خطاب :امام اہلِ سنت سید ابو معاویہ ابوذر حسنی بخاری رحمہ اﷲ قسط نمبر۲
جمعۃ المبارک، ۲۳؍ رجب۱۳۹۸ھ/۳۰؍ جون ۱۹۷۸ء، وہاڑی
اگر جناح کے نام کے بغیر تاریخِ پاکستان نامکمل ہے تو ذکر و تعارف صحابہ کے بغیر تعارف و تاریخِ اسلام نامکمل ہے:
دیکھئے نا! بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کا نام بچوں کو اگر نہ بتایا جائے تو کہتے ہیں صاحب! ہمارا کورس نامکمل ہو گا۔ اگر بچوں کو یہی پتا نہ ہو کہ ہمارے ملک کا بنانے والا کون تھا؟ تو کیا کہیں گے کہ ہم کس ملک کے رہنے والے ہیں جس کے بنانے والے کا ہمیں پتا نہیں؟ حالانکہ محمد علی جناح نے کوئی راج گیری یا مزدوری نہیں کی تھی کہ تیسی کانڈی لے کر دو اینٹیں لگائیں تو پاکستان بن گیا۔ پاکستان بنانے میں ڈیڑھ لاکھ مجلس احرار اسلام کے رضاکار بھی شامل ہیں۔ اس میں چھتیس لاکھ نیشنلسٹ مسلمانوں کے کارکن بھی شامل ہیں۔ اس میں وہ لاکھوں مسلمان بھی شامل ہیں جو کسی پارٹی میں شامل نہیں تھے۔ لیکن ہمیشہ چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے، سفید قبروں پر پھول چڑھتے ہیں۔ نام جناح کاہی آئے گا؟ کیونکہ جس کے ہاتھ میں تلوار یا جس کے قبضہ میں اقتدار ہو اُسی کا نام چلتا ہے۔ اصل میں بنانے والے تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے قربانیاں دیں، جانیں دیں، دس دس سال جیلیں کاٹیں۔ ایک تحریک کشمیر۱۹۳۰ء میں مجلس احرار کی طرف سے ساٹھ ہزارآدمی جیل میں گئے۔ یہ برٹش گورنمنٹ کی رپورٹ ہے۔ انھوں نے کشمیر اور جموں کی جیلوں کے دروازے توڑ دیے، رسیاں باندھ کر رکھتے تھے، رات کو میدانوں میں اور صبح کو ہاتھ جوڑتے تھے، خدا کے لیے گھروں میں چلے جاؤ، ہمارے پاس رکھنے کی کوئی جگہ نہیں۔ وہ ساٹھ ہزار آدمی کس کھاتے میں ہیں؟ اندھے کنوئیں میں یا بحرالکاہل میں غرق ہو جائیں، تاریخ میں اُن کا نام اور طرح سے آئے گا۔ پوچھا جائے گا کہ پاکستان کا پہلا حاکم کون تھا؟ وہ کہیں گے جناب قائد اعظم محمد علی جناح، جو گجرات کاٹھیا واڑکی کھوجا برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے والد ایران سے آئے تھے۔ وہ آغا خاں کے مذہب کے آدمی تھے، وہ کراچی میں کام کرتے تھے، پونجا اُن کی گوت تھی۔ اُن کی برادری وہاں موجود ہے۔ وہ دبلے پتلے تھے، اس لیے اُن کو گجراتی زبان میں ’’جینڑا‘‘ کہتے تھے۔ پھر اُسے اردو بنایا تو وہ جینا ہو گیا۔ پھر اس کو عربی میں ڈھالا تو جناح ہو گیا۔ پھر مولوی فیروز الدین ’’فیروز اللغات‘‘ والے یا کسی اور نے لقب دیا تو ’’قائد اعظم‘‘ ہو گئے۔ وہ ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے، انھوں نے یہ کام کیا، وہ کام کیا، ایک منٹ کے لیے بھی جیل نہیں کاٹی اور ملک بنا دیا۔ تعریف ہو رہی ہے نا؟ بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے نا؟ جناح کے تعارف کے بغیر، ملک کا تعارف بچوں کو سمجھ میں نہیں آسکتا۔ جب تک بانیٔ پاکستان کا ذکر نہ ہوپاکستان سمجھ میں نہیں آ سکتا تو پھر دینِ اسلام کا تعارف بھی بچوں کو، بڑوں کو اس وقت تک صحیح نہیں ہو گا جب تک اﷲ کا دین لانے والوں کا تعارف نہیں ہو گا۔
صحابہ میں سے صرف امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے چالیس سال حکومت کی:
دین حضور علیہ الصلوٰۃو السلام پر نازل ہوا لیکن دنیا کے کونے کونے میں اُسے لے کر صحابہ گئے۔ امیر معاویہ پیدا مکّہ میں ہوئے۔ جوانی کی عمر انتیس، تیس سال مکہ اور مدینہ منورہ میں گزاری۔ اس کے بعد پھر اُناسی برس کی عمر تک انتالیس برس وہ شام میں رہے اور شام میں بیٹھ کر آدھا یورپ مسلمان کیا۔ آدھا افریقہ فتح کیا۔ یورپ کے دس ملکوں کو فتح کر کے اسلام کا جھنڈا گاڑا۔ قسطنطنیہ پر حملے کیے، اس کا محاصرہ کیا اور وہاں بیٹھ کر ہندوستان کی سرحدوں تک حکومت چلائی۔ بیس برس گورنری کی اور ساڑھے انیس برس خلافت۔ پونے چالیس برس حکومت کی ہے۔ صحابہ میں کوئی امیرِ معاویہ کے سوا ایسا نہیں کہ جس نے گورنری اور خلافت کی حکومت مشترکہ طور پر چالیس برس کی ہو، سوائے امیرِ معاویہ کے، ہاں بعد میں عباسی خلیفوں میں المتوکل ایسا گزرا ہے جس نے چالیس برس حکومت کی یا ہندوستان میں عالم گیر مرحوم تھے جنھوں نے غالباً اکتالیس برس حکومت کی۔ چند آدمی تاریخِ اسلام میں ایسے آتے ہیں جنھوں نے اتنی لمبی حکومت کی ہو۔ لیکن ان کی حکومت چاہے سو سال بھی رہے ہمارے لیے اتنی مفید نہیں۔ ایک صحابی کی خلافت و حکومت، ایک صحابی کا اقتدار، ایک صحابی کی تبلیغ اور ایک صحابی کی خدمات ہمارے لیے دین کا پیغام ہیں۔ اورنگ زیب عالم گیر ہوتا نہ ہوتا، اسلام میں کوئی فرق نہ پڑتا۔ شہاب الدین غوری آتا نہ آتا، اسلام کا کچھ نہ بگڑتا۔ لیکن اگر صحابی نہ ہوتا تو وہاں پر کفر ہی کفر ہوتا، اسلام نہ آتا۔ملک شام میں حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ سے پہلے ان کے بڑے بھائی حضرت یذید الخیر بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما گئے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے انھیں وہاں بھیجا۔ دو سال کے بعد ان کا طاعون کی بیماری میں انتقال ہو گیا۔ وہاں دو طاعون پڑے۔ طاعونِ جارف اور طاعونِ عَمْواس۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ صحابہ کرام جنگوں میں اتنے شہید نہیں ہوئے جتنے ان دو طاعون کی بیماریوں میں ۔ پچیس ہزار صحابہ طاعون کی ان دو بیماریوں میں انتقال کرگئے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ساری زندگی کا خلاصہ صحابہ کرام تھے۔ فاروقِ اعظم خود مدینہ سے چل کر شام میں آ گئے۔ اتنی گھبراہٹ طاری ہوئی، پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔ بڑے بڑے جلیل القدر بزرگ حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت معاذ بن جبل، حضرت شرحبیل ابن حَسَنہ، حضرت خالد بن ولید رضوان اﷲ علیہم اجمعین، وہ لوگ جن کا چہرہ دیکھنے کے لیے دنیا آتی تھی، وہ سب کے سب اس طاعون میں انتقال کرگئے۔ پھر تیسرے درجے کے وہ بزرگ صحابہ جو بالکل آغازِ جوانی میں تھے انھیں آگے آنے کا موقع ملا۔ عبد اﷲ ابن عمر، عبد اﷲ ابن زبیر، عبد اﷲ ابن عمرو، عبداﷲ ابن عباس، عبد اﷲ بن جعفر رضی اﷲ عنہم۔ یہ اُس وقت بچے تھے جب وہ صحابہ جوان تھے۔ جب وہ بڑھاپے اور کہولت کی منزل کو گئے تو یہ جوانی کی منزل میں پہنچ گئے۔ پھر جب یہ بوڑھے ہوئے تو تابعین تبع تابعین آ چکے تھے۔ بنو اُمیّہ کا دور شروع ہو چکا تھا۔ تو دین کے لیے اصل خدمات صحابہ کی ہیں۔
پہلی مثال:
ہمیشہ کسی چیز کو سمجھنے کے لیے اس کے بانی کی تعریف ضروری ہے۔ کہتے ہیں جی فلاں شیخ ہے، جی آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ شیخ ہے؟ کہنے لگے جی وہ کہتا ہے میرا نام شیخ غلام محمد ہے۔ کہا یہ تو کوئی دلیل نہیں۔ بتاؤ وہ شیخوں میں، کھوجوں کی کس گوت میں ہے؟ شیخ تو لقب ہے کس برادری سے ہے؟ پہلے کھتری تھا، چھتری تھا، شودر تھا، برہمن تھا،مرہٹا تھا کون تھا؟ کیونکہ انھی قوموں کے لوگ مسلمان ہوئے۔ شاہ جہاں کے زمانہ میں، اورنگ زیب عالم گیر کے زمانہ میں، محمد شاہ رنگیلا کے زمانہ میں، بہادر شاہ ظفر کے زمانہ میں یا کسی ولی اﷲ کے ہاتھوں پر انھوں نے توبہ کی، یہ مسلمان بنے، مسلمانوں نے عزت کی وجہ سے ’’شیخ‘‘ لقب دیا۔ اندر سے یا وہ کھتری ہے یا چھتری ہے یا شودر ہے یا برہمن ہے یا مرہٹا ہے۔ تو آپ پوچھیں گے نا؟ بتاؤ اس کا دادا پردادا کون ہے؟ کون سی پشت مسلمان ہوئی تھی، وہاں سے تعارف حاصل ہو جائے گا، تو ہر چیز کی بنیاد کو سمجھنے سے اس کا صحیح تعارف آئے گا۔
دوسری مثال:
آپ کہتے ہیں جی فلاں آدمی مسلمان ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جی کیسا مسلمان ہے ؟ جی کلمہ پڑھتا ہے۔ کلمہ تو یہودی بھی پڑھتے ہیں۔ یہ کوئی جواب ہے؟ نہیں جی وہ مسلمانوں والا کلمہ پڑھتا ہے۔ میں نے کہا وہ تو خارجی بھی پڑھتے ہیں ، رافضی بھی پڑھتے ہیں، جناب آپ عجیب بات کرتے ہیں، وہ تو کلمہ پڑھتا ہے، پکامسلمان ہے۔ میں کہتا ہوں کلمہ کون سا پڑھتا ہے؟ اگر کلمہ صحابہ والا پڑھتا ہے تو مسلمان ہے، اگر کوئی اپنے باپ کا بنایا ہوا پڑھتا ہے تو دوزخ میں جائے، ہماری جوتیوں کو بھی اس کی پروا نہیں۔ اصل تعارف بتاؤ کہ وہ ہے کون؟ اس کی نسلِ روحانی چلتی کہاں سے ہے؟
تیسری مثال:
خانیوال، ریت کا ایک ٹیلا تھا۔ جلتا، بھنتا، سڑتاہوا ایک علاقہ۔ کوئی شخص لکھنؤ گیا، وہاں سے خربوزے لایا، وہ اس ریگستان میں اس نے دفن کیے۔ لکھنؤ کے خربوزوں کی نسل آج تک خانیوال میں موجود ہے۔ اب کوئی شخص لکھنؤ کا اگر کہے کہ صاحب یہ خربوزے یہاں کیسے؟ کہا کہ صاحب دیکھ لیجیے۔ وہ کہے کہ ملتان کے ضلع میں لکھنؤ کے خربوزے؟ کمال کر دیا قبلہ آپ نے۔ انھوں نے کہا نہیں قبلہ ہمی میں سے ایک آدمی آپ کے لکھنؤ میں گیا تھا اور وہاں سے لایا تھا۔ اس نے کہا ہاں اب بات بنی نا۔ یہی تو میں سوچتا تھا کہ یا تو حرامی نسل ہے یا جعلی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا۔ اب سمجھ میں آیا کہ خربوزہ لکھنؤ کا ہے۔ کوئی یہاں سے لے گیا تھا، لے کر آیا اور وہ اس نے یہاں بوئے۔ اب خانیوال میں لکھنؤ کے خربوزوں کی نسل چل رہی ہے۔
ہر چیز اپنی اصل سے، جدّ پشت سے پہچانی جاتی ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور اگر ہمیں اپنا اسلام سمجھنا ہے اور پہچاننا ہے تو ہمیں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے ساتھ اپنا شجرہ بتانا ہو گا کہ ہم کس کو مانتے ہیں؟ کیا ہم خارجیوں کو مانتے ہیں؟ کیا ہم رافضیوں کو مانتے ہیں؟کیا ہم ناصبیوں کو مانتے ہیں؟ کیا ہمارا مذہب یہودیوں والا ہے؟ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں بتانا پڑے گا کہ ہم ابوبکر ،عمر ، عثمان، علی، حسن و حسین اور معاویہ والا اسلام مانتے ہیں، خالدبن ولید، شُرحبیل وعبدالرحمن بن عوف، سعد ابن ابی وقاص ، ابو عبیدہ بن جراح ، عُبادہ بن صامت اور سعید بن زید والا اسلام مانتے ہیں۔ ہم یہ بتائیں گے کہ زبیربن عوام، عبداﷲ بن زبیر اور طلحہ بن عبیداﷲ والا اسلام مانتے ہیں۔ ہمیں بتاناہوگا کہ معاویہ والا اسلام، اُن کے چچا زاد بھائی مروان بن حکم اور ان کے چچا حکم والا اسلام، جب وہ توبہ کر کے مسلمان ہو گئے۔
حکم بن ابی العاص رضی اﷲ عنہ:
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم کی توبہ قبول کی اور اُنھیں معافی دے دی۔ اب اُن کا بھی اسلام معتبر ہے۔ جب تک کافر تھے ہمیں اس سے غرض نہیں، جب حضور علیہ السلام کے دامن میں پناہ مل گئی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے معاف فرما دیا۔ اب اگر کوئی بکتا ہے بکے،جلتا ہے جلے، جہنم میں جائے ہمیں کیا؟ ہمیں تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی معافی کے بعد یقین ہو گیا کہ اﷲ نے معاف کر دیا کیونکہ پیغمبر کی زبان سے غلط بات نہیں نکلتی۔ جب پیغمبر نے فرما دیا فتح مکّہ کے دن اِذْہَبُوْا أَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ، جاؤ میں نے تمھیں معاف کیا، تم آزاد ہو۔ وَأَقُوْلُ لَکُمْ کَمَاْ قَاْلَ یُوْسُفُ لِاِخْوَتِہٖ، اور تمھیں آج وہی کچھ کہتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا لَاْ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ، قیامت تک اب تم کو میرے بعد کوئی پکڑ نہیں ہو گی، میں نے معاف کر دیا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد سمجھ لو اور یقین کر لو کہ اﷲ نے معاف کر دیا۔ کیوں، اگر اﷲ کو معافی منظور نہ ہوتی تو اسی وقت جبرئیل آ جاتے کہ خبردار آپ کواس طرح معاف کرنے کی اجازت نہیں۔ آپ اس میں سے آدمی چُنیں کہ کس کس کو معاف کرنا ہے، باقی کو ہم جانیں۔ لیکن نہیں، اﷲ تعالیٰ پیغمبر کی بات پر خاموشی رہے۔ جبرئیل نہیں آئے آخر دم تک، اس نے بتا دیا کہ ڈیڑھ لاکھ صحابۂ کرام جنھوں نے فتح مکہ کے دن اور حجۃ الوداع کے دن مل کر دونوں نے اسلام کی تبلیغ کی اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچائی کی گواہی دی تھی، اﷲ اُن سب کے اسلام کا گواہ ہے اور اﷲ ان سب کو مسلمان مانتا ہے اور اگر ہم میں سے اب کوئی نہیں مانے گا تو وہ خود جہنم میں جائے گا۔ اﷲ اور اس کے رسول کا کچھ نہیں بگڑتا۔ تو اپنی جَد کو یاد رکھنا چاہیے، اپنی اصل کو، اپنی جڑ کو، نسل اور نسب کو یاد رکھنا چاہیے۔ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ ہوں یا کوئی اور صحابی، میں آپ کو ایک بنیادی بات بتا دوں۔
ایک سوال:
یاد رکھیے! آپ کو کوئی نہ کوئی شخص ملے گا۔ کوئی دکان دار، کوئی مسافر، کوئی راہ گیر، کوئی گاہک، کوئی دوست، کوئی رشتہ دار، کوئی تاجر، کوئی اخبار نویس، کوئی شاعر، کوئی مولوی، کوئی ذاکر، کوئی واعظ، کوئی خطیب، ایک وسوسہ وہ آپ کو چھوڑے گا۔ وہ کہے گا: ’’جناب! یہ بات تو سب تسلیم ہے کہ صحابۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم تو سب تھے لیکن ہم مسلسل یہ سن رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں کہ یہ آپس میں بھی لڑے تھے۔ آپ کو جواب دیے بغیر چارہ نہیں۔ اگر آپ یہ کہیں کہ بالکل غلط ہے، وہ کبھی نہیں لڑے، یہ جھوٹ ہے۔ اور اگر آپ کہیں کہ ہاں جناب! یہ تو ہم نے بھی سنا ہے کہ وہ لڑے تھے، تو وہ دوسرا سوال یہ کرے گا کہ آپ جانتے ہیں کہ جب لڑائی ہوتی ہے، عقل، نقل، دلیل، واقعات کے مطابق فطرتی فیصلہ قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک سچا ہو گا، ایک جھوٹا ہو گا؟ آپ کہیں بھی بات کریں، یہ سوال سب سے پہلے سر پر آئے گا۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’’بڑی خطرناک تھاں تے اَیرا رکھداائے‘‘ اب عام آدمی اس چکر میں پھنسا اور گیا۔ میں آپ کو اس خطرناکی پہ مطلع کرتا ہوں، آگاہ کرتا ہوں۔ اس کو اچھی طرح سمجھ لو تاکہ جواب دینے میں آسانی ہو۔ صحابہ کا دشمن شیطان جب ہر طرف سے ہار جائے گا عاجز ہو جائے گا، تُھتھنی اس کی سوج جائے گی، دانت اس کے ٹوٹ جائیں گے۔ جوتے کھا کھا کر منہ اس کا سوج جائے گا، تو آخری اعتراض ابلیس یہ سکھائے گا کہ اچھا جی! یہ تو آپ مانتے ہیں کہ وہ آپس میں لڑے تھے، مان لیا۔ اُن میں سے کوئی صدیق تھا، کوئی فاروق تھا، کوئی معاویہ حلیم الجواد تھا، کوئی کچھ تھا۔ تو بتاؤ دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ دونوں لڑنے والے سچے ہوں؟ تو پھر لڑائی کس چیز کی؟ یہ سب سے بڑا وزنی اعتراض آئے گا اوّل بھی اور آخر بھی۔
آپ بطور مسلمان کے یاد رکھیں، بطور عقل کے بھی یاد رکھیں۔ اس پوائنٹ پر نہ آپ وعظ سنتے ہیں نہ آپ کا مولوی بولتا ہے، نہ آپ کا واعظ بولتا ہے، نہ آپ کا خطیب بولتا ہے اور ذاکر تو یہ بیان کر ہی نہیں سکتا۔ اس کی تو ماں مر جائے گی اگر وہ خود یہ بیان کر دے، اُن کا تو سارا مذہب دھڑام سے نیچے آ گرے گا۔ آپ جواب دیں کہ ہاں آج تک دنیا میں جتنی بھی اور جماعتیں ہیں، ہابیل قابیل سے لے کر قیامت تک، ہر دور کے ہر نبی کے ساتھیوں کو چھوڑ کر، دنیا میں جتنی بھی پارٹیاں کبھی لڑی ہیں یا آئندہ لڑیں گی، یہ بات بالکل سچ اور برحق ہے کہ اُن میں سے ایک سچا ہو گا اور ایک جھوٹا ہو گا۔ ہم صحابہ کو بھی ایسا کہہ دیتے لیکن ہمیں اﷲ نے منع کر دیا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرما دیا۔ ہم بالکل یہ کہنا چاہتے تھے کہ ان میں سے یہ سچا ہے وہ سچا ہے، معاویہ سچا ہے یا علی سچا ہے، ابوبکر سچا ہے یا عمر سچا ہے، ہم یوں کہہ دیتے، ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن اﷲ تعالیٰ نے ہمیں خود روک دیا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں خود روک دیا، انھوں نے فرمایا کہ یاد رکھو دنیا میں ہر پارٹی میں دو دھڑے ہوں گے اور اُن میں سے ایک سچا ہوگا، ایک جھوٹا ہو گا۔ سوائے میرے دوستوں کے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ایک جماعت کمزور تو ہو سکتی ہے، ایک جماعت تھوڑی تو ہو سکتی ہے لیکن جھوٹا ان میں سے ایک بھی نہیں ہو گا۔
سورت الحجرات کا نزول اور آدابِ تعظیمِ نبوّت کی تعلیم:
چھبیسواں پارہ، سورت حُجرات، تیسرا پاؤ شروع ہے، سورۂ حُجرات اس لیے نازل ہوئی کہ حُضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو چند بدو دیہاتی صحابہ کی گفتگو کی وجہ سے کچھ تکلیف پہنچی۔ آپ دوپہر کو اپنے حجرہ میں آرام فرما تھے تو بنو تمیم قبیلہ کے کچھ دیہاتی لوگ دیہات سے آئے۔ وہ بے چارے ادب سے آشنا نہیں تھے۔ طریقِ کار اُن کو معلوم نہیں تھا۔ نبی کی شان سے اچھی طرح وہ ابھی واقف نہیں تھے، نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ انھوں نے آکر زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دھڑ دھڑ کیا۔ ایک پَٹ تھا کل دروازے کا جو بند رہتا تھا اور آدھا پَٹ کھلا تھا۔ پردے کی خاطر، جب پردہ کی آیتیں آئیں تو اس پر کمبل ڈال دیا جاتا تھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو یا اُمّ المؤمنین کو اندر بیٹھے ہوئے بغیر پردہ کے کوئی بے حجاب دیکھ نہ سکے۔ یہ تھا حجرۂ مطہرہ کا حال۔ تو اس ایک دروازہ کو بھی دھڑ دھڑایا زور سے اور یہیں پر بس نہیں کی۔ بے باکی اور بے تکلفی سے آواز دی۔ دروازے کو زور سے مکا بھی مارا۔ جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ کے چہرہ پر کچھ ناگواری تھی۔ رنگت بدلی تھی کہ اب بے وقت؟ ابھی اُٹھ کے آیا ہوں مسجد سے، صبح کی محفل تھی۔ دو گھنٹے، چار گھنٹے بھی ہو، پیغمبر کو صرف نبی ہونے کی ڈیوٹی کا اتنا بوجھ ہے کہ کوئی اور آدمی اٹھا نہیں سکتا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو تو ایک دو دفعہ وحی نازل ہونے کے بعد جو ضعف اور کمزوری آسکتی ہے، بڑے سے بڑے قطب، غوث، ابوبکر صدیق پر بھی اگر وہ بوجھ ڈال دیا جائے تو ان کی جان نکل جائے۔ بارہا یہ واقعہ ہوا ہے کہ جب وحی اترنے لگی ہے تو پھر کوئی چیز آپ کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکی۔ تو آپ کو یہ ناگوار گزرا کہ بے وقت ہے، آرام کا وقت ہے، دوپہر ہے، پھر بلاتے کس طرح ہیں،نہ ادب ہے نہ کوئی لقب ہے۔ انھوں نے آ کر کہا: یا مُحَمَّد(صلّی اللّٰہُ علیہِ وسلّم) اُخْرُجْ اِلَیْنَا،اے محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) باہر ہماری طرف آئیے۔ آپ نے اُن کی بات بھی سنی، جواب بھی دے دیا، اُن کو جھڑکا بھی کچھ نہیں، اُن کو سخت بھی کچھ نہیں کہا لیکن دل و دماغ پر بوجھ تھا۔ بس یہ بوجھ لے کر اندر گئے تو سورت اتر آئی کہ تم تو بولو گے نہیں، میں بولتا ہوں۔ ان بے چاروں کو بتانے والا کون ہے؟ تم تو شرم کرو گے کہ میرے اُمّتی ہیں۔ یہ بھاگ نہ جائیں کہیں، میری تو یہ مخلوق ہے۔ آج تم چپ رہو گے، کل کو تمھارا دروازہ کھول کر اندر آ جائیں گے۔ ان کو معلوم نہیں ادب کیا ہے نبی کا؟ پوری سورت نازل ہوگئی۔
ٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ۔(الحُجرات، آیت: ۱، ۲)
اے ایمان والو! نبی کے سامنے زیادہ بڑھ چڑھ کر آگے ہونے کی کوشش نہ کرو۔ اس کی محفل میں سب سے آگے بیٹھنے کی کوشش نہ کرو اور جب نبی سے بات کرنی ہو تو نبی کی آواز سے زیادہ اونچی آواز مت نکالو اور نہ نبی کو عام الفاظ سے بلاؤ جیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو ورنہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں گے اور تم بے خبری میں مارے جاؤ گے۔
یوں نہ معلوم ہو کہ ایک بے تکلف ساتھی سے بول رہے ہو۔ بلکہ آواز پست کر کے، لہجہ نرم کر کے، گردن نیچی کر کے اتنے ادب سے بولو، لوگ سمجھیں کہ سردار اور خادم آپس میں بول رہے ہیں، بیٹا اور باپ آپس میں بول رہے ہیں اور جن ساتھیوں کی وجہ سے ایسا ہوا تھا ان کو بھی فرما دیا گیا کہ ان کو معلوم نہیں۔
اِِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُہُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ ۔(الحُجرات،آیت: ۴)
اے نبی بلاشک جو لوگ آپ کو حجرات کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں اُن کے اکثر بے عقل اور بے شعور ہیں۔
غم نہ کرنا، غصہ نہ منانا، ان بے چاروں کو عقل نہیں ہے۔ یہ اتنی ہی عقل کے مالک تھے جو انھوں نے آ کر ظاہر کر دی۔
وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ۔(الحُجرات، آیت: ۵)
اور اگر وہ ذرا صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود (اپنے وقت پر) اُن کے پاس آ جاتے تو اُن کے لیے بہتر ہوتا۔
اگر یہ ظہر کی نماز کا انتظار کرتے، اذان ہوتی، صفیں بندھتیں، آپ خود تشریف لے جاتے، پھر یہ بڑے ادب کے ساتھ قانون کے مطابق ملاقات کرتے، ان کے لیے بھی بہتری ہوتی، آپ کے لیے بھی آسانی ہوتی، ان کو معلوم نہیں ہے کہ آدابِ نبوّت کیا ہیں، یہ تو دنیا کے رئیس کو ملنے جائیں تو اس کی ہر بات کا لحاظ کرتے ہیں۔ چونکہ آپ رحمۃ للعالمین ہیں، شفیق ہیں، مہربان ہیں۔ آپ کی نرمی کی وجہ سے جو آتا ہے، مسجد میں بھی آپ کو لے کر کھڑا ہو جاتا ہے، بازار میں چلتی ہوئی بڑھیا نے آپ کو پکڑ لیا تو وہیں کھڑے ہو کر دیر تک اُس کی باتیں سنتے رہے۔ (جاری ہے)