میمونہ عبداللطیف
بعض یک طرفہ سوچ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ صرف اسلامی تعلیم حاصل کرنا فرض ہے اور روزِ قیامت اسی کا حساب ہوگا، اس کے برعکس کچھ دنیا پرست لوگ کہتے ہیں کہ جدید دور میں اسلامی تعلیم کی سمجھ بوجھ دقیانوسی تصور ہے ،اس لیے محنت اور کاوش کو جدید علوم وفنون خاص طور پر سائنس کے شعبے میں صرف کرنا چاہیے ،بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ آج کے معاشرے میں اپنی بقاء کے لیے دینی ودنیاوی دونوں علوم کا حاصل کرنا اور انہیں اپنی عملی زندگی میں لانا لازم وملزوم ہے ،اب ایک نئی بات یہ بھی ہے کہ دنیاوی علوم وفنون بھی دین کا ہی حصہ ہیں،کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ذہنی وجسمانی صلاحیتوں کا مناسب استعمال ضروری ہے تاکہ رزق حلال کما کر دین کے کاموں کو تقویت پہنچائی جا سکے اپنا اور اپنے گھر والوں کے نان نفقہ کا انتظام کیا جاسکے ،یہ سوچ اور نظریہ مجھے میرے استاد مولانا محمد وقاص سعید سے حاصل ہوا، محترم الزیتونیہ انسٹیٹیوٹ اسلام آباد کو چلا رہے ہیں ،انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے لا ء کیا ہے، اسلامیات میں ماسٹرز ہیں اور دارالعلوم کراچی سے عالم بنے ہیں، عرصہ دوسال سے ہم ہر عید کے بعد دارالعلوم ختم نبوت چیچہ وطنی کے تعاون سے احرار گرلز ویلفیئر سوسائٹی کے زیر انتظام طالبات کے لیے ہفتہ ،دس دن کا پروگرام رکھتے ہیں،جس کی کوآرڈینیٹر ہونے کا اعزاز مجھے حاصل ہے ،ان پروگرامز میں مولانا وقاص سعید کے لیکچر ز ہوتے ہیں، پہلے تین دفعہ یہ کلاسز فہم قرآن کورس کے نام سے arrange کی گئیں جن میں عربی گرامر کے بعد قرآن پاک کا ترجمہ کرنے کا آسان طریقہ سیکھا گیا۔اس دفعہ عیدالفطر کے بعد یہ چوتھا پروگرام تھا ،لیکن اس دفعہ موضوع رکھا گیا تھا
Personal development in the light of Quran and Namaz.
قرآن اور نماز کی روشنی میں شخصیت سازی بہت ہی دلچسپ topic ہے، مرکزی مسجد عثمانیہ چیچہ وطنی میں 9 جولائی 2016 سے 14 ؍جولائی تک چھے روزہ یہ کورس arrange کیا گیا ،روزانہ صبح بعد نماز فجر 05:30 سے 07:30 تک دو گھنٹے کا دورانیہ ہوتا تھا، کورس کوارڈینیٹر کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری تھی کہ زیادہ سے زیادہ طالبات کو کورس کے مقاصد، خصوصیات اور فوائد سے روشناس کرایا جائے تاکہ آج کی سہولت پسند اور ٹیکنالوجی میں مصروف نسل کو ایک خاص اور اہم مقصد کے لیے اکٹھا کیا جائے ،میں نے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کی، جن طالبات سے بھی رابطہ ممکن تھا خاص طور پر کالج فیلوز کوکورس کی افادیت کا یقین دلانے کے لیے کی فون کے علاوہ میسیجز کے ذریعے بھی رابطہ کیا۔ مہک افتخار کالج فیلو ہے اس نے کورس میں سب سے زیادہ دلچسپی لی۔ مولانا وقاص نظریاتی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ہماری سوچ نکھارنے کاکام بخوبی انجام دیتے ہیں، میں نے جب والد صاحب (حاجی عبد اللطیف خالد چیمہ) سے کلاس میں کم حاضری کی بات کی توانہوں نے حوصلہ دیا اور کہاکہ یہ محنت طلب کام ہے ،آہستہ آہستہ پھل ملے گا،محنت جاری رکھو ،اس پر مجھے یہ شعر یاد آگیا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل لیکن لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
§ اُمید ہے ان شاء اﷲ عید الاضحی کے بعد جب اس کورس کا انتظام کیا جائے گا تو تعداد میں مزید اضافہ ہوگا، یہ سلسلہ چھ روز تک چلتا رہا ،روزانہ نئی باتیں سیکھنے کو ملتی رہیں ،پتا چلا کہ ہمارا دین بہت وسیع ہے ،دین صرف یہی مطالبہ نہیں کرتا کہ نمازیں پڑھ لو،روزے رکھ لو ،عبادت گزار بن جاؤ بلکہ لوگوں کے ساتھ اچھی dealing بھی بہت اہم ہے ،اس کے علاوہ تمام صلاحیتیں جو اﷲ پاک نے ہمیں ودیعت فرمائی ہیں ،ان کا مناسب استعمال اپنی عملی زندگی میں لانا بھی دین کا ہی حصہ ہے،مطلب یہ کہ اگر ہم سکول ،کالج میں دنیاوی تعلیم حاصل کررہے ہیں، کوئی کاروبار کررہے ہیں یا کسی بھی دوسرے دنیاوی کام میں مشغول ہیں،تو اسے دین سے الگ کرنا سراسر غلط ہے بلکہ دین کے تابع کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ ان تمام کاموں کو ایمانداری سے کرنا عینِ دین ہے، نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے اِنمَا الاعمالُ باالنیات ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘‘ نیت تو کسی بھی کام کرنے سے پہلے درست کرلی جائے تو عبادت ہے ،مثلاََ ہم روزمرہ زندگی میں اٹھنا ،بیٹھنا اوڑھنا ،بچھونا،کھانا پینا ،گفتگو کرنے سے لے کر سونے جاگنے تک مختلف کام کرتے ہیں اوراگر ان تمام کاموں کو سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطابق کر لیا جائے تو عبادت میں شمار ہوگا اور ثواب بھی ملے گا،سب سے بڑی بات کہ مالک راضی ہوجائے گا ،یہ سب کچھ میں نے مولانا وقاص سے سیکھا ہے، نماز میں ثنا اور اس کا ترجمہ کرواتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اﷲ کی خوبیوں اور عطا کردہ نعمتوں کا اعتراف کرنا ہے اور اﷲ سے شکایت نہیں کرنی۔ انھوں نے ہم سے پوچھا کہ آپ میں سے کون ہے جو آج سارا دن کسی سے بھی شکایت نہیں کرے گا، میں نے اور مہک نے فوراََ جواب دیا کہ کوشش کریں گے، انھوں نے کہاجو کوشش کرتے ہیں وہ عمل نہیں کرتے ،ہم نے کہاکہ کوشش کریں گے ،پھر ہی آہستہ آہستہ عمل کی جانب آئیں گے، انھوں نے کہاکہ اچھا اگر میں کہوں کہ کل کلاس میں لیپ ٹاپ ملیں گے تو آپ لوگ آنے کی کوشش کریں گے یا آئیں گے؟ ہم نے فوراََ جواب دیا آئیں گے ،کتنی خوبصورت مثال سے مزاح میں استاد محترم نے ہمیں بات سمجھا دی،مجھے ان کا انداز بہت زبردست لگتا ہے، اگر ان سے کچھ پوچھو کہ یہ کام کرنا درست ہے یا غلط تو وہ ڈائریکٹ (direct) ہاں یا ناں میں جواب نہیں دیں گے بلکہ کچھ ایسے حقائق اور دلائل بیان کریں گے جن سے پوچھنے والاخودہی فیصلہ کرنے کے قابل ہو جائے گا ،بہر حال بہت کچھ سیکھنے کو ملا ،اﷲ رب العزت سے دُعا ہے کہ استاد مولانا وقاص سعید صاحب کو اس کا رِ خیر کا اجر ِعظیم عطا فرمائے اور ان کی تمام کا وشوں کو قبول فرمائے۔(آمین) آخری روز 14؍جولائی بروز جمعرات مجلس احرار اسلام کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ نے گفتگو کی، انہوں نے تمام سٹوڈنٹس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ ایسی سرگرمیوں میں آپ کی دلچسپی ہی ہمارا اعزاز ہے ،اُمید ہے کہ آپ نے اس کورس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا ہوگا،ان کی گفتگو کے بعد مجلس احرار ِاسلام کے نائب صدر نواسۂ امیر شریعت سید محمد کفیل بخاری نے اختتامی گفتگو کی اور چند نصیحتوں کے بعد دُعا کروائی۔ میں مولانا محمد وقاص سعید کے ساتھ ساتھ ،عبداللطیف خالدچیمہ اور سید محمد کفیل بخاری کی شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمیں اپنے قیمتی وقت اور قیمتی خیالات سے نوازا بعدازاں سٹوڈنٹس میں انعام کے طور پر مختلف کتب تقسیم کی گئیں، ایک میز پر مختلف کتابیں رکھ دی گئیں اور سٹودنٹس نے اپنی اپنی پسند کی کتابیں لے لیں۔ اﷲ رب العزت سے دلی دُعا ہے کہ ہم نے جو کچھ سیکھا اس پر عمل کرنے اور اس طرح کے کورسز وقتاََ فوقتاََ منعقد کرانے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)