سید محمد کفیل بخاری
حضرت حافظ سید محمد وکیل شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کا سانحۂ ارتحال
حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے داماد، حضرت مولانا سید عطاء المومن بخاری مدظلہٗ، قائد احرار حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم کے بہنوئی اور میرے والد ماجد حضرت حافظ سید محمد وکیل شاہ بخاری ۸؍ رجب ۱۴۳۷ھ /۱۶؍ اپریل ۲۰۱۶ء بروز ہفتہ بعد از ظہر دو بج کر پچیس منٹ پر انتقال کرگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ والد ماجد رحمۃ اﷲ علیہ گزشتہ آٹھ ماہ سے شدید علیل تھے۔ اگست ۲۰۱۵ء میں معمولی بخار سے علالت کا آغاز ہوا جو بالآخر مرض الوفات پر منتج ہوا۔ درمیان میں کچھ افاقہ بھی ہوا مگر انتقال سے تین چار روز قبل دوبارہ شدید بخار ہوا جو موت کے ساتھ ہی اترا اور انہیں مکمل صحت ہوگئی۔ میری والدہ ماجدہ رحمہا اﷲ کے انتقال ۱۳؍ اپریل ۲۰۱۲ء کے بعد والد ماجد کی وفات خاندان امیر شریعت کے لیے ایک گہرا صدمہ ہے۔
حضرت حافظ سید محمد وکیل شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ، ۱۵؍ جمادی الاوّل ۱۳۴۹ھ / ۹ ؍ اکتوبر ۱۹۳۰ء کو موضع دین پور، عبد الحکیم ضلع خانیوال میں پیدا ہوئے۔ دادا جان حضرت سید محمد شفیع شاہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اﷲ مرقدہٗ سے بیعت تھے۔ اسی نسبت کی برکت سے اپنے بیٹے کو سب سے پہلے قرآن کریم حفظ کرایا۔ ابا جی نے حفظ قرآن حضرت حافظ محمد حسین رحمۃ اﷲ علیہ سے کیا۔ پھر قریبی بستی پہوڑاں والا میں قائم ایک سکول سے پرائمری جماعت پاس کی۔ ۱۹۴۷ء میں جب پاکستان بنا تو اس وقت راولپنڈی میں نویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ اور وہاں اپنے عزیزوں کے ہاں رہتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اپنی آبائی بستی دین پور واپس آگئے اور گورنمنٹ ہائی سکول سرائے سدھو، تحصیل کبیر والہ میں داخل ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں مدرسہ ریاض الاسلام جھنگ میں درس نظامی میں داخلہ لیا، ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ یہاں حضرت مولانا محمد یسین (سابق مہتمم جامعہ قاسم العلوم ملتان) بھی پڑھتے تھے۔ ان سے دوستی ہوگئی اور دونوں مدرسے کے ایک ہی کمرے میں رہائش پذیر رہے۔ یہیں ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا۔ ۱۹۵۲ء میں شادی ہوئی اور حضرت امیر شریعت نے انہیں اپنا داماد بنا لیا۔ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری نور اﷲ مرقدہٗ سے بیعت ہوئے اور ۱۹۵۲ء میں حضرت رائے پوری نے ہی آپ کا نکاح پڑھایا۔ تعلیم کے سلسلے میں ملتان آگئے اور گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے بی اے کیا، پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد ۱۹۵۹ء میں گورنمنٹ میونسپل ڈگری کالج اوکاڑہ میں لیکچرار متعین ہوئے۔ کئی برس اسی کالج میں استاد رہے۔ ۱۹۸۰ء میں گورنمنٹ سول لائن کالج ملتان میں تبادلہ ہوا اوریہیں سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر ریٹائر ہوئے۔
وہ ایک شریف النفس اور انتہائی متقی انسان تھے۔ حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ اور علماء ومشائخ کی صحبت کے انوار واثرات ان کی سیرت سے جھلکتے تھے۔ نماز کی پابندی، تہجد، تلاوتِ قرآن، خاندان اور برادری سے حسنِ سلوک، دیانت اور رزق حلال کا اہتمام خاص ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف تھے۔ انہو ں نے ہندوستان کے ایک سفر میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمھم اﷲ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ دہلی، امرتسر، دیوبند، سہارن پور اور رائے پور گئے۔ مقصد صرف ان اکابر کی زیارت اور ملاقات تھا۔ حضرت مولانا محمد علی جالندھری، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی اور مولانا مفتی محمود رحمہم اﷲ سے بہت گہرا دوستانہ تھا۔ حضرت حافظ سید محمد وکیل شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ ایک بلند صفت صاحبِ نسبت بزرگ تھے۔ استغناء و قناعت اور سادگی و شرافت کا پیکر تھے۔ اپنی طویل تدریسی زندگی انتہائی ایمان داری اور شب و روز محنت و مزدوری کے ساتھ بسر کی۔ وہ ایک بے ضرر اور صابر وشاکر انسان تھے اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھے ہوئے تھے، سب سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے اپنی اولاد کے لیے رزقِ حلال کمایا اور اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے ساری زندگی اتباعِ شریعت میں گزاری۔ وہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی اور تعلیمی بورڈ ملتان میں کئی برس سیکریسی آفیسر بھی رہے اور دیانت داری کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔
۹؍ رجب ۱۴۳۷ھ؍ ۱۷؍ اپریل ۲۰۱۶ء اتوار صبح پونے سات بجے ابدالی مسجد ملتان میں اُن کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ کی امامت کی سعادت فقیر راقم کو حاصل ہوئی۔ علماء و مشائخ، دینی مدارس کے طلباء، کالج و یونیورسٹی کے اساتذہ، تبلیغی جماعت کے مسافر مبلغین اور شہر کے مختلف حلقوں کے افراد ہزاروں کی تعداد میں نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے۔
۸ بجے صبح قبرستان جلال باقری کے احاطۂ بنی ہاشم میں حضرت امیر شریعت اور خاندان کے دیگر بزرگوں کے ساتھ آسودۂ خاک ہوئے۔ ابناء امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المؤمن بخاری مدظلہٗ اور حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم نے اپنی دعاؤں کے ساتھ انھیں رخصت کیا۔ بھانجے حافظ سید عطاء المنان بخاری، نواسے مفتی سید صبیح الحسن ہمدانی، بھتیجوں حافظ سید محمد معاویہ بخاری، سید عطاء اﷲ ثالث بخاری، بھائیوں سید محمد امجد شاہ صاحب، سید غلام مصطفی شاہ صاحب اور راقم نے لحد میں اتارا، اُن کا چہرہ پرسکون اور روشن تھا، آخری وقت اﷲ اﷲ کا ذکر اُن کی زبان پر جاری تھا۔ الحمد ﷲ ایمان پر موت نصیب ہوئی اور خاتمہ بالخیر ہوا۔ اﷲ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے، حسنات قبول فرمائے، خطائیں معاف فرمائے، اُن کی دعائیں ہمارے شامل حال فرمائے اور ہم سب پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے (آمین)۔
حضرت مرحوم کی شخصیت پر تفصیلی مضمون ان شاء اﷲ آئندہ اشاعت میں شامل ہو گا۔ جن شخصیات اور احباب نے تعزیت و ہمدردی کی اُن کی تفصیل بھی شامل ہو گی۔ اَللّٰہُمَ اغْفِرْ لَہٗ وَارْحَمُہُ وَ عَافِہٖ وَاعْفُ عَنْہُ وَارْفَعْ دَرَجَاتِہ
مولانا محمد دین شوق کا سانحۂ ارتحال:
مولانا محمد دین شوق 14 اور 15 اپریل (جمعرات، جمعہ کی درمیانی شب) ہارٹ اٹیک ہونے سے انتقال فرماگئے۔ ابتدائی تربیت جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں حضرت فاضل حبیب اﷲ رشیدی رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس ہوئی، ایک عرصہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں خازن اور ماہنامہ ’’الرشید‘‘ ساہیوال کے معاون کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ وہیں جناب عبد اللطیف خالد چیمہ سے بے تکلف دوستی ہوئی۔ حضرت پیرجی عبد العلیم شہید کے جامعہ رشیدیہ کے دور نظامت میں بھی ان کے معتمد خاص رہے۔ بعد ازاں محمودیہ ہائی سکول ساہیوال میں ملازمت اختیار کرلی مختلف دینی مدارس کے حسابات اور آڈٹ کرا کر دیتے۔ دارالعلوم ختم نبوت چیچہ وطنی کے خازن ومحاسب کی خدمات 1985 ء سے سر انجام دیتے آرہے تھے۔ سکول سے ریٹائرمنٹ کے بعد دفتر احرار چیچہ وطنی اور دارالعلوم ختم نبوت میں عبد اللطیف خالد چیمہ کے معاون کے طور پر بھی خدمات انجام دینے لگے اور انتقال سے چند ہفتے قبل مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ لائبریری چیچہ وطنی کی نگرانی بھی کرنے لگے۔ چیچہ وطنی جماعت کے اداروں کی تعمیر وترقی کی نگرانی پوری توجہ سے کرتے تھے اور احباب احرار چیچہ وطنی اور ادارے کے تمام ارکان وسٹاف سے بے حد مانوس تھے۔ شعبۂ حفظ قرآن کریم کے طلباء کی سکول کی تعلیم شروع کی۔ طلباء کی بزم ادب کے اجلاس کی نگرانی کرتے تھے اور ہمہ وقت ذمہ داری سے کام میں مشغول رہتے۔ حافظ حبیب اﷲ چیمہ کے اہتمام میں چک نمبر 12-42ایل والے مدرسہ عربیہ رحیمیہ کے حسابات ونظم کو بھی وہی دیکھتے تھے اور ہر کام کو اپنا ذاتی کام سمجھ کر کرتے۔ استغناء اور مطمئن شخصیت کا نمونہ تھے۔ 14؍ اپریل جمعرات کو چیچہ وطنی سے چھٹی پر ساہیوال گھر گئے، رات 11:45 بجے دل کی تکلیف ہوئی اور آدھ پون گھنٹے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ چیچہ وطنی اداروں کے ماحول اور خصوصاً جناب عبد اللطیف خالد چیمہ، قاری محمد قاسم، مولانا منظور احمد، حافظ حبیب اﷲ رشیدی، قاری محمدسعید، قاری محمد صفدر، قاری محمد سدید، محمد رمضان جلوی، حافظ حکیم محمد قاسم، قاضی عبد القدیر، قاضی ذیشان آفتاب، حافظ محمد شریف، شاہد حمید، حافظ محمد سلیم، محمد بن قاسم، رانا قمر الاسلام، سراج الدین احمد صدیقی اور دیگر افراد کی بھری مجلس کو اچانک جدائی دے گئے جس سے اب تک سب انتہائی غم زدہ ہیں۔ ادارہ مولانا مرحوم کی طویل خدمات کو خْراج تحسین پیش کرتا ہے اور ان کے اہل خانہ اور بچوں سے تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔ 15 ؍ اپریل، بعد نماز مغرب نماز جنازہ مسلم ٹاؤن ساہیوال کے قریب علی ٹاؤن کے گراؤنڈ میں ادا کی گئی جو ان کی وصیت کے مطابق قاری عطاء اﷲ مدرس جامعہ رشیدیہ ساہیوال نے پڑھائی۔ قاری منظور احمد طاہر، مولانا کلیم اﷲ رشیدی، قاری بشیر احمد رحیمی، قاری عتیق الرحمن سمیت علماء کرام، دینی جماعتوں کے کارکنوں، مدارس اور محمودیہ ہائی سکول کے اساتذہ وطلباء نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ نماز ہ جنازہ سے قبل جناب عبد اللطیف خالد چیمہ نے اپنی تعزیتی گفتگو میں مولانا مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔