اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ (قسط:۵)
حافظ عبیداﷲ
ایک اور مقام پر مزید لکھتے ہیں:
’’بعض اہل جرح وتعدیل کی کسی راوی پر جرح کرنے کی وجہ سے آپ پر واجب ہے کہ آپ اس راوی پر جرح کا حکم لگانے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ آپ پر لازم ہے کہ آپ اس معاملے میں تنقیح کریں کیونکہ یہ معاملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ کے لیے جائز نہیں کہ آپ ہر ہر جرح کرنے والے کی بات قبول کریں، خواہ وہ کسی بھی راوی کے بارے میں ہو اگرچہ وہ جرح کرنے والا ائمہ اورامت کے مشہور علماء میں میں سے ہی کیوں نہ ہوکیونکہ بسا اوقات ایسے ہوا ہے کہ جرح قبول کرنے سے کوئی مانع پایا جاتا ہے، تب جرح کو رد کرنے کے بارے میں حکم دیا جاتا ہے اور اس کی بہت سی صورتیں ہیں جو کتبِ شریعت کے ماہرین پر مخفی نہیں‘‘۔
(الرفع والتکمیل فی الجرحِ والتعدیل، ص 265 – 264)
امام محمد بن نصر مروزی رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی294ھ) نے فرمایا:
’’کُلُّ رَجُلٍ ثَبتَت عَدَالتُہ لُم یُقبَل فِیہ تَجرِیحُ اَحدٍ حَتّٰی یُبَیِّنَ ذٰلِکَ عَلَیہ بأمرٍ لَّا یُحتَمَلُ غَیرُ جَرحِہ‘‘
ہر شخص جس کی عدالت ثابت ہوجائے تو اس کے بارے میں کسی کی جرح قبول نہیں ہوگی حتیٰ کہ اس کے بارے میں تجھے واضح ہوجائے کہ اس کے بارے میں جرح کے علاوہ کوئی اور احتمال نہیں۔
(تہذیب التہذیب ، ج3 ص 138، مؤسسۃ الرسالۃ)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 728ھ)نے فرمایا:
’’اِذا کَانَ الجَارِحُ والمُعَدِّلُ مِنَ الاِئِمَّۃِ لَم یُقبَل الجَرحُ اِلَّا مُفَسَّراً فَیَکُونُ التَّعدِیلُ مُقَدَّماً عَلَی الجَرحِ المُطلقِ‘‘ ۔
جب جرح کرنے والے اور تعدیل کرنے والے دونوں ائمہ میں سے ہوں تو پھر تعدیل مطلق جرح پر مقدّم ہوگی (یعنی صرف جرحِ مفسّر ہی قبول کی جائے گی)۔
(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ ، ج 24، صفحہ 351، طبع المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ)
امام عبداﷲ الزیلعی الحنفی رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 762ھ) نے فرمایا:
’’وَمُجرَّدُ کَلامٍ في الرَّجُلِ لَا یُسقِطُ حَدِیثَہ وَلَو اعتَبَرنا ذٰلِکَ لَذَہَبَ مُعظَمُ السُّنَّۃِ اِذ لَم یَسلَم من النَّاسِ اِلَّا مَن عَصمَہ اﷲ تعالیٰ۔‘‘
’’کسی آدمی پر مجرد کلام اس کی حدیث کو ساقط نہیں کردیتا۔ اگر ہم اس طرح کریں گے تو پھر سنت کا بہت سا حصہ جاتا رہے گا کیونکہ لوگوں کے کلام سے صرف وہی بچا ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے بچایا ہو۔‘‘
(نصب الرایۃ لأحادیث الہدایۃ، ج 1 ص341)
حافظ ابن عبدالبر رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 463ھ) فرماتے ہیں:
’’صحیح بات یہ ہے کہ ایسے شخص کے بارے میں کسی کی بات قبول نہیں کی جائے گی جس کا عادل ہوناثابت ہو، علم کا امام ہونا مشہور ہو، ایسے شخص کے بارے میں کسی شخص کا بلا دلیل قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘
(ملخصاً: جامع بیان العلم وفضلہ، ج2 ص1093، دار ابن الجوزی)
یہ ساری تفصیل اس لئے بیا ن کی گئی کہ بعض لوگ اپنا باطل نظریہ ثابت کرنے کے لئے اور صحیح احادیث کو ضعیف اور موضوع ثابت کرنے کے لئے اس کلیے کو استعمال کرتے ہیں کہ جرح تعدیل پر مقدم ہے اور پھر ایسے راوی کو جو مشہور امام اور محدث ہو ، جس کی جلالت شان اور ثقہ ہونے پر علماء جرح وتعدیل کی اکثریت کا اتفاق ہو ، جس سے امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ ومسلم رحمتہ اﷲ علیہ نے روایات کی کثیر تعداد نقل کی ہو اس کے بارے میں دور دراز سے کوئی ایسی جرح تلاش کرکے لاتے ہیں جو مبہم اور غیر مفسر ہوتی ہے اور ان جمہور ائمہ کے اقوال کا ذکر نہیں کرتے جنہوں نے اس شخصیت کی توثیق اور تعدیل کی ہوتی ہے ۔
یاد رہے کہ کسی بھی راوی کے تعارف میں صرف جرح کا ذکرکرنا اور توثیق ذکر نہ کرنا درست نہیں ، امام شمس الدین الذہبی رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 748ھ) نے ابن الجوزی رحمتہ اﷲ علیہ پر تنقید کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے :
’’وہٰذا مِن عُیُوبِ کِتَابِہ ، یَسردُ الجَرحَ ، وَیَسکُتُ عن التَّوثَیقِ‘‘ یہ ان کی کتاب (موضوعات ابن الجوزی) کے عیوب میں سے ہے کہ وہ راوی پر جرح کا تو ذکر کرتے ہیں لیکن توثیق پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
(میزان الاعتدال، ج1 ص57 – 58، مؤسسۃ الرسالۃ)
منکرینِ حدیث عام طور پر اور جناب تمنا عمادی صاحب خاص طور پر اسی روش پر چلتے نظر آتے ہیں ، بخاری ومسلم کے مشہور راویوں پر جن کی جلالت شان اور علو مرتبت پر اتفاق پایا جاتا ہے کو ضعیف اور کذاب ثابت کرنے کے شوق میں تمام ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کو چھپاتے ہیں اور چند مبہم اور غیر مفسر تنقیدی کلمات کو جرح بنا کر پیش کرتے ہیں اور پھر ان رواۃ کی بیان کردہ روایات کے بارے میں سیدھا ’’موضوع اور مکذوب‘‘ ہونے کا فیصلہ صادر کردیتے ہیں ، جیسا کہ آپ کو تمنا عمادی صاحب کی کتاب میں جابجا نظر آئے گا ۔
جبکہ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ جب تک کسی روایت کے تمام طرق اور تمام سندوں کا جائزہ نہ لے لیا جائے ، اس وقت تک کسی ایک سند یا کسی ایک راوی کی بناء پر حدیث کو ضعیف یا موضوع قراردینا علم حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔ چنانچہ امام ابن الصلاح ؒ ایک جگہ یوں فرماتے ہیں کہ :
’’حدیث کا ضعف دو قسم کا ہوتا ہے۔ایک ضعف وہ ہے جو سند کے بہت زیادہ طرق ہونے کی وجہ سے زائل ہوجاتا ہے اور یہ تب ہے کہ اس کا ضعف راوی کے سوء حفظ کی وجہ سے ہو جبکہ راوی اہل صدق ودیانت میں سے ہو، جب ہم اس سے مروی حدیث کو دیکھیں کہ اسے کسی اور نے بھی روایت کیا ہے تو ہم جان لیں گے کہ اس نے اسے حفظ کیا اور اس میں اس کے ضبط میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اور اسی طرح جب ضعف ارسال کے باعث ہو تو یہ بھی زائل ہوجاتا ہے۔ جیسے وہ مرسَل جو کسی امام وحافظ کی ارسال کردہ ہو ، اس میں بہت معمولی ضعف ہوتا ہے جو کسی دوسرے طریق سے زائل ہوجاتا ہے۔ اور ایک ضعف وہ ہے جو زائل نہیں ہوتا کیونکہ یہ ضعف بہت قوی ہوتا ہے جسے زائل کرنے والا کوئی سبب نہیں پایا جاتا۔ اور یہ ضعف ہے جو راوی کے جھوٹ سے مطعون ہونے یا حدیث کے شاذ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے‘‘۔
(ملخصاً: علوم الحدیث المعروف بمقدمۃ ابن الصلاح ، ص 34)
اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ اثباتِ حدیث صرف سند پر موقوف نہیں اور سند میں صرف مطلق ضعف سے حدیث ضعیف یا موضوع نہیں بنتی۔
چند باتیں صحیح بخاری و صحیح مسلم کے بارے میں
امامین ہمامین بخاری ؒ ومسلمؒ نے اپنی اپنی صحیح میں جن راویوں سے اصول میں احتجاج کیا ہے ان سب کے ثقہ ، معتمد اور قابل قبول ہونے جمہور ائمہ کا اتفاق ہے ، ہاں جو روایات انہوں نے بطور متابعات وشواہد ذکر کی ہیں ان کے راویوں میں کہیں کلام کی گنجائش مل سکتی ہے ، چنانچہ امام ابن الصلاح ؒ لکھتے ہیں :
’’سب سے پہلے جس نے صرف صحیح احادیث پر مشتمل کتاب لکھی وہ امام ابوعبداﷲ محمد بن اسماعیل البخاری ہیں ، پھر ان کے بعد امام مسلم بن الحجاج نے صحیح لکھی…… اور ان دونوں کی کتابیں (یعنی صحیح بخاری وصحیح مسلم) اﷲ کی کتاب کے بعد صحیح ترین کتابیں ہیں ……پھر ان دونوں کتابوں میں سے صحیح بخاری صحت میں برتر ہے ‘‘
(ملخصاً: علوم الحدیث (مقدمۃ ابن الصلاح) ، ص 17 – 18)
پھر آگے لکھتے ہیں :
فقد رُوینا عن البخاري أنہ قال : ما أدخلتُ فی کتابي الجامع اَلَّا ما صَحَّ وترکتُ من الصِّحاح لحال الطول، ورُوینا عن مسلمٍ أنہ قال: لیس کل شيء عندي صحیحٌ وضعتہ ہہنا یعني فی کتابہ الصحیح‘‘ ایسی بات نہیں ہے کہ ان دونوں (بخاری ومسلم) نے تمام صحیح احادیث اپنی صحیحین میں لکھ دی ہیں اور نہ ہی ان دونوں نے ایسا کوئی التزام کیا ہے ، ہمیں امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ آپ نے خود فرمایا کہ ’’میں نے اپنی کتاب میں صرف وہی چیز داخل کی ہے جو صحیح ہے ، جبکہ میں نے بہت سی صحیح احادیث طوالت کے خوف سے ترک کردی ہیں‘‘ (یعنی اپنی کتاب میں نقل نہیں کیں) ، اسی طرح ہمیں امام مسلم رحمتہ اﷲ علیہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے فرمایا ’’ایسی بات نہیں ہے کہ میں نے ہر وہ حدیث جو میرے نزدیک صحیح ہے اُسے اپنی کتاب میں رکھ دیا ہے ۔‘‘ (یعنی دونوں اماموں نے اپنی اپنی صحیح میں صرف صحیح روایات نقل کرنے کا تو التزام کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف وہی احادیث صحیح ہیں جو ان دونوں کتابوں میں ہیں اور ان کے علاوہ کوئی صحیح حدیث نہیں۔ ناقل) ۔
(علوم الحدیث (مقدمۃ ابن الصلاح) ، صفحہ 19)
صحیح بخاری کے بارے میں شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
’’ورَویٰ الاِسماعِیليُ عنہ قال : لم اُخرِج في ہذا الکتابِ اِلّا صَحِیحاً، وَما تَرکتُ من الصحیحِ أکثر، قال الاِسماعیلي: لأنہ لو أخرج کل صحیح عندہ لَجَمعَ في الباب الواحدِ حدیث جماعۃ من الصحابۃِ ولذَکَرَ طریق کل واحدٍ منہم اذا صحت فیصیر کتاباً کبیراً جداً‘‘ اسماعیلی نے امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ سے روایت کیا ہے کہ امام نے فرمایا ’’میں اِس کتاب (یعنی صحیح بخاری) میں وہی روایت ذکر کی ہے جو صحیح ہے ، اور جو صحیح روایات میں نے ترک کردی ہیں (یعنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیں) وہ اس سے بھی زیادہ ہیں ، اسماعیلی کہتے ہیں کہ اگر امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ وہ تمام روایات نقل کرتے جو اُن کے نزدیک صحیح ہیں تو آپ کو ہر ایک باب میں صحابہ ؓ کی ایک جماعت کی احادیث ان کی اسناد کے ساتھ ذکرکرنا پڑتیں اس طرح یہ ایک بہت بڑی کتاب بن جاتی ۔
(ہدي الساري مقدمۃ فتح الباري ، صفحہ 7 ، المکتبۃ السلفیۃ)
آگے تحریر فرماتے ہیں :
’’امام ابوجعفر محمود بن عمرو العقیلی کا بیان ہے کہ جب امام بخاری نے صحیح بخاری تالیف کی تو اسے امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام علی بن المدینی وغیرہم پر پیش کیا ، ان تمام لوگوں نے انہیں دادِ تحسین دی اور کتاب کے صحیح ہونے کی گواہی دی سوائے چار حدیثوں کے ، عقیلی کہتے ہیں کہ ان چار حدیثوں میں بھی امام بخاری کی بات ہی درست ہے اور یہ صحیح ہیں۔‘‘
(ہدي الساري مقدمۃ فتح الباري ، صفحہ 7 ، المکتبۃ السلفیۃ)
پھر فرماتے ہیں:
’’تقرر أنہ التزم فیہ الصحۃ وأنہ لا یورد فیہ الا حدیثاً صحیحاً‘‘
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں صحت کا التزام کیا ہے اور اس میں صرف صحیح حدیث ہی ذکر کرتے ہیں۔
(ہدي الساري مقدمۃ فتح الباري ، ج 1 ص 8)
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
’’ہر انصاف پسند کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ’’صحیح‘‘ کے مصنف کا کسی راوی سے حدیث نقل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ راوی اس کے نزدیک عادل ، ضابط اور قابل اعتماد ہے ، اور پھر جمہور ائمہ نے ان دونوں کتابوں کا نام صحیحین رکھا ہے، یہ گویا جمہور کی طرف سے ان دونوں کتابوں میں موجود ان تمام راویوں کی تعدیل کا اقرار ہے جن سے (بخاری ومسلم) نے اصول میں روایت لی ہے ، البتہ وہ راوی جن کی روایات انہوں نے متابعات وشواہد اور تعلیقات میں ذکر کی ہیں ان میں مختلف درجات کے راوی پائے جاتے ہیں جن میں سے کچھ پر ضبط وغیرہ کے حوالے سے کلام کی گنجائش ہے لیکن اس کے باوجود ان کا صدق ثابت ہے۔ لہٰذا اگر صحیحین کے راویوں میں سے کسی پر کسی نے طعن یا جرح کی ہے تو وہ امام (بخاری و مسلم) کی تعدیل کے مقابلے پر ہے پس وہ جرح صرف اس صورت میں قابل قبول ہوگی جب مفسرّ ہو اور اس کا ایسا واضح سبب بیان کیا جائے جو اس راوی کی عدالت اور ضبط کو واقعی داغدار کرے…… کیونکہ مختلف ائمہ کے نزدیک اسبابِ جر ح میں بھی تفاوت پایا جاتا ہے ، ایک امام کے نزدیک ایک جرح راوی کو داغدار کرتی ہے تو دوسرے کے نزدیک نہیں کرتی، شیخ ابو الحسن مقدسی ؒ اس شخص کے بارے میں جس کی راویت صحیح میں لائی گئی ہے کہا کرتے تھے کہ وہ پُل پر سے گذرگیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بارے میں کسی قسم کی جرح قابل التفات نہیں۔‘‘
(خلاصہ: ہدي الساري مقدمۃ فتح الباري، ص 384)
شارح صحیح مسلم امام یحییٰ بن شرف النوویؒ (متوفی 676ھ) لکھتے ہیں :
’’اِتَّفَقَ العُلَمَاءُ عَلیٰ اَنَّ اَصَحَّ الکُتُبِ بعد القُرآنِ العَزِیزِ الصَّحِیحَانِ البخاري ومُسلِم وتَلَقَّتہُمَا الاُمَّۃُ بِالقُبُولِ۔‘‘
تمام علماء (حدیث) اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتابیں امام بخاری ومسلم کی صحیحین ہیں اور ان دونوں کتابوں کو امت کی تلقی بالقبول بھی حاصل ہے ۔
(المنہاج شرف صحیح مسلم بن الحجاج ، ج 1 ص 14 ، طبع مصر)
پھر آگے امام نووی فرماتے ہیں کہ صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر ترجیح حاصل ہے، کیونکہ امام بخاری کی شرائط زیادہ سخت ہیں ، اس کی ایک مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’امام مسلم رحمتہ اﷲ علیہ کے نزدیک مُعَنعَن سند( یعنی وہ سند جس میں ایک ثقہ راوی دوسرے ثقہ راوی سے ’’عَن‘‘ کے ساتھ روایت بیان کرے) متصل سمجھی جائیگی اگر صرف یہ ثابت ہوجائے کہ روایت کرنے والا اور جس سے روایت کی جار ہی ہے دونوں ایک ہی زمانے میں ہوئے ہیں، اگرچہ ان دونوں کی ملاقات ثابت نہ ہو۔ جبکہ امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے نزدیک ’’مُعَنعن‘‘ سند میں دونوں کا صرف ایک زمانے میں ہونا کافی نہیں بلکہ ان دونوں کی ملاقات کا ثابت ہونا بھی ضروری ہے‘‘۔ (ملخصاً : المنہاج شرف صحیح مسلم بن الحجاج ، ج 1 ص 14 )
امام نووی رحمتہ اﷲ علیہ کی اس بات سے ایک اور بات بھی واضح ہوگئی کہ صحیح بخاری کی وہ تمام احادیث جن سے امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے اصول میں حجت پکڑی ہے اگر ان میں سے کسی حدیث کی سند میں ’’عن‘‘ آیا ہے تو کسی قسم کی پریشانی کی ضرورت نہیں کیونکہ امام بخاری نے اس وقت تک وہ سند ذکر نہیں کی جب تک یقین نہیں کرلیا کہ ان دونوں راویوں کی ملاقات ثابت ہے۔
حافظ شمس الدین الذہبی رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 748ھ) لکھتے ہیں :
’’شیخان (یعنی بخاری ومسلم) نے جن راویوں سے احادیث کی تخریج کی ہے ان کی دو قسمیں ہیں ، پہلی قسم وہ جن سے انہوں نے اصول میں احتجاج کیا ہے ، اور دوسری قسم ان راویوں کی جن کی روایات متابعات و شواہد کے طور پر لائے ہیں ۔ اب وہ جن سے انہوں نے (اصول میں) حجت پکڑی ہے چند ایسے ہوں گے جن کی نہ ہی توثیق کی گئی ہے اور نہ ہی ان پر کوئی جرح کی گئی ہے تو ایسے راوی ثقہ ہیں ان کی حدیث مضبوط ہے ۔ کچھ ایسے ہوں گے جن سے انہوں نے حجت پکڑی ہے لیکن اس راوی کے بارے میں کلام کیا گیا ہے (یعنی اس پر جرح کی گئی ہے۔ناقل) تو یا ایسا ہوگا کہ اس پر جرح تعصب کی بناء پر کی گئی ہوگی جبکہ جمہورکے نزدیک وہ راوی ثقہ ہے تو ایسے راوی کی حدیث بھی قوی اور مضبوط ہے۔ اور یا اس راوی کے حفظ و تلیین سے متعلق جو کلام کیا گیا ہے وہ واقعی معتبر ہوگا تو اس صورت میں بھی اس راوی کی حدیث حسن کے درجے سے نیچے نہیں ہوگی جو کہ صحیح کا سب سے نچلا درجہ ہے ۔ پس اﷲ کا شکر ہے کہ صحیحین (یعنی صحیح بخاری وصحیح مسلم) میں ایسا کوئی راوی نہیں جس سے امام بخاریؒ و امام مسلمؒ نے اصول میں حجت پکڑی ہے اور اس کی روایات ضعیف ہوں بلکہ (تمام) یا تو حسن ہیں یا صحیح ہیں ۔‘‘
(ملخصاً : الموقظۃ فی علم مصطلح الحدیث ، ص 79 – 80، دار البشائر ۔ بیروت)
حافظ محمد بن عبدالرحمن السخاوی رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 902ھ)نے امام ابو اسحاق ابراہیم بن محمد اسفرائنی (متوفی 418ھ) کا قول نقل کیا ہے ، آپ نے فرمایا:
’’اَہلُ الصنعۃِ مُجمَعُون علیٰ اَنَّ الاَخبَارَ الَّتِی اِشتَمَلَ عَلَیہَا الصَّحِیحَان مَقطُوعٌ بِصِحَّۃ اُصُولِہا ومُتُونِہا وَلَا یَحصلُ الخِلَافُ فِیہا بِحَالٍ وَاِن حَصَلَ فَذٰلِکَ خِلَافٌ فِی طُرُقِہا ورُوَاتِہا۔‘‘
فنِ حدیث کے ماہرین کا اس پر اجما ع ہے کہ صحیحین کے تمام اصول ومتون قطعاً صحیح ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اعتبار سے ہے۔
(فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث، ج 1 ص 93 ، دار المنہاج۔ الریاض)
یہی بات شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اﷲ علیہ نے بھی النکت علی کتاب ابن الصلاح، ج 1 ص377 میں نقل کی ہے ۔
مسند الہند شاہ ولی اﷲ دہلویؒ (متوفی 1176ھ) لکھتے ہیں :
’’أمَّا الصَّحِیحَان فَقَد اتَّفَقَ المُحَدِّثُونَ عَلیٰ اَنَّ جَمِیعَ مَا فِیہا مِنَ المُتَّصِلِ المَرفُوعِ صَحِیحٌ بالقَطعِ، واَنَّہُمَا مُتَوَاتِرَانِ اِلیٰ مُصَنِّفِیہما، واَنَّ کُلُّ مَن یُہَوِّنُ اَمرَہُمَا فَہُوَ مُبتَدِعٌ مُتَّبِعٌ غَیرَ سَبِیلِ المُؤمِنِین۔‘‘
صحیح بخاری وصحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقیناً صحیح ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچی ہیں ۔ جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے۔
(حجۃ اﷲ البالغۃ، ج 1 ص 232 ، دار الجیل بیروت)
مسند احمد و سننِ ترمذی کے محقق علامہ احمد محمد شاکر ؒ (متوفی 1377ھ) لکھتے ہیں :
’’محققین علماء حدیث کے نزدیک یہ بات بلاشبہ حق ہے کہ صحیحین (یعنی صحیح بخاری وصحیح مسلم) کی تمام احادیث صحیح ہیں، نہ ان کی کسی حدیث میں کوئی طعن ہے اور نہ ہی کوئی ضعف ہے ، اور جو امام دار قطنی رحمتہ اﷲ علیہ وغیرہ نے کچھ احادیث پر تنقید کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چند احادیث صحت کے اُس اعلیٰ مرتبہ کو نہیں پہنچتیں جس کا التزام دونوں اماموں نے اپنی کتابوں میں کیا ہے ، ورنہ ان احادیث کے فی نفسہ صحیح ہونے میں کسی کو بھی اختلاف نہیں‘‘۔
(ملخصاً: الباعث الحثیث شرح اختصار علوم الحدیث، حاشیہ، ص 33 ، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
علامہ محمد انور شاہ کاشمیری ؒ (متوفی 1352ھ) امام دار قطنیؒ کی طرف سے صحیح بخاری کی بعض روایات کی سندوں پر تنقید کے باری میں فرماتے ہیں :
’’ثُمَّ ان الدار قطنی تتبَّع علی البخاریِّ فی أزید من مائۃ موضع، ولم یستطع أن یتکلم اِلّا فی الاسانید بالوصل والارسال غیر موضع واحد …… (الی ان قال) …… وَوَجہُہ أنَّ الدّارقطنی یمشی علی القَوَاعِدِ المُمَہَّدَۃِ عِندَہُم، فَیُنَازِعُہ مِن القَوَاعِدِ، وَشَأنُ البخاریِّ أرفَعُ مِن ذٰلِکَ فَاِنَّہ یَمشِی عَلیٰ اجتِہَادِہ……۔‘‘
امام دار قطنی نے امام بخاری پر سو سے زائد مقامات پر تتبع کیا ہے (یعنی تنقید کی ہے) لیکن سوائے ایک مقام کے باقی ہر جگہ صرف سندوں کے وصل وارسال پر ہی کلام کر سکے ہیں (حدیث کے متن یا مضمون پر کوئی اعتراض نہیں کرسکے) …… (آگے فرماتے ہیں) …… امام دار قطنی قواعد مصطلحہ پر چلتے ہیں اور انہی قواعد کی بنا پر اختلاف کرتے ہیں ، مگر امام بخاری کا مقام اس سے کہیں بلند ہے وہ اپنے اجتہاد پر عمل کرتے ہیں (یعنی امام بخاری تو بجائے خود امام ومجتہد ہیں وہ جو بات کہیں وہ بذات خود ایک قانون اور اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے ، اس لئے امام دار قطنی وغیرہ نے جو صحیح بخاری کی احادیث کو قواعد کی بنیاد پر تولنا چاہا ہے وہ محل نظر ہے۔ ناقل)۔
(فیض الباری علی صحیح البخاری ، ج 1 ص 52، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
بعض لوگوں نے کتب اسماء الرجال (تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال، تقریب التہذیب، الجرح والتعدیل، وغیرہا من الکتب) میں سے صحیحین کے بعض راویوں پر بعض جرحیں نقل کرکے ان کی روایات رد کرنے کی کوشش کی ہے ، انہی میں سے ایک جناب تمنا عمادی صاحب بھی ہیں ،یاد رکھیں! صحیحین کی اصولی روایتوں پر اسماء الرجال کی کتابوں میں یہ جرحیں دیکھ کر شبہ میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تمام جرحیں یا تو اصل جارحین سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہی نہیں لہٰذا بے سند ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہیں ، یا اگر اصل جارحین سے ثابت بھی ہیں تو جیسا کہ بیان ہوا ، جمہور کی توثیق یا تعدیلِ صریح کے مقابلے میں جرح غیر صریح وغیر مفسر مردود ہوتی ہے ، انہی کتابوں میں اسی جگہ اسی راوی کے بارے میں جمہور ائمہ کے توثیقی اقوال بھی موجود ہیں جو یہ حضرات جان بوجھ کر ذکر نہیں کرتے اور اس طرح علمی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں ،لہٰذا جناب تمنا عمادی ودیگر ہمنواؤں کی صحیحین کے بنیادی اور واصولی راویوں پر جرحیں جمہور اور اجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود وباطل ہیں ۔
بعض لوگ تدلیس یا اختلاط کی وجہ سے بھی جرح کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی اصول حدیث کی کتابوں میں ہی لکھا ہے کہ ثقہ مدلِّس راوی کی روایت تصریح سماع یا معتبر متابعت وصحیح شاہد کے بعد صحیح وحجت ہوتی ہے اور مختلط کی اختلاط سے پہلے والی روایت بھی بالکل صحیح ہوتی ہے ، لہٰذا اصولِ حدیث وروایت میں سے ایک بات لے لینا اور دوسری بات کو چھوڑ دینا درست نہیں۔
اب آئیے نظر ڈالتے ہیں ان احادیث پر جن کے اندر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی خبر دی ہے ، تمام احادیث کا احاطہ کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب درکار ہے لہذا سرِدست ہم مختلف صحابہ کرام ؓ سے مختلف سندوں کے ساتھ مروی منتخب احادیث کا ایک مجموعہ آپ کے سامنے پیش کریں گے، اور ان احادیث پر منکرینِ حدیث نے عام طور پر اور جناب تمنا عمادی صاحب نے خاص طور پر اصولِ حدیث کی رُو سے جو اعتراضات اٹھائے ہیں ان کا جائزہ اصولِ حدیث ہی کی رُو سے لیں گے (عمادی صاحب کے اپنے بنائے ہوئے خیالی مفروضوں کا جواب دینے کی ہم ضرورت محسوس نہیں کرتے) اگر کسی کو احادیث ِ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے مفصل مطالعہ کا شوق ہو تو علامہ انور شاہ کشمیری رحمتہ اﷲ علیہ کی کتاب ’’التصریح بما تواتر فی نزول المسیح‘‘ کا مطالعہ کرلے جس میں تقریباً تمام احادیث جمع کردی گئی ہیں۔ یا اگر امام شوکانی رحمتہ اﷲ علیہ کی کتاب ’’التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والدجّال والمسیح‘‘ مِل جائے تو اس کا مطالعہ کرلیا جائے۔
(جاری ہے)
ء ء ء