تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

مسجد یمامہ کی آزادی مبارک

تنویر الحسن احرار
ضلع خوشاب کے نواحی علاقہ مٹھہ ٹوانہ سے آدھی کوٹ روڈ پہ تقریبا 25 کلومیٹر کی مسافت طے کر کے جائیں تو کامرہ پل سے دائیں طرف لنک روڈ مڑتا ہے ۔تقریبا چھے کلومیٹر کاسفر طے کرنے کے بعد چک ایل ٹی ڈی اے (2) آجاتا ہے۔ گرلز سکول سے سو قدم آگے برلب سڑک ایک قدیم مسجد دکھائی دیتی ہے۔ جس کے مین گیٹ کے آگے منوں وزنی سیمنٹ اور سریے سے تیار کردہ رکاوٹیں ہیں۔ باہر سے دیکھنے والوں کو مسجد اپنی بپتا سناتی ہے ۔
دوستو!یہ مسجد قیام پاکستان سے قبل اہل علاقہ نے بنائی تھی جو سادے مسلمان تھے،جب تقسیم ہند کے بعد جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام قادیانی کی ذریت نے پاکستان میں اپنے پنجے گاڑنے شروع کئے ،ربوہ ، نخلہ ، گوئی آزادکشمیرسمیت جن علاقوں میں سلسلہ ارتدادی تبلیغ کو تیز کیا گیا،ان میں یہ چک بھی شامل تھا ۔ مسجد کے متولی اور امام مرزائیوں کی چالبازیوں کا شکا ر ہو کر ایمان کھو بیٹھے اور مرتد ہوگئے ۔ اس طرح1952میں یہ مسجد قادیانیوں کے قبضے میں چلی گئی۔
1952ء سے 2010ء تک قادیانی اپنی من مانیوں میں مصروف رہے اور یہ مسجد اُن کی سرگرمیوں کا مرکز رہی ۔ گردونواح کے مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی بھرپور کوششیں جاری رہیں۔بالآخر 2010ء میں علاقے کے نیک دل مسلمان،خاندانِ سادات کے چشم و چراغ سید اطہر شاہ صاحب نے مسجدکی واپسی کے لیے قادیانیوں کیخلاف مقدمہ درج کرا دیا اور مسجد کی آزادی کی تحریک چلا دی ۔یہ سلسلہ چلتا رہا ، تاریخوں پہ تاریخیں پڑتی رہیں ، کئی جج آئے اور گئے مگر اس مسجد کافیصلہ نہ ہو سکا۔مردِ درویش سید اطہر شاہ اکیلا بھاگ دوڑ میں مصروف رہا ۔اس جدوجہدمیں بالخصوص مجلس احرار اسلام پاکستان کے ناظم اعلیٰ جناب حاجی عبد اللطیف خالد چیمہ کے علاوہ معروف عالم دین مفتی محمد زاہد اور دیگر مسلمان اس سلسلے میں مستقل معاونت کرتے رہے ۔چھے سال کی قانونی جنگ کے بعدعدالتی فیصلہ کے مطابق دسمبر 2015ء میں مسجد سے قادیانیوں کاقبضہ ختم کرا کر مسجد کو سیل کر دیا گیا۔ تین ماہ تک مسجد سیل رہی ۔16؍ مارچ کو ڈی سی خوشاب محترم ضیاء الرحمن بن مولانامفتی محمود ؒ نے مسجد واگزار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مسجد کی چابی سید اطہر شاہ کے حوالے کر دی ۔
17 مارچ کو مجلس احرار اسلام کا قافلہ تلہ گنگ سے چک LDA2 پہنچا۔سید اطہر شاہ کے ساتھ مل کر مسجد کو غسل دیا گیا اور ظہر کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔ تلہ گنگ سے راقم الحروف تنویر الحسن احرار ، محمد سعید طورا ، محمد ظاہر ، قاری ابوسفیان، خوشاب سے مجلس احرار اسلام کے معاون مولانا عبد الستار تونسوی شریک ہوئے۔ مسجد کا نام ختم نبوت کے تحفظ کیلئے لڑی جانے والی پہلی جنگ جس کی قیادت امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے کی تھی، ’’جنگِ یمامہ‘‘ کے نام پر مسجد یمامہ رکھا گیا۔ یہ مسجد اب ختم نبوت کا مرکز ہے اور سید اطہر شاہ مسجد کی تعمیری او ر ترقیاتی کاموں میں مصروف ہیں۔ اﷲ کریم اس مسجد کو آباد رکھے، آمین۔
عدل و انصاف کی برکتیں
’’حدیث شریف میں ہے کہ زمین پر ایک حد کا قائم ہونا زمین والوں کے حق میں چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ یہ اس لیے کہ حد کے قائم ہونے سے مجرم گناہوں سے باز رہیں گے اور جب گناہ نہ ہوں گے تو آسمانی اور زمینی برکتیں لوگوں کو حاصل ہوں گی۔ چنانچہ آخر زمانہ میں جب حضرت عیسی (علیہ السلام) اتریں گے اور اس پاک شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے مثلاً خنزیر کا قتل، صلیب کی شکست، جزیے کا ترک یعنی اسلام کی قبولیت یا جنگ۔ پھر جب آپ (علیہ السلام) کے زمانہ میں دجال اور اس کے مرید ہلاک ہوجائیں گے، یاجوج ماجوج تباہ ہوجائیں گے تو زمین سے کہا جائے گا کہ اپنی برکتیں لوٹا دے۔ اس دن ایک انار لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہوگا۔ اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے چھلکے تلے یہ سب لوگ سایہ حاصل کرلیں گے۔ یہ ساری برکتیں صرف رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کے جاری کرنے کی وجہ سے ہوں گی۔ جوں جوں عدل وانصاف مطابق شریعت بڑھے گا دُوں دُوں خیر وبرکت بڑھتی چلی جائے گی۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر، اردو، ج۴، ص ۳۴)

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.