تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میرا افسانہ

قسط ۴

چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ

ایک دن شام کے وقت میں تھانہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک سکھ اب شراب میں مست تھانہ میں آیا اور محرر سے جھگڑنے لگا۔ میں نے تھانہ سے باہر نکال دینے کے لیے کہا، چنانچہ وہ نکال دیا گیا۔ دوسرے روز ڈاکہ کی واردات کی اطلاع آئی، مجھے بتایا گیا کہ گزشتہ شام کے شرابی سکھ کا گاؤں ہے، جہاں واردات ڈکیتی ہوئی۔ میں نے فوراً سارا معاملہ سمجھ لیا کہ یہ شراب پی کر کیوں تھانہ میں آیا تھا، اس کا مقصد یہ تھا کہ شب واردات، اس کی تھانہ میں موجودگی ثابت ہو۔ میں نے کانسٹیبلوں سے کہا کہ اس کی تلاشی کرو، یہ شخص ضرور شاملِ واردات ہے اور ڈکیتی کا انتظام کر کے یہاں آیا تھا۔ معلوم ہوا کہ رات وہ ایک ہیڈ کانسٹیبل کے ہاں ہی شب باش رہا اور صبح کو اٹھ کر گاؤں چلا گیا ہے۔ ہم پرچہ دے کر کافی جمعیت لے کر گاؤں پہنچے۔ ہیڈ کانسٹیبل تفتیش ہمراہ تھا، اس نے جاتے ہی ڈنڈے برسانے شروع کیے، چوکیدار بھاگے آئے، وہ ان پر بھی ٹوٹ پڑا۔ نمبردار آئے، ان پر بھی برسا۔ گاؤں میں اطلاع ہو گئی کہ تھانیدار آ گیا۔ بچے ڈر سے بھاگنا شروع ہو گئے، شریف آدمی کھیتوں میں جا جا کر چھپ گئے۔
اب تفتیش شروع ہوئی، گاؤں بھر کے مشتبہ اشخاص کے کان پکڑوا دیے گے اور جوتا چلنا شروع ہوا۔ میں نے کہا: ’’ہیڈ کانسٹیبل بابا اس طرح روئی دھنکنے سے پہلے مدعی کی بیوی سے تو دریافت کر لیں‘‘۔ اس نے کہا: ’’ابھی گاؤں پر رعب تو جمنے دیجیے، آخر تفتیش بھی ہو کر رہے گی‘‘۔ اتنے میں ایک سکھ اپنے آوارہ لڑکے کی شکایت لے کر آیا اور التجا کی کہ میرے لڑکے کی بھی ذار اصلاح کر دی جائے۔ وہ راس دھاریوں کے پیچھے پھرتا ہے، چنانچہ باپ کی استدعا قبول کر کے بیٹے کے بل بھی جوتوں سے سیدھے کر دیے گئے۔
اب کوئی شریف بن بلائے سامنے نہ آتا تھا، کیونکہ خدا کا قہر پولیس کی صورت میں آ چکا تھا۔ اگرچہ دست درازی میں، مَیں نے بہت کم حصہ لیا، تاہم اس بے جا تشدد سے میری روح کانپ اٹھی، میں نے فیصلہ کر لیا کہ سراغ ملے نہ ملے میں تشدد کی اجازت نہ دوں گا۔ چنانچہ باقاعدہ تفتیش شروع کر دی گئی، کئی دن کی سر دردی کے باوجود سراغ نہ ملا، اتنی بات تو آتے ہی معلوم ہو گئی تھی کہ اس شرابی سکھ کا بھائی جو متعدد قتل کی ہولناک وارداتوں کے بعد مفرور ہو چکا تھا، اس ڈکیتی میں شامل تھا۔ واردات کی رات وہ مسلح گروہ لے کر جب گاؤں میں داخل ہوا تو اس نے اپنے خاندان کے تمام دشمنوں کو للکارا، سب نے دروازے بند کر لیے۔ وہ گاؤں کے گلی کوچوں میں یہ شبد پڑھتا پھرتا تھا:
بابا وید روگیاں دا
آ گیا بابا وید روگیاں دا
اور سب دشمنوں کا نام لے لے کر چیلنج کرتا تھا کہ جس جس کو روگ (یعنی کوئی مرض) دور کرانا ہو تو آ جایے، لیکن حکیموں کے اس نرالے گروہ کے نزدیک تک کوئی نہ آیا۔ اب انھوں نے مدعی کے مکان کی طرف رخ کیا، جس سے اس مفرور کے خاندان کی پشتوں سے عداوت تھی اور حال میں شکر رنجی زیادہ بڑھ گئی تھی۔مدعی تو جان بچا کر بھاگ نکلا، مدعیہ اور شیر خوار بچے کو دہلیز پر لٹا کر چھوی سے دو ٹکڑے کر دینے کی دھمکی دی، مدعیہ نے گھر کی چابیاں حوالہ کر کے کہا ، سب کچھ لے جاؤ، مگر بچے کو اذیت نہ پہنچاؤ۔ ایک ان میں سے رقیق القلب تھا، اس کی مداخلت سے بچہ بچ گیا، مگر پانچ ہزار کا مال لے کر وہ ایک عورت کے گھر بزور داخل ہوئے، جس سے اس مفرور کی دیرینہ آشنائی تھی۔ دو گھنٹے وہاں رہے، دن نکلنے سے قبل وہ رفو چکر ہو گئے۔
مجھے بتایا گیا کہ مفرور قاتل اور ڈکیٹ جوانی میں ہی اپنا عضو کاٹ کر خاکسار ہو چکا ہے۔ میں نے اس کی آشنا کو بلا کر پوچھا، اس نے اس کی خاکساری کی تصدیق کی اور کہا کہ صرف چوم چاٹ کر ہی چلتا ہوا ہے، باقی دو آدمیوں کو میں نہیں پہچانتی۔
عجب خونخوار شخص تھا،مشہور تھا کہ اس نے بیسیوں کو قتل کیا، مگر لاش کو بے نشان کر دیتا تھا۔ ماں جس کی گود میں اس نے پرورش پائی تھی، عجیب تر تھی، اس کے دو لڑکے گاؤں کی لڑائیوں میں مارے جا چکے تھے۔ ہر لڑائی میں خود رہنمائی کرتی تھی اور لڑکوں کا دل بڑھاتی تھی،اگر کوئی لڑکا لڑائی میں پیٹھ دکھاتا تھا، تو وہ معاف نہ کرتی تھی۔ جوان لڑکوں کی موت پر بھی اسے کسی نے ماتم کرتے یا آنسو بہاتے نہیں دیکھا۔ کہتے ہیں کہ جہاں اسے اپنے لڑکوں کی لڑائی بھڑائی کی خبر ملتی تھی، وہ وہیں سے جائے وقوعہ کی طرف بھاگتی تھی۔ مفرور لڑکے کا آنااس نے تسلیم کیا، مگر اور پتہ نشان کچھ نہ دیا۔ ایسی عورت سے کوئی کیسے پوچھے، کئی روز تفتیش کی، ہر طرف سے مایوس ہو کر دعا میں لگ گیا۔ اتفاق کہو یا قبولِ دعا کا اثر کہ اچانک ایک معزز شخص نے آ کر اطلاع دی کہ میں ابھی ریاست پٹیالہ کے ایک گاؤں سے آیا ہوں، وہاں مشہور تھا کہ ریاست کے چند حوصلہ مند نوجوانوں نے انگریزی علاقہ میں جا کر بے پناہ حملہ کیا اور ہزاروں کا مال مار کر لے آئے۔ میں سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اطلاع دے کر ریاست کی طرف روانہ ہو، خدا کی حکمت، مال اور ملزم سب مل گئے۔ قاتل مفرور کی تلاش کی گئی، مفرور مذکور اس علاقہ میں سادھو کے بھیس میں رہتا تھا اور عضو کٹا سادھو مشہور تھا۔
سپاہی قریب قریب کے گاؤں میں بھیجے گئے، تلاش کرنے والی پارٹی میں سے ایک سپاہی شراب پینے ایک گاؤں میں داخل ہوا، شراب خانہ سے مست ہو کر نکلا، تو اس نے ایک سادھو کو ایک عورت کا بوسہ لیتے دیکھا اور پہچان لیا کہ مفرور سادھو کے بھیس میں اپنی عادت پوری کر رہا ہے۔ اس نے اس کو پکڑ کر شور کیا، حسنِ اتفاق کہ مفرور سادھو بھی شراب پئے ہوئے تھا۔ دونوں زمین پر لڑکھڑا کر گرے، سادھو کسوت میں چھری نکالنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اور لوگوں نے قابو پالیا، غرض علاقہ لدھیانہ کا مشہور قاتل گرفتار ہو گیا۔
لوگ گرفتار کر کے سامنے لائے تو اس نے آتے ہی شراب کا سوال کیا،میں نے پیمانہ منگوایا، اس نے بوتل مانگی، میں نے یہ بھی خواہش پوری کر دی، تاکہ مست شراب ہو کر سب راز کہہ دے۔ مگر وہ بلانوش سب کچھ ڈکار کر ہل من مزید کا نعرہ بلند کرنے لگا۔ میں نے تندورِ شکم کے لیے کچھ اور ایندھن دیا، تاہم وہ ڈھپ پر نہ آیا، تشدد کی دھمکی دی تو اس نے کہا کہ پھانسی پر لٹکنا ہی ہے، تم اپنے ہاتھ سے ہی یہ کام سرانجام دے لو۔
یہ شخص فراری سے پہلے کی واردات میں ایک قتل اور تین پر قاتلانہ حملہ کر گیا تھا۔ مقتول کی لاش خود ہی اٹھا کر لے گیا، میں نے اسے لاش کا ہزار پتہ پوچھا، مگر اس نے اشارہ تک نہ کیا۔ میں نے اس عضو کٹے سادھو کے بھائی کو اصل فتنہ کا موجب سمجھا، اسے بھی گرفتار کرنے کا حکم دیا، ہیڈ کانسٹیبل متردد تھا، تاہم میں نے خود ہتھکڑی لگا دی۔ تب اس شریر کو سمجھ آئی اور اس نے پکار کر کہا کہ کس نئے قانون سے مجھے باندھ رہے ہیں؟ میں خاموش ہو گیا۔ اس نے اتنی بات سنی سمجھی ہوئی تھی کہ واردات کے روز اپنی حاضری اگر دوسرے مقام پر ہو تو آدمی محفوظ ہو جاتا ہے۔ میری دلیل یہ تھی کہ یہ شخص ڈکیتی کا انتظام کر کے تھانہ میں اپنی بریت کے لیے شب باش ہوا تھا۔ چنانچہ اسی بنا پر یہ شخص بھی دوسرے گروہ سے زیادہ سزا کا مستحق سمجھا گیا، اس سات سال کی سزا تجویز ہوئی، باقی قیدیوں کو پانچ پانچ سال کی، عضو کٹے سادھو کو مختلف جرائم میں ۲۳ سال کی قید ہوئی۔
عشق کا بھوت:
انھی دنوں میں نماز صبح سے فارغ ہو کر بیٹھا تھا کہ علی الصبح ایک مقامی گورنمنٹ سکول سے بوڑھا ٹیچر آیا۔ ان صاحب کو میں نے اکثر کورٹ انسپکٹر کے پاس دیکھا۔ ہمارے کورٹ انسپکٹر زندہ دل بوڑھے بزرگ تھے، ماسٹر مذکور آتے ہی میرے پاؤں پڑ گیا اور زار و قطار رونے لگا۔ قبل اس کے کہ میں کچھ پوچھوں، اس کی ہچکیاں بندھ گئی، میں حیران تھا یہ کیا ماجرا ہے۔ تردد سے پوچھا کہ صاحب ماجرا کیا ہے؟ کہا کہ تمھارے بچانے سے بچ سکتا ہوں۔ میں سمجھا کہ شاید کوئی قتل کر آیا ہے۔ داستان غم عشق کا ماجرا نکلا۔ معلوم ہوا کہ کسی شعلہ رو آوارہ مزاج عورت سے راہ چلتے ماسٹر جی کا دل مل گیا اور راستے گلی میں ہی رضا مند ہو گئے۔ ماسٹر جی جوالا مکھی کو گھر لے آئے، گھر کی زمین جاگ اٹھی، صحن پر نور چھا گیا۔ اس بد وضع اور بخیل کے گھر میں پری آ گئی، اسے شیشے میں اتارنے کے لیے وہ ہن برسانے لگے۔ حسن، لباس اور زیورات سے نکھرتا ہے۔ قیمتی ساڑھیاں اور عمدہ زیورات مہیا کیے، سات روز میں ڈھائی ہزار خرچ اٹھا، وہ گھر والی بن کر بیٹھ گئی۔ یہ خوشی خوشی لڑکے پڑھانے مدرسہ چلے گئے، پیچھے وہ تین ہزار روپیہ نقد لے کر دروازے چوپٹ چھوڑ کر چلی گئی۔ ماسٹر جی آئے تو مسٹرس ندارد۔ بھاگے لپکے، اِدھر اُدھر گئے، آخر عورت کا سراغ پالیا۔ اس کے متعلق معلوم ہوا کہ اسی طرح وہ کئی ایک کو بدھو بنا چکی تھی، ماسٹر جی اس کا آخری شکار تھے۔
میں نے کہا اچھا پرچہ دلاتا ہوں۔ وہ پھر پاؤں پڑ گیا کہ عورت دلاؤ، کچھ کرامات کر دکھاؤ۔ میں ہنس پڑا اور کہا کہ میں کراماتی نہیں، وہ پھر پاؤں پکڑ کر زار زار رونے لگا اور کہنے لگا: خدا کے لیے مجھے وہ تعویذ دو، میں نے تعجب سے پوچھا کہ وہ کون سا تعویذ؟ اس نے کہا جو کورٹ انسپکٹر کو بتلایا تھا۔ میں نے حافظہ پر زور دیا تو یاد آیا کہ میاں بیوی کی لڑای میں کچھ اناپ شناب تحریر بہ طور تعویذ ایک شخص نے کسی کو دی تھی اور اتفاق سے وہ معاملہ بھی سلجھ گیا تھا۔ یہ واقعہ میں نے کورٹ انسپکٹر صاحب سے بھی ذکر کیا تھا۔
میں نے ہزار کہا کہ میں تعویذ کا قائل ہوں نہ دیتا ہوں، مگر وہ نہ مانا بلکہ اس سے زیادہ اصرار کرنے لگا، میں نے مجبوراً ایک تعویذ لکھ دیا، وہ دعائیں دیتا چلا گیا۔ اس تعویذ کے بھروسے پر سیدھا اس عورت کے گاؤں گیا، اتفاق کی بات کہ وہ گھر میں تنہا تھی۔ عاشق نے ایک آبدار خنجر اس کے حضور پیش کر کے کہا: یا مجھے قتل کر یا جینے کی اُمید دلا۔ ماسٹر جی اس تعویذ کے بل بوتے پر یہ شاعری کر چکا تو عورت نے بلائیں لیں، خنجر لے کر صندوق میں رکھ لیا اور اچانک پلٹ کر ماسٹر کے گلے میں اسی کی پگڑی ڈال لی، چور چور کے شور سے محلہ سر پر اٹھا لیا۔ پگڑی گلے ڈالنے پر تو ماسٹر محبوب کا غمزہ سمجھا، جب عورت نے قیامت اٹھا لی تو ماسٹر کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، جو آیا اس نے ڈاڑھی کھینچی اور لٹھ برسایا۔ ماسٹر کو ایسا کوٹا چیتھا کہ محبت کا سبق بھول گیا، توبہ توبہ کرنے لگا۔ عشق کی راہ میں چوٹیں اتنی کھائیں کہ زمین پر لوٹنی کھا کر گر گیا، لوگ گڈے پر ڈال کر ماسٹر جی کو تھانے لے آئے، جب انھیں ہوش آیا تو اپنے آپ کو سب انسپکٹر تھانہ ساہیوال کے سامنے پایا۔ سب انسپکٹر بھی اتفاق سے اسے کورٹ انسپکٹر کے ہاں دیکھ چکا تھا، کیفیت پوچھی تو اس نے تنہائی میں بات کہی کہ چودھری افضل حق کا تعویذ لے کر آیا تھا، شاید تعویذ ذرا تیز ہو گیا، بات بنتے بگڑ گئی۔
جاہل پیر ایسے ہی گدھوں کی کمائی پر بسر اوقات کرتے ہیں۔ کم بخت اتنا پٹ کر بھی اسے تعویذ کی تیزی سمجھتا ہے۔ سارا معاملہ خراب ہونے بھی بات بنتے بنتے بگر گئی، کہتا ہے۔
اس زمانہ میں سب انسپکٹر خدا کا مظہر سمجھا جاتا تھا، اس نے تیور بدلے اور ماسٹر جی کو پکڑ لانے والوں کے لیے حکم دیا کہ ان کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دو، یہ عورتوں کے رکھوالے ہیں۔ وہ اپنے خیال میں کارِ سرکار کر کے آئے تھے۔ نمازوں کی بخشش کے عوض روزے ان کے گلے پڑگئے۔ عاجزی کرنے لگے۔
قتل:
انھی دنوں لودھیانہ کے ریلوے ورکشاپ میں مزدوروں نے ہڑتال کر دی ، فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں کوئی سر پھرا ریلوے کو نقصان نہ پہنچا دے، اس لیے میں ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ گشت کو نکلا، پولیس ماتحتوں کی مختصر جمعیت میرے ہمراہ تھی۔ لوڈھیوال کے قریب ایک لاش پائی گئی، ہزار ٹکریں ماریں مگر اس کا کوئی وارث دستیاب نہ ہوا۔ لاش ڈاکٹری معائنہ کے لیے بھیج دی گئی ، ڈاکٹری معائنہ سے معلوم ہوا کہ موت زہر خورانی سے ہوئی۔ واقعہ ابتداء سال تھا، ۳۰۲ کا پرچہ دینا پڑا۔ سال کے شروع میں سنگین واردات کا اندراج تھانہ کی کارگردگی کے لیے منحوس سمجھا جاتا ہے، بڑی بھاگ دوڑ کی، مگر کوئی سراغ نہ ملا کہ لاش کس کی تھی اور یہاں آئی کیسے؟
اپنا علاقہ چھوڑ ملحقہ تھانہ جات اور اضلاع میں بھی تحقیقات کے لیے ضروری سمجھا گیا۔ سب انسپکٹر انچارج متعدد ڈکیتیوں کی تفتیش پر لگے ہوئے کئی ماہ بعد تھانہ آئے اور تھانہ پھلور کے علاقہ میں روانہ ہو گئے۔ وہ گرانڈیل جوان تھے لیکن ذرا پیٹ بڑھا ہوا تھا۔ شام کے قریب ایک ٹم ٹم پر سوار ہو کر واپس لوٹے، انھیں مہاجن سمجھ کر ڈاکوؤں کا گروہ اچانک حملہ آور ہوا۔ سب انسپکٹر اسے محض شرابیوں کی خوش طبعی سمجھ کر انھیں دھمکانے لگے، ڈاکوؤں نے لاٹھیوں کا مینہ برسا کر کہا کہ دھردو جو پاس ہے۔ سب انسپکٹر کو اب سمجھ آئی کہ معاملہ کیا ہے، بندوق اٹھا کر ڈرانا چاہا، ایک نے حوصلہ سے آگے بڑھ کر بندوق ہاتھ سے چھیننا چاہی۔ دونوں میں کش مکش جاری ہوئی، باقیوں نے لاٹھیوں سے حملہ کر دیا۔ ایک سپاہی اور ایک ہیڈ کانسٹیبل ہمراہ تھے، وہ تو گرم سرد دیکھ کر بھاگ نکلے۔ سب انسپکٹر مرد خدا خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا، ایک بندوق کی نالی کے سامنے آ کر سر پر کاری ضرب لگانا چاہتا تھا کہ سب انسپکٹر نے بندوق چلا دی۔ چھرے سینے کو چھلنی کر گئے، وہ لوٹنی کھا کر گرا، پھر گر کر سنبھلا اور جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ اس کے باقی ساتھیوں نے بندوق لاٹھیوں سے ناکارہ کر دی۔ سب انسپکٹر نے ان میں سے ایک کی لاٹھی چھین کر بہادرانہ مقابلہ کیا، جس کو اس کی ایک لاٹھی لگ گئی، وہی کاری ہوئی۔ اس سب انسپکٹر کے مقابلہ میں گبرو جوان تھے، مگر انسپکٹر بھی پنجاب پولیس میں فرد تھا۔ اس دیوہیکل کو دیکھ کر ڈاکوؤں نے یقین کر لیا کہ وہ کسی جن کے قابو میں آ گئے ہیں، اس لیے جان بچانا فرض خیال کر کے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ ہیڈ کانسٹیبل موقعہ مناسب دیکھ کر آ گئے، اتنے میں جھاڑیوں میں کسی کے کراہنے کی آواز سن کر ادھر متوجہ ہوئے، بندوق سے مجروح ڈاکو کو جان بلب پایا، جوں توں کر کے اسے اٹھایا۔ وہ تھانہ پہنچنے سے پہلے اعمال کی جوابدہی کے لیے خدا کے حضور میں چلا گیا۔ متوفی کی جیب میں ایک اسٹیشن کا ٹکٹ تھاجو امرتسر اور ترنتارن کے درمیان واقع ہے۔ متوفی کے لباس اور جوتے سے بھی یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ لاہور منٹگمری کے درمیانی علاقہ کا باشند ہے، اگرچہ عملہ مقدمہ کی کامیابی سے مایوس تھا لیکن میں پُرامید تھا۔ میں نے اس طرف کے تمام تھانوں میں جا کر تحقیقات کی، کچھ تھانوں میں متوفی کا حلیہ اور لباس کے متعلق اشتہارات جاری کر آیا۔ چند روز کے بعد تھانہ قصور کا سب انسپکٹر ایک شخص کو ہمراہ لایا، لاش کئی دن زنانہ ہسپتال لودھیانہ میں محفوظ رہی۔ سب انسپکٹر کے ہمراہی نے کہا کہ یہ میرے بھائی کی لاش ہے، جس کے متعلق اس کے ساتھیوں نے بیان کیا تھا کہ کسی دیو نے اسے مار ڈالا ہے یا اڑا لے گیا ہے۔ لاہور پولیس سے مل کر تجویز یہ ہوئی کہ بیک وقت متوفی کے ہمراہیوں کو گرفتار کر لیا جائے، کیونکہ ان میں سے اکثر سابقہ سزا یافتہ تھے۔ غرض کنسٹیبلوں کی بڑی جمعیت فراہم کی گئی۔ ۲۰ کانسٹیبل ، ۴ ہیڈ کانسٹیبل اور دو سب انسپکٹر کا گروپ بنا کر سر شام دیہات کو روانہ ہو گئے۔ مجھے اور لاہور کے ضلع کے ایک اور سب انسپکٹر کو جو علاقہ کا بڑا وقف تھا، ایک سمت روانہ کر دیا گیا، ہمیں ہدایت ہوئی تھی کہ جہاں تک ہو سکے ’’بکھے‘‘ نامی شخص کو گرفتار کرو۔ لیکن ملزم خطرناک ہے، ہر طرح ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، اس سے بھی اہم کام جس پر ہمیں مامور کیا گیا، وہ یہ تھا کہ متوفی کے گھر کی تلاشی لے کر مشتبہ اشیاء کو فوراً قبضہ میں کر لیں اور صبح دس بجے سے قبل واپس قصور لوٹ آئیں۔
سب سے پہلے ہم نے بکھے کے گاؤ ں کا رخ کیا۔ کچھ رات گئے پر گاؤں میں داخل ہوئے۔ ایک وسیع صحن کے مکان میں داخل ہوئے، بہت سے آدمیوں کے پاؤں کی آہٹ سن کر ایک عورت اندر سے نکلی، چاند ابھرا، عورت کیا نکلی ماہتاب ماند پڑ گیا۔ لباس سادہ مگر ہر ادا رنگین۔ اس نے سب انسپکٹر کو پہچان کر ہمدم دیرینہ کی طرح خیر مقدم کیا۔ سب انسپکٹر بھی شمع پروانہ کی طرح گرا جا رہا تھا، مجھے ان کے راز و نیاز بے محل معلوم ہوئے۔ تفتیش میں عشق بازی کا وقت نہ تھا، لیکن علاقہ کا ناواقف ہونے کے باعث خاموش تماشائی بنا رہا۔ وہ صدقے قربان کہتی ہوئے اندر لے گئی، دیا جلایا، اندر گئے تو ہاں اور قندیل روشن تھی۔ ایک اور چندے آفتاب چندے ماہتاب نوجوان لڑکی سلک کا لباس پہنے ابھی خواب جوانی سے اچانک اٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نیند کا خمار تھا، جسے دیکھ دماغ میں نشہ اور طبیعت میں سرور پیدا ہوتا تھا۔ بکھے بدمعاش کی ماں اور بہن تھی۔ اس کی تو اپنی عقل گم تھی، اس نظارہ طور سے کم و بیش ہم سب متاثر تھے۔ ساتھی سب انسپکٹر ایک کو لے جا کر سرگوشیوں میں مصروف ہو گیا، عورت ہنس ہنس کر بجلیاں برساتی اور آنکھوں سے سرور کی بارش کرتی تھی۔ لڑکی پولیس کی آمد سے مطلق ہراساں نہ تھی، بلکہ مسرت اس کے لبوں پر کھیلتی تھی اور وہ مسکرا کر باغ و بہار پیدا کر رہی تھی۔ کئی کانسٹیبل ماحول سے متاثر ہو کر مونچھوں پر بار بار ہاتھ پھیر رہے تھے۔ آخر وہ قتالہ عالم محشر بپا کرتی اٹھی، کوٹھڑی میں سے نیا بستر اٹھا لائی۔ ایک پلنگ پر بچھا کر میرے بیٹھنے کے انتظار میں خود کھڑی رہی۔ ایک ہیڈ کانسٹیبل نے میرا بازو پکڑ پلنگ پر بٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ کسی کی منت مان لیں، اس پر وہ مسکرا دی۔ مجھ پر اوس پڑ گئی۔ ایسی آفت جان کا پہلی دفعہ سامنا ہوا تھا، میں گر م سرد چشیدہ نہ تھا۔ سب انسپکٹر کو تو ہر فن مولانا ہونا چاہیے تھے، لیکن میں مکتب عشق کا ابجد خواں بھی نہ تھا۔ اس لیے حجاب ماب دو شیزہ کی طرح گردن جھکا کر بیٹھ گیا۔ ایک ہیڈ کانسٹیبل زبر کو یوں زیر دیکھ کر بات کرنے کے بہانہ سے مجھے وہاں سے اٹھا کر باہر لے آیا اور کہنے لگا کہ بکھے کی ماں سو کھیتیاں کھا کر آئی ہوئی رام گؤ ہے۔ جو اس سے دودھ چاہتا ہے وہ خون دے کر جاتا ہے، یہاں شب باش ہونا قرین دانش نہیں۔ دو سب انسپکٹر کے قتل کے الزام میں بری ہو چکی ہے، ایسا نہ ہو کہ کوئی تریا چلتر چل جائے۔ میں نے دوسرے سب انسپکٹر کو بلا کر سمجھایا کہ حسن کی ارزانی دیکھ کر قیمتی جان کو جوکھوں میں ڈالنا ٹھیک نہیں۔ اس نے پلٹ کر قتالہ اور آتش کی پرکالہ ماں بیٹی کودیکھا، ان کی آنکھوں میں ان کے گھر شب باش ہونے کی التجا تھی۔ سب انسپکٹر نے ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور مجھے کہا کہ راز گزر رہی ہے۔ تفتیش کے لیے گاؤں گاؤں شب خون بھی خالی از خطرہ نہیں، بے وقت جمعیت کو ساتھ لے کر داخلے پر بعض اوقات دیہاتی ڈاکو سمجھ کر حملہ کر دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں جوانی میں کامرانی کی ایسی راتیں کب ملتی ہیں، یہاں آرام کے سب سامان مہیا ہیں۔ شمع میں انتخاب کا پہلا حق تمھارا ہے۔ اس کی بے باک گفتگو سن کر میں روایتی بزدل کی طرح بالکل بدحواس ہو گیا، اِدھر اُدھر دیکھ کر اطمینان کرنے لگا کہ کوئی سنتا تو نہیں، میری سراسیمگی سے وہ سمجھ گیا کہ نرا بابو ہے۔ ابھی ٹھیک تھانیدار نہیں بنا۔
نگاہ کو دعوت نظارہ دے کر چھپ جانے والے محبوب سے سابقہ نہ تھا بلکہ عزت کو بازاری جنس سمجھ کر فروخت کرنے والوں سے معاملہ تھا۔ میرا ساتھی سب انسپکٹر آبرو کی سوداگری میں مصروف ہو گیا، میں متوفی کی خانہ تلاشی کے لیے چلا آیا۔ معلوم نہیں حسن نے عشق کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ جب ہم دوبارہ ملے تو ہم تفتیش میں اتنے مصروف تھے کہ اس رات کی رنگین داستان سن نہ سکا۔
ہاں تو میں عشق و جمال کی اس بستی سے نکل کر متوفی کے گاؤں میں رات کے آدھے بجے پہنچا۔ سوئے پڑے لوگوں کو جگایا، نمبر دار کو بلایا۔ رات کو متوفی کے گھر کی در بندی کی، نمبردار نے اتنی خاطر تواضح کی کہ مجھے اس کی خدمت خلوص پر مبنی معلوم نہ ہوئی۔ خانہ تلاشی سے کچھ نہ ملا، لیکن میں نمبردار کو باتوں میں لگا کر ساتھ لے آیا اور بڑی عزت سے پاس بٹھا کر کہا کہ تیری آؤ بھگت کا بدلہ دینا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ مجرموں کا تمھیں علم ہے، میں تم سے بھی رعایت کر دوں اور تمھاری سفارش جس کے متعلق ہو گی اس کو گزند پہنچنے نہ دوں گا۔ بشرطیکہ تو بات صاف صاف بیان کر دے، یہ تیر خوب نشانہ پر لگا، اس کی حالت یہ ہو گئی کہ کچھ کہنا چاہتا ہے، مگر رکتا ہے، اس کا رنگ اور متغیر ہو گیا۔ پھر کہا کہ مجھے آدھ گھنٹے کی مہلت دو، میں تشفی دی اور مہلت منظور کی۔
بعض افسر، ماتحتوں کی کاوشوں کو اپنے اعمال نامہ میں درج کروانا چاہتے ہیں، کوئی جان جوکھوں اٹھائے، وہ ڈائری میں اپنا کارنامہ بتاتے ہیں۔ ہمارا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ انچارج تفتیش ایسا ہی بزرگ تھا۔ معلوم نہیں اسے الہام ہوا کہ وہ اچانک آ موجود ہوا، مجھ پر رعب گانٹھا اور یہ کہتا ہوا نمبر دار کو اٹھا کر لے گیا کہ نیا افسر خرانٹ ملزم کو کیا چلائے گا۔ شام تک نمبردار کے ساتھ ناکام مغز ماری کی، لاچار ہو کر نمبر دار کو پھر میرے حوالہ کیا۔ میں نے پھر دم دلاسا دے کر پوچھنا چاہا ، مگر وہ ہر بات کو سبز باغ سمجھنے لگا اور باتوں کے طوطے بنا بنا کر اڑاتا رہا۔ میں نے بھی سمجھ لیا کہ شکار بدک گیاہے، اس وقت دام میں نہ آئے گا، چنانچہ بات صبح پر اٹھا رکھی۔
سویر ہوئی تو اس نے میرے ہر سوال پر رات کے جواب دہرانے شروع کر دیے۔ میں نے مکار فقیر کی طرح جلال میں آ کر کہا کہ جا بدنصیب! میں تیری کچھ خدمت کرنا چاہتا تھا، تمھاری قسمت ہی ایسی ہے۔ جب وہ کمرہ کے باہر جانے لگا تو میں نے بازار میں کھڑے ہو کر تمام دکھوں کی ایک ہی دوا بیچنے والے کی طرح آواز دے کر کہا کہ اب بھی لوٹ آ، ورنہ مجھے یاد کر کے روئے گا۔ میں نے دیکھا کہ جادو چل گیا، وہ پلٹا اور میرے پاؤں پڑ کر رونے گلا۔ میں نے پیر کی طرح تھپکی دے کر کہا کہ بس فکر نہ کر بیڑا پار کر دوں گا، اس نے ساری داستانِ جرم دہرائی، جس سے ہمیں مدد ملی۔ میں نے اس اطلاع کے باعث اس کے سالے کو جو ڈکیتیوں میں شامل تھا وعدہ معاف گواہ بنانے کی پرزور شفار کی۔
اصرار تکرار:
اصرار و تکرار میں عجب کرامات ہے۔ نادہند سے نادہند سے بھی ڈوبی ہوئی رقم مل جاتی ہے، مکر جانے والا مان جاتا ہے۔ بات چھپانے والا بتا دیتا ہے، میں نے یہ نسخہ جرائم میں آزمایا، اسے ہمیشہ تیر بہدف پایا، چالاک سے چالاک ملزم کو علیحدہ بٹھا کر یہی سوال کرتا اور کرواتا رہا کہ بھی ٹھیک ٹھیک بتا دو۔ ہر سوال پر ملزم لاعلمی کا اظہار کرتا رہا۔ میں اور شد و مد سے وہی سوال بار بار دہراتا رہا، خود تھک جاتا تو ہیڈ کانسٹیبل کو اسی سوال کومختلف لفظوں میں دہرانے پر لگا دیتا۔ تا آنکہ دو گھنٹوں کے اندر اندر ملزم دماغی کوفت محسوس کرنے لگتا اور جھنجھلا کر انکار کرتا۔ یہ بحران کا وقت ہوتا ہے، اس موقعہ پر جلد جلد سوال مختلف طریقوں سے دہرانا چاہیے۔ بتا دو بھی۔ سچ سچ بتا دو۔ اچھا کچھ تو کہو۔ بھی ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔ بس جلدی بتاؤ۔ جتنا جواب دینے میں جھنجھلائے گا، اتنا ہی راز جلد افشا کر دے گا۔
اس مقدمہ میں متعدد گرفتار شدہ میرے سپرد کیے گئے۔ اصرار کے اس آزمودہ گر سے تمام ملزم مجبور ہو کر رازِ دل بیان کرنے لگے۔ سب حیران تھے کہ میرے پاس کیا جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
ابھی تفتیش تشنہ تکمیل تھی کہ بڑے بھائی کی علالت نے ان کی عمر کا پیمانہ لبریز کر دیا۔ اُن کی موت سے میرے اثر پذیر دل پر قیامت ٹوٹ پڑی، یوں بھی قدرت سے اداس سی طبیعت لے کر آیا ہوں، اب اور بھی کھویا سا رہنے لگا۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ جب موت سب کے لیے مقدر ہے تو دنیا لالچ اور خود غرضی میں کیوں ڈوبی ہوئی ہے، مجھے ایک بن باسی بھلا معلوم ہوتا ہے۔ گرہستی بلاوجہ دامِ بلا میں گرفتار دکھای دیتا ہے، ہاں وہ شخص جو دنیا داری میں ایسی دین داری برتے کہ ہر وقت اپنی ہستی کو اہلِ دنیا کے لیے فنا کرنے پر آمادہ ہو، دونوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ دوسروں کو دکھ دے کر اپنا سکھ ڈھونڈنے والا بدترین مخلوق ہے، اگر عاقبت کا خیال نہ بھی ہو تو حیات چند روزہ خود غرضی کی زندگی کی متحمل نہیں، مجھے زندگی کا یہ اصول پسند ہے کہ محنت کر کے کماؤ مگر بانٹ کر کھاؤ۔ سرمایہ داری کے نظام سے مجھے طبعی نفرت ہے، میں یہ خواہش کیوں کروں کہ زیادہ سے زیادہ آرام و آسائش مجھے نصیب ہو اور ہمسایہ میری وجہ سے مبتلائے مصیبت رہے۔ عزیزوں کی موت نے مجھے قانع کر دیا اور فلسفہ زندگی کو بہتر رنگ میں میرے سامنے پیش کیا۔ نسل اور سرمایہ کی بنا پر امتیازات کا میں انتھک دشمن ہوں، چند روز کے بعد خاک میں ملنے والا اپنے ہم جنس کے لیے کتنی مصیبت کا باعث بن جاتا ہے۔ حالانکہ اخوت اور مساوات کی بنا پر انسان کو حلیم اور شفیق ہونا ہیے، ناپائدار اپنے ہم جنس کے خون سے اپنی پائداری کی تمنا کیوں کرے۔
انھی دنوں فاتح اتحادیوں نے مفتوح ٹرکی کو خوان یغما سمجھ کر آپس میں بانٹنا۔ شیر برطانیہ نے حسب معمول سب سے بڑا نجرا حاصل کیا، مسلمانوں کے قلب مجروح ہو گئے۔ عہد نامہ سیورے اسلام کی سیاسی موت پر مہر تصدیق تھی، ترک تڑپے۔ اُن کی تڑپ دیکھ کر انگریز کی غلامی پر قانع ہندوستان کا غریب مسلمان بھی تڑپا۔
استعفیٰ اور استعفے کے بعد:
اگرچہ میں نالائق افسر نہ تھا، تاہم انگریزی ملازمت کی ایک ایک ساعت میرے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ استعفیٰ دیا تو بوجھ ہلکا ہوا، میں ان دنوں لدھیانہ تھانہ صدر میں تعینات تھا، اسی جگہ میرا کامیاب لیکچر ہوا۔ جب ہاتھ لٹکاتا گھر پہنچا تو گاؤں کے لوگوں نے میری حرکت پر تعجب کیا، کچھ لوگوں نے میرے اچانک استغنا کو میری بے وقوفی پر محمول کیا۔ اس آگ کا علم نہ تھا جو مدت سے میرے سینے میں سلگتی تھی، میں ان کی سرگوشیوں سے بے پروا تھا۔ گاؤں کے لوگ مجھ سے ڈرتے تھے، مبادا وہ بھی کہیں میرے ساتھ ہی سرکارکے غصہ کا شکار نہ ہو جائیں، میں نے بدکے ہوئے جانور کی طرح انہیں آہسہ آہستہ رام کرنا شروع کیا۔ گڑھ شنکر میں پہلے حکام اور اہل دہ میں شدید بلوہ ہو چکا تھا۔ جس میں جانبین کو اندیشہ تھا کہ میری سرگرمیاں ایک دن پھر خون کی ہولی کا باعث ہو جائیں گی۔ مجھے کام کی مشکلات صاف نظر آتی تھیں، گورنمنٹ کے خلاف ایجی ٹیشن مسلمان پبلک کے لیے اچنبھا بات تھی۔ میں مشکلات کو آسان کرنے کا حل سوچ رہا تھا کہ ہوشیار پور سے لیکچر کی دعوت موصول ہوئی، مجھے خود ضرورت تھی کہ ہوشیار پور کے آزاد خیال لوگوں سے تعارف حاصل کروں، اس دعوت کو غنیمت سمجھ کر ہوشیار پور چلا گیا۔
ایک بیرسٹر کی صدارت میں تقریر کی چھتوں اور مکانوں پر بھی آدمی بیٹھے تھے، ایک شکستہ مکان کی چھوٹی اینٹیں نیچے گر گئیں۔ ایک آدمی کے لگیں، اس نے واویلا مچایا۔ حادثہ جلیانوالہ کے ڈرے ہوئے لوگوں نے سمجھا کہ شاید گولی آ لگی، ہر طرف سے شور اٹھا کہ مشین گن چل گئی، کوئی نہیں سوچتا کہ مشین گن آئی کہاں سے، عام بھاگڑ پڑ گئی۔ بھاگ دوڑ میں قیامت کا نقشہ سامنے آ گیا، صدر صاحب کو بھی یقین ہو گیا کہ فی الواقع ان کے گرد و پیش گولوں کی بارش ہو رہی ہے۔ گرمی کے دن تھے، وہ ململ کا کرتہ پہن کر آئے ہوئے تھے، مشین گن کی مدافعت میں اکتاری ململ کا کرتہ سامنے کر دیا تاکہ سینہ چھلنی ہونے سے بچا رہے۔ یہ بیرسٹر کی دماغی کیفیت کا حال تھا۔ عوام کا کیا کہنا۔ دو آدمیوں نے گولیوں سے بچاؤ کے لیے اندھے کنویں میں کود کر بزعم خود جان بچائی، کئی ایک روندے گئے اور سخت زخمی ہوئے۔ ایک صاحب زمین پر پڑے ہوئے خدا رسول کا واسطہ دے کر فرماتے تھے: جانے والو! میرا منہ کعبے کی طرف کرتے جاؤ۔ ایک اور بیرسٹر صاحب ہلکی سی دھوتی پہن کر آئے ہوئے تھے، بھاگ دوڑ میں میں کسی کا پاؤں دھوتی سے الجھ گیا، دھوتی وہیں رہ گئی۔ آپ عالم سراسیمگی میں پس و پیش سے برہنہ اپنے خیال میں جان بچائے بھاگے جا رہے تھے، کہیں وسط بازار میں احساس برہنگی ہوا، آگے پیچھے ہاتھ رکھ کر گھبرائے ہوئے ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ سینکڑوں بوٹ، جوتے، پگڑیاں، دھوتیاں وہیں رہ گئیں۔ حکام ضلع اور پولیس کو بڑی خوشی ہوئی، عوام ندامت سے مرے جاتے تھے۔
اس واقعہ کے بعد میں نے پورے جوش سے دیہات میں کام کرنا شروع کر دیا۔ میرے کام میں کوئی ہاتھ بٹانے والا نہ تھا۔ جلسہ عام کرنے کا خیال ہوا، مگر منادی کون کرے؟ ناچار خود ہی کنستر لے کر اپنی صدارت میں اپنی تقریر کا اعلان کرنا پڑا۔ میں خود ہی دریاں سر پر اٹھا کر لاتا اور خود ہی میز کرسیاں لگاتا۔ اب لوگوں کا انتظار کرنے لگا، میں نے دیکھا کہ اوّل تو بہت کم لوگ یہ تماشا دیکھنے آئے اور جو آئے وہ دری پر بیٹھنے کے بجائے آس پاس کی حویلیوں میں گھس کر پابند پردہ بیبیوں کی طرح دروازے کے دراڑوں سے دیکھنے لگے کیا کیا ہوتا ہے۔ سامعین میں سے کوئی سامنے نہ ہونے کے باوجود میں نے گورنمنٹ کے خلاف اناپ شناب کہنا شروع کر دیا۔ جب کوئی داد دینے والا نہ ہو، کوئی کب تک گلا پھاڑتا رہے، جلد ہی میں اس سعی مشکور سے باز آیا اور دریاں سر پر اٹھا کر گھر لے گیا۔ میں اپنی ناکامی سے بڑا جز بز ہوا۔ آخر میرے ایک دوست نے، جو اب حکومت کا ذمہ دار عہدہ دار ہے، مذاق میں سمجھایا کہ راجپوت تو تیرا رعب مانیں گے نہیں، بہتر ہے کہ پھر جلسہ کا اعلان کرو اور گاؤں کے جولاہوں پر رعب جما کر زبردستی جلسے کی رونق بڑھاؤ۔ لوگ ایک دفعہ لیکچر سن گئے تو جھجھک خوف جاتا رہے گا، میں نے فوراً اس کارگر تدبیر پر عمل کیا اور کچھ کامیابی ہوئی۔ اب میں دس پانچ جولاہوں کو پکڑ کر دری پر بٹھاتا تھا اور ان کو لیکچر سناتا تھا۔

جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.