، تو لینے والا مالا مال ہو جائے گا۔ فالحمدﷲ علی ذلک۔
روزہ میں نیت کی ضرورت کا بیان:
روزہ میں نیت شرط ہے (نیت کہتے ہیں دل کے قصد اور ارادے کو) اگر روزہ کا ارادہ نہیں کیا اور تمام دن کچھ کھایا پیا نہیں تو روزہ نہ ہو گا، رمضان اور نذرِ معین کے روزے کی نیت آدھے دن تک کر سکتا ہے۔ نذر معین کہتے ہیں، دن مقرر کر کے روزہ ماننے کو مثلاً یوں کہے کہ اس ہفتہ میں جو جمعرات آوے گی اس میں خدا کے لیے روزہ رکھوں گا اور آدھے دن کا یہ مطلب ہے کہ صبح صادق ہونے سے سورج چھپنے تک جس قدر فاصلہ ہوا، اس کے آدھے وقت تک نیت کر سکتا ہے یعنی تخمیناً ساڑھے بجے تک، اس کے بعد نیت کرنے کا اعتبار نہیں ۔ قضا روزے کی نیت رات سے کرنی ضروری ہے، کفارہ کے روزہ کی نیت بھی رات سے ضروری ہے، نذر غیر معین کی نیت بھی رات سے ضروری ہے یعنی صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے نیت کرلے۔ نذر غیر معین یہ ہے کہ کوئی دن معین نہ کرے ،بلکہ خدا کے لیے اپنے اوپر روزے واجب کر لے یا مثلاً یوں کہے کہ اگر میرا بھائی تندرست ہو گیا تو پانچ روزے رکھوں گا۔ زبان سے نیت کرنی ضروری نہیں۔ لیکن اگر چاہے تو سحر کھانا کھا کر اس طرح نیت کر لیا کرے: بصومِ غدٍ نویتُ من شَہْرِ رمضان۔(میں صبح رمضان کے روزے کی نیت کرتا ہوں) اگر کھانا کھانے سے پہلے نیت کر لے تب بھی جائز ہے، بعض لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ نیت کرنے کے بعد کھانا پینا جائز نہیں، یہ خیال بالکل غلط ہے۔ بلکہ صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے کھانا پینا جائز ہے، خواہ نیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ رمضان میں اگر نفل وغیرہ روزہ کی نیت کرے تو رمضان ہی کا روزہ ادا ہو گا، نفل نہ ہو گا۔
اُن باتوں کا بیان جن سے روزہ نہیں جاتا:
بھول کر کھانا پینا روزہ نہیں توڑتا، روزہ یاد نہ رہا اور صحبت کر لی تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ بلااختیار حلق میں دھواں یا گرد و غبار یا مکھی مچھر چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، آٹا پیسنے والے اور تمباکو وغیرہ کوٹنے والے کے حلق میں جو آٹا وغیرہ اُڑ کر جاتا ہے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کان میں پانی چلا جاوے، خود بخود قے آ جائے یا خواب میں غسل کی حاجت ہو جائے یا قے آ کر خود بخود لوٹ جاوے، ان سب باتوں سے روزہ نہیں جاتا اور کچھ خلل نہیں آتا۔ آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ نہیں جاتا۔ خوشبو سونگھنے سے کچھ خلل نہیں آتا۔ بلغم دماغ سے اترا اور اس کو نگل گیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ تھوڑی سے قے (یعنی منہ بھر سے کم) اگر قصداً بھی کرے تو روزہ نہیں جاتا۔ تھوڑی سی قے آئی اور قصداً لوٹا کر نگل گیا تو روزہ نہیں جاتا۔ دھاگے کو ایک طرف سے پکڑے رہا اور دوسری طرف سے نگل گیا اور پھر کھینچ لیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا، اگر کوئی شخص بھول کر روزے میں کھا پی رہا ہے، اگر وہ قوی تندرست ہے تو اس کو یاد دلانا بہتر ہے اور اگر ضعیف و ناتواں ہے تو یاد نہ دلانا چاہیے۔ اگر تل یا خشخاش کا دانہ چبا لیا تو روزہ نہیں جاتا، کیونکہ وہ منہ میں رہ جاتا ہے، حلق میں نہیں پہنچتا، اگر دانتوں میں خون جاری ہو، مگر حلق میں نہ جائے تو روزہ میں کچھ خلل نہیں آتا۔ اگر خواب میں یا صحبت سے غسل کی حاجت ہو گئی اور صبح صادق ہونے سے پہلے غسل نہ کیا تو روزہ میں کچھ نقصان نہیں آتا بلکہ اگر آفتاب نکلنے کے بعد بھی غسل کرے گا، جب بھی روزہ درست و صحیح رہے گا۔ البتہ غسل میں تاخیر کر کے نماز قضا کرنے کی وجہ سے گنہگار و عاصی ہو گا۔ اس مسئلہ کے متعلق احادیث جواب المتین کے صفحہ ۳۱ پر ملاحظہ کریں۔
بعض وہ باتیں جن سے روزہ جاتا رہتا ہے اور صرف قضا واجب ہوتی ہے، کفّارہ نہیں:
کان اور ناک میں دوا ڈالنا، قصداً منہ بھر کے قے کرنا، حقنہ کرنا، منہ بھر کر قے آئی تھی، اس کو لوٹا کر نگل جانا۔ کلی کرتے ہوئے منہ میں پانی چلا جانا، یہ سب چیزیں روزے کو توڑنے والی ہیں، مگر صرف قضاء آئے گی کفارہ نہیں۔ عورت کو چھونے سے انزال ہوجائے یا بوسہ لینے سے انزال ہو جائے تو روزہ جاتا رہتا ہے، مگر صرف قضا واجب ہوتی ہے۔ کنکر یا لوہے، تانبے کا ٹکڑا یا کچا گیہوں نگل جائے تو روزہ جاتا رہتا ہے اور صرف قضا آئے گی۔ ہاتھ سے مل کر منی نکالنا حرام ہے اور اس کی وجہ سے دنیا و آخرت میں نہایت نقصان و عذاب اور وبال پڑتا ہے۔ اگر روزہ میں ایسا کرے گا تو روزہ جاتا رہے گا، صرف قضاء واجب ہو گی، کفارہ نہیں۔ حقہ پینے سے روزہ جاتا رہتا ہے۔ تل یا خشخاش کا دانہ ثابت نگل جانے سے روزہ جاتا رہے گا۔ حقہ پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور کفارہ واجب ہوتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس اگر عود کی یا لوبان وغیرہ کی دھونی سلگا کر عمداً ناک یا حلق میں دھواں پہنچائے تب بھی روز جاتا رہے گا اور قضا واجب ہو گی۔ اگر کسی ظالم نے قتل کا خوف دلایا، بہت سخت مارنے سے ڈرا کر زبردستی منہ چیر کر کچھ کھلا پلا دیا تو روزہ جاتا رہا۔ اگر کسی نے بھول کر کھایا اور سمجھا کہ روزہ ٹوٹ گیا ہو گا، پھر قصداً کھا لیا تو روزہ ٹوٹ گیا اور قضاء واجب ہو گی۔ اگر کسی عورت سے زبردستی جماع کر لیا جائے تو عورت پر صرف قضا،(جبکہ مرد پر قضا اور کفارہ ) لازم ہوا۔ رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کھائی تو قضاء واجب ہو گی۔ اگر سوتے ہوئے کسی نے منہ میں پانی ڈال دیا تو صرف قضاء واجب ہو گی۔ دن باقی تھا مگر غلطی سے یہ سمجھ کر روزہ کھول دیا کہ آفتاب غروب ہو گیا ہے، تو صرف قضا واجب ہو گی۔ ان سب صورتوں میں کفارہ واجب نہ ہوگا۔
ان چیزوں کا بیان جن سے روز ٹوٹ جاتا ہے اور قضاء بھی واجب ہوتی ہے اور کفارہ بھی:
جان بوجھ کر بدون بھولنے کے صحبت کرنا یا کھانا پینا روزہ کو توڑ دیتا ہے اور قضا بھی لازم آتی ہے اور کفارہ بھی (اگر بھول کر یہ کام کرے تو روزہ نہیں جاتا۔ اس کا بیان ہو چکا ہے)۔ روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے گا۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو (یعنی اتنی قیمت کا مقدور نہیں رکھتا یا اس ملک میں غلام نہیں ملتا جیسے آج کل ہندوستان میں) تو متواتر (برابر و لگاتار) ساٹھ روزے رکھے۔ یعنی درمیان میں کوئی دن خالی نہ جائے۔ اگر کوئی دن چھوٹ جائے گا تو پھر تمام روزے شروع سے رکھنے پڑیں گے اور اگر روزہ بھی طاقت نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ جن لوگوں کو پہلے وقت کھلایا تھا، انھی کو دوسرے وقت کھلا دے، اگر ان کے سوا دوسروں کو کھلا دے گا تو کفارہ ادا نہ ہو گا۔ اگر ایک مسکین کو برابر ساٹھ دن تک دونوں وقت کھانا کھلا دیا کرے، تب بھی کفارہ ادا ہو جائے گا۔ اگر جَو یا خرما یا چنا دینا چاہے تو ہر مسکین کو ساڑھے تین سیر دینا پڑے گا۔ اگر ہر مسکین کو پونے دو سیر گیہوں (چونکہ ہر جگہ کا سیر وزن مختلف ہوتا ہے، لہٰذا انگریزی وزن لکھا گیا ہے، جس کا ایک سیر اسی تولہ کا ہوتا ہے) کی قیمت دے دے تب بھی جائز ہے۔ اگر کسی عورت نے قصداً کچھ کھا لیا یا پی کر روزہ توڑ ڈالا اور پھر اسی روز حیض آ گیا تو کفارہ ساقط ہو جائے گا صرف قضا واجب ہو گی۔ کسی شخص پر روزہ توڑنے سے کفارہ واجب ہوا اور پھر اسی روز بیمار ہو گیا تو کفارہ ذمہ سے ساقط ہو جائے گا، صرف قضا رہے گی۔ اگر مسافر اپنے وطن میں پہنچا اور اسی دن روزہ توڑ ڈالا تو صرف قضا آئے گی، کفارہ نہیں۔نابالغ لڑکا یا لڑکی یا مجنوں آدمی اپنا روزہ توڑ ڈالے تو کفارہ واجب نہیں ہوتا۔ ماہ رمضان کے سوا اگر کسی اور قضا یا نذر یا کفارہ یا نفل روزے کو توڑ ڈالے تو کفارہ واجب نہیں ہوتا صرف قضا کرنا آتا ہے۔
ان باتوں کا بیان جن سے روزہ نہیں جاتا اور مکروہ بھی نہیں ہوتا:
مسواک کرنا، سر یا مونچھوں پر تیل لگانا، آنکھ میں دوا ڈالنا مکروہ نہیں اور سرمہ لگا کر سو رہنے سے بھی روزہ میں کچھ خلل نہیں آتا۔ بعض لوگ جو روزہ میں سرمہ لگانے کو یا سرمہ لگا کر سو رہنے کو مکروہ سمجھتے ہیں غلط ہے، خوشبو سونگھنا مکروہ نہیں۔ اگر بی بی کو اپنے خاوند کا اور نوکر کو اپنے آقا کے غصہ کا اندیشہ ہو تا کھانا نمک چکھ کر تھوک دینا جائز ہے، نہ روزہ جاتا ہے، نہ مکروہ ہوتا ہے۔ گرمی اور پیاس کی وجہ سے غسل کرنا اور کپڑا تر کر کے بدن پر لپیٹنا مکروہ نہیں۔
وہ چیزیں جو روزہ میں مکروہ ہوتی ہیں لیکن روز نہیں جاتا:
بلاضرورت کسی چیز کو چبانا یا نمک وغیرہ چکھ کر تھوک دینا۔ قصداً تھوک اکٹھا کر کے نگل جانا، تمام دن جنابت یعنی غسل کی حاجت میں رہنا، فصد کرانا بہت پچھنے لگوانا، یہ سب چیزیں مکروہ ہیں مگر روزہ ان سے نہیں جاتا۔ غیبت کرنی حرام ہے اور غیبت سے روزہ نہایت سخت مکروہ ہو جاتا ہے، روزہ میں لڑنا جھگڑنا، گالی دینا مکروہ ہے۔ اگر کوئی لڑے تو اپنے دل میں خیال کر لو کہ ہم روزے سے ہیں، ہم کو لڑنا نہ چاہیے یا اس سے بھی کہہ دو کہ اس وقت ہم روزہ دار ہیں، تم کو جواب نہیں دے سکتے۔ جو شخص روزہ میں غیبت، بدگوئی، جھوٹ، فریب اور گالی کو نہ چھوڑے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم کو اس کے روزے کی کچھ پروا نہیں۔ ان باتوں سے روزہ کا ثواب بہم ہی کم ہو جائے گا اور روزہ مقبول نہ ہو گا۔
وہ عذر جن سے رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے:
اگر مرض کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو رمضان میں روزہ نہ رکھے، تندرستی کے وقت قضا کر لے۔ اگر روزہ رکھنے سے مرض کے زیادہ ہونے کا خوف ہے، تب بھی روزہ چھوڑ دینا جائز ہے۔ جو عورت حمل سے ہو اور روزہ رکھنے سے بچے کو یا اپنی جان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑ دینا جائز ہے، جو عورت اپنے یا غیر کے بچے کو دودھ پلاتی ہو اگر ضرورت سمجھے تو روزہ نہ رکھے، پھر قضا کر لے۔ مسافر کو اجازت ہے کہ حالتِ سفر میں رمضان میں روزہ نہ رکھے۔ سفر سے واپس ہونے کے بعد قضا کر لے۔ لیکن اگر کچھ تکلیف یا دقت نہ ہو تو بہتر اور افضل یہی ہے کہ رمضان میں سفر میں روزہ رکھ لے۔ اگر کوئی مسافر دوپہر سے پہلے اپنے وطن کو واپس آ گیا اور اب تک کچھ کھایا پیا نہیں تو اس پر واجب ہے کہ روزے کو پورا کر لے کیونکہ سفر کا عذر، اب باقی نہیں رہا۔ اگر کسی مسافر کو سفر میں روزہ رکھنے سے کچھ تکلیف نہیں ہوتی، لیکن اس کے ساتھ والوں کو اس کے روزہ سے دشواری پیش آتی ہے تو افضل اس کو یہ ہے کہ یہ بھی روزہ نہ رکھے۔ واپسی کے بعد قضا کر لے۔ سفر میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت جب ہوتی ہے کہ تین روز کا سفر ہو، جس کی مقدار علماء نے چھتیس کوس یعنی اڑتالیس میل (سوا ستتر کلو میٹر) مقرر فرمائی ہے۔ خواہ ریل کے ذریعہ سے سفر کرے یا کسی اور سواری پر یا پیادہ پا یعنی اگر کسی تیز سواری پر یا ریل میں اڑتالیس میل دو چار گھنٹے میں چلا جائے گا، تب بھی مسافر اور رخصت اس کے لیے حاصل ہو جائے گی۔ اگر کوئی شخص اس قدر بوڑھا ضعیف ہو گیا کہ روزہ نہیں رکھ سکتا ، اس کو بھی روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ ہر ایک روزہ کے بدلے میں پونے دو سیر گیہوں مسکین کو دیوے اور اگر اتفاق سے اس ضعیف بوڑھے میں اتنی طاقت آ جائے کہ روزہ رکھ سکتا ہے تو جو روزے چھوڑ دیے تھے، ان کی قضا لازم ہو گی اور ہر روزہ کے بدلے میں پونے دو سیر غلہ گندم یعنی فدیہ جو ادا کر چکا ہے، وہ کافی نہ ہو گا۔ اگر کوئی شحص زبرستی کرنے اور مار ڈالنے کا خوف دلائے، تب بھی رمضان میں روزہ قضا کر دینا جائز ہے۔ عورت کو اپنے معمولی عذر یعنی ایام میں روزہ رکھنا جائز ہی نہیں۔ اسی طرح پیدائش کے بعد خون آتا ہے، ان ایام میں بھی روزہ جائز نہیں ہے۔ یہ دونوں ایسے عذر ہیں کہ ان میں اگر کوئی ناواقف روزہ رکھے بھی تو ادا نہیں ہوتا بلکہ پاک ہونے کے بعد قضا کرنا چاہیے۔
یہاں تک ان عذر والوں کا بیان ہوا جن کو رمضان میں روزہ چھوڑ دینا جائز ہے۔ لیکن ان لوگوں کو یہ نہیں چاہیے کہ سب کے سامنے بلاتکلف کھاتے پھریں۔ بلکہ رمضان المبارک کی تعظیم لازم ہے۔ ایک دفعہ تنہائی میں کھانے پینے کی ضرورت رفع کر کے پھر روزہ داروں کی طرح رُکے رہیں۔ اگر کسی عورت کو روزے میں حیض آ گیا تو شام تک اس کو کھانا پینا نہ چاہیے۔ اگرچہ قضا واجب ہو گی۔ لیکن اس طرح ان شاء اﷲ ثواب اس روزہ کا بھی مل جائے گا۔ اگر بلاعذر کوئی شخص رمضان کا روزہ نہ رکھے تو اس کے عوض میں اگر تمام عمر بھی روزے رکھے، جب بھی وہ ثواب اور فضیلت حاصل نہ ہو گی جو رمضان میں ہوتی ہے۔ البتہ قضا روزہ رکھ لینے سے فرض ذمہ سے ساقط ہو جائے گا۔
روزہ توڑ دینے کا بیان:
نفل روزہ کو بلاعذر توڑ دینا بھی جائز ہے، لیکن مکروہ ہے اور قضا واجب۔ خفیف سا عذر پیش آ گیا تو توڑ دینا مکروہ بھی نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں توڑنا مستحب ہو جاتا ہے اور کبھی ضروری مثلاً کوئی مہمان آ گیا جس کے ساتھ کھانا مناسب ہے تو روزہ توڑ دینا مستحب ہے یا کسی نے دعوت دیاگر وہاں جا کر نہ کھائے گا تو اس کو رنج ہو گا تو روزہ توڑ دینا مستحب ہے۔ اگر اس کے رنج کا اندیشہ نہ ہو تو بھی توڑ دینا جائز ہے۔ اگر کوئی مرض یا سفر درپیش آ گیا، یا محنت کا کام پڑ گیا، تب بھی توڑ دینا جائز ہے اور اگر ایسا مرض یا عذر پیش آ گیا کہ اگر روزہ نہ توڑنے میں ہلاکت کا اندیشہ ہے تو روزہ توڑ دینا واجب و لازم ہو جاتا ہے، لیکن ان سب صورتوں میں توڑے ہوئے روزہ کی قضا رکھنا واجب ہے۔ اور فرض روزے کو بلاکسی شدید اور قوی عذر کے توڑنا جائز نہیں۔ اگر ایسا سخت بیمار ہو گیا کہ اگر روزہ نہ توڑے تو جان جانے کا اندیشہ ہے، یا بیماری بڑھ جانے کا خوف ہے تو روزہ توڑ ڈالنا جائز ہے۔ اگر ایسی شدید پیاس لگی کہ روزہ تمام کرے گا تو مر جائے گا، تب بھی روزہ توڑنا جائز بلکہ واجب ہے۔ کسی جانور نے کاٹ لیا یا کوئی زخم لگ گیا تب بھی روزہ توڑ کر دوا پینا اور علاج کرنا جائز ہے۔ ایسی سب صورتوں میں صرف قضا واجب ہے، کفارہ نہ آئے گا۔ اگر تپ ولرزہ (باری کا بخار) کی باری کا دن تھا اور یقین تھا کہ تپ ولرزہ آئے گا، اس نے پہلے سے ہی روزہ توڑ ڈالا اور پھر بخار نہ آیا، تب بھی کفارہ نہیں، صرف قضا واجب ہے۔ دعوت و مہمان کی وجہ سے جیسے نفل روزہ توڑنا جائز ہے، فرض کو توڑنا ہرگز جائز نہیں۔ اگر رمضان میں ایسا کرے گا تو کفارہ واجب ہو گا، جس کا بیان گزر چکا ہے۔
قضا روزے رکھنے کا طریقہ:
اگر کسی عذر سے روزے قضا ہو گئے ہیں تو جب عذر جاتا رہے، جلد ادا کر لینا چاہیے، کیونکہ زندگی کا بھروسہ نہیں، کیا خبر ہے کہ موت آ جائے اور فرض ذمہ میں رہ جائے۔ مثلاً بیمار کو مرض سے صحت پانے کے بعد اور مسافر کو سفر سے واپس ہونے کے بعد جلد ادا کر لینا چاہیے۔ رمضان کے روزے اگر قضا ہو گئے، تو اختیار ہے کہ متواتر (یعنی لگاتار) رکھے یا جدا جدا متفرق طور پر رکھ لے۔ اگر گزرے ہوئے رمضان کے روزے کسی وجہ سے ادا نہ ہو سکے اور دوسرا رمضان آ پہنچا تو پہلے اس رمضان کو ادا کر لے جو روزے گزشتہ رمضان کے ذمہ ہیں۔ ان کو پیچھے ادا کرے۔ اگر رمضان میں سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھا اور پھر سفر ختم ہونے سے پہلے مر گیا تو قضا ذمہ سے ساقط ہو گئی۔ اسی طرح اگر رمضان میں مرض کی وجہ سے روزہ نہ رکھا اور پھر تندرست ہونے سے پہلے مر گیا تو ذمہ سے قضا جاتی رہی۔ کیونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ادا کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ اگر سفر میں بیس روزے قضا ہوئے اور واپس آ کر صرف دس روز وطن میں رہا تو دس ہی روز کی قضا اس پر واجب رہی۔ اسی طرح اگر بیماری سے تندرست ہونے کے بعد چند دن زندہ رہا تو چند دن ہی کی قضا واجب ہو گئی۔ اگر کسی شخص کے ذمہ پر روزے قضا واجب تھے اور ادا کرنے کا وقت بھی پایا، مگر ادا نہیں کیا اور مر گیا تو اس کے وارثوں اور رشتہ داروں کو مناسب ہے کہ ہر ایک روزے کے بدلے پونے دو سیر گیہوں یا ساڑھے تین سیر جَو یا چنا یا مکئی جوار وغیرہ، یا اس قدر غلہ کی قیمت فقراء و مساکین کو دے دیں، ان شاء اﷲ اس کے ذمہ سے روزہ ادا ہو جائے گا اور اگر وہ شخص مال بھی چھوڑ گیا ہو اور اپنے روزے کے عوض میں فدیہ دینے کی وصیت بھی کر گیا ہو تو وارثوں کے اوپر اس کو ادا کرنا واجب اور ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.