شاہ بلیغ الدین رحمۃ اﷲ علیہ
روزے فرض ہونے کے بعد اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں نو رمضان آئے۔ درِ مختار میں ہے ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد ۲ہجری میں روزے فرض ہوئے۔ جب یہ حکم نازل ہوا اس دن شعبان کی دس تاریخ تھی۔
روزہ چھے طرح کا ہوتا ہے۔ ایک رمضان کا روزہ، دوسرا قضا روزہ، تیسرا نذر معیّن کا روزہ، چوتھا نذر غیر معیّن کا روزہ، پانچواں کفارے کا روزہ اور چھٹا نفل روزہ۔ نورالہدایہ میں ہے روزۂ نذراور روزۂ کفارہ بھی فرض ہوجاتا ہے، باقی سب روزے نفل ہیں۔ نذر معیّن اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص دن مقر ر کر کے نذر کرے کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں فلاں دن روزہ رکھوں گا۔ اگر دن مقرر نہ کیا جائے تو اس کو نذر غیر معیّن کہتے ہیں۔
بچوں کو روزے معاف ہیں لیکن دس سال کی عمر کے بعد روزہ نہ رکھنے پر ہاتھ سے مارنے کا حکم ہے۔ جو ہٹے کٹے تنو مند صرف اس لیے روزہ نہیں رکھتے کہ ان کے پاس کھانے کو بہت کچھ ہے یا جو لوگ چھوٹے چھوٹے عذر تراش کر روزے سے بچتے ہیں ان پر قضا ہی نہیں کفارہ بھی واجب ہے۔
روزہ ہم سے پہلے کی امتوں پر بھی فرض ہوا تھا۔ یہ ایسی عبادت ہے جو شروع سے چلی آرہی ہے ایسی عبادت سے بچنا بہت بڑا گنا ہ ہے۔ حضرت ختم المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر گندگی کو دور کرنے والی ایک نہ ایک چیز اﷲ تعالیٰ نے بنائی ہے۔ روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے یعنی اسے بیماریوں سے پاک کرتا ہے۔
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا: جس طرح لڑائی میں ڈھال دشمن کے حملوں سے بچاتی ہے اسی طرح روزہ ہمارے لیے ڈھال ہے جو ہمیں جہنم سے بچاتا ہے۔
روزہ صرف کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں یہ لذتوں سے رک جانے اور ایک خاص نظم کو اختیار کر لینے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسا نظم ہے جس میں روزہ دار حلال چیزوں اور بہت سے جائز کاموں سے بھی رک جاتا ہے۔ صرف اس لیے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور اس کی رضا کے لیے ہے۔
کچھ لوگ رزہ بہلانے کے لیے تاش کھیلتے ہیں یا سینما دیکھتے ہیں، یہ ان غار تگروں میں سے ہیں جو دکھاوے کے لیے روزہ رکھتے ہیں۔
رمضان کے مہینے میں حضور رسالت پناہ صلی اﷲ علیہ وسلم کثرت سے عبادت کرتے اور آپ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی۔ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اس مہینے کو غریبوں سے ہمدردی کا مہینہ قرارد یتے تھے۔ اﷲ کی راہ میں بانٹنا حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کوبے حد پسند تھا۔ یوں توا ﷲ کی راہ میں دینا ہر وقت ثواب کا موجب ہے لیکن رمضان میں دینے دلانے میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب سنت کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔ زکوٰۃ بالعموم اسی مہینے میں نکالی جاتی ہے۔ یہ لازم نہیں ہے لیکن اسے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح روزے سے بچنا سخت گناہ ہے اسی طرح زکوٰۃ دینے سے بچنا بھی سخت گناہ ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جن پر زکوٰۃ واجب ہو اگر وہ ادا نہ کرے تو وہ ملعون ہے اور ملعون دوزخ میں رہے گا۔ رمضان میں صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے، گھر کے ہر چھوٹے بڑے کی طرف سے یہ صدقہ واجب ہے۔
حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں ذکر اذکار میں اضافہ فرمادیتے، عام دنوں میں بھی آپ برابر تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے۔ رمضان میں اس مصروفیت میں اور بھی اضافہ ہوجاتا تھا۔
رمضان کی عبادتوں ہی کی ایک خاص صورت اعتکاف ہے، ہر رمضان میں آپ دس دن مسجد نبوی میں ا عتکاف فرمایا کرتے تھے۔ اعتکاف یعنی مسجد میں گوشہ نشینی جو اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہو۔ اعتکاف میں روزہ ضروری ہے۔ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرنا سنت موکدہ ہے، اس کے سوائے مستحب ہے۔ اعتکاف کے لیے ایسی مسجد کا ہونا شرط ہے جس میں باجماعت نماز ادا ہوتی ہو۔ اگر مسجد نہ ہو تو وہ جگہ ہو جہاں نماز ادا کی جاتی ہو۔ عورتوں کے لیے اپنے گھر ہی کے ایک کونے میں اعتکاف کا حکم ہے۔ وہ جگہ مسجد کے حکم میں آجائے گی۔ امام ابوحنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ کے نزدیک اعتکاف کی کم سے کم مدت ایک دن ایک رات ہے زیادہ مقرر نہیں۔
دنیا سے پردہ فرمانے سے پہلے جوآخری رمضان خاتم المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں آیا اس میں آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔اعتکاف میں آپ کلام اﷲ کا شروع سے آخر تک جتنا کچھ وہ نازل ہوچکا ہوتا ورد فرماتے رہتے اور جبرئیل امین تلاوتِ کلام پاک سننے حاضر رہتے۔ آخری اعتکاف کے پہلے دس دنوں میں روح الامیں نے تلاوتِ کلام پاک سن لی تو آخری دس دنوں میں سرورِ کونین صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت کو بھی طلب فرمالیا تھا ۔ اسی لیے صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں پارہ پارہ اور منتشر حالت سے قرآن کو دو دفیتوں کے درمیان جمع کرنا چاہا تو حضرت زید ہی کو حفاظ کی اس کمیٹی کا داعی مقرر کیا جس نے ملت کی شہادت سے اس فریضے کی تکمیل کی۔
رمضان قرآن کا مہینہ بھی ہے کہ اسی کی ایک طاق رات میں سیدہ آمنہ کے جگر گوشہ کو ختم المرسلین بنایا گیا۔ اسی لیے رمضان کے مہینے میں قرآن کثرت سے پڑھا جاتا ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں راتوں کو زیادہ سے زیادہ جاگ کر عبادت کرتے اور اپنی بیویوں کو عبادت کے لیے جگاتے۔ آپ کی اس زمانے کی عبادتوں میں بڑا جوش اور انہماک ہوتا۔
(طوبیٰ: ۱۵۵۔۱۵۸)