صبیح ہمدانی
برِ صغیر پاک و ہند کے مدارس اسلامیہ اس خطے میں دین اور اہلِ دین کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہیں۔ عہدِ جدید میں ان تعلیمی اداروں کی روایت کی ابتداء ۱۸۶۶ء میں دار العلوم دیوبند کے قیام سے ہوئی۔ دار العلوم سے شروع ہونے والی یہ تحریک جس کے اکثر نام لیوا اب مسلکی شناخت پر اصرار کو ہی حاصلِ وابستگی سمجھتے ہیں، یہ تحریک اپنی نہاد میں اول آخر ایک تعلیمی تحریک تھی۔ بعد میں اگر چہ اس ادارے سے وابستگی رکھنے والوں نے سیاسی، معاشرتی، معاشی، قانونی اور انتظامی شعبوں میں خدمات سر انجام دیں، لیکن اس تحریک کی اصل شناخت تعلیم و تعلم علومِ دینیہ کے سوا کچھ نہیں۔ دار العلوم کے بانیوں کے دل میں یہ یقین مستحکم تھا کہ اس پچھڑے ہوئے سماج میں شکست خوردہ امّت محض علم دین کو حاصل کرنے کے لیے اپنے جان مال اور اولاد کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے اب بھی تیار ہے۔ وہ علم جس کے حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے اسلام کے سب سے بہترین زمانے میں بھی گھر بار کے آسائشیں چھوڑ کر ایک مسجد کے چبوترے پر بھوک پیاس برداشت کرتے تھے۔ اُن چبوترے والوں میں سب سے زیادہ علومِ نبوّت کے ناقل کا تو یہ عالم تھا کہ شدّتِ جوع سے بے ہوش ہو کر گر جاتے تھے، خود فرماتے ہیں لوگوں کو خیال ہوتا کہ شاید اسے مراق ہے لیکن واﷲ سوائے بھوک کے کچھ نہ ہوتا تھا۔ صفہ کے اس چبوترے کے طالب علموں کے عالی مرتبت استاد صلی اﷲ علیہ و سلم تب تک خود کچھ نہ کھاتے پیتے تھے جب تک ان درویشانِ خدا مستان سے پہل نہ کرا لیتے ۔ حجۃّ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اﷲ نے اوّلین مجلس شوریٰ کے سامنے کچھ اصول رکھے تھے۔ ایک اصول کی ضمنی عبارت یاد آرہی ہے۔ کچھ آمدن کا اور اخراجات کے بندو بست کا ذکر تھا کہ آپ نے فرمایا: ……’’غرض ایک طرح کی بے سر و سامانی ہمیشہ ملحوظ رہے‘‘۔ نیابتِ نبوی اتنی بھی آسان اور بے قیمت نہیں۔
دوستی خونِ جگر چاہتی ہے
کام مشکل ہے تو رستہ دیکھو
دار العلوم کی تعلیم انسان کو عبد بنانے پر ہی متوجہ رہتی تھی۔ اور عبد بننے کی قیمت کے طور پر وحشیانہ سرمایہ دارانہ سماج میں جو کم حیثیتی یا کمزور معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کو ہنس کھیل کر جھیلنے کی تربیت بھی دار العلوم کے اساتذہ اپنی سیرت کی لسانِ حال سے دیا کرتے تھے کہ اُن میں سے کسی ایک کا لائف سٹائل بھی آج کے پیٹی بورژوا مولوی سے قطعاً مماثل نہیں تھا۔
دار العلوم کے مقابلے میں دیگر نظام ہائے تعلیم کا بنیادی ارتکاز طالبِ علم کے پیٹ بھرنے کی ضروریات پر تھا اور ہے۔ سر سیّد مسلمانوں کے لیے نوکریاں ہی تو فراہم کرنا چاہتے تھے۔ اب چونکہ نوکری حاصل کرنے کا اکلوتا راستہ یہ تھا کہ انگریزوں کی جہالت کو علمیت تسلیم کر لیا جائے لہذا انھوں نے اسے قبول کر لیا۔ اگر اس زمانے میں نوکریوں کے دروازے کی کنجی ہندو مہا پرشوں کی مہنتائی ماننے پر موقوف ہوتی تو وہ یقیناً اسے بھی بصد دل و جان تسلیم کرتے بلکہ سوئیکار کرتے۔
لیکن دیوبند کے وارث مدارسِ دینیہ میں نئے داخلوں کے اشتہارات میں میٹرک ایف اے کے خصوصی ذکر کے اس زمانے میں سر سیّد کو یاد کرنے کی آخر کیا تک ہے؟ جبکہ اب بڑے اور ’’مسلک کے ترجمان‘‘ مدارسِ دینیہ (جی ہاں، دینیہ) نے اپنے اشتہاروں میں صراحت بھی کر دی ہے کہ صرف سکول کی کلاسز میں داخلہ دستیاب ہے، درسِ نظامی میں داخلے کے لیے زحمت نہ کریں۔