محمدعرفان الحق ایڈووکیٹ
قرآن و حدیث جیسے معطر گلدستوں کو چھوڑ کر تاریخ کے رطب و یابس پر اعتماد کرنے والوں کو کس طرح باور کروایا جائے کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کا دورِ حکومت اسلامی تاریخ کا وہ عظیم الشان سنہرا دور ہے، جس کی مثال بعد از خلفائے راشدینؓ چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریبی رفیق ، برادرنسبتی، ہم زلف، کاتب وحی اور کئی بشارتوں کے مصداق ،عظمت و کردار کے گوہر،تابدار صحابی ہیں۔ لسان ِنبوت نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کوجنتی کہہ کر ان کی عدالت و دیانت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
ان کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی بہت بڑا گناہ اور سینکڑوں برس کی عبادت کو غارت کر دینے کے مترادف ہے۔خرابی کی جڑ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم صحابہ ؓ کا تعارف قرآن و حدیث کو چھوڑ کر تاریخ سے مانگتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے دور میں دو فتنوں نے سر اٹھایا ہے جو دراصل یہ لوگ عہد اولیں کے دو گروہوں (نواصب و روافض) کے خوشہ چیں ہیں ۔ انہیں کی ر وایات کو بنیاد بنا کر انہوں نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو موضوع بحث بنایا ہواہے۔پاکستان میں ایک گروہ نے لاہور سے ایسا لٹریچر شائع کیا جو حضرت معاویہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ ، حضرت عمرو بن العاص اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہم پر روافض کی قدیم تاریخوں کے حوالے سے ایسی ایسی نازیبا باتوں پر مشتمل ہے جو گندی ڈھیری میں ڈالنے کے قابل ہے۔ زہر میں چینی ملا کر نہایت ہوشیاری سے نئی نسل کو گمراہ کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ـ’’خلافت اور ملوکیت‘‘ کے دو عنوانوں کی آڑ لے کر معاذ اﷲ صحابہ رضی اﷲ عنہپر بدنیتی، خود غرضی اور گناہ و معصیت کے الزامات عائد کر دیئے گئے۔ ردِ عمل کے طور پر ایک دوسرا گروہ کراچی سے نمودار ہوا ،اُس کا دعویٰ یہ تھا کہ انہوں نے تاریخ کی روشنی میں حضرت علی اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہم کو بزدل ، ناکام حکمران، حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو باغی اور غیر صحابی (العیاذ باﷲ) ثابت کر کے اپنے تئیں بڑا تیر مارا۔
صحابہ رضی اﷲ عنہم کے بارے میں قرآن و سنت کے واضح نصوص و فرامین کے باوجود قلم کاروں نے کیا کیا قلابازیاں کھائی ہیں، دونوں کی بنیاد تاریخ ہی تاریخ ہے ۔ افسانوں اور من گھڑت کہانیوں پر مشتمل موضوعات اور جعلی قصے ہیں۔ پیشہ ور واعظوں ، کرائے کے ذاکروں، چیخنے چلانے والے جاہل قسم کے مقررین ،قرآن و حدیث کے تقاضوں سے ناآشنا بعض مولوی، واہ واہ سننے والے داد خواہ خطیبوں اور جذبۂ مسابقت رکھنے والے مرثیہ خوانوں نے افسانہ نگار مؤرخوں کو بھی مات دے رکھی ہے۔
انسانی عقل جن روایات کا ماتم کرتی ہے، جن کہانیوں کے صحیح تسلیم کرنے سے صحابہ رضی اﷲ عنہم کی پوری جماعت یک گو نہ مجرم قرار پاتی ہے، وہ قصے اور افسانے جن کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ، آج کل ہمارے اسٹیجوں،ٹی وی چینلز اوردین کا بنیادی علم نہ رکھنے والوں کے موضوعات کی زینت ہیں۔سامعین کو رلانے اور رقت پیدا کرنے کیلئے بالکل بے بنیاد اور جھوٹی کہانیوں پر مشتمل قصے سنائے جاتے ہیں اور افسوس کہ ہم سب یہ لغو اور خرافات سے بھر پور کہانیاں سن کر غفلت اور بے حسی کی سیاہ و تاریک چادر تان لیتے ہیں ۔ کاش ہم جان سکیں کہ من گھڑت قصے سن کر خاموش رہنا کتنا بڑا گناہ اور اس کے نتائج کتنے سنگین ہوتے ہیں۔
تاریخ جب ناقابلِ اعتبار ہوجائے تو پھر کیاکیاجائے؟ احوال وقائع کے بارے میں کہاں سے استفادہ حاصل کیا جائے؟اس سوال کا جواب واضح ہے کہ تاریخ کی ہر ایسی روایت کو نظر انداز کر دیا جائے جو صحابیت کا تقدس مجروح کرتی ہو۔ کیونکہ قرآن و حدیث کی واضح ہدایت کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ آئمہ کی تصریحات کے مطابق بعد کی تاریخوں میں ’’تاریخ طبقات ابن سعد ‘‘اور ’’ابن خلدون‘‘ ایسی تاریخیں ہیں جنہیں کسی حد تک قابلِ اعتبار مجموعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ چونکہ ایمان کا معیار و مدار صحابۂ کرامؓ ہیں اس لیے بعض صحابہؓ سے تکوینی طور پر جوچند نامناسب باتیں ظہور پذیر ہوئیں یا چندلغزشیں یا مشاجرات رونما ہوئے، ان کا مقصد یہ تھا کہ امت کے لیے اصول و قانون اور قواعد و ضوابط مقرر ہو جائیں۔ یہ لغزشیں وغیرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے تو سرزد نہیں ہونے تھے کیونکہ گناہ سے معصومیت نبوت کا خاصّہ ہے، اسی لیے نبوت والا یہ کام رب العزت نے صحابیت سے سر انجام دلوایا۔ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم معصوم نہیں مگر محفوظ ضرور ہیں۔ ان کی کوتاہیاں قرآن کی صراحت کے بعد بالکل معاف ہو گئیں بلکہ ان رضی اﷲ عنہ سے سرزد لغزشوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیا گیا اور ان کے ذمہ کوئی گناہ باقی نہ رہا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے لے کر حضرت وحشی رضی اﷲ عنہ بن حرب تک، کوئی صحابی رضی اﷲ عنہ بد دیانت یا خود غرض نہیں بلکہ تمام صحابہ محفوظ عن الخطاء اور نیک نیت ، صاحب ِعدالت یعنی حق و انصاف پر قائم تھے۔اسی لئے امت ِمسلمہ پر واجب ہے کہ وہ صحابہ رضی اﷲ عنہم کے حساس معاملات میں شکوک و شبہات میں پڑنے کے بجائے ،اُن معاملات کی مثبت توجیہ کریں اور اپنے ایمان کو، شیعہ ،خوارج اور ناصبیوں کے شر انگیز فتنہ سے محفوظ رکھیں ۔ علامہ محب الرحمن بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ ان الفاظ میں بیان کر تے ہیں :
’’اور ہمارے اسلاف صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی عظمت! سو شیطان نے ایسے لوگ مسلط کر دیے جن کے قلوب بد ترین تھے اور ان سے صرف برائی ٹپکتی تھی۔ انہوں نے ان رضی اﷲ عنہ کے خلاف خود پروپیگنڈہ کیا یہاں تک کہ اکثر لوگوں نے ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈہ کو سچ سمجھ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ایک ایسی امت کے ہو کر رہ گئے جن کی کوئی عظمت اور بزرگی نہ ہو۔ تعجب ہے اس امت پر کہ یہ اپنے جلیل القدر فرزندوں(صحابہ رضی اﷲ عنہم) کی برائیاں بیان کرتی ہے اور اپنی ہی تاریخ کے خوبصورت دور کو بدترین انداز میں پیش کرتی ہے۔ اور پھر ان برائیوں کا پروپیگنڈہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ نیک لوگوں کو بھی گمان ہو جاتا ہے کہ شاید یہ باتیں سچی ہوں ‘‘۔
تاریخ کے اوراق میں سب سے زیادہ جس صحابی رضی اﷲ عنہکی نسبت ہرزہ سرائی کی گئی ،وہ مظلوم انسان کوئی اور نہیں بلکہ امیرالمؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی ذاتِ اقدس ہے، جن کے فضائل و مناقب، حیرت انگیز خدمات اور بے مثال اسلامی عہد کو یکسر نظر انداز کرکے ایسی ایسی غلط و کفریہ اور بے بنیاد باتیں ان کی نسبت گھڑی گئیں کہ الامان و الحفیظ۔ جاننا چاہیے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ رسول ِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے انتہائی قریبی رشتہ دار، صحابی اور خصوصی خدام میں سے تھے۔ ایسی عزت کے حامل انسانوں کا روشن اور چندے آفتاب و چندے ماہتاب کردار، سینکڑو ں برس بعد دشمنی کی بنیاد پر مرتب کردہ تاریخ کی بناء پر کیسے مجروح ہو سکتا ہے؟ حضرت معاویہؓ کے بارے میں جس شخص کا نظریہ و عقیدہ رافضیت و سبائیت کی ریزہ چینی کا سزاوار ہے یا تاریخ کے چیتھڑوں کا رہین ہے، اسے حقائق پر نظر ڈالنی چاہئے۔اس لیے کہ جہاں ابن سباء یہودی(شیعہ مذہب کا بانی) کے نظریات سے دامن بچا کر صحابی ِرسول کی عظمت کا اعتراف لازمی ہے، وہاں سچی توبہ کر کے راہ ِ ہدایت پر گامزن رہنا بھی ازحد ضروری ہے۔
تاریخ اسلام کا ایک دلچسپ سوالنامہ:
قیصر روم نے حضرت معاویہؓ کی طرف خط لکھا کہ مجھے درج ذیل کے بارے میں اطلاع دی جائے:
٭ ایسی جگہ جس کا کوئی قبلہ نہ ہو۔
٭ ایسا شخص جس کا کوئی باپ نہ ہو۔
٭ ایسا شخص جس کا کوئی سابقہ خاندان نہ ہو۔
٭ ایسا شخص جس کو لے کر اس کی قبر چلی ہو۔
٭ وہ تین چیزیں جو کسی رحم مادر میں پیدا نہ ہوئی ہوں۔
٭ مکمل شے، آدھی شے اور لا شے (نہ ہونا) کسے کہتے ہیں؟
٭ نیز اِن کے علاوہ اِس خط کے ساتھ ارسال کردہ بوتل میں دنیا کی ہر چیز کے بیج مجھے ارسال کیے جائیں۔
حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہنے یہ خط اور بوتل، حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہکی بارگاہ میں مطلوبہ جوابات کے لیے ارسال کردیں۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہنے جواب میں فرمایاکہ:
٭ ایسی جگہ جس کا کوئی قبلہ نہ ہو․․․․․ خانہ کعبہ ہے۔
٭ ایسا شخص جس کا کوئی باپ نہ ہو․․․․․ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔
٭ ایسا شخص جس کا کوئی سابقہ خاندان نہ ہو․․․․․ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔
٭ ایسا شخص جس کو لے کر اس کی قبر چلی ہو․․․․․ حضرت یونس علیہ السلام ہیں۔
٭ وہ تین چیزیں جو کسی رحم مادر میں نہ پیدا ہوئی ہوں،یہ ہیں:
۱۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دنبہ
۲۔ قوم ثمود کی اونٹنی
۳۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا اژدہا
٭ مکمل شے: وہ شخص جو صاحب عقل ہو، اپنی عقل سے کام بھی لیتا ہو۔
٭ آدھی شے: وہ شخص جو صاحب عقل نہ ہو لیکن دوسرے عقل مند لوگوں کی رائے سے عمل کرتا ہو۔
٭ لا شے: وہ شخص جو صاحب عقل نہ ہو لیکن دوسرے عقل مند لوگوں کی رائے سے بھی عمل نہ کرتا ہو۔
٭ مذکورہ بوتل، ابن عباسؓ نے پانی سے بھر دی اورفرمایا کہ دنیا کی ہر چیز کا بیج یہی ہے۔ کیونکہ قرآن میں ہے کہ اﷲ نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا فرمایا۔
ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے ان جوابات کے ساتھ مذکورہ بوتل، حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے پاس بھیج دی اور حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہنے اُسے قیصر روم کی طرف ارسال کردیا۔یہ سب کچھ جب قیصر روم کے پاس پہنچاتو اس نے لاجواب ہوکر کہا کہ یہ باتیں کسی نبی ہی کے گھروالوں سے حاصل ہوسکتی ہیں۔
﴿بحوالہ :الکامل اللمبرد؛ج ۲ص۴۵۷﴾