مولانا سید عطاءالمحسن بخاری
انسان پیدائشی طور پر ایک حیوان ہی ہے جو بقیہ حیوانوں سے عقل اور مزاج کے باعث ممتاز اور افضل ہے ۔ اس کی تخلیق مرحلہ وارہوئی ہے اور اجزاءِ تخلیق اس کے ذاتی اور داخلی مؤثر اسباب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر حیوانی صفات غالب آجائیں تو یہ حیوانوں سے بد تر ہوجاتا ہے اور اگر داخلی ملکوتی صفات غالب آجائیں تویہ اپنے خالق کا قرب پالیتا ہے۔ اسی لیے اﷲ پاک نے اس کے مزاج اور طبیعت کی تخلیق کے ساتھ ہی اسے کچھ عملی ضابطے بھی دیئے تاکہ یہ اپنی عقل، مزاج اور طبیعت کی اصلاح کرسکے اور حیوانیت و ملکوتیت کے بین بین انسانیت قائم رکھ سکے اور اسے بلندیوں تک لے جائے ۔ اس سلسلۂ انسانیت کی بقاء و ارتقا ء کے لیے نبوت کی نعمت سے بھی انسان کو ہی سرفرازفرمایا او رتمام عملی ضابطے بھی انبیاء کی عملی و فکری تعلیم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائے ۔ انسان چاہے محلات کا باسی ہو یا جھونپڑوں کا مکین ‘ اﷲ کے ہاں سب برابر ہیں :
اَلْخَلْقُ کُلَّھُمْ عَیَالُ اللّٰہ۔مخلوق (انسان) ساری کی ساری اﷲ کا کنبہ ہے ۔(الحدیث)
ظاہر ہے اﷲ اپنے کنبے کے لیے الگ الگ قوانین وضع نہیں کرتا بلکہ کنبہ کی خلقی برابر ی قائم رکھتے ہوئے انہیں عملی زندگی کا نقشہ عطا فرماتاہے اور بہترین نقشہ نبیوں کی زندگی قرار دیتا ہے :
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَ سُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَ ۃٌ حَسَنَۃٌ۔ ( تم کو بھلی تھی سیکھنی رسول کی چال)(الاحزاب:21)
اگر انسان سیکھے بغیر ہی اپنی اصلاح کرسکتا تو نبوت کی ضرورت تھی، نہ وحی و الہام کی ۔ انسان کا خالق و مالک خوب جانتاہے کہ اس کی طبیعت و مزاج میں کیا خامی ہے ۔ او راس خامی کو کیسے دور کیا جاسکتاہے اور اس کا جو سب سے بہتر طریقہ تھا وہ عطا فرمایا اور اس کی اتباع ہم پر لازم وواجب کردی ۔ اتباع او راطاعت کے اسی سنہری سلسلہ کا ایک بہت ہی اہم رکن صوم ( روزہ ) ہے ۔
صوم کے لغوی معنیٰ کسی بھی عمل سے رکنا ہے خصوصاً کھانے ، بولنے او ر چلنے سے رکنے کا نام صوم ہے ۔ رکی اور ٹھہری ہوئی ہوا کو بھی صوم کہا گیا ہے ۔ اور دن کے کلیجے میں رکے ہوئے سورج ( استواء شمس نصف النہار ) کو بھی صوم کہا گیا ہے ۔ نہ چلنے والے، نہ چرنے والے گھوڑے کوبھی صائم کہا گیاہے۔ شریعتِ مطہرہ میں اس کا معنیٰ و مفہوم یہ ہے ……ایک عاقل و بالغ مسلمان انسان سحر سے مغرب تک اﷲ کی رضا اور محمد رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلّم کی اطاعت کے لیے اپنی تمام حلال اور طیب لذتوں کو بھی خیرباد کہہ دے ۔ صوم کا لفظ قرآن کریم میں اپنی مختلف صورتوں کے ساتھ۱۳ مرتبہ آیا ہے اور ہر جگہ اس کا یہی معنیٰ و مفہوم ہے ۔ چونکہ قرآن کریم مجموعۂ قوانین و احکام ہے ۔ حکم خواہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ‘خبرکی صورت میں ہو یا افشاء کی صورت میں، حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے تیرہ مرتبہ روزے کا حکم دیا گیا جس سے اس کی معاشی اور معادی حیثیت واضح ہوگئی اور کسی قسم کا خرخشہ باقی نہ رہا ۔ کچھ لوگوں کا ’’یورپی نفس ‘‘ اس کو بہت ہی گراں سمجھتا ہے ۔ ان سے قرآن نمٹتاہے اور کہتا ہے کہ : ’’یہ روزے صرف تم ہی پر فرض نہیں کیے گئے بلکہ تم سے پہلے بھی جو لوگ تھے ان پر بھی روزے فرض تھے ۔ ‘‘ پھر یہ کہ :’’ تم روزے رکھو کہ روزہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے ۔‘‘……جس عمل کو اﷲ تعالیٰ اپنی مخلوق کے لیے بہتر فرمادے اسے غلط ، بے ڈھب ، او ربے جا مشقت کہنا خالصتاً حیوانیت ہے ۔ جبکہ حیاتِ طیّبہ حاصل کرنے کے لیے بہت ہی ضروری ہے کہ انسان ِ کامل سیدنا محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی بہر نوع اتباع کی جائے ۔خود روزہ نہیں رکھ سکتا ، بیمار ہے یا ضعیف عمر رسیدہ ہے تو کسی کو روزہ کے لیے (اپنی حیثیت کے مطابق)خرچ دیدے ،جس کی کم سے کم حیثیت ایک ٹوپہ گندم یا اس کی قیمت ہے ۔
روزے کی حکمت:
روزہ رکھنے کی حکمت قرآن ِ کریم نے خود بیان کی ہے ۔لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن(تاکہ تم متقی بن جاؤ)( البقرہ: 183)
متقی کے معنی صوفیاء نے بیان کئے ہیں کہ مشتبہ چیزوں سے بھی بچو اور فقہا ء کے ہاں اس کا معنیٰ ہے حرام سے بچو۔ اب روزہ کے حقیقی معنیٰ یو ں ہوں گے کہ حلال و طیب چیزوں سے بھی اپنے آپ کو روک لو یعنی نفس میں ایسا قوی جذبہ پیدا کرلیا جائے کہ آدمی جب بھی کسی بات ، کسی عمل او رکسی بھی چیزسے رکنا چاہے تورک سکے۔ حتیٰ کہ حلال لذّتوں ، طیّب کھانوں او رجائز راحت وآرام کو بھی چھوڑنا چاہے تو چھوڑ سکے ۔ چودھری افضل حق مرحوم نے لکھا ہے : ’’اسلام مساوات کی تعلیم دیتاہے، نماز مجلسی مساوات کا درس دیتی ہے اور روزہ اقتصادی مساوات کے لیے تلخ حقیقت کا تجربہ ہے ‘‘۔ ایک اور جگہ یو ں رقمطراز ہیں ۔ ’’اس لیے مساوات پسند مذہب نے روزہ کا حکم دے کرغریب کی زندگی کی ہلکی سی جھلک دکھا کر کہاکہ ان کا احساس کرو جو ملک کے غلط نظام کے باعث فاقوں مررہے ہیں ‘‘۔روزہ نہ رکھنے والے سرمایہ دار اور جاگیر دار ، حکمرانوں اور سیاست دانوں کی حیوانیت پر ضرب لگاتے ہوئے چودھری صاحب یوں حملہ آور ہوتے ہیں :’’امراء تو رمضان سے پہلے ہی اپنے دوستوں میں ( حلقہ ٔ ستائش ِ باہمی ) اپنی بیماری کا پروپیگنڈا کرنا شروع کردیتے ہیں اور قسم کھانے کو احتیاطاً ڈاکٹر سے دودن پہلے سرچکرانے کا نسخہ بھی لے لیتے ہیں تاکہ سندرہے ۔روزہ سے بچنے کے لیے وہ بیماری کی ساری صورتیں قبول کرلیتے ہیں مگر معمولی فاقہ کی مصیبت نہیں اٹھا سکتے ۔ غریب روزہ رکھ کر قرآن خوانی او رنوافل میں وقت گزار لیتے ہیں امیر کمزور اور بیمار پر روزے کے ’’برے‘‘ اثرات کے دلائل ڈھونڈنے اور احباب میں اس کی کیفیت بیان کرنے میں بسر کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی آہ بھرکر اپنی لات کی بیماری کی شکایت کرکے کہتے ہیں کہ دل تو چاہتاہے کہ روزے رکھوں مگر ڈاکٹر آڑے آتا ہے جی مسوس کررہ جاتاہوں۔‘‘
اب تو’’من حراموں ‘‘ کی ایک طویل فہرست ہے جو روزہ نہیں رکھتے کیوں کہ انھوں نے کلچرل ہونے کو مذہب پر ترجیح دی ہے ۔کیا مرد کیا عورتیں کیا امیر اور کیا غریب اس حمام میں سب ننگے اور کلچرل ہیں ۔( فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْن) اور اگر کسی سولائزڈ آدمی نے اکیسویں رمضان کا روزہ رکھنے کی مذہب پر ’’ مہربانی ‘‘کربھی لی تو اخبارات میں اس موذی کا نام ’’ صائمین ‘‘ کی فہرست میں سرِفہرست ہوگا۔ افطاری او ردعاؤں کی دھوم مچی ہوگی ۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ وہ ظہر تک تو تاب لاتے ہیں پھر اس کے بعد ددل دماغ ، زبان سب بے قابو ہوجاتے ہیں گھر میں ایک ادھم مچ جاتا ہے ۔ بیوی بچے یو ں دبکے چھپے بیٹھے ہوئے ہیں جیسے ملزم تھانے میں‘ اور روزہ دار صاحب بہادر کے اول فول اور گالیوں کا نشانہ ۔ ہمارے ہاں اخبارات کے مالکان رمضان میں بھی اخبار فروخت کرنے کے ثقفی حیلے تلاش کرلیتے ہیں کبھی طبلہ و سارنگی سے سنگت کرلیتے ہیں اور کبھی کسی رنڈی کی ننگی فوٹو اخبار کے سینہ پر سجا لیتے ہیں۔ قومی اخبارات و جرائد کا یہ رویہ شرمناک ہے ۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر8 گھنٹے کے مسلسل پروگرام میں روزہ، رمضان ‘قرآن ‘ اذان کے لیے بمشکل 25 منٹ او رباقی قتلِ اسلام کے منظور شدہ پروگرام کے لیے ۔
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
روزہ کی فرضیت :
مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجر ت کی تواس کے متصل ہی 2 ہجری میں اس امت پر روزے فرض ہوئے ۔ گویا تکمیل اسلام میں ہجر ت اور روزہ شانہ بشانہ ہیں یعنی اسلام کا عروج مشقتوں اور صعوبتوں کی راہ سے ہوکر آتا ہے ۔ راحتوں او رلذتوں سے آشنا نہیں :
ماہِ صیام کا تم سے یہی تقاضا ہے
کہ لَو خدا سے لگاؤ ، صیام کے دن ہیں
روزہ میں بھوک پیاس ،لذت و راحت کوچھوڑنے سے صدر اسلام میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسّلام اور صحابہ کرام ث کی زندگی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ وہ آدمی جسے انسان ہونا میسر نہیں اگر عقل و شعور کی آنکھ کھول کے دیکھے تو صحیح اور سچا انسان وہی نظر آتا ہے جو اپنا دل ، آنکھیں ، کان ،دماغ ، نفس اور روح احکام الٰہی کے سامنے ڈال دے ……اطاعت فرماں برداری اور اتباع کی وہ مثال قائم کرے جس کا نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے23برس مطالبہ کیا ۔
اَطِیْعُواللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُْوْلَ۔اﷲ اور اس کے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرو۔ (النساء:59)
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ ۔
جس نے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم )کی اطاعت کی ‘بے شک اس نے اﷲ کی اطاعت کی ۔(النساء:80)
نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مطالبے پر اُمت کاموجودہ منفی ردّ عمل کسی عذاب میں تو مبتلا کرسکتا ہے ۔مغفرت، رحمت ،بقاء ،ارتقاء اور نجات کی ضمانت ہرگز نہیں دے سکتا۔
اگر دنیا میں عزت، عظمت ، آبرو…… اور ترقیاں مطلوب ہیں اور عقبیٰ میں سرخروئی، سرفرازی اور نجات کی آرزو ہے تو ہر عمل میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کریں اور اپنی خواہشوں کو روکیں کہ خواہشات ہی ایک ایسی دلدل ہے جس میں دھنسا ہوا کبھی نہیں نکلا۔ یہ ایک ایسا خوبصورت جال ہے جس میں پھنسا ہوا کبھی رہا نہیں ہوا۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
’’رمضان کا چاند طلوع ہوتے ہی جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور شیطان قید کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
روزہ اور روزہ دار کے فضائل:
نسائی میں ایک حدیث سیدناعبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے :
اِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ صِیَامُ رَمَضَان (عَلَیْکُمْ)وَسَنَنْتُ لَکُمْ قِیَامَہ‘ فَمَنْ صَامَہ‘ وَقَامَہ‘ اِیْمَاناً وَاحْتِسَاباً خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِہٖ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہ‘ اُمُّہ‘ ۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ‘اﷲ نے تم پرروزے فرض کیے اور میں نے قیام کی سنت تمہیں دی ۔پس جس نے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ ‘ وہ گناہوں سے یوں نکل گیا جس طرح پیدائش کے دن تھا ۔یعنی گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے ۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کاایک اور ارشاد ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اُجُزٰی بِہٖ (یا)وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ ۔ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔
کہ روزہ میرے اور بندے کے درمیان ایک بھید ہے۔اور یہ صرف میرے ساتھ متعلق ہے ۔اسی لیے اس کی جزاء میں خود ہوں یا میں خود براہِ راست دوں گا۔
باقی تمام عبادات ظاہری صورت بھی رکھتی ہیں لیکن روزہ کی ظاہری کوئی ہیئت نہیں ہے ۔اسے اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے یہ ایک بھید ہے جو اﷲ اور بندے کے درمیان ایک خاص رشتہ وتعلق ہے ۔
روزہ دار کے منہ کی بُو اﷲ کے ہاں مشک سے بہتر ہے ۔اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسواک نہ کی جائے اور منہ گندا رکھا جائے بلکہ اس بُو سے مراد وہ بُو ہے جو خُلُؤّکی وجہ سے معدہ اور آنتوں سے اٹھتی ہے اور منہ سے نکلتی ہے اور یہ نتیجہ ہے اُس بھوک پیاس کی تلخی کاجو محض اﷲ کی رضا کے لیے انسان برداشت کرتا ہے ۔اس کی پسندیدگی کی حکمت بھی یہی برداشت اور ﷲّٰیت ہے۔ (واﷲ اعلم)
رمضان:
رَمَضَ یَرْمَضُ‘ فَتَحَ یَفْتَحُ کے باب سے ہے ۔معنیٰ ومفہوم یہ ہے کہ پیاس کی شدت سے اندر جل اٹھے اسے کہتے ہیں رَمَضَ الصَّائِمُ روزہ دار کااندر جل اٹھا۔رمضان کو رمضان اس لیے بھی کہاگیا کہ یہ شدید گرمیوں میں بھی آتا ہے ۔ اس لیے مہینوں کے شمار کنندگان نے اس کانام رمضان رکھ دیا لیکن سب سے پسندیدہ اس کاسبب جو ذکر کیا گیا وہ یوں ہے کہ :
اِنَّمَا سُمِّیَ رَمَضَانُ لِاَنَّہ‘ یَرْمَضُ الذُّنُوْبَ اَیْ یُحْرِ قُہٰا بِا الْاَعْمَالِ الصَّالِحَۃِ
اس ماہ کانام رمضان اس لیے رکھا گیا کہ یہ اعمالِ صالحہ سے گناہ جلاڈالتا ہے ۔
اس کے پہلے دس دن رحمت ِ عامہ کے، درمیان کے دس دن عام بخشش کے اور آخری دس دن جہنم سے آزادی کے، جن لوگوں کے لیے جہنم واجب ہوجاتا ہے ۔(اپنے اعمالِ خبیثہ کی وجہ سے )ان کو بھی عام معافی مل جاتی ہے ۔سبحان اﷲ !
کیا خوش نصیب ہے وہ آدم زاد جو اپنی حیوانی جبلتوں کوانسانیت کی ردا ء ابیض میں لپیٹنے کے لیے اﷲ جل شانہ اور سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بے چون و چرا اطاعت کرتا ہے ۔اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کااعتراف کرتے ہوئے اپنے مالک سے روروکر معافیاں مانگتا ہے اور اﷲ کی بارگاہ میں یوں پیش ہوتا ہے کہ فرشتے اس کی آمد پر اھلاً وسھلاً ومرحبا کے ڈونگرے برساتے ہیں۔
رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّ ھَیِّیْٔ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا(الکہف:10)
’’اے ہمارے رب ! ہم کو اپنے پاس سے بخشش دے اور ہمارے کام کی درستی کو پوراکردے۔‘‘
رمضان کی مقدس راتوں میں اوردنوں میں کوئی اﷲ کابندہ اپنے ساتھ میری مغفرت کی بھی دعاکردے توبیڑاپار ہے۔