مولانا مفتی سید عبدالکریم گمتھلوی رحمتہ اﷲ علیہ
اس مبارک مہینہ میں ایک عظیم الشان نعمت اور بڑی بھاری دولت لیلۃ القدر کا ہونا ہے جس کی وجہ سے رمضان المبارک کی عظمت اور برکت میں اور بھی چار چاند لگ گئے اور اس کی شان دو بالا ہوگئی۔ اس رات کی فضیلت میں یہی بات کچھ کم نہیں تھی کہ اس کی فضیلت کے بیان کے لیے قرآن پاک میں ایک پوری سورۃ (سورۃ القدر کے نام سے) نازل ہوچکی ہے جس میں بیان فرمایا گیا ہے کہ اس رات میں عبادت کرنا ہزار مہینہ کی عبادت سے افضل او ربہتر ہے۔ جتنا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے ملتا ہے اس سے کہیں زیادہ ثواب صرف اس ایک رات کی عبادت میں ملتا ہے اور اس زیادہ ثواب کی کوئی حد بھی بیان نہیں فرمائی گئی۔ اس بنا پر اگر کوئی یوں امید رکھے کہ بے شمار ثواب ملے گا جو شمار ہی میں نہیں آسکتاتو ان شاء اﷲ تعالیٰ اس کو ’’انا عندظن عبدی بی‘‘ کے مطابق بے شمار ثواب ملے گا حق تعالیٰ بندے کے ساتھ اس کے ظن کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں۔ یہ جو مشہور ہے کہ اس شب کا ثواب ہزار مہینہ کے برابر ہے یہ غلط ہے بلکہ اس رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینہ سے کہیں زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ بہت سی احادیث اس کے فضائل او راس میں عبادت کرنے کی ترغیب میں وارد ہوئی ہیں ۔ دُرفتور میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ شبِ قدر حق تعالیٰ جل شانہ نے میری امت کو مرحمت فرمائی ہے پہلی امتوں کو نہیں ملی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہوا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
فائدہ:۔ ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ محض اﷲ کی رضا اور ثواب کے حصول کی نیت سے کھڑا ہوا یعنی عبادت کرے ریا وغیرہ کسی بدنیتی سے نہ کھڑا ہو۔ کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھے اور اسی حکم میں ہے کہ کسی اور عبادت تلاوت قرآن اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہونا۔
فائدہ:۔حدیث بالا اور اس جیسی احادیث میں گناہ سے مراد علماء کے نزدیک صغیرہ گناہ ہوتے ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ احادیث میں صغائر (چھوٹے) کی قید دو وجہ سے مذکور نہیں ہوئی۔ اوّل تو یہ کہ مسلمان کی شان یہ ہے ہی نہیں کہ اس کے ذمہ کوئی کبیرہ گناہ ہو کیونکہ اگر کبھی کبیرہ گناہ اس سے صادر ہوجاتا ہے تو اس وقت تک اس کو چین ہی نہیں آتا جب تک کہ وہ اس گناہ سے توبہ نہیں کرلیتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب لیلۃ القدر جیسے مواقع آتے ہیں تو اپنی بداعمالیوں پر ندامت اس کے لیے گویا لازم ہے اور توبہ کی حقیقت گذشتہ پر ندامت اور آئندہ کو نہ کرنے کا عزم ہے۔
شبِ قدر کی تعیین میں علماء کے بہت اقوال ہیں۔ راحج قول یہ ہے کہ وہ اس مبارک مہینہ کی آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں ہوتی ہے اور کسی سال کسی رات میں غیر معین طور پر ہوتی ہے۔ ہر سال ایک ہی رات میں نہیں ہوتی مگر ہوتی انہی پانچ راتوں میں سے کسی ایک رات میں ہے اس لیے مختلف راتوں میں اس کا ہونا بیان کیا گیا ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے نقل فرماتی ہیں کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ بہت سے صحابہ رضی اﷲ عنہم اور تابعین کی رائے ہے کہ وہ رمضان المبارک کی ۲۷؍ شب ہوتی ہے۔
فائدہ:۔ اخیر عشرہ اکیسویں رات سے شروع ہوتا ہے۔ بیسواں روزہ گزار کر جو رات آئے گی وہ اکیسویں ہوگی۔ اسی طرح طاق راتیں وہ ہیں جن کے بعد طاق عدد کا روز ہ ہو کیونکہ شریعت میں رات پہلے آتی ہے اس کے بعد دن آتا ہے۔ سبحان اﷲ! شریعت نے بندوں کے ضعف کی کس قدر رعایت فرمائی ہے کہ عشرہ اخیرہ کی ہر رات کو شبِ قدر کی تلاش کے لیے مقرر نہیں فرمایا بلکہ وتر طاق راتیں مقرر کیں تاکہ درمیان میں ایک رات آرام کر لیا کریں کیونکہ دن کو سونے میں اتنی راحت نہیں جتنی رات کے سونے میں ملتی ہے۔ یعنی اگر عشرہ اخیرہ کی ہر رات کو شبِ قدر تلاش کرنے کا حکم ہوتا تو اس صورت میں دسوں راتیں جاگنے ہی میں گزرتیں تو عشاق کے لیے بہت دشواری پیش آتی۔
اس رات میں دوسری راتوں کی نسبت معمول سے زیادہ جاگنا مناسب ہے۔ اب قویٰ کمزوراور ہمتیں ضعیف ہوگئی ہیں تحمل وبرداشت کے موافق ان راتوں میں شب بیداری کرنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ رات بھر جاگ کر صبح کی جماعت فوت کردے۔ عشاء کی نماز کو جماعت سے ادا کر کے سوجانا اور پھر صبح کی نماز باجماعت ادا کرنا اس سے بہترہے کہ شب بھر جاگ کر صبح کی جماعت کو فوت کردے۔ اگر زیادہ کچھ بھی نہ ہوسکے تو ان راتوں میں نماز باجماعت کا خاص اہتمام کرے تاکہ اس کی برکت سے بالکل ہی محروم نہ رہ جائے۔رہی یہ بات کہ ان راتوں میں کون سی عبادت کرنا زیادہ بہتر ہے سو سب سے بہتر اس رات میں نفل پڑھنا ہے۔ کیونکہ ان راتوں میں قیام کی افضلیت آئی ہے اور قیام نفلوں میں ہوتا ہے۔ اگر کچھ حصہ رات کا تلاوتِ قرآن اور ذکر اﷲ میں گزار دے تو اور بھی بہتر ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ دعاتعلیم فرمائی: ’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْفُ عَنِّیْ۔‘‘ (ترجمہ)’’اے اﷲ بیشک تُو معاف کرنے والا ہے او رپسند کرتا ہے معاف کرنے کو پس معاف فرمادے مجھے بھی‘‘۔
فائدہ:۔ نہایت جامع دعا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے لطف وکرم سے آخرت کے مطالبہ سے معاف فرمائیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔
من نگویم کہ طاعتم بپذیر قلم عفو بر گناہ ہم کش
بعض احادیث میں شبِ قدر کی چند علامات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ ان میں سے یہ علامت کہ اس رات کے بعد جب صبح کو آفتاب نکلتا ہے تو بغیر شعاع کے نکلتا ہے۔ یہ علامات بہت سی روایات میں وارد ہوئی ہے اور ہمیشہ پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بعض علامات کا ذکر روایات میں آتا ہے مگر ان روایات کا پایا جانا لازمی نہیں ہے۔
بعض علامات ان حضرات کے کلام میں ذکر کی گئی ہیں جن کو اس رات کی دولت نصیب ہوئی ہے۔ حضرت ابن ابی البابہ رضی اﷲ عنہ اورحضرت ایوب بن خالد رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اس شب میں سمندر کا پانی بالکل میٹھا تھا۔ مشائخ نے لکھا ہے کہ شبِ قدر میں ہر چیز سجدہ کرتی ہے حتیٰ کہ درخت زمین پر گرجاتے ہیں اور پھر اپنی جگہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مگر ایسی چیزوں کا تعلق امورِ کشفیہ سے ہے جو ہر شخص کو محسوس نہیں ہوتے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں اور راتوں سے زیادہ عبادت میں مشغول رہیں کوئی علامت نظر آئے یا نہ آئے اس کی فکر میں نہ پڑیں۔ روشنی وغیرہ علامات کشفی طور پر کسی کو نظر بھی آجاتی ہیں۔ لیکن اگر کچھ بھی نظر نہ آوے پھر بھی اس رات کی عبادت کا اجروثواب حاصل کرنے کی غرض سے جس قدر ہوسکے عبادت میں لگا رہے اور مناسب ہے کہ جتنی دیر جاگنا چاہے اس کے تین حصے کرلے۔ ایک حصہ میں نوافل پڑھے اور ایک حصہ میں تلاوت کلام اﷲ کے اندر مشغول رہے اور تیسرا حصہ استغفار، درود شریف اور دعا وغیرہ ذکر اﷲ میں گزار دے۔ اُتْلُ مَااُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتَابِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَلذِ کَرْو اللّٰہِ اَکْبَرْ میں انہی تین عبادتوں ،نماز اور تلاوت کلام اﷲ اور ذکر اﷲ کو ایک جگہ جمع فرمادیا گیا ہے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب قدس اﷲ سرہ العزیز نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو خواب میں دیکھا تو دریافت فرمایا کہ اب بزرگوں کی نسبت میں وہ کیفیت نہیں ہوتی جو پہلے بزرگوں کی نسبت میں ہوتی تھی اس کی کیا وجہ ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ پہلے بزرگ تین چیزوں کی پابندی فرماتے تھے۔کثرت نوافل، کثرت تلاوت اور کثرت ذکر اﷲ۔ اب اس زمانہ میں ذکر اﷲ کی کثرت کا تو بزرگوں کو کچھ خیال ہے مگر تلاوت اور نوافل کی کثرت کا اہتمام کم ہوگیا ہے۔ الانادراً اس لیے نسبت مع اﷲ کی کیفیت میں بھی فرق آگیا۔واقعی اب جو لوگ اﷲ والے کہلاتے ہیں ان کے یہاں بھی اکثر صرف کثرت ذکر کی ہی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے۔ نوافل و تلاوت کا خیال ہی نہیں رہا۔ گوابتداءِ سلوک میں سالک کے لیے ذکر اﷲ کی کثر ت زیادہ مفید اور یکسوئی پیدا کرنے کے اندر معین ہے مگر اب تو صوفیاءِ زمانہ کو ذکر کی پابندی کرتے ہوئے تو کچھ دیکھا بھی جاتا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی اب بہت کمی آتی جارہی ہے مگر آخری عمر تک تلاوت کلام اﷲ کی پابندی اور نوافل کی کثرت کا تو کہیں نام و نشان بھی نہیں الاماشاء اﷲ ۔ ہمارے اسلاف کا تو یہ طریقہ نہ تھا۔