عبداللطیف خالد چیمہ
غازی ممتاز قادری کی شہادت
دینی تعلیم اور دینی مدارس کے خلاف جارحانہ میم، سود کو ماورائے آئین جاری رکھنے کی مذموم کوششیں، اسمبلی سے حقوق نسواں بل کی منظوری کے بعد29؍ فروری 2016 ء کو غازی ممتاز حسین قادری کو پھانسی!
ممتاز قادری کی پھانسی سے’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں شہیدان ناموس رسالت میں جو اضافہ ہوا اس کا پس منظر یہ ہے کہ:
جون 2009 ء میں آسیہ مسیح توہین رسالت کی مرتکب ہوئی تھی۔ ملعونہ آسیہ کے خلاف اس جرم کے ارتکاب کا مقدمہ شیخوپورہ کے ایک تھانے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت درج کیا گیا اور پولیس نے ملعونہ کو گرفتار کرلیا ، تمام شہادتوں کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج شیخوپورہ نے نومبر 2010 ء میں ملعونہ آسیہ مسیح کو توہین رسالت (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے مقدمے میں سزائے موت سنائی۔ 20؍ نومبر 2010 ء کو اس وقت پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے اپنے منصب کے تقدس اور تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ملعونہ آسیہ مسیح سے جیل میں ملاقات کی اور جیل کے اندر آسیہ مسیح کے ہمراہ پریس کانفرنس میں سزا اور قانونِ توہین رسالت کو ہدفِ تنقید بنایا اور اعلان کیا کہ وہ صدر مملکت سے ذاتی طور پر بات بھی کریں گے انھوں نے قانون انسداد توہین رسالت کو کالا قانون بھی قرار دیا اور کہا کہ اسے ختم ہونا چاہیے۔
آسیہ مسیح کے کیس پر ملکی و غیر ملکی دباؤ خصوصاً ویٹی کن کی مداخلت بلکہ جارہانہ مداخلت ہنوز جاری ہے اور متعدد گستاخان و ناموس رسالت کی سزاؤں پر عمل درآمد عدالتی موشگافیوں کی نظر ہے جبکہ ریاست کے ذمہ دار نمائندے کی حیثیت سے سلمان تاثیر جو قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہیں کی گستاخی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر عوام میں شدید ردِ عمل پیدا ہوا اور 4 جنوری 2011 ء کو سلمان تاثیر کو کوہسار مارکیٹ اسلام آباد کے قریب ان کے محافظ پولیس اہل کار ملک ممتاز حسین قادری نے فارئنگ کر کے قتل کردیا۔ ممتاز قادری خلاف سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے جرم میں تھانہ کوہسار اسلام آباد میں زیر دفعہ 302 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا انسداد دہشت گردی اسلام آباد کی عدالت نے تقریباً دس ماہ کے قلیل وقت میں غازی ملک ممتاز حسین قادری کو دو دفعہ سزائے موت دینے کافیصلہ سنایا۔ بعد میں انسداد دہشت گردی کی دفعات تو ختم کردی گئیں لیکن اعلیٰ عدالتوں نے پھانسی کے فیصلے کو برقرار رکھا جبکہ صدر مملکت نے رحم کی اپیل بھی مسترد کردی۔ پاکستانیوں کے قابل ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لیے ’’دیت‘‘ کا سہارا لینے والے حکمرانوں نے اس عاشق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پھانسی لگانے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ نیب سے خوف زدہ حکمران ہمارے خیال میں اپنی حکومت کے دائمی خاتمے کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
یکم مار چ کو لیاقت باغ راولپنڈی میں تاریخی جنازے نے ثابت کردیا ہے کہ پوری قوم عشق رسالت کے جذبے سے سرشار و منور ہے۔
روزنامہ ’’اسلام‘‘ ’’امت‘‘ ’’اوصاف‘‘ ’’سما‘‘ اور چینل 92 (نیوز) کے علاوہ پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا نے خبر شہادت اور عاشق کے جنازے کے ساتھ جو سلوک کیا اور ’’پیمرا‘‘ نے احکامات کی تعمیل کروانے میں جو رویہ اختیار رکھا اس پر صرف ہم اتنا کہتے ہیں کہ
شرم تم کو مگر نہیں آتی!
5؍ مارچ کو اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام (ف) کی میزبانی میں دینی جماعتوں کا مؤقف سامنے آچکا ہے کہ یہ ’’عدالتی قتل‘‘ ہے۔ ان شاء اﷲ 15؍ مارچ کو منصورہ لاہور میں دینی جماعتیں اس مسئلہ پر تحریک کا لائحہ عمل طے کریں گے جبکہ 6؍ مارچ کو متحد تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان، اسلام آباوا لے اجلاس کے اعلان کی تائید و حمایت کر چکی ہے۔ آنے والے دن سیاسی و دینی اعتبار سے بڑے اہم ہیں اور مارچ کامہینہ ہمارے لیے 1953 ء کی تحریک ختم نبوت کی نسبت سے بڑی اہمیت کا حاصل ہے، مارچ 53 ء میں اس وقت کے حاجی غازی حکمرانوں نے ناموس رسالت کے دس ہزار پروانوں کے خون سے ہاتھ رنگے تھے۔ جبکہ 1974ء میں بھٹو مرحوم کے ہاتھوں قادیانی اقلیت پائے تھے اور شہداء 1953ء کا خون رنگ لایا تھا۔
شہید ناموس رسالت ممتاز حسین قادری تو جنتی آدمی تھا وہ تو جنت میں آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں میں حاضر ہوچکا ۔ المیہ یہ ہے کہ گستاخانے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بچایا جا رہا ہے اور عاشقان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ستایا جارہا ہے۔ حمیت سے خالی ایسا کرنے والے حکمران اپنے انجام بد کا انتظار کریں!
یہاں ہم معاصر اختیارات کی دو خبریں نقل کر کے صورتحال واضح کرنا چاہیں گے تاکہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ اس سارے قضیے کا پس منظر و پیش نظر کیا ہے اور اصل سرپرستی کون کر رہا ہے؟
’’واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ نے پاکستان سے عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا مطالبہ کردیا ۔ امریکہ محکمہ خارجہ کے عالمی مذہبی آزادی کے ادارے کے سربراہ سفیر ڈیوڈ این سپارسٹین کے مطابق اس معاملے پر پاکستان سے رابطے میں ہیں۔ ڈیوڈ سپارسٹین نے کہا کہ آسیہ کے معاملے پر سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی اور گورنر سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا، تاہم مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے پاکستان کو اسے آزاد کرنا ہوگا۔ اس کی رہائی کے لیے نہ صرف امریکی محکمہ خارجہ بلکہ امریکی تھنک ٹینکس بھی مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ نومبر 2010ء میں شیخوپورہ کی ایک عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی تاہم اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔‘‘(مطبوعہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ لاہور، 6 مارچ 2016ء)
’’اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ممتاز قادری کو سزائے موت دیئے جانے کے بعد ملک گیر مظاہروں میں شاتم رسول آسیہ بی بی کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کے مطالبات سامنے آنے کے بعد آسیہ کے ہمدرد اسے بچانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کیتھو لک عیسائیوں کے روحانی پیشواپاپ فرانسس کے مجوزہ دورہ پاکستان کے موقع پر حکومت پاکستان کی طرف سے آسیہ کو معافی دیئے جانے کے قومی امکانات ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ سے موت کی سزا پانے والی آسیہ بی بی کو پھانسی دینے کے مطالبات ممتاز قادری کے جنازے اور پھر جمعہ کو ملک گیر مظاہروں میں شدت سے سامنے آئے تھے۔ آسیہ کے وکیل سیف الملکوک کا کہنا ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد مذہبی جماعتوں نے اس کی موکلہ کو پھانسی دینے کے لیے نئی مہم شروع کی ہے جس پر انھیں تشویش لاحق ہے۔ آسیہ کی رہائی کے لیے سرگرم عیسائی رہنما شمعون گل نے ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ آسیہ کی جان کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور پولیس نے انھیں چوکنا رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق آسیہ کو جیل میں بھی سخت سیکورٹی میں رکھا گیا ہے۔ آسیہ کو معاف کرنے دینے کے سب سے بڑے مطالبات کیتھولک عیسائیوں کے مرکز ویٹی کن اور یورپی یونین کے سیاسی منبع یورپی پارلیمنٹ کی طرف سے آرہے ہیں ۔ پاکستان کی وفاقی وزارت مذہبی امور رواں برس اختتام پر یا اگلے برس کے آغاز میں ایک بین الاقوامی سطح کی بین المذاہب کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس میں شرکت کے لیے پوپ فرانسس کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ پوپ کو وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے دعوت وزیر مذہبی امور سردار یوسف اور وزیرشپنگ کامران مائیکل نے دیٹی کن میں پہنچائی ہے جو پوپ نے قبول کرلی ۔ کیتھولک عیسائیوں کے ایک بڑے ہفت روزہ ’’دی ٹیبلٹ‘‘ کے مطابق پوپ فرانسس صرف پاکستان ہی نہیں آئیں گے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کا دورہ بھی کریں گے۔ دی ٹیبلٹ کے مطابق پوپ فرانسس کے دورہ پاکستان کے موقع پر وزیراعظم پاکستان نواز شریف آسیہ بی بی کو معافی دینے کا اعلان کر سکتے ہیں جس کی درخواست ان سے پہلے ہی کی جاچکی ہے۔ جریدے کے بقول وفاقی وزیر کامران مائیکل کا کہنا ہے کہ پاکستان کے عیسائیوں کے لیے یہ بہت بڑی خوشی کا موقع ہوگا۔ ذرائع کے مطابق پوپ فرانسس کے دورے پر آسیہ بی بی کو صدارتی معافی دے کر رہا کیے جانے کا قوی امکان اس دورے کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر بھی ہے۔ 1981 ء میں پہلی مرتبہ کسی بھی پوپ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ پوپ جان پال دوم کے اس دورے کے بعد کوئی بھی پاپائے روم پاکستان نہیں آئے۔ ذرائع کے مطابق پاپائے روم کیتھولک مذہب والے یورپی ممالک پر خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور ان کی بات کو ٹالنا ایسی حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا جو یورپی یونین کے ساتھ اچھے تجارتی روابط کی خواہش مند ہے۔‘‘ (مطبوعہ: روزنامہ ’’امت‘‘ کراچی، 6 مارچ 2016ء)
آخر میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ آنے والے دنوں میں تحریک تحفظ ناموس رسالت کے پلیٹ فارم کو دوبارہ متحرک آکے مشترکہ جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے ۔ تمام مکاتب فکر کی بنیادی ذمہ داری ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر توہین رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم اور توہین انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے قانون سازی بھی ہوسکے اور ہم الہامی و آسمانی تعلیمات کے نفاذ کی پرامن جدوجہد منظم کرسکیں، اﷲ کرے اسلام اور پاکستان کے دشمن ناکام و مراد ہوں اور وطن عزیز امن کا گہوارہ بن جائے۔ آمین ،یارب العالمین!