حبیب الرحمن بٹالوی
ایک درویش قبرستان سے باہر نکلا تو کسی نے پوچھا کہاں گئے تھے؟ کہا اس قافلے سے ملنے گیاتھا۔ پوچھاکیا باتیں ہوئیں؟ کہا میں نے دریافت کیا ’’ یہاں سے آگے کب جاؤ گے؟ جواب ملا بس! تمہارا انتظار ہے۔‘‘
ایک جنازہ جارہا تھا۔ ایک نوجوان نے ایک بزرگ سے پوچھا بابا! یہ کس کا جنازہ ہے؟بزرگ نے جواب دیا بیٹا! اپنا سمجھ لو یا میرا۔ کل اسی طرح لوگ ہمارے جنازے کو اٹھائے لیے جارہے ہوں گے اور مساجد سے اعلان ہوگا ’’حضرات ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیں۔ شیخ حبیب الرحمن بٹالوی ملتان بورڈ والے جو آج کل ’’رائز کالج میں پڑھا رہے تھے‘‘ بقضائے الٰہی انتقال کرگئے ہیں۔ ان کی نمازجنازہ آرٹ کونسل کے ساتھ والے پارک میں ادا کی جارہی ہے۔ اہل محلہ سے اپیل ہے کہ جنازے میں شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔‘‘
حضرت سعید بن حبیب کہتے ہیں، میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان میں گیا، حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اہل قبور پر سلام پڑھا اور اچانک آواز لگائی۔ اے قبرستان والو! ہم تمہیں اپنی دنیا کی خبریں بتلائیں یا تم اپنے یہاں کا حال سناؤ گے۔ ان کے ان کلمات کا بہت ہی صاف جواب آیا۔
اے امیر المؤمنین! وعلیکم السلام! پہلے آپ ہمیں بتلائیے! ہمارے بعد کیا ہوا؟ ’’امیر المؤمنین رضی اﷲ عنہ بولے تمہاری بیویوں کا نکاح ثانی ہوگیا۔ تمہارا مال بٹ گیا۔ سب باغات اجڑ گئے اور وہ خوبصورت گھر جو تم نے بڑے شوق سے بنائے تھے۔ تمہارے دشمنوں نے ان پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ ہماری خبریں تھیں۔ اب تم اپنی بھی کہو۔‘‘ ایک میت نے کہا: ’’ہمارے کفن پارہ پارہ ہوچکے ہیں، جوانی کی شاخ ترجل کے بھسم ہوچکی ہے، بال بکھر گئے ہیں، بدن کی کھال ریزہ ریزہ ہو کر خاک میں مل گئی ہے ، ہماری آنکھیں بہہ بہہ کر گالوں تک آگئی ہیں، نتھنوں سے پیپ ٹپک رہی ہے، زندگی میں ہم نے جو کچھ آگے بھیجا تھا وہ ہمیں مل گیا ہے اور جو مال و زر ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے وہ ہمارے لیے نقصان میں ہے۔
قارئین کرام!مارچ کے شروع میں ہمارا ایک نوجوان ہمسایہ محمد رمضان عر ف جانی انتقال کر گیا۔ ایک منحنی سے جسم کا مالک، بظاہر کمزور مگر انتھک، محنتی انسان۔ گلی کے شروع میں اس کی سائیکل مرمت کی دکان تھی۔ ہر وقت زمین پر بیٹھا کام میں مگن رہتا سائیکل اورموٹر سائیکل کے پنکچر لگاتا، سائیکلوں کی مرمت میں مصروف۔ کبھی کسی کے گھر کی چابی اندر رہ گئی ہے تو اس کا تالا کھول کے دے رہا ہے تو کبھی کسی کا سائیکل مرمت کر کے اس کے گھر پہنچا رہا ہے۔ اس کی دکان پر ہر وقت ایک ہجوم سا لگا رہتا۔ ہر ایک سے مسکرا کے بات کرتا۔ کبھی کسی سے لڑائی نہیں کی۔ کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا۔ میں محلہ طارق آباد میں عرصہ پینتیس سال سے ہوں۔ کئی جنازے پڑھنے کا اتفاق ہوا مگر میں نے محلے میں اتنا بڑا جنازہ نہیں دیکھا جتنا نوجوان دوست جانی کا ہوا۔ اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے۔ گلی میں بات ہو رہی تھی کہ اس کے گردے کا آپریشن ہوا تھا۔ خون لگایا گیا جو اسے موافق نہ آیا۔
ایک دن پہلے دودھ والے سے کہہ رہا تھا ’’میں ہسپتال جارہا ہوں۔ دو تین دن لگ جائیں گے۔ گھر دودھ دیتے رہنا۔ میں آکر پیسے دے دوں گا۔ اسے کیا پتا تھا کہ اس نے واپس ہی نہیں آنااور کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ اس نے کل کیا کرنا ہے۔ اس کی سات سالہ بیٹی اپنے دادا جان سے کہہ رہی تھی ’’دادا ابو! آپ بابا کو پہلے ہسپتال لے گئے پھر آئی سی یو لے گئے۔ اگر آپ آپریشن نہ کرواتے توآج بابا گھر ہوتے۔‘‘
بچی کو کون سمجھائے کہ جب وقت آجاتا ہے تونہ ایک لمحہ پیچھے ہوتا ہے نہ آگے! اور سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم روز دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ مگر زندگی اس طرح بسر کرتے ہیں جیسے خود کبھی نہیں مریں گے۔
یہ آدمی کا جسم کیا ہے جس پہ شیدا ہے جہاں ایک مٹی کی عمارت ایک مٹی کا مکاں
خون کا گارا بنا اور اینٹ اس میں ہڈیاں چند سانسوں پہ کھڑا ہے یہ خیالی آسماں
موت کی پرزور آندھی جس گھڑی ٹکرائے گی دیکھ لینا یہ عمارت خاک میں مل جائے گی