اے بی صاؔئم
اس کو حق ہے کہ جسے چاہے وہ معصوم کہے
امن کو ظلم کہے، ظلم کو مظلوم کہے
جس کے ہاتھوں میں ہو پتھر، اسے قاتل لکھ دے
جس کی باتوں میں ہو غیرت اسے جاہل لکھ دے
اس کو حق ہے کہ اسے وقت نے مہلت دی ہے
اس کو حق ہے کہ وہ طاقت کا نشہ بھی تھوکے
اس کی مرضی وہ ہوا چھین کے گولے بھیجے
اس کی مرضی وہ زمیں چھین کے بے گھر کردے
اس کو حق ہے کہ وہ طاقت کا شہنشاہ ٹھہرا
اس کو حق ہے کہ یہی ظلم ہے جیون اس کا
ریت اس کی ہے یہی ، امن ہے دشمن اس کا
ہاں مگر، عالم دنیا کے اے حصہ دارو!
مسندِ امن پہ بیٹھے ہوئے موسیقارو!
حرف اسلام کے ایمان کے دعوے د ارو!
مذہب عشق کی مستی کے علمبردارو!
مجھ کو حق دو، کہ میں مرنے کی سزا سے پہلے
ایک پتھر تو کسی سر پہ اچھالے جاؤں
جاں تو جاتی ہے، چلو دل ہی بچالے جاؤں
ظلم کی جنگ میں خاموش نہ رہنے کے لیے
ایک پتھر کی اجازت توعنایت کردو۔۔۔۔
(مطبوعہ: براہِ راست، لاہور،اپریل ۲۰۱۶ء )