با محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوشیار
سیف اللہ خالد
صرف حمزہ علی عباسی کا معاملہ نہیں ہے ،ان دنوں ملک میں قادیانیت کی حمایت کا کلونج بہت سے اورلوگوں کو بھی پریشان کئے ہوئے ہے ، ان میں نامور بھی ہیں اور گمنام بھی ، بعض احباب اس معاملہ میں اِن حضرات کو غلطی، عدم مطالعہ وغیرہ کی رعائت دیتے دکھائی دیتے ہیں ، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ جسے دلائل کی ضرورت ہو، یا جو اِس معاملہ کی سنگینی سے آگاہ نہ ہو۔یہ معاملہ اور ہے ، اس کی بنیاد کو سمجھنا ضروری ہے ۔تاکہ ہمارے ردعمل کی سمت درست ہو سکے۔مصدقہ اطلاع ہے کہ فروری 2014میں امریکی کانگریس کی ایک اسرائیل نواز رکن JACKIE SPEIR اورFRANK WOLFنے مل کر امریکی کانگریس میں احمدیہ مسلم کاکس بنایا اور اُس کا ایجنڈا بھی جاری کیا گیا ۔جس کا پہلا پوائنٹ ہی یہ تھا کہ” قادیانیوں کو پاکستان میں مسلم کا تشخص واپس دلوایا جائے گا ۔” اگلے برس2015 میں اسcaucas کی تجدید کی گئی اور wolf frank کی جگہTED POEنے لے لی،مگر ایجنڈا وہی رہا۔ اس حوالہ سے کئی تقاریب ہوئیں،کئی پراجیکٹس اور فنڈنگ بھی آن دی ریکارڈ ہے ۔ انہی ایام میں اسلام آباد میں بعض مغربی سفارتکار اِس سوال کے ساتھ متحرک پائے گئے کہ قادیانیوں والا قانون ختم کرانے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ایک سفیر نے تو یہاں تک کہا کہ اگلے پانچ برس میں پاکستان بدل جائے گا،سوال اٹھایا کہ کس طرح؟ تواُس کا جواب تھا:” شراب اور قادیانیوں والا قانون ختم ہوجائے گا اور ریاستی امور میں قادیانی اہم کردار ادا کرتے ہوئے انتہا پسندی کے خلاف مغرب کے اتحادی ہوں گے اوریہ پاکستان کے ترقی کی جانب سفر کا آغاز ہوگا۔”مذاق میں پوچھا کہ یہ عرصہ کچھ زیادہ کم نہیں ؟،تو موصوف اعتماد سے بولے :بالکل نہیں۔انگریزی میں کہا: “ہم نے بندوبست کرلیا ہے ۔”پنجاب میں سی ٹی ڈی کی ختم نبوت کے کارکنوں کے خلاف کارروایؤں اور پنجاب میں(برطانیہ کے صحافی)اے حق نامی قادیانی کی سرکاری امور میں کھلی مداخلت دیکھ کر یہ احساس ضرور ہوتا رہا کہ شائد “وہ” غلط نہیں تھا ۔ ابھی رمضان سے قبل ایک جگہ آمنا سامنا ہونے پر اُسے پھر چھیڑا کہ جناب وقت گزر رہا ہے ،؟شراب حلال ہوئی ہے ،نہ قادیانی مسلم مانے گئے ہیں ؟تو اُس نے مایوسی اور غصے سے کہا:”بہت کچھ تباہ ہوگیا، سب خراب ہوگیا،تم پاکستانی بہت برے ہو،بحیثیت قوم انتہا پسند ہو۔”پوچھا: قادیانیوں والا معاملہ کیا ہوا ؟بولا: پہلے مرحلہ میں اس لفظ کی قبولیت اور اُن کی مظلوموں کی حمایت میں بولنے کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ایک دوسرے سورس کی اطلا ع ہے کہ اس کے لئے یورپی یونین اور امریکہ نے الگ الگ بجٹ مختص کئے ہوئے ہیں۔لہٰذاآنے والے دنوں میں ایسے بد بختوں کی تعداد بڑھ بھی سکتی ہے ۔
رد عمل میں گالی یاد ھمکی مسئلہ کا حل نہیں ،بلکہ یہ حافظ حمد اﷲ کی طرح مشتعل ہوکر دشمن کے جال میں پھنسنے کے مترادف ہے ،کیونکہ وہ تو یہی چاہتے ہیں، حل صرف قانونی چارہ جوئی اور بھرپور سیاسی دباؤ ہے ۔ مجلس احراراسلام نے پیمرا کو خط لکھ کر اور عالمی مجلس ختم نبوت /جے یو آئی کے وفد نے چینل مالکان سے مل کر اچھا قدم اٹھایا ہے اور یہی درست راستہ بھی ہے ۔اگر مولانا اﷲ وسایا بھی کھلا خط لکھنے کے بجائے پیمرا کو باقاعدہ خط لکھتے تو افادیت زیادہ ہوتی۔ جہاں تک تعلق ہے اس خدشہ کا کہ کوئی انہیں مسلم قرار دے سکے گا، یاقانون توہین رسالت تبدیل کرا سکے گا تو وہ بہت بڑے مغالطہ میں ہے ۔ جو قوم یہ قوانین بنوا سکتی ہے وہ اس کا تحفظ بھی کرسکتی ہے ۔ یہ قوم گناہ گار ہو سکتی ہے ، بے نماز ہو سکتی ہے ، شرابی ہو سکتی ہے مگر اپنے نبی حضرت محمد ﷺکے معاملہ میں کسی سمجھوتہ کا شکار نہیں ہو سکتی۔شورش کاشمیری نے ایک جگہ ممتازشاعر اختر شیرانی کا واقعہ لکھا ہے جو ہماری مجموعی نفسیات کی علامت اور ہماری زندگی کی حرارت کا اعلان بھی ہے ۔
شورش کاشمیری لکھتے ہیں:”اختر شیرانی ایک بلانوش شرابی، محبت کا سخنور اور رُومان کا تاجور تھا۔ لاہور کے ایک مشہور ہوٹل میں چند کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے ،اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔وہ شراب کی دو بوتلیں اپنے حلق میں انڈیل کر ہوش و حواس کھو چکے تھے ،تمام بدن پر رعشہ طاری تھا۔ حتیٰ کہ دمِ گفتار الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زباں سے نکل رہے تھے۔اُدھر اختر شیرانی کی انا کا شروع ہی سے یہ عالم تھا کہ اپنے سوا کسی کو مانتے نہیں تھے ۔ شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے۔ ہمعصر شعرا میں جو واقعی شاعر تھے، انہیں بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے۔کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا، طرح دے گئے ۔ جوش کے متعلق پوچھا، کہا : وہ ناظم ہے ۔ سردار جعفری کا نام لیا تو مسکرا دیئے ۔ فراق کا ذکر چھیڑا تو ہوں ہاں کر کے چپ ہو گئے ۔ ساحر لدھیانوی کی بات کی، سامنے بیٹھا تھا، فرمایا : مشق کرنے دو۔ ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا : نام سنا ہے ۔ احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا : میرا شاگرد ہے ۔ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا گیا،موڈ میں تھے۔ فرمایا: اجی! یہ پوچھو کہ ہم کون ہیں؟ یہ ارسطو ،افلاطون یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے حلقے میں بیٹھتے ۔ ہمیں ان سے کیا غرض کہ ہم ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔آنکھیں مستی میں سرخ ہو رہی تھیں، نشے میں چور تھے ، زباں پر قابو نہیں تھا ۔ لڑکھڑاتی آواز سے شہ پا کر ایک ظالم کمیونسٹ نے چبھتا ہوا سوال کیا:آپ کا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اﷲ اﷲ! نشے میں چُور ،ایک شرابی۔ جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا ۔کہا :بدبخت اک عاصی سے سوال کرتا ہے ۔ اک رُوسیاہ سے پوچھتا ہے ۔ اک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے ؟ غصے سے تمام بدن کانپ رہا تھا،اچانک رونا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ کہا: ایسی حالت میں تم نے یہ نام کیوں لیا؟ تمہیں جرأت کیسے ہوئی؟ گستاخ! بے ادب۔
باخدا دیوانہ باش بامحمدﷺہوشیار
اِس شریر سوال پہ توبہ کرو ۔میں تمہارے خبث باطن کو سمجھتا ہوں۔خود قہر و غضب کی تصویر ہو گئے ۔ اس نوجوان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس نے بات کو موڑنا چاہا، مگر اختر کہاں سنتے تھے ۔ اسے محفل سے نکال دیا۔ پھر خود بھی اٹھ کر چل دیئے ۔ساری رات روتے رہے ۔کہتے تھے، یہ لوگ اتنے بے باک ہو گئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں، میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں۔ ”
سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے میکدوں کے ان مینڈکوں کو معلوم ہو کہ مسلمان زندہ بھی ہیں اور ہوشیار بھی ۔ تمہاری خباثتوں کی تہہ تک جانتے ہیں ۔بہتر یہی ہے کہ باز آجاؤ، ختم نبوت کے دیوانے تمہاری چال میں آکر کوئی بد امنی پیدا کریں گے نہ کوئی غلط قدم اٹھا کر تمہیں مظلوم بننے کا موقع دینگے ۔یہ تو اس وقت بھی تم پر بھاری تھے جب انہیں قانون وآئین کی حمائت حاصل نہیں تھی ، یہ پر امن طریقے سے قانون اور آئین کے اندر رہ کر تم سے نمٹنا جانتے ہیں۔
(روزنامہ’’اوصاف‘‘اسلام آباد۔17؍جون2016)
٭……٭……٭