مولانا جمیل الرحمن عباسی
پروفیسر عطاء اﷲ اعوان صاحب کا نام بھی میرے موبائل کی ڈائری سے کٹ کر قرطاسِ دل پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوگیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
۷ اپریل بروز جمعرات دو بجے استاذ محترم مولانا مفتی عطاء الرحمن صاحب مدظلہ کے ساتھ مرکزی عید گاہ میں جب جنازہ کے لئے پہنچا تو وہاں مولانا عزیز الرحمن جالندھری مدظلہ کو بھی جنازہ میں شرکت کا منتظر پایا تب حضرت مفتی صاحب مدظلہ سے پوچھا کہ جنازہ کس کا ہے؟ مفتی صاحب نے بتایا :
’’پروفیسر عطاء اﷲ اعوان صاحب کی رحلت ہوگئی ہے، ان کی نماز جنازہ ادا کرنی ہے‘‘
بے ساختہ زبان سے انا ﷲ وانا الیہ راجعون نکلا اور میں نے مفتی صاحب سے عرض کیا کہ اعوان صاحب نے تو میرے سامنے اس بات کا اظہار فرمایا تھا کہ:
’’میں نے مفتی عطاء الرحمن صاحب کو کہہ دیا ہے کہ میری نماز جنازہ آپ نے پڑھانی ہے‘‘
مفتی صاحب نے اسی موقع پر فرمایا کہ انہوں نے دو روز قبل ختم صحیح بخاری شریف کی تقریب کے لئے ہزار روپے بھی بھجوائے اور دعا کے لئے بھی درخواست کی تھی۔
پروفیسر عطاء اﷲ اعوان صاحب کا خاندان ساہیوال ضلع سرگودھا میں آباد رہا، آ پ کے دادا نظام الدین کو سر رحیم بخش کے توسط سے ریاست کی طرف سے بارہ مربع زمین ملی تو وہ چنی گوٹھ آگیا۔ بعد میں وہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مرید بن کر مرتد ہوگیا۔ اس کا خاندان قادیانیت کی تاریک گھاٹی میں بھٹک کر رہ گیا۔ اسی نظام الدین کے بیٹے رحیم بخش کے گھر چنی گوٹھ میں چھ ستمبر 1935ء کو پروفیسر عطاء اﷲ اعوان صاحب پیدا ہوئے۔
آپ نے پرائمری تک مہند شریف پڑھا، مڈل کا امتحان چنی گوٹھ سے پاس کیا اور پھر صادق عباس ہائی سکول احمد پور شرقیہ میں نویں کلاس میں دخلہ لے لیا۔ اسی دوران علماء کرام کی تقاریر بالخصوص حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ کی ولولہ انگیز تقریر سننے کا انہیں موقع ملا تو انہیں اپنی قادیانیت کی فریب کاری کا احساس ہونے لگا۔ تعلیم کے دوران ان کے ہم سبق بھی آپس میں کہتے تھے کہ ’’یہ لڑکا قادیانی ہے‘‘ جس سے انہیں احساس ہوتا تھا کہ قادیانیت کوئی قابلِ نفرت چیزہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں قادیانیت کے بطلان اور اسلام کی حقانیت کا یقین ہوتا چلاگیا۔ اور پھر 27اپریل 1951ء کو حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نور اﷲ مرقدہ کے خلیفہ مجاز مولانا مفتی واحد بخش صاحب نور اﷲ مرقدہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور قادیانیت کے دجل وفریب سے نکل کر اسلام کی ابدی روشنی اور کامیابی سے وابستگی اختیار کر لی، خاندانی دولت اور عیش وعشرت کو لات ماری، والدین اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کر کے امام الانبیاء ﷺ کی رفاقت کو ہمیشہ کے لئے پسند کر لیا۔ آپ کے قبول اسلام کی خبر اخبارات نے جلی سرخیوں میں شائع کی۔ اسی سال لاہور میں یوم تشکر بھی منایا گیا، اسی یوم تشکر کے موقع پر آپ کا احرار کے سرکردہ رہنماؤں کے سامنے تعارف کرایا گیا ۔ حضرت امیر شریعت کا واقعہ پروفیسر صاحب نے خود سنایا کہ :
’’حضرت امیر شریعت موانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے کھانے کے وقت مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور ایک ہڈی والی بوٹی میرے منہ میں ٹھونس دی، بوٹی قدرے گرم تھی، وہ میرے منہ سے گر کر میری شلوار پر آرہی۔ شاہ جی ہنسے اور مجھے کھانا جاری رکھنے کا حکم دیا۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو شاہ جی نے پانی کا لوٹا خود اٹھایا اور صابن کے ساتھ میری شلوار دھلوانے لگے، پانی خود ڈالتے جاتے اور میں شلوار ملتا جاتا۔‘‘
حضرت امیر شریعت ؒ کے ساتھ آپ کا گہرا رابطہ رہا اور حضرت امیر شریعت کے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے خود مجھے بتایا کہ میں نے اپنے بیٹوں کے نام حضرت امیر شریعت کے ناموں پر رکھے ہیں، عطاء المحسن ، عطاء المنعم، عطاء المؤمن اور چونکہ میرا چوتھا بیٹا ہوا نہیں اس لئے اپنے پوتے کا نام عطاء المہیمن رکھا۔
حضرت امیر شریعتؒ کا ایک واقعہ یہ بھی سنایا کہ ایک مرتبہ حضرت امیر شریعتؒ کے ہمراہ کے گھر ناشتہ تھا۔ میزبان نے آم تناول فرمانے کا کہا تو شاہ جی نے فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ نے میرے جسم میں چینی کا ڈپو کھول دیا ہے اس لئے مجھے میٹھا کھانے کی ضرورت نہیں‘‘ (حضرت کو شوگر ہوگئی تھی)۔
ایک ملاقات میں علامہ محمد عبد اﷲ صاحب احمد پوریؒ کا ذکر چھڑا تو فرمایا:
’’وہ میرے استاذ ہیں اور میرے بہت بڑے محسن ہیں، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی بھرپور توجہ اور اخراجات سے میں نے میٹرک کر لی تو مجلس ختم نبوت والوں نے دینی تعلیم کے لئے علامہ عبد اﷲ صاحب کے حوالہ کر دیا، علامہ صاحب مجھے اور چند اور ساتھیوں کو تہجد کے بعد سے لیکر صبح کی نماز تک پڑھایا کرتے تھے۔ اور ایک ہی سال میں صرف نحو سے لے کر درجہ رابعہ تک کا چار سالہ کو رس پڑھا دیا اور امتحان دلوادیا پھر بعد میں علامہ عبد اﷲ صاحب ہی مجھے مولانا محمد صادق بہاولپوری ؒ کے پاس لائے اور ان کی سفارش پر مجھے ملازمت ملی۔‘‘
پروفیسر صاحب نے ملازمت کے دوران بھی اپنی تعلیم جاری رکھی اور ایم اے اردو میں چوتھی پوزیشن لے کر کامیاب ہوئے۔ 23سال تک ایس ،ای کالج بہاولپور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور بہت سی نامور شخصیات مثلاً میاں بلیغ الرحمن وغیرہ آپ کے سرفہرست شاگردوں میں شامل ہیں۔
راقم کے پوچھنے پر ایک مرتبہ فرمایا کہ:
’’ میں نے حضرت مولانا سید حسین مدنی رحمۃ اﷲ علیہ کو بیعت کے لئے خط لکھا تو حضرت مدنیؒ نے مجھے غائبانہ بیعت فرما لیا اور وظائف بھی بتائے ۔ میں اب تک وہ وظائف اہتمام کے ساتھ پورے کرتا ہوں، رات کو صبح کی نماز سے کئی گھنٹے پہلے جاگ جاتا ہوں، نوافل ادا کرتا ہوں، تلاوت کرتا ہوں، ذکر کرتا ہوں اور جامع مسجد ختم نبوت میں جا کر خود صبح کی اذان دیتا ہوں‘‘۔
پروفیسر صاحب بہت اچھے مضمون نگار، خاکہ نگار، ترجمہ نگار اور محقق ونقاد تھے۔ آپ کی کتب ’’ندیمانِ جمال‘‘ ان کی قلمی کاوشوں کا خوبصورت مظہر ہے، آپ کو اﷲ تعالیٰ نے دولت وثروت اور مسرتوں سے نواز رکھا تھا، بڑا وسیع اور خوبصورت گھر بھی اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دیا، اولاد تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہے۔ معاشرہ میں بھرپور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ پانچ مرتبہ حج بیت اﷲ اور روضہ رسول کی زیارت نصیب ہوئی اور متعدد بار عمرہ ادا کیا ۔ بزرگوار محترم پروفیسر خالد شبیر احمد صاحب درست فرماتے ہیں کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے انہیں اسلام پر استقامت کے بدلے کی ایک جھلک دنیا میں ہی دکھا دی ہے‘‘۔ تاہم پروفیسر صاحب مرحوم قادیانیت کو رد کر کے اسلام سے وابستہ ہونے کو ہی سب سے بڑی دولت سمجھا کرتے تھے اور یقینا اسلام سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی ہوہی نہیں سکتی۔
استاذ محترم حضرت مولانا مفتی عطاء الرحمن صاحب مدظلہ نے پروفیسر صاحب کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ پڑھائی اور بڑی تعداد میں شرکاء نے آنحضرت ﷺ کے اس عاشق زار کی نماز جنازہ ادا کی ۔ میں سوچتا رہ گیا کہ چند مربع زمین کو ٹھکرا کر یہ شخص کتنی بڑی دولت کا مالک بن گیا۔ اگر خدانخواستہ زمین کی لالچ میں یہ قادیانیت پر ہی رہتے تو زندگی نے تو آج پھر بھی اختتام کو ہی پہنچ جانا تھا لیکن ہمیشہ کی ناکامی کتنے بڑے خسارہ کا سودا ہوتا۔ کاش! چند روزہ عیش پر مر مٹنے والے موت کو دیدۂ عبرت سے دیکھ لیں اور قرآن مجید کی یہ آیت سامنے رہے۔ ربما یود الذین کفروا لو کانوا مسلمین۔
آج پروفیسر صاحب کے چہرے پر سکون اور مسرت محسوس کی تو بے ساختہ زبان سے نکلا ’’فزتَ وربّ الکعبۃ‘‘ رب کعبہ کی قسم آپ کامیاب ہوگئے۔