جمعۃ المبارک، ۲۳؍ رجب ۱۳۹۸ھ/ ۳۰؍ جون ۱۹۷۸ء، وہاڑی (آخری قسط)
خطاب: مولانا سید ابومعاویہ ابوذر حسنی بخاری رحمتہ اﷲ علیہ
حضرت عمر نے ترکیب جو نکالی ہے سبحان اﷲ۔ اُن کی تو بالکل غیر محرم تھیں۔ حضور کی تو پھر بھی محرم تھیں تو حضور نے ہاتھ نہ لگایا۔ عمر ابن خطاب کی کیا لگتی تھیں؟ اُن کی تو کچھ بھی نہیں لگتی تھیں۔ فرمانے لگے کہ ہند پیالے میں ہاتھ ڈال۔ تو ہند نے یوں ہاتھ ڈالے۔ بڑا پیالہ تھا۔ سامنے سے حضرت عمر نے ہاتھ ڈال دیے۔ پانی سے پانی تو ملا ہے، ہاتھ سے ہاتھ نہیں ملا۔ حضرت عمر ابن خطاب حضور کے کلمات دہرائے ہوئے پڑھتے تھے اور اُدھر سے بی بی ہند کہتی تھیں۔ وہ کہتے تھے کہو اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ،اُدھر سے بی بی ہند کہتی تھیں اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ،پڑھنا شروع کیا اور ساری توبہ کے الفاظ کہے۔ میں توبہ کرتی ہوں کہ لَاْ اُشْرِکَ بِاللّٰہِ وَ لَاْ اَکْفُرُ بِاللّٰہِ، میں شرک نہیں کروں گی، میں کفر نہیں کروں گی۔ کرتے کرتے فقرہ آیا کہو وَ لَاْ أَسْرِقُ شَیْئاًمیں چوری نہیں کروں گی۔ ہاتھ پیچھے کھینچ لیے۔ آپ نہیں سمجھتے کہ قصہ کیا ہے؟ میں نے پڑھا تو میں اُچھل گیا۔ مجھے تو وہ عربوں والی فطرت نہ سہی خون تو میرا ہے چاہے تیرا برس گزر گئے اب بھی میرے خون میں وہ قطرہ تو ہے عربی خون کا۔ مجھے تو اس کا نشہ آیا ادب کی وجہ سے۔ میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ کیا نشہ ہے؟ یوں میں سمجھا نہیں سکتا کہ وہ کیا ادا ہے؟ ہاتھ پیچھے کھینچ لیے۔ عمر بولے مَا لَکِ یہ کیا ہوا؟ کہنے لگیں یا رسول اﷲ! میں آپ کے ہاتھوں پر سچی توبہ کر رہی ہوں، کہنے لگیں پھر میں جھوٹ نہیں بول سکتی۔ یہ کافر ہے۔ ابھی پکی مسلمان نہیں، ابھی اسلام شروع ہوا ہے۔ کہنے لگے وہ کیسے؟ کہنے لگیں أَنَا أٰخُذُ مِنْ مَالِ أبِیْ سُفْیَانَ بِغَیْرِ علمہٖ، میں تو اپنے شوہر ابوسفیان کی چیزیں نکال لیتی ہوں بغیر پوچھے اور آپ مجھ سے وعدہ لے رہے ہیں کہ میں چوری نہیں کروں گی، میرا فیصلہ کیجیے کہ میں جھوٹ نہیں بول سکتی اور میں ابوسفیان سے پوچھے بغیر اس کا مال لیے بغیر رہ نہیں سکتی، کہنے لگے: وہ کیوں؟ کہنے لگیں: یا رسول اﷲ!
اِنَّ أَبَا سُفْیَانَ رَجُلٌ شَحِیْحٌ لَاْ یُعْطِیْنِیْ مَا یَکْفِیْنِیْ وَ وَلَدِیْ۔(تطہیر الجنان، ص: ۸)
ابو سفیان کنجوس آدمی ہے۔ مجھے اتنا خرچ بھی نہیں دیتا جو مجھے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو سکے۔
وہ بات کیا تھی؟ وہ قصہ یہ تھا کہ شاہانہ مزاج تھا، زیادہ خرچ کرنے کو جی چاہتا تھا۔ ابو سفیان نگرانی کرتے تھے۔ ابو سفیان بخیل نہیں تھے وہ تو عرب کے سردار تھے، وہ کنٹرولر تھے، سخت گیر تھے۔ کیوں خرچ کیا؟ کہاں خرچ کیا؟ یہ نہیں کہ وہ دیتے نہیں تھے لیکن بیوی صاحبہ کے معیار سے کم تھا۔ کہنے لگیں:
اِنَّ أَبَا سُفْیَانَ رَجُلٌ بَخِیْلٌ وَ لَاْ یُعْطِیْنِیْ مَا یَکْفِیْنِیْ اِلَّا أَخَذْتُ مِنہُ مِنْ غَیْرِعِلْمِہٖ۔
(تطہیر الجنان، ص: ۹۔ طبع، دار الطباعت المحمدیہ الازہر، مصر)
بلا شک ابو سفیان کنجوس آدمی ہے۔ اور مجھے اتنا خرچ بھی نہیں دیتا جو میرے لیے کافی ہو سکے۔ ہاں جو کچھ میں اُس کے مال میں سے اُس کے بتائے بنا (چوری) لے لوں (بس اُس سے گزارہ کرتی ہوں)
یا رسول اﷲ! وہ تو بڑا بخیل آدمی ہے۔ کنجوس ہے، وہ تو مجھے دیتا کچھ نہیں۔ فرمایا: ’’پھر تم کیا کرتی ہو؟ ‘‘ کہنے لگیں: وہ باہر جاتا ہے میں چیزیں نکال کر خرچ کرتی ہوں۔ مسکرا اٹھے، فرمایا ترکاری اور کھانے پینے کی چیزیں لے لیا کرو، سونا چاندی نہ لیا کرو کیونکہ سونا چاندی اور پیسہ جو ہے یہ زندگی کا مدار ہے۔ خاوند کی کمائی ہے۔ اس میں سے مت لینا بغیر خاوند کی اجازت کے۔ باقی اگر مر رہی ہو اور کھانے پینے کو نہ دے تو کھانے کی چیز نکال لو۔ کیونکہ اُس کے فرائض میں ہے۔ اگر یہ مہیا نہیں کرتا تو ظالم قرار پائے گا اور اگر پیسہ نہیں بھی دیتا تو کوئی بات نہیں۔ پیسہ کما کر لانا اُس کا فرض ہے، خرچ کرنا اُس کا فرض ہے۔ دیکھئے کیا حد بندی ہے۔ فرمایا: سیاہ اور سبز رنگ کی چیزیں لے لینا، پانی، کھجور، سبزی، سرخ اور سفید یعنی سونا چاندی نہ لینا، سونا چاندی مرد کی کمائی کی جان ہے۔ وہ اگر لو گی تو خائن بن جاؤ گی۔ اب بھی مسئلہ یہی ہے۔ خاوند کی اجازت کے بغیر سونا، چاندی، نقد پیسا نہیں لینا چاہیے اور عورت اگر بھوکی مر رہی ہو اور خاوند کما کر نہیں لایا ، نکھٹو ہے یا اگر دور چلا گیا، بھوک لگ رہی ہے، بچے بلک رہے ہیں، رو رہے ہیں تو کیا اُس کا انتظار کرے؟ پھر مر جائے؟ یہ کوئی شریعت نہیں،اگر خاوند نے کہا کہ دیکھنا! اگر تم نے میری اجازت کے بغیر دو سیر سے زیادہ اناج خرچ کیا، دو دنوں میں تو میں ایسی کی تیسی پھیر دوں گا۔ غلط بات ہے۔ اگر وہ تین سیر بھی خرچ کرتی ہے تو کرے کیونکہ اس کو روٹی تو کھانی ہے، وہ اس کی لازمۂ حیات ہے۔ جب سلسلہ طے ہو گیا تو پھر کہا۔ اب میں وعدہ کرتی ہوں یا رسول اﷲ کہ لَاْ اَسْرِقُ شَیْئاً میں کوئی چیز نہیں چراؤں گی۔ جناب مسائل طے کرائے ہیں۔ اسلام کیا قبول کیا ہے، اُمّت کے مسائل حل ہوئے ہیں اور پھر پانی میں ہاتھ رکھ دیے۔ اب آخری فقرہ ہے۔ میں آپ کو یقین دلاؤں جب میں نے پڑھا میں اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے، ابا جی کو سنایا۔ اﷲ اکبر کا نعرہ لگا گئے۔ فقرہ آگے آیا ،وَلَاْ اَزْنِیْ،میں بدمعاشی بدکاری نہیں کروں گی۔ ہاتھ کھینچ لیے، مبہوت ہو گئیں۔ دانتوں میں انگلیاں لیں، کہنے لگے: کیا ہوا ہند؟ کہنے لگیں یا رسول اﷲ! کیا کوئی شریف زادی اور حلالی عورت زنا کر سکتی ہے؟ یہ کفر کی حالت میں رسول اﷲ کی ایک کافر ساس کا عقیدہ اور عمل ہے۔ اُس دور کی کافر عورت کا یہ کریکٹر ہے، ابو سفیان کی بیوی کا، وَ ہَلْ تَزْنِیْ الْحُرََّۃُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟(تطہیر الجنان، ص:۹) کہنے لگیں یہ آپ مجھ سے کیا وعدہ لے رہے ہیں میں تو حیران ہوں کہ یہ کوئی وعدہ کرنے کی چیز ہے کہ میں زنا نہیں کروں گی۔
کوئی شریف زادی اور حلالی عورت زنا کر سکتی ہے۔ یہ لکھا ہے کہ پیغمبر چپ ہو گئے اس کا جج کون ہے، اﷲ کا حکم ہے چاہے وہ زنا کرے نہ کرے، غیر معصوم ہونے کے باعث کوئی عورت کر تو سکتی ہے نا؟ عملی جواب کا مفہوم کیا ہے، بات سمجھیں کہ وہ کر نہیں رہی کر تو سکتی ہے۔ تو جواب یہ ہے پیشگی وعدہ کرو تا کہ کچھ شرم و حیا آ جائے۔ تو فرمایا: یہ تو اﷲ کا حکم ہے کرنا پڑے گا، پھر ہاتھ رکھے اور پورا عہد ہوا۔ یہ بی بی ہند کے اسلام کا قصہ ہے۔
بس یہاں اسلام قبول کرنے کے بعد یہی بی بی ہند جو تھیں، وہ رسول اﷲ کی ماں ہیں اور اب ہماری بھی ماں ہیں۔ رسول اﷲ کی بیٹی بھی ہماری ماں ہے۔ رسول اﷲ کی ماں بھی ہماری ماں ہے، رسول اﷲ کی بیوی بھی ہماری ماں ہے۔ رسول اﷲ کی ساس بھی ہماری ماں ہے۔ نہیں؟ رسول اﷲ کے گھر کی باندی بھی ہماری ماں ہے۔ اس گھر کا ہر فرد ہمارے لیے سردار ہے۔ جب اتنے دور کے رشتہ دار ہمارے لیے سردار ہیں تو کیا اُن کے قریب کے رشتہ دار ہمارے سردار نہیں ہوں گے؟ ہم تو سب کو ماننے والے ہیں۔ اُن کی بیٹی بھی ہماری ماں ہے، اُن کا بیٹا ہے تو وہ بھی ہمارا باپ ہے، ہمارے تو سبھی بزرگ ہیں۔ یہ تو دور کے رشتہ دار ہیں اور بڑی مشکل سے مسلمان ہوئے، جب اُن کا یہ مقام ہے تو جو قریبی اور پہلے کے پکے مسلمان ہیں، اُن کا مقام کیا ہو گا؟ بات سمجھ میں آئی ہے؟ تو یہ غلط فہمی شیطان ڈالتا ہے۔ جھوٹے واعظ، جھوٹے مولوی، دکاندار واعظ کہ دیکھو جی علی کے مقابلہ میں لے آئے۔ کوئی کسی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ علی کا اپنا مقام ہے، معاویہ کا اپنا مقام ہے۔ (رضی اﷲ عنہم) ہر ایک کا اسلام اﷲ کی طرف سے آیا ہے، ہر ایک کے اسلام کی تصدیق پیغمبر علیہ السلام نے کی ہے۔ تو جو جس درجہ کا بھی ہو، ہم درجہ میں بھی نہیں جائیں گے، ہمیں تو رسول اﷲ کا حکم ماننا ہے۔ آپ کا عمل جو ہے اُسے تسلیم کرنا ہے۔ جس کو آپ نے مسلمان کہا وہ ہمارا سردار اور جس کو آپ نے نہیں قبول کیا چاہے وہ پھر آسمان سے اُتر آئے ہم اُسے کبھی بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تو یہ ہے حضرت بی بی ہند کا حال۔ تو آپ دیکھ لیں کہ اس واقعہ کے بعد ابو سفیان اس سے چند گھنٹے پہلے صبح کو مسلمان ہو گئے تھے۔ اس کے متعلق حسبِ ذیل روایت قابل غور و ملاحظہ ہے:
فَلَمَّا رَأٰ ہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ وَیْحَکَ یَا أَبَا سُفْیَانَ أَلَمْ یأْنِ لَکَ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّہُ لَاْ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ قَالَ بِأَبِیْ أَنْتَ وَ أُمِّیْ مَا أَحْلَمَکَ وَ أَکْرَمَکَ وَ أَوْصَلَکَ لَقَدْ ظَنَنْتُ أَنْ لَّوْ کَانَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہٌ غَیْرُہُ لَقَدْ أغْنٰی شَیْئاً بَعْدُ قَالَ وَیْحَکَ یَا أَبَا سُفْیَانَ أَلَمْ یأْنِ لَکَ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ بِأَبِیْ أَنْتَ وَ أُمِّیْ مَا أَحْلَمَکَ وَ أَکْرَمَکَ وَ أَوْصَلَکَ أَمَا وَاللّٰہِ ہٰذِہِ فَاِنَّ فِیْ النَّفْسِ حَتَّی الْأٰنَ مِنْہَا شَیْئاً۔
(عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر للاِمام المحدث ابن سید الناس الشافعی الیعمریّ الاشبیلی الاندلسی المصری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔ المولود فی ذی القعدۃ الحرام ۶۷۱ھ، مئی ۱۲۷۳ء، المتوفی فی شعبان ۷۳۴ھ، اپریل ۱۳۳۴ء، طبع مصر:۱۳۵۶ھ،۱۹۳۷ء)
ترجمہ: جب ابو سفیان کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے روز سَحَر کے وقت فتح سے چند گھنٹے پہلے صحابہ کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد) دیکھا تو فرمایا: ’’اے ابو سفیان! تجھ پر افسوس ہے، کیا تیرے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ تو اس عقیدہ کو صحیح طور پر جان لیتا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں؟‘‘ تو ابو سفیان نے (جواباً) کہا کہ: ’’میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ جیسا انتہائی حلیم و بردبار اور آپ جیسا شریف اور سخی اور کون ہو گا؟ اور آپ جیسا بے انتہا صلہ رحمی اور قرابت داری کا لحاظ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ بلا شک مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اگر اﷲ کے سوا کوئی دوسرا معبود ہوتا تو پھر آج کچھ دیر تک تو میرے لیے ضرور کافی ہو جاتا۔‘‘ اس پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابو سفیان! تجھ پر افسوس ہے، کیا تیرے لیے ابھی تک وقت نہیں آیا کہ تو اس حقیقت کو جان لیتا کہ میں یقینا اﷲ کا رسول ہوں؟‘‘ (تو اس پر) ابو سفیان نے (جواباً) کہا کہ: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ جیسا بے انتہا صلہ رحمی اور قرابت داری کا لحاظ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ صاف سن سمجھ لیجیے اﷲ کی قسم یہ جو عقیدہ ہے اسی کے متعلق میرے دل میں ابھی تک شک و شبہ موجود ہے۔‘‘
ظہر کی نماز کے وقت بی بی ہند مسلمان ہوئیں۔ بیٹے بھی دونوں یزید اور معاویہ بھی پہلے مسلمان ہو چکے تھے۔ وہ گھر جو تیرہ ساڑھے چودہ برس تک رسول اﷲ کے سامنے جہنم کا نمونہ بنا رہا، جیسے جہنم آنکھوں کے سامنے نظر آتی رہے اور مؤمن اس کو دیکھ کر گھبراتا ہے کہ یہ کیا عذاب ہے، حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے مکہ میں یہ لوگ کفر کا جہنم بنے ہوئے تھے۔ لیکن پھر وہ وقت آیا۔ اب جو میں بات بتانے لگا ہوں غور سے سنیں، یہی بی بی اس نے جب کلمہ پڑھ لیا تو وہیں سے ساتھ ہوئیں مکہ مکرمہ سے اجازت لی کہ حضور ہمیں اپنے ساتھ رکھیے۔ کہنے لگے کہ بالکل حاضر۔ ساتھ گئے تو جاتے ہی غزوۂ طائف پیش آیا اور وہ ابو سفیان جس کے ہاتھوں سے ایک منٹ بھی مسلمانوں کو چین نصیب نہیں ہوتا تھا تو غزوۂ طائف میں جو گئے پہلی دفعہ آنکھ میں تیر آ کر کے لگا۔ ایک آنکھ وہیں ختم ہو گئی۔ وہی بی بی ہند جو غزوۂ اُحد کے اند اپنے کافر فوجیوں کو بھڑکاتی تھیں:
نَحْنُ بَنَاتُ الطَّارِقٖ
7نَمْشِیْ عَلَی النَّمَارِقٖ
9اِنْ تُقْبِلُوْا نُعَاْنِقٖ
5اَوْ تُدْبِرُوْا نُفَارِقٖ
ترجمہ: ’’ہم تو ریشمی غالیچوں پر چلنے والی شہزادیاں ہیں۔ ہم تو ستاروں کی اولاد ہیں۔ ہم زمین کی رہنے والی نہیں ہیں۔ اگر تو تم فاتح بن کر کامیاب ہو کر دشمن کو مار کر کے آئے تو ہم تمھیں گلے لگائیں گی اور اگر تم نے پیٹھ پھیری اور بھاگ گئے تو قیامت تک ہم تم کو چھوڑ دیں گی۔‘‘
انھی بی بی ہند نے پھر غزوۂ یرموک میں مسلمانوں کی طرف سے گیت پڑھے اور نعرے لگائے۔ وہاں کافروں کی طرف سے تھا یہاں مسلمانوں کی طرف سے۔ تو حضور کی وہ دعا کہ ’’میں بھی تمھارے لیے یہی تمنا اور آرزو کرتا ہوں کہ اﷲ تمھیں اور تمھارے خاندان کو اتنی عزت دے کہ دنیا دیکھتی رہے۔ حضور کی یہ دعا پوری ہوئی اور قرآن کی یہ آیت پوری ہوئی:
عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْن عَادَیْتُمْ مِّنْہُمْ مَوَدَّۃً وَاللّٰہُ قَدِیْرٌ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْم۔(ممتحنہ:۷)
یہ معاملہ بہت نزدیک آ لگا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمھارے اور اُن لوگوں کے درمیان، جن سے تم دشمنی کرتے رہے ہو دلی محبت ڈال دیں۔ اور اﷲ ہر چیز پر قابو یافتہ ہیں اور اﷲ بہت پردہ پوش اور بڑے مہربان ہیں۔
ہمارا دماغ خراب نہیں، علماء کا دماغ خراب نہیں۔ اُمّت گمراہ نہیں ہوئی، پیغمبر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ اُمّت کی اکثریت کبھی گمراہ نہیں ہو گی، کبھی گمراہی پر اکٹھی نہیں ہو گی۔ لَا تَجْمَعُ اُمَّتِیْ عَلَی ضَلَاْلَۃٍ، معاذ اﷲ مسلمانوں کا ایک پورا ملک گمراہ ہو سکتا ہے، آدھی دنیا گمراہ ہو سکتی ہے لیکن حضور کی حدیث یاد رکھیں، حضور پاک فرماتے ہیں کہ میری ساری اُمّت دنیا میں جتنے بھی مسلمان ہیں یہ کبھی بھی کسی غلط عقیدہ پر اکٹھے نہیں ہوں گے۔ یہ الفاظ یاد رکھیں، ساری اُمّت جو حضور کی ہے کبھی کسی غلط عقیدہ پر اکٹھی نہیں ہو گی۔ ایک ملک غلط عقیدہ پر ہو سکتا ہے، مثال کے طور پر اگر خدا نخواستہ سارا ملک دہریہ ہو جائے، سارے دہریے ہو جائیں، یا اﷲ نہ کرے سارے ہندو ہو جائیں یہ تو ہو سکتا ہے لیکن ساری دنیا کے مسلمان کافر ہو جائیں ایسا قیامت تک کبھی نہیں ہو گا۔ اﷲ کا ارشاد، پیغمبر کی حدیث، اﷲ کا علم یہ ایک ہی چیز ہے۔ وحی کی بنیاد ایک ہی چیز ہوتی ہے۔ اﷲ کا علم۔ پیغمبر جو کچھ فرماتے ہیں اﷲ کی مرضی سے اور اﷲ جو فرماتا ہے وہ تو اپنی مرضی سے ہے ہی۔ یہ یاد رکھیے کہ جو کچھ بھی ہم یہ کہتے ہیں، سنتے ہیں یا سناتے ہیں، یہ سب کچھ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات اور اﷲ کریم کے ارشادات کی روشنی میں ہے اور اس لیے ہے کہ جن کی عزت کے لیے اﷲ کے رسول نے دعا کی، جس خاندان کے معزز ہونے کی تمنا پیغمبر نے کی، جس خاندان اور رسول اﷲ کے درمیان محبت پیدا کرنے کا اﷲ نے وعدہ کیا، اگر ہم اُس کی محبت کا اظہار کرتے ہیں تو ہم مجرم کیوں ہیں؟ اگر ہم اُن کی عزت کرتے ہیں تو پھر ہم مجرم کیوں ہیں؟ اگر ابو سفیان، ہند، یزید، معاویہ اس خاندان کی عزت کرنا اگر معاذ اﷲ علی رضی اﷲ عنہ کی دشمنی ہوتا تو رسول اﷲ یہ دعا کبھی نہ کرتے۔ رسول اﷲ اپنے داماد اور چچا زاد بھائی کے دشمن تو نہیں ہیں، چلو ہم سے کوئی خارجی ہو سکتا ہے، ہم میں سے کوئی معاذ اﷲ علی کا دشمن بن جائے، ہو تو سکتا ہے؟ ناممکن تو نہیں، خارجی پہلے بھی ہوئے لیکن پیغمبر کو تو علی سے محبت تھی، انھوں نے علی کے ہوتے ہوئے معاویہ کے خاندان کی عزت کی تمنا کیوں کی؟ اس تاریخ کو شیعہ بھی مانتے ہیں، سُنّی بھی مانتے ہیں، خارجی بھی مانتے ہیں، رافضی بھی مانتے ہیں، سارے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اس بارے میں متفق ہیں کہ یہ حضور کی دعا ہے۔ تو معلوم ہوا اس خاندان کی عزت کی تمنا کرنا یا اس خاندان کے جو مسلمان لوگ ہیں اُن کی عزت کرنا، اُن کی عزت کے لیے کوئی ذریعہ اختیار کرنا، یہ عین دعاءِ رسول کا تقاضا ہے اور اس خاندان کی محبت کرنا، ان میں کسی سے محبت کرنا۔ میں نے کہا تھا کہ یہ کوئی رسم نہیں ہے۔ رسم وہ ہے جو ہم اپنی طرف سے مسئلہ گھڑ کے بنائیں۔ یہ تو اﷲ کے رسول کا ارشاد ہے۔ اﷲ کا اپنا ارشاد ہے تو میں نے وہ بات آپ کو بتا دی جو عام حالات میں کبھی سننے میں نہیں آئی۔ میں نے جوڑ بتا دیا اس آیت اور اس حدیث کا، اس کو یاد رکھیں۔ ایک بات اور ہے وہ ان شاء اﷲ زندگی رہی تو پھر بتاؤں گا۔
اب دعا کرتے ہیں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ مجھے بھی آپ کو بھی اور میاں عزیز شاہد کو بھی، ان کے بھائیوں کو، ان کے خاندان کواور ان کی نسل کو اپنے دین پر قائم رکھیں۔ ان سے اور ہم سے اپنی رضا کے مطابق کام لیں۔ ہمیں توفیق بخشیں کہ اسلام کے جو ہیرو ہیں، جو اُمّت کے محسن ہیں، وہ حضور کے دادوں کا خاندان ہو یا نانی کا خاندان ہو، حضور کی آل اولاد ہو، رشتہ دار ہوں، جتنے بھی مسلمان اور صحابہ گزرے ہیں، پروردگار ہمیں سب کو اُن کا خادم اور نوکر بنائیں، ہمیں صحابہ کرام کا پیروکار بنائیں۔ ہمیں سب کی عزت اور محبت نصیب فرمائے اور ہمیں ہم جب تک زندہ ہوں، اُن کی عزت اور حرمت کا مبلغ بنائیں۔ ہماری نسلوں کے اندر بھی یہ نیکی دائم و قائم رہے اور یہ بھی دعا کریں کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اس محفل کو قبولیت عطا کریں۔ اس میں ریاکاری، مکاری، کوئی دنیا داری، کوئی ہیرا پھیری نہ ہو۔ ہم نے جو کچھ کیا اﷲ اُس کو اپنی رضا سمجھ کر قبول فرمائیں اور اس میں برکت ڈالیں، تاکہ اس کے نتیجہ میں اور مسلمان بھائیوں کو اس کی ترغیب ہو کہ وہ خاندانِ رسول، خاندانِ جدّ رسول اور اس خاندان میں جتنے بھی مسلمان ہیں، سب کی یاد منانے کی پاکیزہ مہم میں شریک اور معاون بن جائیں۔ (آمین ثم آمین)
ایک کی بات نہیں کرتا۔ سب کے لیے محفل کرو۔ ہم تو موجبِ ثواب سمجھتے ہیں۔ علی کے لیے محفل ہے تو موجبِ ثواب ہے۔ معاویہ کے لیے محفل ہے تو بھی موجبِ ثواب ہے۔ صدیق، عمر، عثمان کے لیے ہے وہ بھی موجبِ ثواب ہے۔ لیکن فرق اتنا ہے کہ جب کوئی بیماری ہوتی ہے، علاج اُس کا کیا جاتا ہے۔ اگر سر درد ہو تو ٹانگ کی مالش نہیں کی جاتی، مالش سر کی ہی کی جاتی ہے۔ اگر اختلاجِ قلب کا دورہ ہو تو سر پر پٹی نہیں باندھی جاتی بلکہ ورید میں ٹیکا لگایا جاتا ہے تا کہ خون کی گردش تیز ہو، اس کی رگیں خون کی جو سکڑ گئی ہیں وہ کھل جائیں، دورانِ خون ٹھیک ہو جائے، حرکتِ قلب ٹھیک ہو جائے۔ پیٹ میں درد ہو تو کانوں میں دوا ڈالی نہیں جاتی۔ آنکھوں میں تکلیف ہو تو ناک میں دوا نہیں چڑھائی جاتی۔ جہاں تکلیف ہو جیسی تکلیف ہو، علاج وہاں کیا جاتا ہے۔ یاد رکھیے صحابہ کرام کی توہین، صحابہ کرام سے دشمنی، خاندانِ ابو سفیان سے دشمنی، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ابوبکر کی یاد اپنے وقت پر ہو لیکن جب خاندانِ معاویہ بن ابی سفیان، خاندانِ یزید بن ابی سفیان، خاندانِ ابی سفیان بن حرب، جب اُن کی عزت و آبرو کا سوال آئے تو پھر اُنھی کا نام لیا جائے گا کیونکہ جہاں بیماری ہو گی علاج وہیں ہو گا۔ اگر ابوبکر صدیق کی عزت کا سوال آئے گا، اس وقت میں ہم امیر معاویہ کی بحث نہیں کریں گے۔ اس وقت میں ابوبکر صدیق کا نام زیادہ لیں گے اور جب امیر معاویہ کی عزت کا مسئلہ آئے گا تو پھر ابوبکر کو سب سے اونچا سمجھنے کے باوجود اس وقت میں ذکر ہم امیر معاویہ کا زیادہ کریں گے اور جب حضرت عائشہ کی عزت و حرمت کا مسئلہ آئے گا، تو ہم حضور کی بارہ بیبیوں کی عزت کریں گے، انھیں ماں سے زیادہ سمجھیں گے۔ لیکن تقریر امیر معاویہ پر نہیں ہو گی، پھر سیرتِ عائشہ پر تقریر ہو گی۔ تو جیسی بیماری ویسا علاج، جیسی ضرورت ویسا جواب۔ امیر معاویہ کی محفل منانے کی ضرورت اس لیے ہے کہ رافضیوں کے پروپیگنڈے سے، منکرین حدیث کے پروپیگنڈے سے، کمیونسٹوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے، بے دینوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے ہمارے عوام ہی نہیں بلکہ اچھے پڑھے لکھے مسلمان بھی گمراہ ہیں اور اس گمراہی کا علاج بجز اس کے کچھ نہیں کہ امیر معاویہ کی سیرت بیان کی جائے۔ ان کی ولادت کا قصہ بیان کیا جائے، اُن کی وفات کے حالات بیان کیے جائیں۔ حضور کے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کرنے اور وفات کے درمیان انھوں نے چالیس برس اسلام کی جو خدمت کی۔ وہ سب کچھ بیان کیا جائے تاکہ مسلمانوں کو پتا چلے کہ اندرونی آپس میں بھائیوں والے اختلافات کے باوجود اﷲ اور اﷲ کے رسول کے نزدیک اُن کا مرتبہ اور درجہ کیا تھا؟ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس حق کو سمجھنے، ماننے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین ثم آمین)
میں آپ سے التماس کروں گا کہ اس سلسلہ کو آگے چلائیں، گھروں میں ایک مہینے بعد، ڈیڑھ مہینے بعد، دو مہینے بعد محفل رکھیں۔ اس کا اعلان ہو۔ آپ قرآن خوانی کریں، اُن کی یاد ہو، اُن پر بیان ہو،اُن کی سیرت ذکر کی جائے۔ عالِم کو بلائیں، خطیب کو بلائیں، خود کھڑے ہو جائیں، تبلیغی جماعت کی نقل میں خود کوئی کتاب سیرتِ صحابہ کی لے کر گھنٹہ دو گھنٹے اُن کی سیرت بیان کریں۔ اپنے گھر کے دروازے کھول دیں۔ کوئی لاؤڈ سپیکر ہو نہ ہو، کوئی اجازت نامہ ہو نہ ہو۔ کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں۔ اپنے گھر کے صحن میں محفل کریں، عورتوں کی محفل کریں، بچوں کی محفل منعقد کریں۔ اگر مجھ سے ہو سکا تو میں بھی حاضر ہوں گا۔ کام کریں آپ۔ کام کرنے سے ہی ہو گا۔ ذرا اس کے لیے تکلیف اٹھائیں۔ آپ جدوجہد کریں۔ یہ بھی چلّہ ہے۔ چلّہ صرف ایک ہی نہیں ہوتا۔ تبلیغ کا چلّہ بازاروں میں پھرنا بھی ہے۔ تبلیغ کا چلہ اپنے گھر میں گالیاں کھانا بھی ہے۔ تبلیغ کا چلہ بیوی سے بحث مباحثہ بھی ہے، تبلیغ کا چلّہ اپنی اولاد سے لڑنا جھگڑنا بھی ہے اور تبلیغ کا چلّہ صحابہ کی خاطر گالیاں کھانا بھی ہے۔ تبلیغ کی پھر بہت بڑی عظمت یہ بھی ہے کہ پوری دنیا کی قوموں سے اپنے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاطر ٹکرا جاؤ۔ پھر اپنے دین اور قرآن کی خاطر پوری دنیا کو چیلنج کر دو۔ یہ سب تبلیغ کے درجات ہیں، کوئی بھی تبلیغ سے خارج نہیں۔
صرف یہی تبلیغ نہیں کہ مسواک کرو تو ستر ہزار حوریں مل جائیں گی۔ ایک حور بھی نہ ملے۔ ہم اندھے مقلد ہیں پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے، انھوں نے فرما دیا مجھے محبوب ہے۔ ہم حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد سے پہلے جنت کی شکل بھی نہ دیکھ سکیں گے۔ ہم سے حضور راضی ہو جائیں ہمیں سب کچھ مل جائے گا۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں ڈرتا ہوں یہ تم پر فرض نہ ہو جائے۔ لیکن میں تمھیں کہتا ہوں کہ مسواک کرو۔ وفات کے وقت میں بھی یوں دیکھا حضرت عائشہ کو۔ کوئی بھی راز نہیں سمجھا۔ علی پاس کھڑے تھے۔ عباس پاس کھڑے تھے۔ حضرت عباس کے فرزند فضل، قُثم وغیرہ پاس کھڑے تھے۔ حضرت عائشہ کو یوں دیکھا۔ فرمانے لگیں تم نہیں سمجھے کہ کیا فرماتے ہیں، وہ میں سمجھ گئی۔ مسواک لاؤ۔ راز دارِ نبوّت نے سمجھا کہ ان آنکھوں کے اشارہ کا کیا مطلب ہے؟ تو سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے مسواک لے کر اپنے منہ میں خود چبائی۔ وہ فرماتی ہیں کہ دنیا میں مجھ سے بھی زیادہ کوئی خوش نصیب ہو گا کہ جس کے منہ کا لعاب نبی کے منہ میں گیا ہے! دنیا تو نبی کے لعاب کو ترستی ہے، میں وہ خوش نصیب ہوں کہ جس کے منہ کا لعاب نبی کے منہ میں گیا ہے اور انھوں نے اُسے تھوکا نہیں اُسے قبول کیا۔سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے خود مسواک چبا کر دی تو حضور چپ ہو گئے۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ یہ مزاج شناسیٔ رسول تھی، جسے کوئی بھی نہیں سمجھ سکا۔ بس یوں دیکھا کہ اشارہ تھا؟ عائشہ کا دماغ فوراً اس طرف گیا کہ حضور کو مسواک بڑی محبوب ہے۔ وقفہ وقفہ کے بعد منہ میں ڈالا حالانکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دانت موتیوں سے زیادہ چمکیلے تھے۔ کبھی کسی شخص نے تیئیس برس دانتوں پر میل نہیں دیکھا۔ میل کا تصور تک نہیں تھا چاہے مسواک کریں چاہے نہ کریں۔ کھاتے کیا تھے؟ کھاتے کیا تھے جو میل لگتا؟ چوبیس گھنٹے میں نبی کی خوراک دیکھ لو اور پھر اپنے آپ کو دیکھ لو کہ ہم تو جانوروں کی طرح ٹھونس رہے ہیں۔ اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم جو ایک کھجور کا دانہ اور ایک گھونٹ پانی پی کر چوبیس گھنٹے اﷲ کی یاد میں مصروف رہتے۔ آ پ کا پورا وجود ہی معجزہ تھا۔ آپ کے جسم مبارک سے کیسے بو آ سکتی تھی، آپ کے پسینہ سے جب گلاب کی خوشبو آتی تھی تو دندانِ مبارک سے بو کیسے آ سکتی تھی؟ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا پسینہ ایسا ہے کہ انس بن مالک کی اماں حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم مبارک کو شیشی لگا کر اس میں پسینہ سارا اکٹھا کرتی تھیں۔ اُمّ سُلَیْم…… فرمانے لگے کیا کر رہی ہو؟ یا رسول اﷲ عِرْقُکَ نَجْعَلُہٗ طِیْباً۔ یا رسول اﷲ یہ آپ کا پسینہ ہے۔ اس کو ہم خوشبو میں استعمال کرتے ہیں۔ وَہُوَ اَطْیَبُ الطِّیْبِ عِنْدَنَا۔ اور ہمارے پاس جتنی بھی خوشبوئیں ہیں، کستوری کی، عنبر کی، زعفران کی، سب سے زیادہ جو اعلیٰ درجہ کی خوشبو ہے آپ کا پسینہ ہے۔ جب ہماری بہو بیٹیوں کی شادیاں ہوتی ہوں تو میں آپ کا پسینہ لگاتی ہوں۔ وہ پوچھتی ہیں کہ یہ کون سی خوشبو ہے؟ تو میں کہتی ہوں کہ یہ میرے نبی کا پسینہ ہے۔ ایک تو ہوتی ہے کہانی، عقیدت، یہ واقعہ ہے جس نبی کے پسینہ میں خوشبو ہو۔ اس کے دندان مبارک سے کیسے بو آ سکتی ہے؟ آپ کے خون میں بھی اﷲ نے خوشبو رکھی۔ آپ کے پسینہ میں بھی خوشبو ہے۔ اﷲ نے آپ کو سراپا معجزہ بنایا تھا۔ تو بس دعا یہی ہے کہ اس سلسلہ کو اب آپ آگے چلائیں۔ اس کو بھی چلّہ کشی میں شامل کریں اور جب تک آپ ایسا نہیں کر یں گے، آپ اس سلسلہ میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ لاکھ آپ کتابیں بیٹھ کر پڑھتے رہیں، سیرت معاویہ رضی اﷲ عنہ پر اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ عملاً جب تک آپ اس کام کو نہیں اٹھائیں گے۔ دیکھیے تبلیغی جماعت گھروں سے باہر نکلی۔ ’’ہندو‘‘ کہلوائے۔ ہندوؤں کے ایجنٹ کہلائے۔ بہروپیے کہلوائے، جاسوس کہلوائے۔ مسجدوں سے نکالا گیا۔ اب تک نکالا جا رہا ہے۔ گالیاں پڑیں، جوتیاں کھائیں،نتیجہ اس کا کیا ہے کئی لاکھ آدمی مسلمان ہو گئے۔ تو آپ کو گھر سے مثال دیتا ہوں۔ باہر نکلیے، مطلب یہ ہے بارہ مہینے ہیں سال کے، اڑتالیس ہفتے بنے۔ اڑتالیس ہفتوں میں قضاء نہیں ہونی چاہیے۔ ایک ہفتہ ابوبکر کے لیے ہے، ایک ہفتہ عمر کے لیے ہے۔ ایک عثمان کے لیے، ایک علی کے لیے ہے۔ ایک حسن حسین کے لیے، ایک معاویہ کے لیے، ایک مروان کے لیے، ایک عمرو بن عاص کے لیے، ایک شُرحْبِیْل بن حَسَنہ کے لیے، ایک عبداﷲ بن عمر کے لیے۔ ایک ابو یَعْلٰی ضمیری کے لیے، ایک جعفر بن ابی طالب کے لیے۔ ایک ابو موسیٰ اشعری کے لیے، ایک ابواُمامہ باہلی کے لیے، جو شخصیات اسلام کی ہیرو ہیں اُن کے لیے۔ ایک تاریخ امیر معاویہ کے لیے۔ ایک اُن کے بھائی یزید بن ابی سفیان کے لیے، اُن کے ابا ابو سفیان کے لیے، اُن کی والدہ ہند بنت عتبہ کے لیے۔ یہ جتنی بھی اہم شخصیات ہیں۔ اڑتالیس آدمی میں بتاؤں گا، اڑتالیس ہفتے آپ بیان کروا دیں۔ پھر دیکھو کہ سیرت زندہ ہوتی ہے کہ نہیں، دوسرے وعظ چھوڑ دیں۔ جو شخص پیٹ کے درد میں خوشبو سنگھاتا ہے مریض کو، وہ اس کے قاتلوں میں شامل ہے، جو شخص پیٹ کے مروڑ لگے ہوئے کو بھنا ہوا گوشت کھلاتا ہے وہ اس کا قاتل ہے۔ اس کی قبل از گرفتاری ضمانت بھی منسوخ ہونی چاہیے اور بغیر پوچھے اسے جیل میں بھیج دیا جانا چاہیے۔ اس قوم کو بیماری لگ رہی ہے یہودی پروپیگنڈے کی، رافضیت کی وباء عذاب بن کر مسلط ہے۔ تاریخ مسخ ہو رہی ہے، صحابہ کی سیرت کی کتابیں عوام الناس نہیں پڑھتے،کورس میں سے صحابہ کا نام نکالا جا رہا ہے، اس وقت میں بیٹھ کر مکروہ تنزیہی اور تحریمی پر بحث کرنا، نور بشر پر جھگڑے کرنا، یہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں دینے کے مترادف ہے اور جو ایسا کرے گا وہ مسلمانوں کا بدترین دشمن ہو گا۔ یہ وقت ہے کہ صحابہ کی سیرت پر پوری جان لڑا دو۔ چھے مہینے کے بعد نتیجہ دیکھ لینا۔ لوگ خود کہیں گے کہ ہم دوسری بات نہیں سنتے ہمیں وہی سناؤ۔ جیسا کہ یہ قوم چلتی ہے مولوی نہیں چلاتا اور جو مولوی چلاتے ہیں قوم اُن کے پیچھے چلتی ہے۔ مولویوں نے کہا کہ اب مرنے کا وقت ہے۔ مر جاؤ تو مر گئے کہ نہیں لوگ اب دیکھ لو ۱۹۷۷ء میں مرے کہ نہیں ؟ مولویوں نے کہا کہ مرنا ہے، اسلام آ رہا ہے۔ مر گئے بچے۔ داڑھی منڈے۔ ڈاڑھی والا تو کوئی قسمت سے مرا ہو گا۔ داڑھی منڈے سب سے پہلے نشانہ بنتے ہیں۔ اب کی مرتبہ بھی زیادہ وہی مرے۔ انھوں نے اسلام کے لیے جان دے دی۔ حیدر آباد کی گلیاں خون سے سرخ ہیں۔ کراچی خون سے لالہ زار ہے، لاہورخون میں نہا گیا ہے، کیوں؟ انھوں نے کہا بھائی جس طرح مولویوں نے ہم سے کہا ہمیں تو ان پر اعتبار ہے، عملاً مولوی خود بے ایمان نہ ہو جائے، وہ اپنا اعتبار خود نہ گنوا دے، ورنہ نوجوانوں کا کیا قصور؟ اس کا علاج یہی ہے کہ مولوی خود ثابت قدم ہو اور مولوی کو ثابت کرانے کی صورت یہ ہے کہ آپ اپنے ماحول میں یہ تحریک اتنے زور سے چلائیں کہ مسجدوں کے خطیب مجبور ہو جائیں اس موضوع پر تقریر کرنے کے لیے۔ لوگ خود کہہ دیں…… کہ ہم نہیں سنتے۔ اپنی زبان بند کیجیے۔ یہ الم غلم تفصیلات ہمیں پھر سنانا، قیامت کی دسویں کو۔ پہلے یہ بتاؤ کہ حضرت امیر معاویہ کون تھے؟ اُن کی سیرت کیا ہے؟ مطالبات شروع ہو جائیں۔ بالکل جب تک یہ مطالبات نہیں آئیں گے، جب تک یہ حالات آپ پیدا نہیں کر دیں گے۔ آپ کی گاڑی قیامت تک نہیں چلے گی۔ چاہے آپ جتنی جماعتیں بنا لیں، کبھی بھی آپ سیرت معاویہ یا سیرت صحابہ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمیْنَ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اَصْحَابِہٖ وَ اَزْوَاْجِہٖ وَ أوْلَادِہٖ وَ ذُرِیّٰتِہٖ وَ اَتْبَاعِہٖ وَ بَارِک وَ سَلِّمْ اَجْمَعِیْنَ۔
ایک دفعہ سورت فاتحہ پڑھیں۔ تین دفعہ سورت اخلاص شریف پڑھیں اور آخر میں ایک دفعہ درود شریف پڑھیں اور جو قرآن پاک یہاں تلاوت کیا گیا ہے یہ نیت کریں کہ یا اﷲ! اس قرآن پڑھنے کا ثواب امیر معاویہ کو، اُن کے بھائی یزید بن ابی سفیان کو، اُن کے والد ابی سفیان کو، اُن کی والدہ ہندہ کو، ان کی بی بی مَیْسُوْن بنت بَحْدل کو اور اُن کی آل اولاد کو، سب کو یا اﷲ قرآن کے پڑھنے کا ثواب عطا فرما۔ (آمین ثم آمین)